New Age Islam
Sat Jun 14 2025, 01:26 AM

Urdu Section ( 10 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Need for Balanced Analysis in the Present Era عہد حاضر میں متوازن تجزیہ کی ضرورت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

10 مئی 2025

متوازن تجزیہ اور تحقیقی و تصنیفی عمل کی افادیت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق و تجزیہ  سے سماج میں ہم آہنگی اور امن وامان کا بول بالا ہوتا ہے۔ معاشروں اور قوموں کے مابین فاصلے کم ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے افکار و نظریات، عقائد و خیالات اور مذہبی رسوم و رواج سے واقفیت کا موقع پوری امانت کے ساتھ حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ معتدل تجزیہ نگاری پراگندہ خیالات اور غیر صالح افکار کی اصلاح و تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔  جب تجزیہ نگار کسی موضوع کو تحقیق کے لیے اختیار کرتا ہے، خواہ اس کا تعلق دینات واسلامیات ، تاریخ و تہذیب، سماجیات وسیاسیات ، یا پھررواں حالات کے احوال و کوائف  سے  ہو۔ ضروری ہے کہ تجزیہ نگار اور محقق اپنے اس تحقیقی عمل میں تمام طرح کی قدروں اور مخالف و موافق نظریات کا  پورا خیال  رکھے۔ اگر تجزیہ و تحقیق میں معتدل رویہ اور غیر جانب دار رجحان کا استعمال نہیں کیا گیا تو یقیناً ایسے تجزیہ و تحقیق سے نہ خود اس کو فائدہ ہوگا ، جو فرد اس عمل کو انجام دے رہا اور نہ اس کا یہ تصنیفی کارنامہ معاشرے  کو فائدہ پہنچا سکے گا۔ لہذا تحقیق کا پہلا اصول یہ ہے کہ اس میں کسی بھی طرح کی جانبداری یا عقیدت و محبت کا عنصر شامل نہ ہونے پائے۔  لیکن آج ہمارے سامنے  زیادہ تر ایسی تحریریں  آتی ہیں کہ جب ہم ان کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بہت سارے تحقیقی ورک جانبداری اور طرفداری کی چغلی کرتے نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہ رویہ اور کردار کسی بھی تجزیہ نگار اور اسکالر کے لیے مناسب ہے اور نہ ہی اس کی تحقیق کو معیاری بنانے میں بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔ تجزیہ و تحلیل سے تجزیہ نگار کی فکر کا بھی بخوبی پتہ چلتا ہے ، جو اس بات کی علامت ہے کہ تجزیہ نگار نے اپنی تحریر میں معاشرے کو کیا پیغام دیا ہے۔

لہذا اصولی طور پر کسی بھی محقق کو اپنی تحقیق سے سماج و قوم اور ملک و ملت کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کی خواہش ہے کہ میرا یہ عمل اصحاب علم و دانش کے حلقوں میں بھی مقبول ہو، تو لازمی طور پر اسے اپنے نظریات کو روادار، متوازن اور معتدل بنانے کے ساتھ، کسی بھی فکر و فلسفہ اور نظریہ سے نہ تو مرعوب ہونا ہے اور نہ کسی کے احترام میں حقائق کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کسی کے نظریہ کی حمایت  یا  کسی فکر کی تردید کرنی ہے تو اس کے لیے دلائل و براہین کا سہارا لیا جائے۔ اسی کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ دلائل کی زد میں اگر اس کی بھی فکر آرہی ہے تو بے دریغ اور بلا کسی قیل و قال کے تردید  کرنی چاہیے۔ حالانکہ یہ پہلو  تجزیہ نگار اورمحقق کے لیے بڑا مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے کیونکہ جو فکر یا جو نظریہ اس نے بنایا تھا وہ ثبوت و شواہد  کی وجہ سے کمزور پڑ رہا ہے۔ ہاں اگر کسی بھی تحقیقی عمل میں اپنی فکر اور اپنے مسلک و مشرب یا مذہب پر تنقیدایمانداری اور دلائل کی روشنی کی بنیاد پر کی جاتی ہے، تو اس کی عظمت بڑھ جاتی ہے اور پھر وہ تحقیق وتجزیہ کہیں نہ کہیں حقیقی تحقیق کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح ایک اہم پہلو تحقیق و تفتیش کا یہ بھی ہے کہ اسکالرز کو چاہئے کہ وہ ایسے موضوعات اور مسائل کو اپنی تحقیق کا حصہ بنائیں جن کی آج ضرورت ہے۔

مثلآ آج پوری دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف رکیک حملے ہورہے ہیں۔ ہر طرف سے یلغار ہے کہ مسلمانوں کا رشتہ ان کے دین و دھرم، تاریخ وتہذیب اور فکر و فلسفہ سے پوری طرح منقطع کرادیا جائے۔ ایسے پر آشوب وقت میں چاہیے کہ ہمارے مؤلفین و محققین اس بات کا عینی مشاہدہ کریں اور پتہ لگائیں کہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیوں روا رکھا جارہاہے؟ اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ رہا سوال وطن عزیز یعنی  سرزمین ہند کا تو اب یہاں بھی مسلمانوں کے خلاف یوں تو آزادی کے بعد سے ہی  فاشسٹ طاقتوں نےماحول تیار کرنا شروع کردیا تھا، لیکن اب اس میں شدت و سختی آ چکی ہے۔ ہندوستان میں ایک خاص کمیونٹی کے خلاف جو نفرت و عناد اور تعصب کا ماحول تیار کیا جارہاہے اس کے بھی عوامل اور محرکات کا پتہ لگانا ،ایک باکردار محقق ، مفکر اور سماجی و سیاسی تجزیہ نگار کے لیے ضروری ہے۔ منفی عوامل و اسباب کا صرف پتہ ہی نہیں لگایا جائے بلکہ اس کا حل بھی پیش کیا جائے اور تحقیق کی بنیاد پر بتایا جائے کہ فلاں طریقے سے ان طاقتوں اور مسلم مخالف رویوں سے پوری سرخ روئی اور عزت کے ساتھ مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ ہماری تحریروں، کتابوں، تحقیقات اور علمی و ادبی مضامین میں مسائل پر گفتگو تو ہوتی ہے، لیکن ان سے نمٹا کیسے جائے، یا جو مسائل وتحدیات مسلمانوں کے سامنے ہیں ان کا تدارک و سد باب کیا ہوگا، اس پر گفتگو بہت کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھر یہ تحریریں اور بیانات وتصنیفات عوام میں اشتعال انگیزی اور جذباتیت کو پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں لامحالہ ایسی تحریریں پیش کرنے سے پوری طرح بچنا ہوگا جو صرف مسائل کا تو احاط کریں،اس کے حل کی طرف توجہ مبذول نہ کرائیں۔جب کہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ کوئی تحقیق خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی اہمیت وافادیت کی حامل وہی ہوتی ہے جو عوام میں معتدل فکر، متوازن بیداری اور مسائل کے حل کا شعور و ادراک پیدا کرسکے۔

تجزیہ نگاری کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ سنی سنائی باتوں پر قطعی اعتماد ویقین نہ کیا جائے، بلکہ تجزیہ نگار کو چاہئے کہ جب کوئی مسئلہ اس کے سامنے لایا جائے تو پھر اس کو اپنے تجربات، مشاہدات اور حقائق کی کسوٹی پر پرکھ کر پوری چانچ پڑتال کرے، پھر اس کو عوام کے سامنے لائے۔یا اپنی رائے دے ۔ اس کی ایک مثال تو عہد حاضر سے یہ لی جاسکتی ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں عام رویہ یا رجحان بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف بنا ہوا ہے۔ مسلمانوں کا ایسا سوچنا بھی درست ہے۔ یا نہیں ؟ اس پر کوئی یقینی رائے پیش کرنے سے قبل، یا اپنی تحریر کی زینت بنانے سے پہلے ازادای کے بعد سے اب تک جن جن قوتوں نے ملک پر حکومت کی ہے، ان تمام کی کار کردگی کا تجزیہ انصاف سے کرنا ہوگا۔ اور پھر تقابل کرنا ہوگا کہ کس سیاسی جماعت کے دور اقتدار میں مسلمانوں پر مظالم زیادہ ڈھائے گئے ہیں؟ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی کے مخالف یا موافق مزاج پہلے سے بنا ہوا ہوتا ہے، اسی رو میں اگر تجزیہ نگار بھی بہ جاتا ہے، یا پھر وہ جذباتیت وجنون کے ساتھ تجزیہ کرنے کی سعی کرتا ہے تو پھر وہ ایک کامیاب نہ مفکر ہوسکتاہے  اور نہ ایک اچھا اسکالر۔ کوئی کہ سکتا ہے کہ سیاست سے ہی مثال پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ درست سیاسی تجزیہ نہ کرنے کی وجہ سے یا صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط نہ کہنے کی وجہ سے امت نے اب تک بہت سارے مسائل کا سامنا کیا ہے۔ غور و خوض کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے قائدین کسی الیکشن کے وقت جو بے دریغ خاص جماعت کو ہرانے کے لیے  اعلانات وبیانات جاری کرتے ہیں، وہ کس حد تک ملت کے حق میں ہیں ؟ ہمیں اور ہمارے  تجزیہ نگاروں کو اس نکتہ پر نہایت بصیرت و فقاہت سے غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے؟ برعکس اس کے کیا ہمیں اس بات پر غور نہیں کرنا چاہئے کہ ہم اپنی دشمنی مزید نہ بڑھاتے ہوئے ، مذاکرات و مکالمات کی طرف اقدامات کرنے چاہیے۔ اپنے مسائل کے حل کے لیے میل ملاپ اور بات چیت کا اسلوب اختیار کرنا چاہیئے۔ ابھی حال ہی میں اس نوعیت کی ایک تحریر نامور اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے لکھی تھی ۔ یقیناً یہ ان کی طرف سے اہم اقدام ہے۔ امید ہے اس پر سنجیدہ غور فکر کی جائے گی۔ اسی طرح مزید لوگوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔

آج کی جدید دنیا اور اس کے بدلتے تقاضوں اور ضرورتوں کے تحت کس طرح کا علمی اور فکری عمل کیا جائے یہ نکتہ بھی ہم سب کے لئے قابل غور ہے۔ یاد رہے کہ یہ دنیا عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ہر طرف تکثیریت اور تعدد و تنوع کو پسند کیا جارہاہے ۔ خصوصا بھارت تو ادیان و افکار اور مذاہب و خیالات کے لیے جانا جاتا ہے۔  لہذا ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں ضرورت ہے کہ مطالعہ ادیان پر کام کیا جائے۔ اس کے لیے مدارس کو پوری مستعدی سے آگے آنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر یہ اعتراض مسلمانوں پر کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خول میں رہتے ہیں۔ دوسرے ادیان و افکار اور نظریات کو پڑھنا ،بپڑھانا یا اس پر کوئی تحقیقی کام کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسے لوگوں نے مسلمانوں کے مطالعہ ادیان میں جو کارنامے ہیں ان پر نظر نہیں ڈالی ہے۔ بہر حال کیا اب ضرورت نہیں ہے کہ ہندوستان کے دینی ادارے اس جانب سنجیدہ پہل کریں اور مطالعہ ادیان پر تحقیقی کام کریں۔ اس کے جہاں علمی فوائد ہیں تو وہیں سماجی اور معاشرتی ثمرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مطالعہ ادیان پر کام کرنے کا بنیادی فائدہ یہ ہوگا کہ آج جو لوگ دین کے نام پر سیاسی روٹیاں سیک رہے ہیں اور عوام میں ایک دوسرے کے خلاف دین ودھرم کے نام پر نفرت و بیزاری کا ماحول بپا کررہے ہیں۔ اس پر قد غن لگے گا۔ غلط فہمیاں اور دوریاں مذاہب کی بنیاد پر جو پیدا ہورہی ہیں ان کا قلع قمع ہوگا۔ نیز بقائے باہم اور یگانگت و یکجہتی کی فضا ہموار ہوگی۔ ہندو مسلم کا رشتہ مظبوط تر ہوگا۔

عہد حاضر میں ایک اچھے اور منجھے ہوئے تجزیہ نگار کی پہچان یہ ہے کہ اس کا تجزیہ کسی بھی طرح لچکدار اور کسی بھی جماعت و تحریک، مسلک و مشرب اور فکر و نظر یہ کی حمایت و تائید نہ کرے۔ اسی طرح جذبات واحساسات کو مشتعل بھی نہ کرے۔ بلکہ ایسا متوازن اور حقائق و واقعات پر مبنی تجزیہ ہو جو چشم کشا ہونے کے ساتھ ساتھ عوام و خواص کے اندر غور وفکر کی روح پھونک دے ۔ نیز سماج  میں ہم آہنگی اور رواداری کا پیغام عام کرے ۔ صداقت و امانت کا جیتا جاگتا ثبوت ہو۔

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/need-balanced-analysis-present-era/d/135488

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..