نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
14 جنوری، 2015
چارلی ہیبڈو پر القاعدہ کا حملہ اسلامی حکومت کے قیام سے متعلق اس کی حکمت عملی میں تبدیلی کا عندیہ دیتاہے۔یہ حملہ عراق ، شام اور یوروپی ممالک میں اس کے گذشتہ حملوں سے کئی لحاظ سے مختلف ہے۔یہ دہشت گرد تنظیم دو محاذوں پر برسر پیکار رہی ہے۔ ایک تو یوروپی ممالک ہیں خصوصاً امریکہ جس کا وہ کبھی حلیف تھی اور دوسرے اسلامی یا مسلم اکثریتی ممالک یا شیعہ اکثریتی آبادیاں جنہیں وہ خارج از اسلام قرار دیتی ہے اور انہیں زندہ رہنے کا بھی حق نہیں دینا چاہتی ۔القاعدہ بنیای طور پر ایک سنی تنظیم ہے اور شیعوں کا رافضی تصور کرتی ہے۔
تین مسلم نوجوانوں نے جو القاعدہ کی یمنی شاخ سے وابستہ تھے ، پیرس کے آپریشن میں حصہ لیا۔ کئی عینی شاہدین نے نوجوانوں کی زبان سے یہی کہتے سنا۔چارلی ہیبڈو جو ایک طنزو مزاح پر مبنی رسالہ ہے اپنے صفحات پر سیاسی اور مذہبی موضوعات پر طنزیہ مواد اور کارٹون شائع کرتاہے۔ مگر اکثر اس کا لہجہ عامیانہ اور پیش کش فحش نگاری کی سطح تک اترآتاہے۔ اپنے کئی شمارے میں اس رسالے نے نہ صرف پیغمبر اسلام کو انتہائی توہین آمیز اندازمیں پیش کیا بلکہ عیسائیوں کی مقدس شخصیات پر بھی قابل اعترا ض حالت میں تصویر کشی کی ۔ ایک کارٹون کو ایک راہبہ کو جلق کرتے ہوئے دکھایاجبکہ ایک دوسرے کارٹون میں ایک پادری کو کنڈوم پہنے دکھایاگیا۔اس رسالے کے اس طرز اظہار سے نہ صرف فرانس کے مسلمان بلکہ عیسائی بھی کبیدہ خاطر رہتے تھے۔مگر اظہار کی آزادی کے نام پر خاموش ہوجاتے تھے۔۲۰۰۵ میں ڈنمارک نے جب پیغمبر اسلام کے قابل اعتراض کارٹون شائع کئے تو اس کے خلاف مسلمانوں نے عالمی سطح پر اس کے خلاف احتجاج کیامگر ان کے احتجاج اور اعتراضات کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ مسلمان مذہبی معاملوں میں ضرورت سے زیادہ حساس ہوتے ہیں اور وہ پریس کی آزادی کا احترام نہیں کرتے ۔ اس کے بعد بھی میڈیا کے ذریعہ توہین رسالت کا سلسلہ جاری رہا۔۲۰۱۱ میں چارلی ہبدو نے پھر پیغمبر اسلام کے کارٹون شائع کیا جس میں انہیں نعوذ باللہ برہنہ دکھایاگیا۔اس عمل کے رد عمل میں مسلمانوں نے غم وغصے کا اظہار کیا اور اس کے دفتر پر بمباری کی گئی۔ مگر اس رسالہ کے ناشر اور مدیر اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے۔اس رسالے کے مدیر کا کہنا تھا کہ وہ حضرت محمد ﷺ کا احترام نہیں کرتا کیونکہ وہ ایک آزاد ملک میں رہتا ہے اسلامی شریعت کے ماتحت نہیں رہتا۔ گذشتہ سات آٹھ برسوں میں اخباری ، برقی اور سوشل میڈیا میں توہین رسالت کی مہم میں شدت آگئی ۔ کبھی کارٹون، کبھی فلم اور کبھی خیالات کے اظہار کے ذریعے سے توہین رسالت کی گئی۔ مگر ہربار مسلمانوں کے احتجاج کی یہ کہہ کر تنقید کی گئی کہ مسلمان آزادی ء اظہار کا احترام نہیں کرتے اور مذہبی جنونی ہوتے ہیں۔
اس سلسلے نے القاعدہ کا اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کا ایک اچھا موقع دے دیا۔القاعدہ کی یمنی شاخ نے فرانس کے کواشی بھائیوں کو تربیت دی اور انہیں چارلی ہیبڈو کی ٹیم کو ختم کرنے کی ذمہ داری دی۔اس آپریشن کے ذریعہ القاعدہ نے اپنا مقصد حاصل کرلیا۔ ایک طرف تو اس نے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرلی اور دوسری طرف اس حملے کے جواز پر عالمی رائے عامہ دو خانوں میں بٹ گئی ۔ ایساکسی بھی دہشت گردانہ حملوں میں کبھی نہیں ہوا کہ ایک دانشور طبقے نے حملہ آوروں کو ہی حق بجانب ٹھہرایا حالانکہ انہوں نے اس قتل و غارت گری کی مذمت بھی کی مگر اس قتل و غارت گری کا ذمہ دار انہوں نے خود مقتولین کو قرار دیا۔فرانس کے مسلمانوں کو چھوڑ کر، دینا کے دیگر خطوں کے مسلمانوں نے اس واقعے پر معنی خیز خاموشی کا مظاہرہ کیا جیسے کہ وہ کہہ رہے ہوں ’’مارا تو ٹھیک کیا۔‘‘چونکہ مقتولین عادی مجرم تھے اور وہ کسی ملک یا فرقے کو نہیں بلکہ مسلمانوں کے پیغمبر کی کردار کشی کرتے آرہے تھے ، مسلمانوں کے لئے یہ بات اہم نہیں تھی کی کس نے مارا بلکہ یہ بات اہم تھی کہ برسوں سے توہین رسالت کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچادیاگیا۔اردو اخبارات نے بھی اسی پہلو کو زیادہ نمایا ں کیا کہ توہین رسالت کے مرتکب افراد کو قتل کردیا گیا۔اور یہی القاعدہ چاہتاتھا۔وہ مسلمانوں میں اپنی ایک نئی امیج تشکیل دینے میں کامیاب ہوگیا اور اس کے لئے اسلام سے مخاصمت رکھنے والے یوروپی میڈیا ہی نے فضا ہموار کی۔انہوں نے خود کو پیغمبر اسلام کے ناموس کے محافض کے طور پر مسلمانوں میں پیش کیا۔نتیجہتہً ہندوستان کے ایک مسلم سیاستدان یعقوب قریشی نے توہین رسالت کے مرتکب افراد کو قتل کرنے والوں کو اکیاون کروڑ روپئے انعام دینے کا بھی اعلان کردیا۔ ان کے خلاف ہندوستانی قانون کے تحت کیس درج کرلیا گیا ہے۔ جواب میں شیو سینا نے انہیں دس جوتے مارنے والے کو ایک لاکھ روپئے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
ایسانہیں ہے کہ صرف مسلمانوں نے ہی چارلی ہیبڈو کے قاتلوں کے خلاف کچھ کہنے سے گریز کیا ہے بلکہ کچھ غیر مسلم دانشوروں نے بھی چارلی ہیبڈو کو اس المناک سانحے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور مسلمانوں کے غصے کو حق بجانب قرار دیاہے۔ ہندوستان کے نامور اور بزرگ سیاستداں اور سابق مرکزی وزیر منی شنکر ایر جو امریکی پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں اس سانحے کو عمل کا ردعمل قراردیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ جس طرح افغانستان، عراق، شام اور پاکستان میں دہشت گردی کے نام پر لاکھوں معصوم مسلمانوں کو قتل کرتا رہاہے اس کا یہی ردعمل ہوسکتاتھا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عام مسلمانوں اور جنگجوؤں میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی۔ان کے خیال میں کمزور قومیں انتقام لینے کے لئے کمزور طریقہ ء کار ہی استعمال کریں گی۔
مغرب میں کیتھولک لیگ جو کیتھولک عیسائیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیم ہے ، کے صدر بلِ ڈونوہیو نے اس معاملے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک ٹی وی شو میں کہا کہ مسلمانوں کا غصہ حق بجانب ہے۔اپنی تنظیم کے تنظیمی بیان میں انہوں نے جو کچھ کہا اس کا ایک اقتباس پیش ہے:
