نیو ایج اسلام خصوصی نامہ
نگار
6 مارچ 2021
اپنے واضح نظریاتی مقاصد
کے حصول کے لیے ترکی اور پاکستان نہ صرف دفاعی تعلقات میں بلکہ عالمی سطح پر
سفارتی معاملات میں بھی ایک دوسرے کی آنکھ بند کر کے حمایت کر رہے ہیں۔ حال ہی میں
جب بحیرہ روم میں یونان کے ساتھ سرحدی تنازعہ کا معاملہ پیدا ہوا تو پاکستان نے
تنازعہ اور اس کے نتائج کا اندازہ لگائے بغیر ترکی کی کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔
اسی طرح بحیرہ روم میں پاکستان اور ترکی کی بحری افواج نے بھی فوجی مشقوں کا
انعقاد کر کے یکجہتی کا اعلان کیا۔ بدلے میں ترکی کشمیر کے معاملے میں پاکستان کی
کھل کر حمایت کرتا ہے خواہ وہ بین الاقوامی پلیٹ فارم ہو یا علاقائی سفارتی
کانفرنس۔ ترک صدر اردگان نے اقوام متحدہ کے فورم پر مسلسل یہ مسئلہ اٹھایا ہے یہاں
تک کہ فروری 2020 میں یہ کہا کہ مسئلہ کشمیر ترکی کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا
پاکستان کے لیے۔
اس کے بعد سے ترکی صدر
اردگان کشمیر میں انسانی حقوق کے ریکارڈ پر ہندوستان کو نصیحت دینے کی مسلسل کوشش
کر رہے ہیں تاکہ جنوبی ایشیائی مسلمانوں سے ہمدردی حاصل کی جا سکے تاکہ مسلم دنیا
میں سعودی عرب کی بادشاہت کو چیلنج کیا جا سکے۔ لہذا انہوں نے ملیشیا کے اس وقت کے
وزیراعظم مہاتیر محمد اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ مل کر سعودی عرب
کی زیر قیادت او آئی سی کے بالکل برعکس غیر عرب اسلامی ممالک کا اتحاد تشکیل دیا۔
اس سے قبل بھی اردگان
متعدد مواقع پر اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو بارہا اٹھا چکے ہیں۔ گزشتہ سال
ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اٹھایا
اور کہا کہ کشمیر ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے
لیے اہم ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370) کے خاتمے کے بعد یہ اور بھی
سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ ہم اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت حل کرنا
چاہتے ہیں۔ اس طرح اردگان نے اپنی اس تقریر کے دوران پاکستانی وزیر اعظم عمران خان
کی کھلی حمایت کا اعلان کیا۔
پچھلے سال اگست میں
عیدالاضحی کے موقع پر ترکی صدر رجب طیب اردگان نے پاکستانی صدر عارف علوی کو یقین
دلایا تھا کہ وہ ان کے لیے کشمیر پر بین الاقوامی حمایت حاصل کریں گے۔ اردگان کئی
بار کشمیر کا موازنہ فلسطین سے کر چکے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے ہندوستان پر
کوویڈ 19 کے پھیلنے کے بعد کشمیر میں مزید بھیانک مظالم کے ارتکاب کا جھوٹا الزام
بھی لگایا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اردگان جو کشمیر پر ہندوستان کو جمہوریت کا
درس دینے کی کوشش کر رہے ہیں، ترکی کے ترقی پسند جماعتوں میں ایک پاپولسٹ اور کٹر
اسلام پسند ڈکٹیٹر کے طور پر جانے جاتے ہیں جو بدنام زمانہ اخوان المسلمین سمیت جو
کہ مصر میں ممنوع ہے، دنیا بھر میں کئی بنیاد پرست سلفی تنظیموں کی حمایت کرتے
ہیں۔
ترکی اب پاکستان کے بعد
بھارت مخالف پروپیگنڈے کا دوسرا بڑا مرکز بن کر ابھرا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کیرالہ
اور کشمیر سمیت ملک کے تمام حصوں میں بنیاد پرست اسلامی تنظیموں کی ترکی حکومت سے
فنڈنگ کی جا رہی ہے۔ انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ ترکی ہندوستان میں مسلمانوں کو
مایوس کرنے، انہیں ان کی مقامی تہذیب و ثقافت، تکثیریت پسند ہندی-اسلامی اقدار سے
الگ کرنے اور اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے شدت پسندوں کو شامل کرنے کی کوشش
کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیائی مسلمانوں میں خلافت عثمانیہ کی پرانی یادوں کے ذریعے
اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی ان کی کوشش اب سب کے سامنے عیاں ہو چکی ہے۔
ترکی میں انسانی حقوق کی
سنگین خلاف ورزیاں- حزمت تحریک کے صوفی پیروکاروں پر ظلم و ستم، ایک دوسرے پر
انحصار کرنے والے صحافیوں کو جیل میں ڈالنا، کئی ججوں اور وکلاء کی جبری گمشدگی،
اساتذہ کی گرفتاری اور کئی حاملہ اساتذہ پر گلینسٹ نیٹ ورک سے منسلک ہونے کا
الزام، فرقہ وارانہ شیعہ اقلیت پر حملے اور سب سے بڑھ کر تاریخی آیا صوفیہ میوزیم
کو ایک مسجد میں تبدیل کرنا جو کہ 1453 تک چرچ رہا۔ یہ سب واضح طور پر انسانی حقوق
کے مسئلے پر ترکی کے دوغلے پن کی انتہا کو بے نقاب کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف
ورزی کرنے والے بس اس کا درس ہی دیتے ہیں کبھی عمل نہیں کرتے۔
سیرین آبزرویٹری فار
ہیومن رائٹس نے حالیہ رپورٹس میں دعویٰ کیا ہے کہ ترکی سادات کو-جو کہ شام میں
سرگرم اپنے زرخرید فوجیوں کی تنظیم ہے- کشمیر میں تعینات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سادات کی قیادت اردگان کے فوجی مشیر عدنان تناریوردی کر رہے ہیں۔ جنہوں نے کشمیر
میں جنم لینے والی دہشت گردی کے ہمدرد اور 24 گھنٹے بھارت مخالف پروپیگنڈا کرنے
والے غلام نبی فائی کو مقرر کیا ہے اور کشمیر میں ایک اڈہ قائم کیا ہے۔ فائی کو
پاکستان کے اشارے پر بھارت کے خلاف زرخرید فوجی بھرتی کرنے اور ٹیکس چوری کرنے پر
امریکی جیل میں دو سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ بنیاد پرست تنظیم جماعت اسلامی کے ایک
فعال رکن فائی نے امریکن کونسل آف کشمیر (کے اے سی) قائم کی تاکہ امریکہ میں جموں
و کشمیر کی پیش رفت کے خلاف سازش کی جا سکے۔
درحقیقت ترکی میں اردگان
کی موجودہ حکومت ایک ایسے ملک میں اسلام پسند حکومت ہے جو دراصل جمہوریت، انسانی
حقوق اور مذہب کی آزادی کا گہوارہ تھا اور سیکولر اخلاق کے لحاظ سے زیادہ تر مسلم
ممالک کے لیے ایک روشن مثال تھا۔ لیکن اب یہ ایک پاپولسٹ ریاست بن چکی ہے جو سیاسی
دوغلے پن اور اخلاقی دیوالیہ پن اور منافقت سے بھر چکی ہے۔ یہ واضح طور پر دیکھا
جا سکتا ہے کہ ترکی صدر رجب طیب اردگان اب دنیا کو صحیح اور غلط کا درس دینے کے
عادی ہو چکے ہیں اور اس طرح 'اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا'(مذہبی
اصلاح پسندی کا ایک اسلام پسند نظریہ جس کا حوالہ اکثر مشرق وسطیٰ کی بنیاد پرست
اور انتہا پسند تنظیمیں پیش کرتے ہیں جو کہ قرآن کی کچھ غلط فہمیوں پر مبنی ہے)۔
واضح طور پر سیاسی محرکات
سے متاثر ہو کر ترکی صدر اردگان کشمیر کے اندرونی علاقائی مسئلے پر گمراہ کن
پروپیگنڈہ کر رہے ہیں تاکہ بھارت کے مفادات کے خلاف جنیوا میں انسانی حقوق کونسل
کے اجلاس سمیت بین الاقوامی فورمز پر جاری بے بنیاد پروپیگنڈے میں پاکستان کی
حمایت کی جا سکے۔
ابھی تک ہندوستان نے صرف
دو طرفہ تعلقات کو نظر میں رکھ کر اردگان کے کی باتوں کا جواب دیا ہے۔ لیکن اس بار
کچھ زیادہ ہو گیا اور اسے آسانی سے ہضم نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ پاکستان، چین اور
ترکی باہمی تعاون اور مربوط انداز میں اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر
ہندوستان کو اجتماعی طور پر نشانہ بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں چھوڑتے
ہیں، لیکن ہندوستان بنی نوع انسان کی طرف دیکھ رہا ہے، بشمول تمام مختلف قوموں کے
اور پوری دنیا کو "ایک خاندان" ماں کر "واسودیو کٹمبکام" کے ہندوستانی
نظریے پر قائم ہے۔ لیکن جیسا کہ عربی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ اتنے بھی معصوم اور
شریف نہ بنیں کہ آپ کے دشمن آپ کو مکمل تباہ کر دیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایسا معلوم
ہوتا ہے کہ ہندوستان نے اس معاملے پر ترکی صدر اردگان اور ان کے اتحادیوں اور خاص
طور پر آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز (او آئی سی) کا جواب دینے کے لیے ایک مضبوط
موقف اختیار کیا ہے۔ بھارت نے کہا ہے کہ "او آئی سی کو اقوام متحدہ کی انسانی
حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) میں پیش کرنے کے دوران پاکستان نے گمراہ کیا۔"
پاکستان اور او آئی سی کے
بیانات پر جواب دینے کے اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے ہندوستانی سفارت کار پون
کمار بادھے نے او آئی سی کے بیان میں جموں و کشمیر کے یو ٹی کا حوالہ مسترد کردیا۔
انہوں نے کہا کہ 57 رکنی تنظیم کے پاس جموں و کشمیر سے متعلق معاملات پر تبصرہ
کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ یہ ہندوستان کا ایک داخلی معاملہ اور جزو لاینفک
ہے۔ انہوں نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "او آئی سی اپنے بھارت
مخالف پروپیگنڈے میں ملوث ہونے کے لیے پاکستان کو خود اپنا ہی استحصال کی اجازت
دیتا رہتا ہے"۔
اقوام متحدہ کی انسانی
حقوق کونسل کا 46 واں اجلاس پیر سے شروع ہوا۔ ہر ملک کے وزرائے خارجہ نے اپنی اپنی
بات رکھی: ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دہشت گردی، وبائی امراض اور
ویکسین کے بارے میں بات کی۔ امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے جمہوریت، ہم آہنگی
اور استحکام کے بارے میں بات کی۔ لیکن ترکی کے وزیر خارجہ نے اسلام کے حلقوں میں
اپنی گرفت مضبوط کرنے اور جنوبی ایشیا اور جنوبی مشرقی ایشیا بالخصوص پاکستان اور
ملیشیا میں مزید مسلم ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کشمیر کے موضوع پر بات کی۔
کیا یہ واضح دوغلا پن اور
ستم ظریفی نہیں ہے کہ ترکی کے وزیر خارجہ میولوت چاو شوگلو نے یو این ایچ سی آر
میں کشمیر پر بات کرتے ہوئے بھارت کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی لیکن
پی او کے میں کشمیریوں کے حقوق پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ واضح طور پر ترکی وزیر
خارجہ نے کشمیر اور پورے جنوبی ایشیائی خطے میں پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والی
دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
English Article: Ideological Nexus of Turkey and Pakistan — Preachers of Human Rights in Kashmir
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism