New Age Islam
Tue Dec 10 2024, 09:19 PM

Urdu Section ( 22 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Mona Prince: Latest Victim of Salafist Intolerance in Egypt مونا پرنس: مصر میں سلفی تعصب کی تازہ شکار

 

 نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک

2 مئی، 2013

( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج  اسلام)

مصر میں انقلاب کے بعد مذہبی رواداری کا اسلامی پیغام سب سے بڑا شکار رہا ہے۔ اگرچہ یہ گمان کیا جا رہا  تھا کہ اخوان المسلمین جو اسلامی تعلیمات اور نظریات کی پیروی کرنے کا دعوی کرتا ہے ، وہ لبرل اقدار اور مذہبی رواداری کے اس دور میں  مصر کو نقیب  بنائے گا ،اس لئے کہ اسلام  مذہبی اور انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور قرآن ممکنہ حد تک بہترین انداز میں بین المذاہب  مکالمے کی حمایت  کرتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے  معاملات سے نمٹنے کا یہ دوسرا ہی طریقہ ہے ۔ مذہبی عدم رواداری، فرقہ وارانہ نفرت، اقلیتوں پر جبر اور عورتوں کی توہین اخوان المسلمین کی قیادت والی حکومت کی شناخت بن گئی ہے ۔

بہت سے لبرل اور اعتدال پسند دانشوروں، مذہبی اور ثقافتی شخصیات کو، سیاسی اور مذہبی رویے میں تمام اقسام کے عدم برداشت اور تشدد کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کی پاداش میں ، اخوان المسلمون اور مرسی حکومت کے ذریعہ ہراساں کیا گیا اور انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس سے قبل شیخ مظہر شاہین، جو احتجاج کے دوران تحریر اسکوئر میں امامت کے لئے مشہور ہیں ،  انہیں ریاستی اداروں پر اجارہ داری کرنے پر مورسی حکومت پر تنقید کرنے  کے لئے حکومت کے ذریعہ معطل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد مصر کی انتظامی عدالت نے معطلی کے حکم کوروک دیا۔

اخوان المسلمون کے متعصب  رویے کا ایک اور شکار مشہور مصری ٹی وی میزبان، اینکر اور مزاح نگار  بسیم یوسف ہے،جس نے اپنے مزاحیہ  پروگرام کے ہر ایپیسوڈ  میں صدر مورسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ پروگرام مصری سامعین میں بہت مقبول ہوا کیونکہ اس نے  حالیہ پر تشدد انقلاب کےبعد ذہنی طور پر پریشان  ملک کے عوام کو مطلوبہ راحت  پہونچائی تھی ۔ لیکن اسے مرسی حکومت اور اخوان المسلمین کے ذریعہ  عدالت میں کھینچا گیا اور اسے توہین اسلام کا ملزم بنایا گیا ، جو کہ  ہر جگہ سیاسی اور مذہبی مخالفین کو خاموش کرنے کے لئے  اسلام پسندوں کا آخری ہتھیار ہے  ۔ آخر کار، بسیم یوسف کو کچھ وقت کے لئے اپنے شو کو معطل کرنے کا فیصلہ لینا پڑا ۔ تاہم، ایسی افواہیں ہیں کہ اخوان المسلمون کے خفیہ  دباؤ نے پروگرام کو بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔

مصر میں مذہبی عدم روادری کی تازہ ترین شکار مونا پرنس ہے ، جو کہ ایک معروف مصنف اور ناول نگار اور جامعۃ قناة السویس  مصر میں  شعبہ تعلیم میں پروفیسر ہیں۔ ان پراخوان المسلمون سے منسلک طلباء کے ذریعہ مذہب کی توہین کا الزام عائد کیا گیاہے۔انہوں نے صرف اتنا کیا تھا کہ  طالب علموں کے ساتھ مصر میں جاری فرقہ وارانہ کشمکش کے تناظر میں فرقہ واریت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے، سلفیوں  کے ذریعہ فروغ دئے جا رہے فرقہ واریت کی تنقید کی۔ موضوع پر مونا پرنس اور طالب علموں کااتفاق تھا ، اور اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے انہوں نے سلفی طلباء کے ذریعہ لگائے گئے ،یونیورسٹی کی دیواروں پر پوسٹر کی طرف اشارہ کیا جس میں لکھا تھا کہ ‘شیعہ دشمن ہیں ’ اور یہ کہا کہ ہم اسے ہی فرقہ واریت کہتے ہیں  ۔ لیکن کلاس کے بعد کچھ طالب علموں نے فیکلٹی کے ڈین کے پاس ، اسلام توہین کرنے کا الزام لگاتے ہوئے  مونا پرنس کے خلاف ایک شکایت درج کرا دی ۔ ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا گیا اور انہیں یونیورسٹی آنے سے  منع کر دیا گیا اس لئے  کہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق تھا ۔ مونا نے کہا کہ انہیں  سلفیوں  کے ذریعہ موت کی دھمکیاں موصول ہوئیں ۔ تاہم، بعد میں یونیورسٹی کے حکام نے انہیں  دوبارہ اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی اجازت دے دی۔

مونا کا کہنا ہے کہ انہوں نے  اسلام کے خلاف کچھ نہیں  کہااور صرف مسلمانوں کی ایک جماعت  کی مذہبی عدم رواداری پر تنقیدکی اس لئے کہ انہوں نے  اسلام کے دوسرے فرقوں کے خلاف فرقہ واریت کو فروغ دیا اور نفرت پھیلایا ، جو کہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے خلاف ہے  ۔ لیکن انہیں  دھمکی دی گئی  اور ہراساں کیا گیا۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے پروفیسر کے ہراساں کئے جانے کی مذمت کی اور اسے دانشورانہ دہشت گردی قرار دیا ، اور انتظامیہ سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ایک ایسا ماحول پیدا کریں جس میں دانشوران، اسکالر اور پروفیسر آزادانہ طور پر بےباکی کے ساتھ اپنے  خیالات کا اظہار کر سکیں ۔

URL for English article:

https://newageislam.com/islam-tolerance/mona-prince-latest-victim-salafist/d/11403

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/mona-prince-latest-victim-salafist/d/11674


Loading..

Loading..