’’توہین کے رد عمل میں کسی کے قتل کی،چاہے وہ توہین کتنی ہی شدید ہو، ایک زبان میں مذمت ہونی چاہئے۔اس لئے جو کچھ بھی پیرس میں ہوا وہ قابل برداشت نہیں ہے ۔لیکن ہمیں اس عدم برداشت کو بھی برداشت نہیں کرنا چاہئے جس نے اس پرتشدد رد عمل کو اکسایا۔اس اخبار میں کام کرنے والے افراد کی عوامی شخصیتوں کا مضحکہ اڑانے میں حد سے گذرجانے کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔انہوں نے مذہبی شخصیتوں کی تصویر کشی میں بھی یہی رویہ اپنایا تھا۔مثا ل کے طور پر انہوں نے راہباؤں کو جلق کرتے ہوئے اور پوپ کو کنڈوم پہنے ہوئے دکھایا۔انہوں نے پیغمبر محمد ﷺ کو بھی فحش حالت میں پیش کیا۔کچھ مسلمان پیغمبراسلام کی نازیبا تصویر کشی پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں تو کچھ نہیں کرتے۔علاوہ ازیں ان کی تصویری پیش کش کی قرآن نے اجازت نہیں دی۔پیغمبر محمد ﷺ کو جس فحش انداز میں پیش کیا ہے اس پر چارلی ہبڈو کے خلاف غصے نے مسلمانوں کو متحد کردیا۔ان کا اعتراض ہے کہ کئی برسوں سے قصداًتوہین کی جاتی رہی ہے۔اس پہلو سے میں مکمل طور پر ان سے اتفاق کرتاہوں۔
آج اسیفن چاربو نیرجو اس اخبار کا ناشر تھا اس قتل عام میں ماراگیا۔یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ وہ اپنی المناک موت میں خود اپنے ہی رول کو سمجھ نہیں پایا۔۲۰۱۲ میں جب اس سے پوچھا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی توہین کا ارتکاب کیوں کرتاہے تو اس نے جواب دیا تھا ،’’محمد میرے لئے مقدس نہیں ہیں۔‘‘ اگر وہ اس درجہ وحشت زدہ نہ ہوتا تو وہ آج زندہ ہوتا۔محمد تو میرے نزدیک بھی مقدس نہیں ہیں مگر مجھ سے یہ کبھی نہیں ہوگا کہ میں محض مسلمانوں کی دلآزاری کے مقصد سے قصداً ان کی تحقیرکروں۔‘‘
پیرس حملے کے بعدفرانس اور مغربی ممالک میں پریس کی آزادی کی حد سیلف سنسرشپ کے موضوع پر بحث چل پڑی ہے۔ اس قبل کسی دہشت گردانہ حملے کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ مغربی اقوام نے خود احتسابی کی ہویا ایسا کرنے پر مجبور ہوئی ہو۔
یہ ایک المیہ ہے کہ کچھ بڑے مغربی اخبارات نے اس قتل عام کی رپورٹنگ کے ساتھ چارلی ہیبڈو کے کارٹون کو دوبارہ شائع کرنے سے گریز کا فیصلہ کیاکیونکہ انہیں القاعدہ کے حملے کا خوف تھا۔ڈنمارک کے اخبار جائلنڈ پوسٹن جس نے نو سال قبل حضرت محمد ﷺ کے قابل اعتراض کارٹون شائع کئے تھے پہلے تو ان کارٹونوں کو شائع کرنے کا ارادہ کرتاہے مگر پھر بعد میں سنگین نتائج کے خوف سے اپنا فیصلہ بدل دیتاہے۔ایک جرمن اخبار نے ان تصویروں کو شائع کیا تو اس پر بھی حملہ کرہوا۔نیویارک ٹائمس، واشنگٹن پوسٹ، ایسوسی ایٹڈ پریس اور سی این این جیسے عالمی میڈیا اداروں نے ان کارٹونوں کو شائع کرنے سے معذوری ظاہر کی اور اس کے لئے اپنے صحافتی معیار و اقدار کی دہائی دی۔یہایک تعجب خیز بات ہے کہ ان اخباروں اور خبررساں ایجنسیوں کے ذریعہ یہ فیصلہ تب لیاگیا جب دہشت گرد تنظیم نے میڈیا کے ایک رکن پر حملہ کردیااور اس طرح سے انہوں نے القاعدہ کو مسلمانوں کے وقار کے محافظ کی حیثیت سے خود کو پیش کرنے کا موقع دیا۔مغربی میڈیا اب یہ کہہ رہاہے کہ وہ اس طرح کے کارٹون شائع نہیں کرے گا کیونکہ وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتاہے اور خود اس کے صحافتی اقدار اسے ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ایسا تب ہوا جب ایک دہشت گرد تنظیم نے پر امن مسلمانوں کو پیچھے ہٹا کر توہین رسالت کے مرتکب افراد کو سزا دینے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔
عراق اور شام میں داعش کے عروج کے بعد سے القاعدہ خود کو سمیٹنت اور منظم کرنے کی کوشش کررہاہے۔داعش نے القاعدہ پر نرم رویہ اختیار کرنے اور اپنے مشن سے بھٹک جانے کا الزام لگایاہے۔لہٰذا، ان کے اسی الزام کو غلط ثابت کرنے کے لئے شاید القاعدہ نے اپنی حکمت عملی اور نظرئیے میں تبدیلی لانے پر مجبور ہواہے۔پیرس حملے میں القاعدہ نے کسی خود کش بمبار کا استعمال نہیں کیا اور نہ ہی عوامی مقام پر دھماکہ کیا جو کہ اس کا موڈس اوپرانڈائی یعنی طریقہ ء کار ہے اور جسے علماء اسلام حرام طریقہ ء کار قرار دیتے رہے ہیں۔حملہ آوروں میں سے ایک نے اس دکان کے مالک سے کہا کہ ہم لوگ معصوم اور بے قصور افراد کو نہیں مارتے۔یہ بھی القاعدہ کے طریقہ ء کار میں تبدیلی کا اشارہ کرتاہے کیونکہ اب تک یہ لوگ عام مسلمانوں یا انسانوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق القاعدہ نے پشاور اسکول پر طالبان کے حملے میں مارے جانے والے بچوں سے ہمدردی کی اور طالبان کے عمل کی مذمت کی۔ گویا اب القاعدہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہاہے کہ وہ انسانی جانوں کی قدر کرتے ہیں جبکہ داعش اور طالبان ایسا نہیں کرتے۔واضح ہو کہ پاکستان کے کچھ سابق طالبان کمانڈر نے داعش کی اطاعت قبول کرنے کا اعلان کیا ہے ۔جبکہ طالبان اس قبل القاعدہ کے حلیف تھے۔
بہرحال ، القاعدہ کو ایک ایسی تنظیم کی حیثیت سے جانا جاتاہے جو نہ صرف مغربی طاقتوں سے برسر پیکار ہے بلکہ یہ شیعوں اور نظریاتی اختلافات رکھنے والے سنیوں کا بھی دشمن ہے اور اس بنیاد پر اس نے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتی افراد کا خون بہایاہے۔ خلیج میں جاری برتری کی جنگ میں القاعدہ، النصرہ اور داعش کے مابین سخت مقابلہ ہے جس میں داعش کو اب تک برتری حاصل ہے۔ اسی لئے القاعدہ نے توہین رسالت جیسے مسئلے پر مسلمانوں کی جذباتی حمایت حاصل کرنے کے لئے انسان نوازی اور مسلم وقار کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایاہے جو اس کی ایک جنگی حکمت عملی کے سوا کچھ نہیں ۔ القاعدہ نے مغرب کو نقصان پہنچانے کے اپنے مقصد میں ناکام تو ہوا ہی اس کی وجہ سے مسلم ممالک تباہ ہوگئے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد کی حیثیت سے پیش کرنے کا مغرب کو بہانہ مل گیا۔القاعدہ کو مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کا حالیہ موقع بھی مغرب کے میڈیا نے توہین رسالت کی مہم چھیڑ کردیا۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/global-ramifications-charlie-hebdo-attack/d/100997