نیو ایج اسلام، ایڈیٹ بیوریو
3 اگست 2017
سوال: پیر صاحب آپ نے بالکل درست فرمایا۔ لیکن آج جو ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہےکہ جہاں جس کا زور چلتا ہے وہی اپنی من مانی کرتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کئی مساجد ایسی ہیں جن کے سامنے پولیس کھڑی ہوتی ہے، ٹینک کھڑے ہوتے ہیں اور بعض جگہ تو کرفیو لگے ہوتے ہیں، اور ان مساجد میں صرف بعض مخصوص لوگوں کو ہی جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس طبقاتی کشمکش کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟ ہم یہ بات مانتے ہیں کہ صوفیاء کی تعلیم یہ رہی ہے۔لیکن موجودہ حالات میں ایسا کہیں نظر نہیں آتا کہ صوفیاء کی تعلیمات ایسی رہی ہیں ؟
پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ): میں چونکہ صوفیاء کے حوالے سے گفتگو کر رہا ہوں، لہٰذا ایسی باتیں وہی کر سکتے ہیں جن کا صوفیاء کرام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم تو صوفیاء کرام کو ماننے والے ہیں، ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش ہم خود بھی کرتے ہیں اور اپنے مریدین و متوسلین کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہیں جن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔تمام سلاسل طریقت میں خواہ وہ سلسلہ قادریہ ہو، چشتیہ ہو، نقشبندیہ ہو یا سلسلہ سہروردیہ ہو؛ مشائخ طریقت اس کے خلاف کوئی اور تعلیم نہیں دیتے۔
سوال: آپ کی یہ بات درست ہے کہ صوفیاء کی یہ تعلیمات ہیں۔ لیکن آپ ان میں کیسے امتیاز پیدا کریں گے؟ اس لئے کہ اس وقت مغرب میں مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔اور انہیں دہشت گرد اس لئے کہا جا رہا ہے کہ نوجوان نسل کے بہت سارے لوگوں نے ان کو ایسی قرآنی آیات کا ترجمہ بتایا کہ ان کا ذہن خود کش حملوں کے لئے سازگار ہو گیا، اور انہوں نے خود کش حملے بھی کئے۔ اور اب تک ان سرگرمیوں میں جن لوگوں کے نام منظر عام پر آئے ہیں ان کا تعلق مسلمان قوم سے ہے۔ لہذا، اب ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ مسلمان امن پسند اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر چلتا ہوا نظر آئے، اور اس کے لئے علمائے کرام کو کیا کرنا چاہئے؟ اور اس معاملے میں علمائے کرام کس طرح قوم کی رہنمائی کر سکتے ہیں؟ اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔
پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ): نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھنا اور خواہشات نفسانیہ کو مارنا جہاد اکبر ہے۔ لہٰذا، اپنے نفس کو مارنا اور شئی ہے اور کسی کی جان کو ہلاک کرنا دیگر شئی ہے۔ اسی لئے شریعت کا حکم ہے کہ خود کشی کرنا حرام اور قطعی طوپرممنوع ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو لوگ آیات قرآنیہ سنا سنا کر نئی نسل کو اس طرف متوجہ کر رہے ہیں وہ بہت زیادتی کر رہے ہیں، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہے۔ اس لئے کہ قرآن کا کوئی ایسا واضح حکم نہیں ہے جس میں اس قسم کی کوئی تعلیم ملتی ہو کہ آپ خود اٹھ کھڑے ہوں، بم بلاسٹ کریں، خود کشی کریں اور لوگوں کو ماریں۔ اگر آپ کو کسی طرح کا احتجاج بھی کرنا ہے تو پرامن طریقے سے حکومت کے سامنے احتجاج کریں۔ اپنے مطالبات پیش کریں۔ اور اس کے بعد بھی اگر حکومت آپ کی بات نہ سنے تو پھر عدلیہ ہے، سپریم کورٹ ہے؛ وہاں آپ رجوع کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت طریقے ہیں؛ لیکن بے گناہ شہریوں کو قتل کر دینا اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دینا تو کوئی معقول بات نہیں۔
سوال: پیر صاحب! جیسا کہ آپ نے ابھی فرمایا کہ ایسے لوگوں کو پرامن احتجاج کرنا چاہئے اور اپنے مطالبات کو لیکر عدلیہ اور سپریم کورٹ جانا چاہئے، جیسا کہ آپ نے اپنی کتاب میں بھی لکھا ہے؛ آپ کو کیا لگتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت جو تشدد پسندی کا نام لیا جاتا ہے، اور بعض لوگ روشن خیالی اور انتہاپسندی جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، حالآنکہ اسلام تو ہے ہی رشن خیال؛ کیا اسلام میں اس کی کوئی گنجائش ہے؟
پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ): بالعموم روشن خیالی سے یورپین مزاج مراد لیا جاتا ہے، میرا خیال ہے کہ روشن خیالی کا مطلب یہ نہیں ہے۔ روشن خیالی کا مطلب وسیع النظر ہونا اور وسیع الفکر ہونا ہے ؛ کہ جو آپ کے دائرے کے لوگ نہیں ہیں ان کو بھی اپنے قریب لایا جائے۔ اور یہی صوفیوں کا طریقہ ہے کہ جو لوگ اس لائق نہیں ہوتے ہیں وہ انہیں بھی اپنے قریب بیٹھاتے ہیں۔ اور ان میں کوئی کمی ہوتی ہے تو انہیں تربیت دیکر ایک اچھا انسان بناتے ہیں۔ اور روشن خیالی کا یہ مفہوم سب سے اعلیٰ ہے۔
سوال: پیر صاحب بات یہ ہے، جیسا کہ صدر پاکستان نے بھی اپنی تقریروں میں بارہا یہ کہا کہ کسی کو بھی اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے عقیدے کو دوسروں کے اوپر تھوپے؛ کہ کوئی تلوار اور بندوق لیکر کسی کے سر پر سوار ہو جائے کہ تمہیں شیعہ بننا ہے، تمہیں دیوبندی وہابی بننا ہے، تمہیں سپاہ ِفلاں میں شامل ہونا ہے؛ اور بس یہی اسلام ہے، لمبی ڈاڑھی رکھنے میں اسلام ہے یا ٹخنے کھلے رکھنے میں ہی اسلام ہے؛ یا اور بھی جو طرح طرح کی باتیں آج کل چل رہی ہیں؛ تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے جو بھی نظریہ ہے اس کی مثال نبی ﷺ کی زندگی میں ملتی ہے؟ اس لئے کہ نبی ﷺ نے تو پیار اور محبت کا طریقہ اپنایا اور آپ ﷺ کی زندگی میں تو کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی کہ جس میں تشدد ہو اور سختی ہو۔
پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ): ذارا توجہ فرمائیں!قرآن نے تو صاف فرما دیا "لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی" یعنی دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ آپ تلوار کے زور پر کسی کو اسلام میں داخل کریں؛ ہدایت بھی آپ کے سامنے ہے اور گمراہی بھی آپ کے سامنے ہے۔ اب آپ کسی کو جبراً دین کی طرف نہیں لا سکتے۔ قرآن کے اتنے واضح فرمان کے بعد اب آپ اپنے انفرادی نظریہ کو جسے آپ نے اپنے دلائل کی بنیاد پر وضع کیا ہے، کیسے دوسروں پر تھوپ سکتے ہیں۔ اس کا تو کوئی جواز ہے ہی نہیں۔ مثلاً، میں کسی ایک مسئلہ میں اپنا ایک نقطہ نظر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں تو آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں، دلائل کی بنیاد پر آپ کو اس بات کا حق حاصل ہے۔ اگر آپ کے دلائل قوی ہیں تو مجھے تسلیم کر لینا چائے اور اگر میرے دلائل قوی ہیں تو آپ کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ یہ ایک علمی بحث ہے، گفتگو ہے اور اختلاف ہے؛ لیکن اگر میں کہوں کہ نہیں آپ میری اس بات کو مانیں، ورنہ میں یہ کر دوں گا، تو نہ ہی اخلاقاًکسی کو ایسا کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کوئی علمی اور فکری اقدار کا حامل کوئی شخص ایسا کر سکتا ہے۔ اور جو دانا ہو، مدبر ہو اور عقل سلیم کا مالک ہو وہ انسان ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کر سکتا۔وہ دلائل کی بنیاد پر کوئی ایک بات پیش کرتا ہے اور جو پڑھا لکھا عقلمند طبقہ ہے وہ اسے دلائل کی بنیاد پر تسلیم کرتا ہے۔ آپ تشدد کا مظاہرہ تو اس وقت کرتے ہیں آپ کے سر پر کوئی جن یا بھوت سوار ہو کہ نہیں تمہیں یہ کرنا ہی کرنا ہے؛ جبکہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ وہ آپ کی بات مان ہی لے۔ تو پھر اب اسے آپ مارتے پھریں، اڑاتے پھریں اور جانیں ضائع کریں؛ لہٰذا، یہ تو ایک انتہائی نامعقول عمل ہے۔
سوال: جب پاکستان حاصل کیا جا رہا تھا تو پاکستان کے حق میں جن لوگوں نے ووٹ دئے تھے وہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے تھے اور اس میں اقلیتی طبقہ کے لوگ بھی تھے۔ اسی لئے میرا خیال ہے کہ پاکستان میں کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کسی کے اوپر اپنا نظریہ تھوپنے کے لئے جبر و تشدد کا راستہ اختیار کرے۔ اس کے بارے میں آپ کچھ نصیحت فرمائیں۔
نصیر الدین نصیر: میں اس سلسلے میں یہ عرض کروں گا کہ میرے جد امجد حضرت غلام محی الدین بابو جی رحمۃ اللہ علیہ نے قیام پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا، حضرت خواجہ نظام تونسوی رحمۃ اللہ علیہ اور پیر صاحب مانکی شریف جیسی اہم شخصیات کا بھی اس میں ایک بڑا کردار ہے۔ ابھی تک میرے پاس وہ تار موجود ہے جو میرے دادا نے غالباً قائد اعظم کو بھیجا تھا، اس میں بھی انہوں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ پاکستان کے بننے کا مقصد کیا ہے؟ اور ہم نے یہ ملک کیوں حاصل کیا ہے؟ ہم نے یہ ملک اس لئے حاصل کیا ہے کہ اس میں اللہ اور رسول کے احکام کا اجراء ہو اور اس میں اللہ و رسول کے فرامین کی تبلیغ ہو اور یہی نظام یہاں رائج ہو۔ لہٰذا، اتنی مشکلوں کے بعد حاصل کئے جانے والے اس ملک کو اگر باہمی اختلاف کی نظر کر دیا جائے تو یہ ہماری کتنی بڑی بد قسمتی ہوگی؛ کہ ہم نے پاکستان جو کہ حضور کے مخصوص غلاموں کا ایک خطہ ہے اس کے بننے کا جو مقصد ہے اسے کچھ لوگ درمیان میں حائل ہو کر برباد کر دیں تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
سوال: پیر صاحب! آپ دیکھیں کہ پاکستان میں اس قسم کی باتیں ہو رہی ہیں جن سے پاکستان کے مذہبی رجحان میں تنگی کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا، ظاہر ہے کہ مغرب میں بھی ایک بڑی تعداد میں رہنے والے مسلمان اپنے ملک کا اثر لیتے ہیں ؛ جبکہ دوسری طرف مغربی میڈیا بھی مسلمانوں کو پرزور انداز میں دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کے خاتمے کے لئے مسلمانوں کو کیا کردار ادا کرنا چاہئے؟
پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ): آج بھی میرا ایک مسجد میں خطاب تھا۔ تو میں نے یہاں بھی اپنے خطاب میں کہا کہ آپ لوگ یہاں یورپ کے اس ملک میں رہتے ہیں یا جہاں کہیں بھی رہتے ہوں؛ تویہاں کے قانون کا خیال رکھیں اور اس کا احترام کریں اس لئے کہ آپ یہاں پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔ لہٰذا، نبی ﷺ نے انہیں جو حقوق عطا کیے ہیں ان کے حوالے سے آپ یہاں بڑے نظم و ضبط کے ساتھ رہیں۔
جاری.............
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ulema-twist-truth-part-2/d/112219
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism