نہال مگدی
16 مارچ، 2013
فروری میں اسکاٹ لینڈ کی مسلمان خواتین سرکاری طو رپر گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے ایک نئی مہم کا آغاز کریں گی۔ اگر چہ عورتوں کے خلاف تشدد ایک عالمی مظہر ہے جو قومیت ، نسل او رمذہب کی بنیاد پر کوئی تمیز نہیں برتتا لیکن کچھ لوگ مسلمان ممالک میں عورتوں کے خلاف تشدد کو دیکھتے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ اس کا لازمی تعلق مذہب کے ساتھ ہے ۔ تاہم برطانیہ میں قائم مسلمان عورتوں کی فلاح تنظیم ‘‘ امینہ’’ کی رضا کار عورتیں دلیل دیتی ہیں کہ اس کے برعکس اسلام کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے حل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے ۔
اس مقصد کے لئے انہوں نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی جو اس غلط فہمی کا ازالہ کرے گی کہ اسلام کسی بھی طرح کے تشدد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ ‘‘امینہ’’ کمیونٹی میں اماموں کے ساتھ کام کرے گی اور اس تصور کی حمایت کےلے حدیث اور قرآن کی آیات استعمال کرے گی کہ نہ صرف اسلام تشدد کی مذمت کرتاہے بلکہ اسلامی تعلیمات کا متن بار بار عورت کے ساتھ نرم ، منصفانہ اورعزت دارانہ سلوک پر زور دیتا ہے۔
عورتوں کے خلاف تشدد کے جواز کے لئے جس قرآنی آیت کا بہت زیادہ حوالہ دیا گیا ہے وہ قرآن کی آیت 34:4 ہے۔ اس کا ترجمہ یوسف علی نے کیا ہے: ‘‘ اور جن عورتوں کی نافرمانی (نشوز) اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار (ہلکی) کی سزا دو (اضربوھن)’’۔۔۔۔
عربی الفاظ ‘‘نشوز’’ اور ‘‘اضر بوھن’’ کی سیاق و سباق سے ہٹ کر اور غلط تشریح ا س آیت کی ایسی غلط تفہیم کا باعث بنی ہے جو نفوذ کر گئی ہے۔ مثال کے طور پر لفظ ‘‘ضرب’’ ( جو اضر بوھن کامادہ ہے) کے 25 مختلف مطالب ہیں جن میں ‘‘ دور چلے جانا ’’ کچھ وقت کے لئے چھوڑ دینا ’’ بھی شامل ہیں۔ مؤخر الذ کر مطلب کی بنیاد پر ترجمہ اس طرح بنتا ہے : ‘‘ جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں خوف ہو ،پہلے ان کو نصیحت کرو، پھر ان سے بستر علیحدہ کرلو اور پھر ان سے دور چلے جاؤ’’۔
مزید برآں یہاں لفظ ‘‘نشوز’’ اس آیت کے تین مرحلوں کو صرف بہت مخصوص اور سنجیدہ صورتوں میں قابل اطلاق بناتا ہے ۔ سکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لند ن میں اسلامی تعلیمات کے پروفیسر محمد عبدا لحمید دلیل دیتے ہیں کہ یہ لفظ خصوصی طور پر ازدواجی بے وفائی کے حوالے سے ہے۔
یہ احساس کرنے کے لیے کہ اسلام عورتوں کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد کی واضح طور پر مذمت کرتاہے ، ہمیں صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالوں اور قرآن کے عمومی پیغام کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ قرآن کی آیت 21:30 میں کہا گیا ہے ، ‘‘ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ۔ اس نے تمہارے دمیان محبت قائم کردی ، یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں’’۔
یہ یقینی بنانے کہ علاوہ ایسے پیغامات معاشرے میں پھیلیں ، ‘‘امینہ’’ کی مہم عورتوں اور مردوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ تشدد کے خلاف بات کریں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایک فرض ہے کہ مسلمان زیادتی کے خلاف بات کریں اور بھر پور انداز میں ان غلط عقائد کی مخالفت کریں کہ اسلام عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کی حمایت کرتا ہے۔
اگر یہ کام کمیونٹیوں میں مذہبی رہنماؤں تک پہنچ جائے تو تشدد کے حل کا اہم حصہ بن سکتا ہے ۔ اماموں کا مقامی مسلمان کمیونیٹوں پر قابل قدر اثر ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ افراد ہیں جن پر اعتماد کیا جاتاہے اور جنہیں قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس لئے مساجد میں مردوں اور عورتوں تک پیغام کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا انتہائی اہم ہے ۔ آئمہ کی مشترکہ آوازوں میں یہ قوت ہے کہ عورتو کے ساتھ سلوک میں درد کاراشد ضروری تبدیلی کو رواج دے سکیں۔
یہ کام خاندان کی سطح پر بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بر محل ہے کہ بچے چھوٹی عمر سے عورتوں کے احترام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ان کے ساتھ خلیقانہ سلوک کی اہمیت کو سمجھیں ۔ اس بات پر گھروں اور مذہبی اسکولوں میں زور دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ والدین بالخصوص باپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نرم روئیے کی اتباع میں اپنے بچوں کے لئے اس سلوک کا نمونہ یارول ماڈل بن سکتے ہیں۔
اسلام عورتوں کے ساتھ سلوک سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں اپنے متن میں بڑے واضح رہنما اصول فراہم کرتاہے۔ یہ علم اور تفہیم ، جس کو توڑ مروڑ کر عورتوں کے ساتھ نفرت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، مسلمان کمیونٹیوں میں گھریلو تشدد کے مسئلے کےحل کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
16 مارچ، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت ، ممبئی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/islam-tool-end-violence-women/d/10856