مولانا نعمانی اور واجدی
کو واضح کرنا چاہیے کہ جو لوگ سرعام سزائے موت، تفریحی پارک میں آتش زنی، اور
عورتوں اور بچوں سمیت شہریوں پر وحشیانہ تشدد کرتے ہیں کیا وہ امارت اسلامیہ کے
علمبردار ہیں؟
اہم نکات:
1. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی انتقامی جذبات کے بغیر عام
معافی کا اعلان کیا۔
2. طالبان کی 'عام معافی' کے اعلان پر مسلمانوں کو کابل میں 'فتح
مکہ' کی یاد دلائی جا رہی ہے۔
3. افغان فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں لیکن بہادر افغان خواتین نے
مجاہدین کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔
----
نیو ایج اسلام خصوصی نامہ
نگار
19 اگست 2021
Photo
courtesy/ RECITAL360
-----
کیا طالبان کا قبضہ فتح
مکہ کی یاد دلاتا ہے؟ علماء کی ایک بڑی تعداد خاص طور پر جو دیوبند سے وابستہ ہیں
وہ کیوں افغانستان میں طالبان مجاہدین کو "تاریخ ساز" قرار دیکر ان کی
مدح و ستائش کر رہے ہیں۔ یہی پیغام ایک با اثر ہندوستانی دیوبندی مولوی نے واضح
اور دوٹوک الفاظ میں دیا ہے۔ معروف اسلامی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے
ترجمان مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے افغانستان پر کامیاب اور پرامن قبضہ
کرنے پر طالبان کو سلام اور مبارکباد پیش کی ہے۔
اپنے ایک ویڈیو بیان میں
جو اب قومی میڈیا میں وائرل ہو چکا ہے
مولانا نعمانی نہ صرف افغان طالبان کی تعریف کر رہے ہیں بلکہ ان کے لیے بھرپور
حمایت کا بھی اعلان رہے ہیں۔ زبردست انداز میں دی جانے والی ان کی مبارکباد سے یہ
ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طالبان کے اپنے نظریاتی رہنماؤں سے بیعت کر رہے ہیں: "آپ
کی سرزمین سے دور یہ ہندی مسلمان آپ کے اسلامی جذبے کو سلام پیش کرتا ہے جس سے آپ
نے مضبوط فوج (نیٹو افواج) کو شکست دی ہے۔ " انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک
نیا طالبان ہے جو ماضی سے مختلف ہے اور خواتین کا احترام کرتا ہے"۔
اس کے پیش نظر مولانا کے
بیان سے مسلمانوں میں اجتماعی ذلت کا احساس پیدا ہونا چاہیے تھا اور ان کی مذمت کی
جانی چاہیے تھی۔ لیکن ہندوستان میں کچھ شیعوں کو چھوڑ کر، کیونکہ طالبانی مظالم کے
سب سے زیادہ شکار وہی ہوتے رہے ہیں-دیوبند، اہل سنت (بریلوی)، اہل حدیث یا جماعت
اسلامی کے کسی بھی بڑے عالم دین نے ان کےاس بیان کی مذمت نہیں کی ہے.
جب مسلم پرسنل لاء بورڈ سے
نعمانی کے اس بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے صرف یہ کہہ کر خود کو ان سے
الگ کر لیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا آفیشل موقف نہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ سنی مسلمانوں کا اتنا بڑا ادارہ اپنے ترجمان اور نمائندوں
کو آزادی اظہار رائے میں اتنی چھوٹ کیسے دیتا ہے جو ملک میں بدامنی اور اختلاف و
انتشار پیدا کر دے!
افسوس کی بات یہ ہے کہ مولانا
نعمانی جیسے دیوبندی علماء کا ایک طبقہ یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ طالبان نے
اسلام کا نام روشن کیا ہے اور دنیا بھر میں اسلام دشمن قوتوں کے سامنے سر اونچا
کیا ہے۔ اسی سلسلہ میں ایک معروف اسلامی اسکالر مولانا ندیم الواجدی کے بیٹے اور
مشہور دیوبندی عالم دین مولانا یاسر ندیم الواجدی نے طالبان کی حمایت اور ان کا
اور ان کے 'امارت اسلامیہ' کے قیام کا پر زور انداز میں نظریاتی دفاع کیا ہے۔
افغان طالبان کی اس ’’تاریخی فتح‘‘ پر ’’ اسلام کی فتح ‘‘ کے لئے تعریف کرتے ہوئے
مولانا یاسر نے مسلمانوں کو مبارکباد دی ہے۔ یاسر ندیم الواجدی جو شکاگو میں مقیم
ہیں اور امریکہ سے "دارالعلوم آن لائن" چلاتے ہیں، دیوبند کے معروف
عثمانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ : "امارت اسلامیہ کے احیاء
پر میں دل سے طالبان اور افغانستان کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ایک بار پھر اللہ
نے آپ کو ایک اور موقع دیا ہے کہ آپ دنیا کو انصاف پر مبنی اسلامی نظام حکومت کی
صحیح تصویر دکھائیں۔ کابل میں آپ کے داخلے نے ہمیں نبی کے دور کی یاد تازہ ہو گئی
ہے "(ممبئی اردو نیوز ، صفحہ 1 ، اگست 17)۔
Photo
courtesy/ The Economic Times
----
جیسا کہ امید کی جا رہی
تھی جماعت اسلامی ہند کو بھی افغان طالبان کے ذریعے امارت اسلامیہ کے قیام سے بڑی
امید وابستہ ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید سعادت اللہ حسینی نے کہا ہے کہ، "ان
[طالبان] کے پاس اسلامی فلاحی ریاست کی عملی مثال دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع
ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ: "یہ خوشی کی بات ہے کہ ان افغان [طالبان
پڑھیں] عوام کی استقامت اور جدوجہد کے نتیجے میں سامراجی قوتیں ان کے ملک سے نکل
گئیں ہیں۔"
اب اصل موضوع پر آتے ہیں،
سوال یہ ہے کہ: دیوبند اور جماعت اسلامی ہند کے یہ ہندوستانی علماء نے طالبان میں
اتنی امید کیسے ظاہر کر دی جب کہ زمینی حقائق ان کے ’’نیک وعدوں‘‘ کو جھٹلاتے ہیں؟
’نئے طالبان‘ جنہوں نے خواتین کے حقوق اور ان کی آزادی پر بڑے بڑے دعوے کیے ہیں،
انہوں نے صوبہ بلخ کی پہلی خاتون گورنر سلیمہ مزاری کو اغوا کر لیا ہے۔ افغان
میڈیا میں خواتین میزبانوں کو دوٹوک انداز میں بتا دیا گیا ہے کہ حکومت میں تبدیلی
کے نتیجے میں وہ اب ملازم نہیں رہیں گی۔ افغان سرکاری ٹیلی ویژن نے خواتین
اہلکاروں کو "غیر معینہ مدت کے لیے معطل" کردیا ہے۔ طالبان 2.0 نے
خواتین کو سرکاری ٹیلی ویژن سمیت کئی کام کی جگہوں پر واپس آنے سے منع کیا ہے۔
افغان خاتون فٹبال کے سرخیل خالدہ پوپل کا کہنا ہے کہ "طالبان کی واپسی سے
کھلاڑی اب خوفزدہ ہیں"۔ جس دن طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا اس دن کیا ہوا
اس کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا نے اسے کھلی آنکھوں سے دیکھا
ہے۔ سیکڑوں افغان باشندے طالبان حکومت کے خوف سے اپنے ملک سے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں
اور اب دنیا کے دیگر علاقوں میں پناہ گزین بن گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اندازہ
لگایا ہے کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک تقریبا 4،00،000 افغانی اپنے گھر بار
چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ تو اب یہ افغان مہاجرین کہاں جائیں گے؟ ان کے لیے آگے
کیا ہے؟ مولانا نعمانی اور یاسر ندیم الواجدی کو اس المناک افغان بحران پر
"امت کی فتح" کے طور پر منانے سے پہلے غور کرنا چاہیے تھا۔
کیا جب نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تھا تو یہی ہوا تھا؟ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
مکہ میں قبیلہ قریش پر فتح حاصل کر لی تو اس کے بعد آپ کے کچھ ساتھیوں نے جو مکہ
میں فتح سے بہت خوش تھے عربی میں نعرہ لگانا شروع کیا : "الیوم یوم
الملحمہ" (آج انتقام کا دن ہے)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا انہیں روک
دیا اور فرمایا: "لا! الیوم یوم المرحمہ "(نہیں، آج معافی کا دن ہے)۔
پیغمبر اکرم ﷺ نے عام معافی کا اعلان کیا جس میں انتقام کا ذرہ برابر بھی جذبہ
نہیں تھا۔ کابل میں بین الاقوامی کیمروں کے سامنے طالبان نے بھی پورے افغانستان
میں "عام معافی" کا اعلان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسلمانوں کو
کابل میں فتح مکہ کی یاد تازہ ہو رہی ہے۔ نئے طالبان نے خواتین پر بھی زور دیا ہے
کہ وہ ان کی حکومت میں شامل ہوں، یہاں تک کہ ایک شیعہ کو بھی اپنی کونسل میں شامل
ہونے کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر طالبان اب بھی تمام شیعوں کو دائرہ اسلام سے خارج
اور مباح الدم ہی مانتے رہیں گے تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ شیعہ ملازم
طالبان کے دفتر میں زندہ رہ سکیں گے؟
مولانا نعمانی اور واجدی
دونوں کو واضح کرنا چاہیے کہ جو لوگ سرعام پھانسی ، تفریحی پارک میں آتش زنی، اور
خواتین اور بچوں سمیت شہریوں پر وحشیانہ تشدد میں ملوث ہیں کیا وہ امارت اسلامیہ
کے علمبردار ہو سکتے ہیں؟ انہیں اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے تھا کہ مسلم خواتین
طالبان کے دوبارہ غالب ہونے پر کیا محسوس کر رہی ہیں اور انھیں کس طرح نقصان
اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ممبئی میں مقیم خاتون اسلامی اسکالر ڈاکٹر زینت شوکت علی نے
واضح طور پر لکھا ہے کہ "طالبان کا غلبہ خاص طور پر خواتین کے لیے خوفناک ہے۔
ان کا رجعت پسندانہ فلسفہ خود مذمت کے قابل ہے کیونکہ ان کی وحشیانہ سرگرمیاں ایک
ملک اور اس کے معاشرے کو تاریک دور کی طرف کھینچ رہی ہیں۔ اس معاملے پر سنجیدگی سے
غور کرنا چاہیے کیونکہ پدرشاہی، زن بیزار ذہنیت کا مقصد ہمیشہ خواتین کو آسان ہدف
بنانا، ان کی ترقی کو روکنا اور انہیں صدیوں پیچھے رکھنا ہوتا ہے۔
لیکن اب جب کہ افغان فوج
نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں بہادر افغان خواتین نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے
ہیں۔ جلال آباد میں طالبان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے، حالانکہ طالبان کے آنے
پر بند کر دیا گیا۔ "70 کی دہائی میں افغان خواتین شاندار کارکردگی کا مظاہرہ
کر رہی تھیں۔ افغانستان نے طب، وکالت، تعلیم اور میڈیا کے میدان میں بہترین خاتون
پیشہ ور افراد پیدا کیے تھے۔ ڈاکٹر زینت شوکت علی لکھتی ہیں کہ طالبان نے انہیں ان
سب سے محروم کر دیا ہے۔
---------------
English Article: Is the Taliban Takeover of Afghanistan ‘Reminiscent of Fatah-e-Makkah’, A 'Victory Of Ummah Led By Prophet Mohammad' As Some Ulema Are Suggesting?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism