نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
دولت مشترکہ کھیل اسکاٹ لینڈ میں ۳ اگست کو اختتام پذیر ہوئے۔دولت مشرکہ کھیل مقابلے عام طور سے دولت مشترکہ رکن ممالک کے کھلاڑیوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ ان ممالک کی تعداد 53ہے۔ دولت مشترکہ میں وہ ممالک ہیں جو کبھی برطانوی سامراج کے ماتحت تھے جیسے ہندوستان، پاکستان ، بنگلہ دیش وغیرہ۔ شروع میں اس تنظیم کو برطانوی دولت مشترکہ کہا جاتا تھا مگر 1949 میں اس کا نام بدل کر دولت مشترکہ کردیاگیا۔ اس تنظیم کے پہلے سربراہ جارج ششم تھے۔ ان کی وفات کے بعدملکہ الزبتھ دوئم اس کی سربراہ مقرر ہوئیں۔
بیسویں دہائی کے وسط تک برطانوی سامراج کی بہت سی نوآبادیات خودمختار ہوگئیں اس لئے برطانیہ کے حکمرانوں کو احساس ہونے لگا کہ جو دوسری نوآبادیات اب بھی ان کے ماتحت ہیں وہ بھی جلد یا بدیر آزا د ہوجائیں گی۔ لہذا، ان کو اپنے زیر اثر رکھنے اور مستقبل میں ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے کوئی حربہ اپنانا پڑے گا۔ دولت مشترکہ کا قیام اسی منصوبے کی تکمیل تھا۔ برطانیہ کی تمام نوآبادیات کو دولت مشترکہ کے نام پر ایک تنظیم کے پلیٹ فارم پر پھر سے یکجا کیاگیا۔ ان سے کہا گیا کہ تمام ممالک آزاد ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر کوئی غلبہ نہیں رہے گا ۔ وہ سب سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ بہرحال، تمام ممبر ممالک پر ایک شرط لگادی گئی کہ دولت مشترکہ کا سربراہ برطانیہ کا بادشاہ ہوگا جو اس وقت جارج ششم تھا۔ اس کی موت کے بعد برطانیہ کی دستوری سربراہ ملکہ الیزابتھ ہوئیں اور اصولی طور پر وہ دولت مشترکہ کی بھی سربراہ ہیں۔ اس تنظیم کے قواعد و ضوابط کے مطابق تمام ممالک کو انگریزی کو دفتری مراسلت کی زبان کے طور پر قبول کرنا پڑے گا۔
ہندوستان نے بھی 1949 میں دولت مشترکہ کی لندن میں منعقدہ اجلاس میں دولت مشترکہ میں شمولیت کی درخواست دی جس کو قبول کرلیا گیا اس طرح غلامی سے آزادی کے بعد ایک بار پھر ہندوستان نے برطانیہ کی سربراہی بالواسطہ پر قبول کرلی جبکہ اس تنظیم کا سربراہ برطانیہ کابادشاہ یا ملکہ کو بنایاجاتاہے اور تمام ممالک کو اس کی سربراہی کو قبول کرنا پڑتاہے۔دولت مشترکہ کا ایک سکریٹریٹ ہے جس کا سکریٹری جنرل کسی بھی ممبر ملک کا نمائندہ ہوسکتاہے۔ فی الحال اس کے سکریٹری ہندوستان کے کملیش شرما ہیں جو دوسری مدت کے لئے چنے گئے ہیں ۔مگر اس کاسربراہ ہمیشہ برطانیہ کا بادشاہ یا ملکہ ہوگی۔ اقوام متحدہ بھی تمام ممالک کی ایک تنظیم ہے جس میں جمہوری طور پر کوئی بھی ملک کا نمائندہ اس کا سربراہ ہوسکتاہے۔ امریکہ یا برطانیہ کی اس پر اجارہ داری نہیں ہے مگر دولت مشترکہ ایسی تنظیم ہے جس میں برطانیہ کی ہی ملکہ اس کی سربراہ رہے گی جب تک وہ بقید حیات ہے۔ حالانکہ یہ شرط نہیں ہے کہ اس کی موت کے بعد شہزادہ ہی اس کا سربراہ ہوگا مگر روایت کے مطابق ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔
دولت مشترکہ تمام سابق برطانوی نوآبادیات پر مشتمل ہے اس لئے یہ واضح طور پر تمام غلام ممالک کو ہمیشہ کیلئے یہ باور کرانے کے مقصدسے قائم کی گئی ہے کہ تم کبھی غلام تھے اور حیرت ہے ان ممالک نے بھی نہ صرف اس کی رکنیت قبول کی بلکہ ہندوستان جیسےملک نے آزاد اور خود مختار ہوتے ہوئے بھی باقاعد ہ اس کی رکنیت کے لئے درخواست دی اور رکنیت عطاہونے پر خوشی کا اظہار کیا جبکہ ایسا کرنا دراصل اپنی غلامی کے احساس کو پھر سے تازہ کرنا اور اس پر فخر کرنیکے مترادف تھا۔اگر اس تنظیم میں دوسرے ممالک کو بھی شامل کیا جاتا جس سے یہ ایک عام تنظیم بن جاتی تو اس کی یہ امتیازی نوعیت ختم ہوجاتی مگر اس کی رکنیت کے لئے یہ شرط لگانا کہ صرف وہی ممالک اس کے رکن ہوسکتے ہیں جو کبھی برطانیہ کے غلام تھے برطانیہ کے سامراجی ذہن کو آشکار کرتاہے اور رکن ممالک اس یاد کو تازہ کرتے اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ ہم سب کبھی برطانیہ مہاراج کے غلام تھے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بعد میں دیگر ممالک کو رکنیت دینے کی گنجائش نکالی گئی مگر اس میں بھی یہ شرط رکھ دی گئی کہ صرف وہی ممالک شامل ہوسکتے ہیں جن کا سابق نوآبادیات سے کسی طرح کا دستوری رشتہ رہاہو۔ جیسے بنگلہ دیش جو ہندوستان کی آزادی کے بعد بنامگر وہ ہندوستان کا ہی ایک ٹکڑا تھا جو کبھی برطانیہ کا غلام تھا اس لئے اسے بھی رکنیت دی گئی۔اسی طرح کچھ دوسرے ممالک بھی اس میں شامل کئے گئے جو کسی رکن ملک سے کوئی دستوری یا تاریخی رشتہ رکھتے تھے۔
آئرلینڈ جو کہ برطانوی سامراج کا حصہ تھا مگر 1949 میںآزاد ہونے کے بعد دولت مشترکہ سے الگ ہوگیا مگر ہندوستان نے 1947میں آزاد ہونے کے بعد اور 1950میں خود کو ایک خود مختار جمہوریہ قرار دینے کے بعد بھی دولت مشترکہ سے وابستہ رہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ شاید یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غلام ممالک آزاد توہوجاتے ہیں مگر غلامامہ ذہنیت صدیوں تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ چونکہ 1949تک بھی برطانیہ ایک عالمی طاقت تھا اس لئے آزاد ہونے کے بعد بھی ہندوستان اور دیگر سابق نوآبادیات نے یہ توقع کی ہو کہ برطانیہ سے وابستہ رہنے میں ان ہی کی بھلائی ہے۔ حالانکہ بعد میں امریکہ سپر پاور کی حیثیت سے ابھرا اور برطانیہ کو سائنسی ، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں برطانیہ کو پیچھے ہی نہیں چھوڑدیا بلکہ برطانیہ کی حیثیت امریکہ کے بغل بچہ کی سی ہوگئی پھر بھی ہندوستان کے نظریہ ساز نہرو کی سوچ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکے جن کا یقین تھا کہ وہ دولت مشترکہ میں اس لئے شامل ہوئے ہیں کہ اس سے ہندوستان کو اقتصادی اور سیاسی تعاون حاصل ہوگا جو ایک نوآزاد ملک کے لئے اہم تھا۔
زمانہ بدل گیاہے ۔ دنیا 1949 سے بہت آگے نکل چکی ہے ۔ دولت مشترکہ ایک سامراجی ذہن کی پیداوار تنظیم ہے اور اس کا قیام تمام غلام ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر انہیں دائمی احساس غلامی میں مبتلا رکھنے کے مقصد سے عمل میںآیا تھا۔ ہندوستان آج ایک عالمی طاقت ہے اور ایک خود دار اور ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے دنیا میں ایک انفرادی اور امتیازی مقام رکھتاہے۔ اس لئے ہندوستان کا دولت مشترکہ میں قائم رہنا اور برطانیہ کی ملکہ کو اپنا سربراہ تسلیم کرنا اس کی خود مختاری کی توہین ہے ۔ بہتر ہوگا کہ دولت مشترکہ سے ہندوستان دست کش ہوجائے یا پھر دولت مشترکہ کے دستور میں تبدیلی لائی جائے اور اسے ایک عالمی تنظیم کی شکل دی جائے جس کی رکنیت کے لئے سابقہ غلامی کی شرط نہ ہو۔ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کو عرب اور افریقی ممالک سے سبق لینا چاہئے جو کبھی برطانیہ کے ماتحت تھے مگر آزاد اور خود مختار ہونے کے بعد انہوں نے دولت مشترکہ کا رکن بننا گوارہ نہیں کیا۔ یہ ممالک ہیں مصر، بحرین، صومالیہ، اردن ، فلسطین، کویت ، سوڈان، متحدہ عرب امارات ، عما ن اور قطر۔
دولت مشترکہ کھیلوں میں جو کھلاڑی حصہ لیتے ہیں ان سب کے درمیان ایک بات مشترک ہے کہ وہ برطانیہ کے غلام ملکوں کے کھلاڑی ہیں اور یہی برطانیہ مہاراج کی نگاہ میں ان کی شناخت ہے۔ اس سے بڑی توہین آزاد ممالک کے آزاد افراد کی اور کوئی نہیں ہوسکتی ۔
دیکھو انہیں جو دیدہ ء عبرت نگاہ ہو
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/commonwealth-common-slavery/d/98420