New Age Islam
Thu Jun 08 2023, 07:31 AM

Urdu Section ( 19 Aug 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Ulema Should not Twist the Truth (Part-3) ( علماء حق کے ساتھ باطل کو ملا کر پیش نہ کریں: پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ

 

نیو ایج اسلام، ایڈیٹ بیوریو

11 اگست 2017

سوال:پیر صاحب ! یہ فرمائیں کہ پاکستان سے باہر نکل کر آج جو مسلمان یوروپ میں اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان مسلمانوں کے لئے اور خاص طور پر نوجوان نسل کے لئے وقت تنگ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لوگ انہیں دہشت گرد کہہ رہے ہیں ان کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس میں ہمارے علمائے کرام اور مشائخ عظام نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، اور ہمیں ایسا کہیں کچھ نظر بھی نہیں آتا۔ اگر ان کا کوئی کردار ہے تو آپ روشنی ڈالیں۔ لہٰذا، آج ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ اس نوجوان نسل کی رہنمائی کیسے کی جائے؟ علماء کو اب کیا کرنا چاہئے کہ لوگ انہیں دیکھ کر کہیں کہ "یہ مسلمان جا رہا ہے، یہ دہشت گرد نہیں ہو سکتا، یہ تو بڑا من پسند ہے، یہ تو بڑا صدیق ہے"؟ اور آج ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ کیوں نہیں ہیں؟

پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ): عظیم صاحب! بڑا اہم اور بڑا نازک سوال ہے آپ کا۔ میرا خیال ہے کہ جہاں تک میری نظر ہے علماء و مشائخ کرام نے خاص طور پر اس سلسلے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا ہے، اور اس طرف ان کی توجہ نہیں ہوئی ہے۔ بحمد اللہ! میں نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور جہاں کہیں بھی اخبارات کے ساتھ یا ٹی وی چینل کے ساتھ میرا انٹرویو ہوا ان میں اور یہاں یوروپ میں اپنے خطابات میں بھی میں نے یہی کہا کہ آپ لوگ اپنی نوجوان نسل کو دہشت گرد نہ بنائیں۔ کیوں کہ یہ سراسر قرآن مجید اور نبی ﷺ کی تعلیمات کے منافی اور خلاف ہے۔ بلکہ آپ ان کو پر امن شہری بنائیں تاکہ انہیں دیکھ کر دوسری اقوام کے افراد بھی متاثر ہوں اور یہ کہیں کہ "یہ پر امن لوگ ہیں"، بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ آپ کو ایسا کردار پیش کرنا چاہئے کہ لوگ آپ سے پناہ نہ ڈھونڈھیں بلکہ آپ کی پناہ ڈھونڈھیں۔

سوال: لیکن اب اس سلسلے میں یہاں پر بہت سارے ایسے گروپ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ رہنا ٹھیک نہیں ہے، ان کے ساتھ کھانا ٹھیک نہیں ہے – جبکہ یہ ایک ملٹی کلچرل (multi-cultural) سوسائیٹی ہے۔ ہم یہاں پر باہر سے آئے ہیں اور یہاں کے لوگوں نے ہمارا استقبا ل کیا ہے۔ لہٰذا، ہمیں ان کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھنا چاہے؟

پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ): یہ سب آداب ہماری کتابوں میں موجود ہیں کہ اگر آپ کو دوسرے اقوام کے ساتھ رہنا ہے تو اس کے کیا آداب ہیں۔ دیکھیں! یہاں لندن اور یوروپ کے مختلف ممالک میں آپ نمازیں پڑھ رہے ہیں، روزے رکھ رہے ہیں اور یہاں کی حکومت آپ کو تنگ نہیں کرتی۔ آپ یہاں آرام اور سکون کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں۔ یہاں ہمارے پاکستانی بھائی ٹھہرے ہوئے ہیں، یہاں کام کر رہے ہیں، نوکریاں اور اچھی ملازمتیں کر رہے ہیں۔ وہاں پاکستان میں ان کے حالات ٹھیک نہیں تھے اور یہاں اللہ کا فضل ہے ان کے حالات ٹھیک ہیں، تو ان لوگوں کو کم از کم اتنا خیال تو کرنا ہی چاہئے کہ اگر ہم اس ملک میں رہ رہے ہیں تو اس ملک کے کچھ آداب ہیں اور اس کے کچھ تقاضے ہیں۔ لہٰذا، ہم اس ملک میں اس طرح سے رہیں کہ یہ ملک کم از کم ہمیں دہشت گرد نہ قرار دے ۔ اور اپنے بچوں کو اس کی تربیت دیں۔ اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہاں کہ بچے اپنی مرضی کی سنتے ہیں تو اب ان کی تربیت کیسے ہو گی؟ تو اس کا حل یہ ہے کہ یہاں مسجدوں میں جو مولوی صاحبان ہیں اور جو امام ہیں ان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے خطاب کے دوران قتل و غارت گری کی آیات پڑھ کر نوجوان نسلوں کو اس طرح نہ بھڑکائیں کہ وہ یہاں سے نکلنے کے بعد جا کر لوگوں کو قتل کریں اور جہاد کریں۔ بلکہ جہاد کے تو منظم آداب ہیں۔ اور حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب نے بھی اپنی تصنیف میں کتابوں کے حوالے سے جہاد کا پورا اسلامی فلسفہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس لئے کہ اس وقت بھی ایک ایسا دور تھا کہ جہاد کے تعلق سے ایک بڑا شور اٹھاتھا۔ تو اس دور میں پیر مہر علی شاہ صاحب نے لوگوں کو ان سب باتوں سے منع کیااور انہیں بتایا کہ ایسی صورت میں پہنچ کر کہ جب آپ پر جہاد فرض ہو چکا ہو جب تک سربراہ مملکت اور آپ کا امیر آپ کو منظم کر کے آپ کو جہاد کے لئے نہ کہے آپ جہاد کے لئے نہیں نکل سکتے۔ اس لئے کہ اگر آپ چار آدمی نکلیں گے اور سونٹی اٹھا کر کچھ لوگوں کو مارنا شروع کریں گے تو یہ تو شوکت اسلام کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ اگر آپ کو اس میں شکست ہو گئی تو اس میں اسلام کی توہین ہے۔ لہٰذا، سب سے پہلے اس بات کا تعین ہونا چاہیے کہ آپ جہاد کس کے ساتھ کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔ یا آپ ایسے ہی اپنا دین دوسروں پر تھوپ رہے ہیں۔ مثلاً مقبوضہ کشمیر کے لوگ ہیں جن پر ظلم و زیادتی ہو رہی ہے، اور اگر آپ کو ان کا ساتھ دینا ہے تو اس کے لئے بڑے سفارتی تعلقات پر گفتگو ہونی چاہئے، دوسرے ممالک کو درمیان میں لایا جائے اور اس پر گفتگو کی جائے۔ لیکن آپ کو یہ اجازت نہیں ہے کہ آپ اپنے سربراہ کی اجازت کے بغیر یوں ہی جہاد کے لئے نکل پڑیں۔ اور جہاں تک میرا مطالعہ ہے ہماری شریعت اس چیز کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

سوال: آئے دن پاکستان میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کہیں عورتوں نے اور کہیں مردوں نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم اسلام نافذ کر دیں گے اور وہ مختلف گروپ اور جماعتوں میں اس کا پروپگنڈہ کرتے ہیں۔ تو کیا اسلام میں اس کی کوئی اجازت ہے؟ کہ جہاں اسلامی مملکت ہو، اس کی ایک منظم پولیس ہو اور فوج ہو ۔ ایسی کوئی چیز ہے اسلام میں؟

پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ): نہیں!ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم نے تو نہیں پڑھی ہے۔ آپ دیکھیں کہ اس وقت ہمارے صدر پرویز مشرف صاحب ہیں ان سے لوگوں کو سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں ، سیاسی پارٹیاں ان سے اختلاف کر سکتی ہیں۔ لیکن وہ ملک پاکستان کے چیف ہیں اور ملک چلا رہے ہیں۔ اور اب یہ حکومت میں آئیں گے یا ان کی جگہ جو بھی آئے گا یا کسی بھی زمانے میں کوئی بھی برسر اقتدار آئے گا تو جیسا کہ کسی نے کہا ہے کہ:

