ناستک درانی، نیو ایج اسلام
15 جون ، 2013
عرب ممالک میں ہوئے انقلابات کے سبب سیاسی اسلامی سٹریم اپنے غاروں سے نکل کر میدانِ عمل میں اتری اور اخوان المسلمین کی قیادت میں اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی، اقتدار میں آجانے کے بعد اس سیاسی اسلامی سٹریم کی حرکتوں کی وجہ سے یہ سوال اٹھتا نظر آتا ہے کہ کیا یہ سٹریم جدید طرزِ زندگی کی ضروریات سے ہم آہنگ ہوسکتی ہے یا نہیں؟
اسلام پسندوں نے اپنے سیاسی معرکوں میں غیر اخلاقی اور بعض اوقات تو مجرمانہ وسائل استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا جیسے تشدد، قتل، جھوٹ، تکفیر اور پھر ان جرائم کو مذہبی نعروں اور تحریروں سے جسٹی فائی کرنے کی بھرپور کوشش کی، ایسی غیر اخلاقی اور مجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے کچھ لوگ یہ سوال اٹھاتے بھی نظر آتے ہیں کہ کیا مسئلہ مذہب میں ہے کہ یہی ان لوگوں کی تعلیمات کا سرچشمہ ہے؟ کچھ تجزیہ کاروں کو تو پہلے ہی یہ توقع تھی کہ مذہب کے نام پر سیاسی اسلام کا لوگوں پر براہ راست تسلط احتجاجی ردِ عمل کے طور پر الحاد کے پھیلنے کا سبب بنے گا اور اس طرح لوگ بیک وقت تلوار اور تلوار باز دونوں کو مسترد کردیں گے۔
فیس بک پر ایک مباحثے میں زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ تھی کہ اپنی طویل تاریخ میں انسانیت نے جو سب سے بری شئے دریافت کی وہ مذہب ہے، اور یہ کہ انسانیت مذہب کے نام پر ہونے والے اندوہ ناک جرائم کی روک تھام مذہب کو ختم کیے بغیر نہیں کر سکتی کیونکہ یہ اندھیرے دور کی باقیات ہے جبکہ کچھ دیگر لوگوں کا خیال تھا کہ مسئلہ مذہب میں نہیں بلکہ ان لوگوں میں ہے جو مذہب کے نام پر اقتدار اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں آپ دین کے تاجر بھی کہہ سکتے ہیں۔
تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر میانہ روی اختیار کی جائے تو میرے خیال سے انسانیت کی سب سے بری دریافت ممکنہ طور پر مذہب نہیں ہے کہ انسان کی زندگی پر اس کے بعض اچھے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، میرے خیال سے سب سے بری چیز تکفیر ہے، یہ وہ زہرِ قاتل ہے جسے مصری فرعون ‘‘ اخناتن’’ نے ایجاد کیا تھا، اس نے صرف اور صرف ‘‘آتن’’ کی عبادت کی دعوت دی اور قدیم مصری مذہب ‘‘آمن’’ کی لچکدار تعددیت کا خون کر ڈالا، یہ وہ زہر ہے جو بعد میں آج کے تینوں ابراہیمی مذاہب میں منتقل ہوا، یوں مذہب کے ٹھیکیدار ایک طرف تو اپنے بچاؤ اور مؤمنین کی تعداد میں اضافے کے لیے تکفیر کا سہارا لینے لگے تو دوسری طرف مذہبی فکر میں تجدید اور اجتہاد کو کچلنے کے لیے اس کا استعمال بڑی شد ومد سے کیا جانے لگا۔
مذہب انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی بنیادی فکری ضروریات پوری کرتا ہے، یہ انسان کو اپنی زندگی میں وجود جیسے بڑے فلسفیانہ سوالوں کے تیار اور آرام دہ جوابات دیتا ہے اور انہیں فناء سے بچاتے ہوئے ابدی زندگی عطاء کرتا ہے، تاہم دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مذاہب انسانوں کو متحد نہیں کرتے بلکہ ان میں تفرقہ ڈالنے کی کلیدی وجہ ہیں، مذہب انسانوں کو فرقوں میں بانٹ کر انہیں آپس میں ایک دائمی جنگ کی طرف دھیکل دیتا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ انسانیت چار بنیادی چیزوں کے لیے ہمیشہ سے آپس میں دست وگریباں رہی ہے، دولت، اقتدار، جنس اور مذہب، چونکہ پہلی تین چیزیں نسبتی اور قابلِ تقسیم ہیں چنانچہ انسانی معاشرے ان پر اپنے اختلافات انہیں متنازع فریقوں کے درمیان تقسیم کر کے فیصلہ کرنے میں کامیاب رہے جبکہ مذہبی لڑائی چونکہ ایک مطلق کے گرد گھومتی ہے جو ناقابلِ تقسیم ہے چنانچہ اس پر لڑائی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری رہتی ہے اور انسانیت کو اس میں اپنا خون اور ترقی دونوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
مزید برآں رحمت اور مغفرت کے اوزاروں کی وجہ سے جن کی شاید ہی کسی مذہب میں کوئی کمی رہی ہو، یہ مذاہب لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب تو رہتے ہیں تاہم یہ چیزیں لوگوں کو اندوہ ناک جرائم کے ارتکاب سے نہیں روک پاتیں، مذہب پرست ہمیشہ اپنی مذہبی تحاریر کی تاویلیں کر کے ایسے انسانیت سوز جرائم کے لیے راستہ نکال لیتے ہیں، بلکہ بعض اوقات تو یہ جرائم ایسی عبادات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جن سے خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے، اگر اسلام کی بات کی جائے تو سیاسی اسلام کی ادبیات ایسی تاویلات سے بھری پڑی ہیں، مذہب کے اس قاتلانہ پہلو کی بات کرتے ہوئے جون ایلیا کہتے ہیں:
‘‘یہ لوگ کون ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب ہی کے قبیلے سے کیوں اٹھتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتے، افلاطون اور دیمقراطیس کے گروہ کبھی ایک دوسرے سے نہیں ٹکرائے، فارابی کے مکتبہء خیال نے شیخ شہاب کی خانقاہ کے مفکروں پر کبھی حملہ نہیں کیا، ایتھنس کے ہیکل کے دروازے سے کبھی کوئی ایسا ہجوم نہیں نکلا جس نے انسانوں کی گردنیں اڑا دی ہوں اور شہروں کو آگ لگا دی ہو، فتنہ وفساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان ہی کیوں بھڑکتی ہے؟’’
چنانچہ اپنے (کم مفید) مثبت اور (خطرناک) منفی پہلوؤں سمیت مذہب فی الحال ہمارے درمیان باقی رہے گا کیونکہ یہ ایسی انسانی ضروریات پوری کرتا ہے جو جب تک کرہ ارض پر علم کا نور نہیں چھا جاتا یہ ضروریات باقی رہیں گی، مذہب کے مسئلے کا حل ایک ایسے نظام میں مضمر ہے جو اس کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرے اور منفی پہلوؤں پر حد لگائے، ایک ایسا نظام جو مؤمنین کے لیے خدا کے سارے گھر کھول دے اور مذہب کے تاجروں کو اس کا استحصال کرنے سے روکے، ایسا نظام جو ہمارے دین اور دنیا دونوں کی حفاظت کی ضمانت دے سکے اور ہمیں ان دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور نہ کرے، اس نظام کا خلاصہ صرف ایک لفظ میں مضمر ہے جس کے نور نے سوائے چند اندھیرے جزیروں کے ساری کائنات کو منور کیا ہوا ہے، یہ نظام ہے ‘‘ سیکولرازم’’۔
URL for English article:
https://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/is-religion-itself-problem/d/12086
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/is-religion-itself-problem-/d/12087