نیو ایج اسلام، ایڈیٹ بیوریو
3 اگست 2017
پیر سید نصیر الدین نصیر رحمہ اللہ (متوفی 2009) پاکستان کے مذہبی، سیاسی اور خانقاہی حلقے میں ایک قدآور شخصیت کا نام ہے۔آپ کا تعلق اسلام آباد پاکستان میں پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ کے خانوادہ سے ہے، جن کی علمی اور عظیم روحانی شخصیت تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے قطعی محتاج تعارف نہیں ہے۔پیر سید نصیر الدین نصیرجہاں ایک طرف اردو، عربی، فارسی اور پنجابی زبان میں تقریباً دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں وہیں دوسری طرف عربی، اردو اور فارسی شاعری میں بھی آپ کی شخصیت معاصر علماء میں ممتاز اور نمایا حیثیت رکھتی ہے۔ آپ نے پاکستان میں علماء کے ہر خاص و عام طبقے کو قرآن کے پیغام ‘‘ولا تلبس الحق بالباطل (حق کو باطل کے ساتھ ملا کر پیش نہ کرو)’’ کی دعوت دی اور پاکستانی علماء کے حلقے میں انتہاء پسند اور تشدد پرست عناصر کا پورے استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اعلائے کلمۃ الحق کے اس راستے میں پیش آنے والی تمام صعوبتوں اور مصیبتوں کو پوری خندہ پیشانی کے ساتھ گلے لگایا۔ آپ تا حیات امن و ہم آہنگی، اخوت و محبت، رواداری اور اعتدال پسندی کی تعلیم دیتے رہے۔ اسلام کی ایک معتدل اور درست تعبیر پیش کرنے کی پاداش میں جب پاکستان کے انتہاءپسند عناصر نے آپ کی مخالفت اور کردار کشی میں تمام حدیں پار کر دیں تو آپ نے فرمایا تھا:
قدرت ہے اسی کی، اقتدار اس کا ہے
اجرائے قضا میں اعتبار اس کا ہے
تو کون ہے فیصلہ سنانے والا
عزت و ذلت پہ اختیار اس کا ہے
الغرض، آپ سرخیلِ صوفیاء مولانا جلال الدین رومی کی تعلیمات اور ان جیسے اکابر صوفیائے عظام کی علمی، فکری اور روحانی وراثت کے سچے امین و قسیم تھے۔ آپ نے تاحیات اپنی تقریر، تحریر اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ صوفیائے کرام کی نیابت و خلافت کا حق ادا کیا اور اہل خانقاہ کو ان کی ذمہ داریوں اور ان کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔ادارہ نیو ایج اسلام لندن میں کیو ٹی وی (Qtv) کے ذریعہ لئے گئے آپ کے اس انٹرویو اس کو اس مقصد کے ساتھ قارئین کی خدمت میں قسط وار پیش کر رہا ہے کہ آپ (رحمہ اللہ) کی تعلیمات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچیں اور اسلام اور تصوف کے حوالے سے لوگوں کے درمیان ایک درست تصور فروغ پا سکے۔ (ادارہ)
..................................................
سوال: آج امت مسلمہ بیچارگی کی صورت حال سے دوچار ہے۔ مشائخ اور علمائے کرام نے ہر دور کے اندر ہر مشکل وقت میں امت کی رہنمائی کی ہے۔ اس تناظر میں آج کے دور میں مشائخ کا کردار کیا ہے؟ اس تعلق سے آپ کچھ فرمائیں، لیکن اس سے قبل آپ اپنا اور اپنے خانوادے کا ایک مختصر تعارف پیش فرما دیں۔
پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ): شکریہ! حضرت پیر مہر علی صاحب میرے پر دادا ہیں اور حضرت بابو جی میرے دادا ہیں۔ اور حضرت پیر غلام معین الدین شاہ صاحب عرف بڑے لالا جی میرے والد ماجد ہیں اور میں ان کا بڑا پیٹا ہوں۔میں نے ابتدائی اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم گولڑہ شریف میں ہی حاصل کی۔ اور آگے کی تعلیم میں نے اپنے استاذ حضرت مولانا فتح محمد صاحب جو پیر مہر علی شاہ کے مرید خاص تھے، ان سے حاصل کی۔ اور مہر منیر کے مؤلف علامہ فیض احمد صاحب سے نے حدیث اور تمام علوم متداولہ میں نے انہیں سے حاصل کئے۔ اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں شاعری کا بھی ذوق و شوق رکھتا ہوں۔
سوال: پیر سید نصیر الدین نصیر صاحب! آپ کو علماء اور بعض اکابرین محبت سے میاں نصیر اور پیارے نصیر بھی کہتے ہیں۔ ماضی میں آپ کا کچھ وقت ایسا بھی گزرا ہے جس میں آپ نے اپنی علمی کاوش اور حق و صداقت کی جد و جہد میں مشکلات کا سامنا کیا ہے اس پر آپ کچھ روشنی ڈالیں کہ وہ کیا منظر تھا اور کیا دور تھا؟
پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ):ایک شاعر نے کہا تھا:
گفتار صدق مایہ آزار میں شود
چوں حرف حق بلند شود دار میں شود
عظیم صاحب! بات یہ کہ ہمیشہ حق بات آزار اور دکھ کا باعث بنتی ہے۔ اور جب حق کی آواز بلند ہوتی ہے تو اس کی انتہا دار ہوتی ہے۔ ہر دور میں سچ بولنے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ تو بالکل واضح ہے۔ آپ دیکھ لیں، کربلا سے لیکر اب تک تمام صاحبان حق و صداقت کی داستانیں آپ کے سامنے ہیں۔ بہر کیف! سچ بات مخلوق تک پہنچانا ہی میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے۔ اور اہل حق کا شیوہ بھی یہی ہے۔ اور ہم اگر چہ اس زمرے کے لوگ نہیں ہیں، لیکن ہمارا ان کے ساتھ نسبی رشتہ اور ایک علمی اور فکری تعلق بھی ہے۔ لہذا، اپنے اسلاف کی ان عظمتوں کو دیکھتے ہوئےہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جو بات حق ہے وہی لوگوں کے درمیان پہنچے۔ اور قرآن کا بھی یہی پیغام ہے کہ (وَ لاَ تَلبِسُ الحَقَّ بالباَطِلِ) یعنی حق کو باطل کے ساتھ ملا کر بیش نہ کرو۔ بلکہ حق کو اس کی اصل صورت میں اس طرح پیش کرو کہ اس کا التباس باطل کے ساتھ ہرگز نہ ہو۔ تاکہ لوگوں کے سامنے کوئی بھی بات یا کوئی بھی مسئلہ باکل واضح انداز میں پیش ہو اور اس میں کسی طرح کے کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ بچے۔
سوال: پیر صاحب! گزشتہ چالیس پچاس سالوں سے برصغیر میں اسلام کی جو تصویر پیش کی گئی ہےاس میں فرقہ واریت کو ایک خاص نہج پر فروغ دیا گیا ہے۔ اور اسلام کے اس نظریہ میں تشدد اور انتہاپسندی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
پیر سید نصیر الدین نصیر (رحمہ اللہ): اس سلسلے میں میری رائے یہ ہے کہ پہلے ان عوامل پر غور کیا جائے جن کی وجہ سے اسلام میں تشدد اور انتہاپسندی کو فروغ حاصل ہوا۔ اس کے محرکات کیا ہیں؟ کون سا طبقہ ہے جو اس چیز کو فروغ دے رہا ہے؟ اور اس کے در پردہ عوامل کیا ہیں؟ چونکہ ہم درگاہوں سے اور صوفیاء سے وابستہ ہیں، بحمد اللہ! ساری عمر ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ہے اور اسی کی تبلیغ و اشاعت بھی کی ہے، اچھے اچھے چہروں کو دیکھا ہے اور ان کی باتیں بھی سنی ہیں اسی لئے میری ایک حتمی اور فیصلہ کن رائے یہ ہے کہ صوفیائے کرام میں سے کسی نے بھی کبھی اختلاف بین المسلمین کا درس نہیں دیا۔ صوفیائے کرام اور ہمارے علمائے خیر ہمیشہ قرآن پاک کی اس تعلیم پر گامزن رہے ‘‘و اعتصموا بحبل اللہ جمیعاً و لا تفرقوا’’، یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں اختلاف و انتشار نہ پیدا کرو، اور اب بھی جو علمائے خیر ہیں وہ انہیں تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ اسی لئے میرا ماننا ہے کہ صوفیاء اور اولیاء اللہ سے محبت رکھنے والے نہ دہشت گرد ہیں، نہ تفریق پیدا کرنے والے ہیں، نہ بم بلاسٹ کرنے والے ہیں۔ بلکہ یہ تو محبت اور اخوت کا درس دینے والے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ہمارے صوفیاء کے سرخیل مولانا جلال الدین رومی رحمہ اللہ کی حیات کا مطالعہ کریں۔ آپ کی مثنوی پڑھیں اور آپ کی تعلیمات کا جائزہ لیں۔ دیوان شمس پڑھیں جو منسوب تو شمس تبریزی سے ہے مگر اس میں کلام مولانا رومی کاہے۔ اس میں جو انسانیت اور انسانوں سے محبت اور اخوت کا دس ملتا ہےوہ ہم سب کے لئے ایک مشعل راہ ہونی چاہئے۔ اور ہمارے علماء اور صوفیاء کو بھی یہ جاہئے کہ وہ اپنے چاہنے والوں، اپنے شاگردوں اور اپنے مریدوں کو محبت، اخوات اور بھائی چارگی کا درس دیں۔ اور جو علماء نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ کا پرچار کرتے ہیں اور جو خطیب ہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ لوگوں میں نفرت پیدا کرنے کے بجائے محبت پیدا کریں۔
بشکریہ: کیو ٹی وی لندن
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism