نیولی ٹیلر
27 مارچ، 2013
( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
مغرب میں زیادہ تر لوگوں سے یہ پوچھیں کہ وہ اسلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں، اور ممکن ہے کہ جواب میں خاموشی ملے ۔ بہت سے لوگوں کو معلوم ہے کہ مذہب کی دو اہم شاخیں ہیں، شیعہ اور سنی - لیکن ان دونوں کے درمیان اختلافات کے بارے میں بہت سے لوگوں کو اندازہ بھی نہیں ہے۔
اسلام کی اس عظیم تقسیم کی کلاسیکی وضاحت عام طور پر اس طرح بیان کی جاتی ہے: "مسلمانوں کے درمیان شیعہ اور سنی کی نام نہاد تقسیم کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان اختلافات کی طرح ہے، تاہم ہو سکتا ہے، کہ کبھی یہ سچ رہا ہو، موجودہ حالات کی روشنی میں قابلیت کی ضرورت ہے ۔ سنی شیعہ تقسیم اب "نام نہاد" سے دور ہے، اور اسلام کے اندر موجودہ صورت حال کا تقابل، باہمی عیسائی مذہبی تنازعات سے کرنا بہتر ہوگا، جس نے تین صدیوں تک یورپ کو وقفے وقفے سے تباہ کیا ہے ۔ نظریاتی اختلافات کو سیاسی تنازعات میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اور یہ لامحالہ طاقت اور تسلط کے لئے ایک جدوجہد میں تبدیل ہو گیا ہے۔
یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا کے 90-75 فی صد، ایک ارب مسلمان سنی ہیں، جبکہ صرف 20-10 فیصد شیعہ ہیں۔ اکثر مسلم ممالک میں سنیوں کی اکثریت ہے، شیعوں کی اکثریت صرف ایران، عراق، لبنان، آذر بائیجان اور بحرین میں ہے، ( جنہیں مجموعی طور پر شیعہ کریسنٹ کے طور پر جانا جاتا ہے)۔
سنی – شیعہ کی تقسیم ، شام میں، خانہ جنگی کے محور پر گردش کر رہی ہے۔ حال ہی میں مشرق وسطی میں شیعوں کے غلبے تک تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ لیکن اب، جب کہ شام کے صدر اسد کی حکومت، علوی فرقے کی شیعہ شاخ کے ارکان کے ذریعہ مغلوب ، کو زیر ہونے کا خطرہ لاحق ہے، خطے میں طاقت کے توازن کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ ایران اور حزب اللہ دونوں نے اپنی بد نامی کو دیکھا ہے، کیوں کہ ان کا اسد کی حمایت کرنا، دوسری جگہوں رونما ہو نے والے، بہارعرب کی حمایت کے خلاف ہے ۔
تہران اسد حکومت کی طرف سے اس کی حفاظت کے لئے کھڑا ہے، جسے وہ خطہ میں "مزاحمت کا محور" قرار دیتا ہے- لبنان میں حزب اللہ اور غزہ پٹی میں حماس ایران اور شام کے ساتھ محور کے دیگر ارکان بن رہے ہیں۔ اسد کا زوال ایران جیسے‘شیعہ مسلم’ لیکن غیر عرب ریاست کو مہنگا پڑ سکتا ہے، جو کہ عرب دنیا کے دل میں قدم رکھنے کی ایک انمول جگہ ہے ۔ حزب اللہ، شیعہ اسلامی دہشت گرد لبنان کی مملکت میں گھر کر گیا ہے، جو کہ اپنے ایک اہم محافظ کو کھو سکتا ہے ، اور اس راستے کو بھی جس کے ذریعے وہ اہم ایرانی ہتھیار کی رسد حاصل کرتا ہے۔ لہذا حماس غزہ میں ہوگا۔
شام کا انقلاب حکومت کے خلاف سنیوں کی قیادت والی بغاوت ہے، لیکن وہ یقینی طور پر شام کےاندرونی عناصر تک محدود نہیں ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے نوید حسین نے بیان کیا، کہ کس طرح شام القاعدہ سمیت عالمی جہادیوں کے لئے ایک مقناطیس بن گیا ہے، جس میں عراق اور ترکی سے تقریباً 6000 عسکریت پسندوں کو حکومت گرانے میں مدد کے لئے بھیجا ۔ اور نہ ہی معاملہ بالکل ایسا ہے۔ حسین اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یورپ جیسے دور رداز علاقوں سے، سنی انتہا پسند شام میں ،ان کے نظریاتی حلیفوں ، جبہۃ النصرہ (القاعدہ کی شامی شاخ)، احرار الشام (بنیاد پرست سلفی)، سے، بشر الاسد کی "بدعتی حکومت" کے خلاف ایک ‘‘جہاد’’ میں ، سے جڑنے کے لئے ، گھس پیٹھ کر رہے ہیں ۔ حال ہی میں خود کش بم دھماکوں اور اغوا کی وارداتوں میں اضافہ، جہادی حکمت عملی کی نشانی ہے۔
در اصل، شام کا تنازعہ مسلم دنیا کے اندر، انتہا پسند سنی اور انتہا پسند شیعہ عناصر کے درمیان تقسیم کا ایک نمونہ بن گیا ہے۔
یہ عظیم تقسیم سب سے پہلے اسلام میں کب رو نما ہوئی ؟ اس کا سرا ماضی میں مذہب کی اصل سے ملتا ہے۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632 میں ہوئی، انہوں نے تقریباً ایک سو ہزار مسلمانوں کی کمیونٹی کو، ایک اسلامی ریاست کے طور پر منظم، جزیرہ نما عرب میں چھوڑا ۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو ایک تنازعہ پر وصیت بھی کی کہ کون، ان کا جانشیں ہوگا، اور اس نوخیز ریاست کی قیادت کرے گا۔ ان کے پیروکار اس بات پر اتفاق نہیں کر سکے، کہ جانشین ان کے خاندان سے منتخب کرنا ہے یا رہنماؤں کو منتخب کرنا ہے، غالباً ایمان کے اصولوں پر عمل کرنے کے لئے ۔
اس کے بعد اس گروپ نے ،جو سنیوں کے طور پر جانا جاتا ہے،دوسرا راستہ اختیار کیا ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےمشیر، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو، پہلے جانشین یا خلیفہ بنانے کا انتخاب کیا، مسلم ریاست کی قیادت کرنے کے لئے۔ دوسری طرف شیعوں نے علی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ، اور ان کے داماد کی حمایت کی۔ علی اور ان کے جانشینوں کو امام کہا جاتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف شیعوں کی قیادت کی، بلکہ، انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے اپنے منتخب راستے کے ساتھ ہی مذہب کی دو شاخیں عروج پا گئیں۔
تاریخ داں آر اسکاٹ اپلیبی، جنہوں نے جدید مذاہب پر تفصیل سے لکھا ہے، اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ سنی مسلمانوں کے لیے، دوسری عالمی جنگ کے بعد خلافت کا خاتمہ ایک تباہ کن ضرب تھا۔ اس لمحے تک خلیفہ مسلسل اسلامی قانون اور اسلامی ریاست کے ولی کے طور پر موجود رہا تھا۔ 1924 میں جمہوریہ ترکی کے پہلے صدر مصطفی کمال اتاترک نے آئینی طور پرادارے کو ختم کر دیا۔ اور خلافت کے اختیارات، گرینڈ نیشنل اسمبلی آف ترکی، جمہوریہ ترکی کے نئے تشکیل شدہ پارلیمنٹ کو منتقل کر دیا ۔
خلافت کے اختتام نے مصر اور ہندوستان جیسے ممالک میں سنی بنیاد پرست رہنماؤں کا ظہور دیکھا۔ اس کے بعد 1928 میں مصری اسکول ٹیچر حسن البنا نے سنی دنیا میں، پہلی اسلامی بنیاد پرست تحریک اخوان المسلمین کی بنیاد رکھی۔ اس طرح سنی مذہبی بنیاد پرستی نظریاتی اختلافات اور سیاسی عمل کے ایک مجموعہ سے پیدا ہوئی تھی۔
شیعوں کے مسئلے میں، مارٹن کریمر نے یہ دکھایا ہے، کہ کس طرح مسلم تاریخ اور قدیم متون کے تعبیر نو نے، آیت اللہ خمینی کی تائید کی ہے، جس نے ایران میں 1979 میں بادشاہ کی حکومت کے خاتمے کی قیادت کی تھی، اور شیعوں کی بنیاد پرستی میں ایک طلاطم کےدروازے کھول دیئے تھے ۔
اس کے بعد، اسلام کی ایک شاخ میں بنیاد پرستی نے لامحالہ دوسرے میں بنیاد پرستی کو فروغ دیا، جیسا کہ ہر خیمہ میں فرقے، ان کے مذہبی شدت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اب، شاید برابر لامحالہ دونوں خیمے ایک دوسرے کے حلقوم کے پاس ہیں۔
ماخذ: http://www.eurasiareview.com/27032013-the-great-islamic-divide-sunnis-vs-shiites-oped/
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/the-great-islamic-divide-sunnis/d/10930
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-great-islamic-divide-sunnis/d/11623