ناورفخری عزیزی
21جولائی 2016
"اے میرے رب! اگرمیں جہنم کے خوف سے تیری عبادت کروں تومجھےتو جہنم میں جلا دے۔اور اگر میں جنت کی امیدمیں تیری عبادت کروں تومجھے تو جنت سے نکال دے۔ لیکناگر میں صرف تیری رضا اور خوشنودی کے لیے تیری عبادت کروں تو مجھےتو اپنے حسن مطلق کے دیدار سے محروم نہ رکھ"۔
یہ آٹھویں صدی میں عراق کی ایک مشہور زاہدہ رابعۃ العدويۃ القيسيۃ کی دعا اور اللہ رب العزت کے ساتھ غیر مشروط اور بے لوث محبت اور رشتہ عبدیت کی ایک نمایاں مثال ہے۔
یہ دعا ہمیشہ سے میرے لیے حیرت و استعجاب کا سبب رہی ہے، لیکن میں نے کبھی بھی اس دعا کو پڑھنے کی ہمت کبھی نہیں کی، اس لیے کہ اگر چہ مجھے یہ امیدتھی کہ میں صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے عبادت کرتی ہوں لیکن میں بھی جہنم سے ڈرتی ہوں اور جنت امیدرکھتی ہوں جیسا کہ اکثر لوگ کرتے ہیں۔ بعض اسلامی علماء کا یہ مؤقف ہے کہ اللہ کی عبادت میں امید و بیم کا مجموعہ جس پر محبت کو غلبہ حاصل ہو "صحیح فارمولہ" ہے۔
رابعہ یہ کہہ سکتی ہیں کہ ہمیں صرف محبت کی ضرورت ہے، اور کچھ لوگوں کا حال ایساہو بھی سکتا ہے، لیکن اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ جزا کی امید رکھنا اور سزا کا خوفرکھنا بھی ضروری ہے تا کہ عبادت گزار، ایک شہری یاایک ملازم کی حیثیت جو کام ان کے سپرد ہے اس میں کمال حاصل کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
تاہم، مسئلہ اس وقت پیدا نہیں ہوتا جب لوگ صرف محبت پر مکمل طور پر اعتماد کرتے ہیں، بلکہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ اس میں مساوات برقرار نہیں رکھ پاتے،اور صرف اللہ کے خوف کو ہی لازم پکڑ لیتے ہیں، اور روحانیت سے عاری ہو کر ایک مشین کی طرح خدا کی عبادت کرتے ہیں۔یہ لوگوں کے لیے غلط وجوہات کی بناء پرنیک کام کرنے کا باعث بن سکتا ہے،مثال کے طور پرحقیقۃً انسانوں کے مسائل کو دیکھےبنا ہی صرف جنت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی مدد کرنا ہے، یا بعض صورتوں میں وہ دہشت گردوں کی طرح مکمل طور پر گمراہ ہو سکتے ہیں، جوخود کو اور اپنے ارد گرد دوسروں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں تاکہ انہیں جنت کا پروانہ حاصل ہو جائے۔
مختلف مذہب سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ آخرت کی ایک زندگی پر ایمان رکھتے ہیں، جس میں ان کے لیےزندگی میں کیے گئے نیک اعمال کے مطابق جزابھی ہے۔ مسلمان قیامت کے دن ان کے جسموں کے زندہ اٹھائے جانے کے بعد، جنت یا جہنم میں ایک ابدی حیات پر مشتمل آخرت کی ایک زندگی پر ایمان رکھتے ہیں۔اگرچہ، قرآن مجید میں مختصر طور پر جنت کا بیانوارد ہوا ہے، لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ کا فرمان ہے کہ جنت میں وہ چیزیں ہیں "جو کسی کان نے نہ سنی ہے،نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے اور نہ ہی کسی دماغ نے اس کا تصور کیا ہے "۔
اسی طرح ، جنت پر ہمارا مطلق ایمان اس حقیقت سے متصادم نہیں ہوگا کہ ہمارے محدود خیال میں جنت صرف ایک تصور ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہےاس لیے کہ لامحدود جنت کا تصور ہمارے محدود ادراک میں نہیں سما سکتا۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم قرآن کی روشنی میں جنت کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو بسا اوقات اس کا خاکہ ہم اپنی "دنیاوی" خواہشات اور لذّات کے مطابق تیار کرتے ہیں۔ اسی طرح،چونکہ خاص طور پر قرآن کی تشریح اکثر مردوں نے کی ہے،اسی لیےجنت کا بھی خاکہ کنواروں کے ایک ایسے خواب کی طرح پیش کیا گیا ہے جس میں کوئی بھی جسمانی عادت و ضرورت ممنوع نہیں ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ یہ بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں تک ہی محدود نہیں ہے جو یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ اپنے غیر انسانی کارناموں کے ذریعہ اس دکھ درد سے بھری دنیا سے نکل کر ایک شہوانی جنت کی طرف کوچ کر رہے ہیں، بلکہ یہ بھی ایک عقیدہ ہے جس کا دفاع مسلمانوں کی اکثریت ڈرتے ہوئے کرتی ہے کہ "خدا نہ کرے" کہ جنت ہی خدا کی ایک ایسی پائدار نعمت ہو جہاں ہم اللہ کے فضل اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکیں!