امور مملکت خویش خسرواں دانند

کہ بادشاہی امور کا چلانا یہ بادشاہ خود جانتے ہیں ہمیں نہیں معلوم۔ وہ کتنی پریشانیوں سے گزر رہے ہیں یہ تو انہیں ہی معلوم ہے۔ اور ہم تو بڑی آسانی کے ساتھ تنقید کر دیتے ہیں۔ اور پھر جو تخت پر نہیں ہوتے تو وہ اس کی تنقید کرتے ہیں جو تخت پر ہوتا ہے۔ تو یہ معاملہ تو چلتا رہتا ہے۔ میں صدر صاحب کی کوئی خوشامد نہیں کر رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے گفتگو کا کہ ایک نظام چل رہا ہے تو اس کو اچھے انداز سے آپ چلنے دیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر قرآن مجید کے خلاف کوئی بات ہو گی تو علماء و مشائخ بیٹھے ہیں وہ اٹھیں گے اور ہم بھی اٹھیں گے۔ اور انشاء اللہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم سوٹیاں اور ڈنڈے لیکر باہر نکل آئیں اور اسلامی لشکر کی بات کریں،یہ تو قطعی اسلام کے خلاف ہے۔ اور وہاں علماء جو مدرسہ حفصہ میں بیٹھ کر کر رہے ہیں وہ اس پر اگر غور فرمائیں تو وہ بھی اپنے اسلاف کی کتابوں میں اور اپنی فقہ میں بھی اس کا جواز نہیں پائیں گے۔ اس لئے کہ یہ تو انتہاپسندی کا ایک انداز ہے۔ لہذا، اگر اپ کا کوئی مطالبہ ہے تو اپنی بات رکھیں اور اسے منوانے کا کوئی اور طریقہ اختیار کریں۔ آپ احتجاج کر سکتے ہیں جلوس نکال سکتے ہیں۔ اور پھر دوسری طرف ان کا یہ عمل خود علماء کی توہین ہے۔ اس لئے کہ وہ علماء ہیں، مسجد کے ائمہ ہیں، وہ معزز لوگ ہیں اور معاشرے میں ان کا ایک مقام ہے۔ اور وہی اس طرح کے بازاری انداز اختیار کر لیں کہ ہم ایسا کر دیں گے ویسا کر دیں گے تو یہ ان کے شایان شان نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایسا عمل کریں جو ان کے شایان شان ہو۔ اور حکومت بھی ان کے اس اقدام کا احترام کرے۔ اس لئے کہ ان کی طرف سے یہ جو عمل سامنے آ رہا ہے خدا نخواستہ اگر پولیس کو یہ حکم ہو جائے کہ آپ ان علماء کو ماریں اور عورتوں کو ماریں۔ اس لئے کہ جب ان کا فتنہ و فساد بڑھ جائے گا تو حکومت کیا کرے گی؟ پولیس کو تو لاٹھی چارچ کرنا ہی پڑے گا یا وہ کچھ نہ کچھ عمل تو کرے گی ہی، تو پھر لوگ کہیں گے کہ جناب حکومت نے تو علماء کو مارا اور ان کی توہین کی، یہ ہمارے اسلام کی وراثت ہیں تو پھر حکومت نے ان کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ لہٰذا، جب صورت حال ایسی ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ ذرا مہذب طریقہ اختیار کریں، اور پر امن طریقہ اختیار کریں کہ حکومت تک ان کی آواز پہنچے اور حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ان سے گفتگو کرے کہ ان کے مطالبات کیا ہیں تاکہ پر امن طریقے سے یہ فساد مٹ جائے تو بہتر ہے، لیکن موجودہ صورت حال بہتر نہیں ہے۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ulema-twist-truth-part-3/d/112246


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..