جنت کی سب سے متنازعہ "لذتوں اور نعمتوں" کے درمیان"حور العین" کا بھی تصور ہے، جس سے عام طور پر ’’خوبصورت کنواری لڑکیاں‘‘یا "خوبصورت آنکھوں والی عورتیں"مراد لی جاتی ہیں، اگر چہ اس کا لغوی معنی ’’خوبصورت اور چمکدار آنکھوں والے‘‘ہے، جو کہ ایک ایسا خاکہ ہے جو مردوں اور عورتوں دونوں پر صادق آ سکتا ہے، جیسا کہ ڈاکٹر حائف ہازی نےاپنی کتاب’’زاد‘‘ میں بیان کیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ "حور العین" کا تعین ان چار سورتوں میں سے صرف ایک سورت میں عورتوں کی شکل میں کیا گیا ہے، جن میں جنسی سرگرمی کے کسی بھی اشارے کے بغیران کا ذکر ہے۔ان کی اس بات پرمردوں نےان پر وحشیانہ حملہ کیا تھا کہ خواتین کو بھی مرد "حور العین" حاصل ہو سکتی ہیں۔مردوں کے ذریعہ کی گئی قرآن مجید کی روایتی تفسیرپر یقین رکھنے والوں کو یہ دلیل ہضم نہیں ہوئی کہ ہماری دنیاوی "خواہشات و لذات"کا اجراء جنت میں بھی ہونا ضروری نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جن جنسی تقاضوں سےہم واقف ہیں آخرت میں بھی ان کا پایا جانا ضروری نہیں ہے، اورخاص طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں افزائش نسل جیسی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔
جنت میں لوگوں کے اندر مزید روحانیت کااضافہ ہوگا اس لیے کہ وہ ارتقاء کی ایک اور سیڑھی چڑھ چکے ہوں گے۔
لہٰذا، اگر ہم ارتقاء کی آخری منزل کے طور پر موت اور قیامت کے بعد جنت میں جانےکا سوچتے ہیں، تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم موت اور قیامت کے بعد زیادہ "اعلی" مخلوق میں تبدیل ہو جائیں گے، اور عین ممکن ہے کہ ہم وہاں اپنی جسمانی ضروریات کے غلام بننے کے بجائے ہو سکتا ہے کہ ہم پر ہمارے روحانی پہلو کا غلبہ ہو جائے۔
جو لوگ جنت کی "لذات و خواہشات" کی بات کرتے ہیں اگر وہ قرآن میں موجود جنت کی تفصیلات اور اس کی صفات پر غور کریں گے تو انہیں اس بات کا علم ہو گا کہ "خوشی" اور "لطف اندوزی" جیسے الفاظ ہمیشہ اس دنیاوی زندگی کے لیے استعمال کیے گئے ہیں اور اس سےاس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ "لذات و خواہشات" ناپائیدارہیں اورقرآن میں ایک بار بھی ان الفاظ کا ذکر جنت کے لیے نہیں کیا گیا ہے۔
جبکہ دوسری طرف جنت کا ذکر "نعمت"، "پائدار"، "پناہ گاہ"، "امن"، "رحمت"اور "خوشی"جیسی مزید روحانی صفات اور دیرپا جذباتی حالت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ جنت ایک ایسی جگہ ہے جہاں خدا ہمارے دلوں سے ہر طرح کا "خوف "نکال دیگا(7:43)۔ اور جہاں نہ ہمیں کوئی خوف ہوگا اور نہ ہم غمگین ہوں گے (7:49)، اور جنت میں عظیم ترین نعمت خدا کا دیدار اس کی محبت اور رحمت سے لطف اندوزی ہوگی۔
یہ تصور کچھ لوگوں کے لئے بہت بے کیف اور یا مایوس کن معلوم ہوتا ہے، وہ غلط وجوہات کی بناء پر ایک مختلف جنت کی امید کر رہے ہیں،اور کبھی کبھی اس کے لیے وہ غلط طریقےاختیار کر لیتے ہیں۔خدا نے جنت کو جس انداز میں بیان کیا ہے اگر ہم وہی تصور قائم کر لیں تو اس سے صرف ہمارے دلوں میں امن اور محبت کا احساس پیدا ہوگا اور ممکنہ طور پر اس تصور سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی اس بات پر نہیں ہوگی کہ وہ جنت حاصل کرنے کے لیے دوسروں کا قتل کریں، اس لیے کہ ان کی تمام سرگرمیاں لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے اور اس دنیا میں رنج و غم کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ہیں۔
ماخذ:
saudigazette.com.sa/opinion/hoping-heaven-wrong-reasons/
URL for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/hoping-heaven-wrong-reasons/d/108031
URL for this article: