ناستک درانی ، نیو ایج اسلام
31 اگست 2013
مفتیء زماں جناب شیخ یوسف
القرضاوی فرماتے ہیں کہ شریعت کی شان الگ ہے اور وہ قوانین جو دستور ساز اسمبلیوں میں
بنائے جاتے ہیں ان کی بات الگ ہے، وہ سختی سے دستور ساز اسمبلیوں کے بنائے ہوئے قوانین
کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ وہ انسان کے وضع کردہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی بہترین
قانون ہے تو وہ صرف اور صرف اسلامی شریعت ہے، اس بات کی وضاحت وہ اپنی کتاب ❞الشریعۃ❝ کے صفحہ 28 اور
29 میں یوں کرتے ہیں:
❞شریعت
اور قانون میں بنیادی فرق کئی پہلو لیے ہوئے ہے: پہلا پہلو یہ ہے کہ قانون انسان کا
بنایا ہوا ہے جبکہ شریعت اللہ کی طرف سے ہے، شریعت اور قانون دونوں میں اسے بنانے والے
کی صفات کی تجلی ہوتی ہے، قانون انسان کا بنایا ہوا ہے اور اس میں انسانوں کا نقص،
عجز اور کمزور حیلت نمایاں ہے، پھر یہ قانون تغیر وتبدل کا شکار رہتا ہے جسے ہم ترقی
کہتے ہیں۔۔ لہذا قانون ہمیشہ ناقص ہوتا ہے اور کبھی کمال کی حد تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ
اسے بنانے والے میں ہی کمال کی صفت نہیں ہے جبکہ شریعت کو بنانے والا اللہ ہے اور اللہ
کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں، اللہ نے اسلامی شریعت کو ایک ثابت اور مکمل قانون کی
حیثیت سے وضع کیا ہے تاکہ افراد، گروہوں اور ممالک کو منظم کیا جاسکے❝
مجھے یقین ہے کہ ہمارے ہر
دل عزیز شیخ قرضاوی کو معلوم ہوگا کہ اللہ کے کلام میں تبدیلی، منسوخی، رفع اور بھول
چوک ہوئی ہے:
مَا نَنۡسَخۡ
مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ
نُنۡسِہَا نَاۡتِ
بِخَیۡرٍ
مِّنۡہَا
(البقرۃ 106)
(ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے
بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں)
وَ اِذَا بَدَّلۡنَاۤ
اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ ۙ
وَّ اللّٰہُ اَعۡلَمُ
بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوۡۤا
اِنَّمَاۤ اَنۡتَ
مُفۡتَر (النحل 101)
(اور جب ہم کوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں۔ اور اللہ جو کچھ
نازل فرماتا ہے اسے خوب جانتا ہے تو کافر کہتے ہیں کہ تم تو اپنی طرف سے بنا لاتے ہو)
یَمۡحُوا
اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ
ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ
اُمُّ الۡکِتٰبِ
(الرعد 39)
(اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسکو چاہتا ہے باقی رکھتا
ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے۔)
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن
جو شریعت اور دین کا منبع ہے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بدلتے زمینی
حقائق کے پیشِ نظر تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وحی نے اگلے
23 سالوں کو پہلے سے دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی تاکہ آنے والے اگلے سالوں کے لیے
دعوت کے آغاز میں یکمشت مناسب شریعت وضع کردی جائے، اس کے برعکس آیات بدلتی صورتِ حال
کے تحت تواتر سے نازل ہوتی رہیں اور ایک دوسرے کو منسوخ کرتی اور بدلتی رہیں۔
اگرچہ ہمیں شیخ صاحب کے علم
پر قطعی کوئی شک نہیں ہے تاہم وہ اپنی اسی کتاب کے صفحہ 28 میں فرماتے ہیں:
❞قانون
عارضی قاعدے ہیں جنہیں جماعت آج وضع کرتی ہے لیکن جب جماعت بدلتی ہے تو انہیں بدلنا
پڑتا ہے لیکن شریعت کے قاعدے ہمیشہ ثابت رہتے ہوئے کوئی تغیر اور تبدل قبول نہیں کرتے❝
تاہم حقیقت یہ ہے کہ شریعت
کے قوانین صحابہ اور تابعین پر قطعی طور پر واضح نہیں تھے، بلکہ یہ کبھی مکمل ہی نہیں
ہوئے تھے، کیونکہ اگر شریعت کے قوانین مکمل ہوتے تو عباسی دور میں فقہاء کی فوج میں
سے ہر کوئی اس کے احکام اپنے طریقے سے وضع نہ کر رہا ہوتا جس کی وجہ سے شریعت کے قوانین
میں تضادات اور اختلافات پیدا ہوئے۔
شریعت کا بنیادی ابتدائی ڈھانچہ
وحی کے 23 سالوں میں وضع ہوتا رہا مگر مکمل نہ ہوسکا، اس کا ثبوت خلفائے راشدین کے
وہ فیصلے ہیں جو انہوں نے ذاتی طور پر اپنی سمجھ اور حالات کے مطابق کیے، انہوں نے
حدود روکیں، حدود میں اضافہ کیا، فرائض منسوخ کیے اور حلال کو حرام کیا، رمادہ کے سال
(عام الرمادۃ) میں حضرت عمر نے چوری کی حد ساقط کردی، المؤلفۃ قلوبہم کا فریضہ جو براہ
راست قرآنی حکم تھا اسے منسوخ کیا اور (عورتوں سے) متعہ کو حرام کردیا جو حلال تھا۔
چوتھی صدی ہجری کے آتے ہی
شریعت کے احکام جو پہلے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے ہزاروں احکامات میں
بدل گئے، اور فقہی مسائل بارہ ہزار کی حد تجاوز کر گئے، یہ شریعت کی ایسی مشین تھی
جو نہ رک رہی تھی اور نا ہی مکمل ہونے پا رہی تھی، اس کے با وجود اسلامی شریعت نا مکمل
ہی رہی اور فتاوی کے کنکر مسلمانوں کے سروں پر بارش بن کر گرتے رہے یہاں تک کے مصری
دار الافتاء کے اعداد وشمار کے مطابق شیخ علی جمعہ کے دور میں روزانہ ایک ہزار فتوے
دیے جاتے تھے؟!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی وفات کے بعد شریعت کی عدم تکمیل کے سبب صحابہ اور تابعین نے ایک دوسرے کی گردنیں
اتاریں کیونکہ شریعت نے واضح طور پر ان غلطیوں کی نشان دہی نہیں کی تھی جن سے گریز
کرنا تھا اور ان سزاؤوں کا تعین نہیں کیا جنہیں لاگو کرنا تھا، چنانچہ فتنوں پر فتنے
ہوتے رہے، پہلا اندوہ ناک واقعہ حضرت عثمان کے دور میں ہوا جنہوں نے بیت المال کی دولت
اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کردی اور اپنے بیویوں اور کنیزوں کو مقبوضہ
ممالک سے لوٹی ہوئی دولت کے ہیرے جواہرات سے لاد دیا، اور جس طرح اخوان کے چہیتے صدر
مرسی کرتے رہے، حضرت عثمان نے کلیدی مناصب بنی امیہ کے اپنے رشتہ داروں میں بانٹ دیے
کیونکہ حضرت عثمان کو شریعت میں ایسا کوئی متن نہیں ملا جو اس فعل کو حرام قرار دے
سکے اور اس پر سزا تجویز کرے، لہذا انہوں نے یہ بندر بانٹ اس یقین کے ساتھ جاری رکھی
کہ وہ کوئی گناہ نہیں کر رہے چنانچہ دیگر صحابہ نے انہیں قتل کردیا جبکہ وہ اپنے گھر
میں جائے نماز پر بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے اور قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے، اس لیے کہ
انہوں نے انہیں اتنا کچھ نہیں دیا تھا جتنا کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو دیا وہ
بھی کسی دینی وجہ سے نہیں، کیونکہ اگر ہم دین کو وجہ بنائیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالی عنہا کے اس قول کو مدِ نظر رکھیں جو انہوں نے حضرت عثمان کے لیے کہا
تھا کہ: ❞اقتلوا
نعثلاً فقد کفر❝
یعنی اس نعثل کو قتل کر دو کہ یہ کافر ہو گیا ہے (ابن العبری، تاریخ مختصر الدول، جلد
1، صفحہ 55) تو خلیفہ اور صحابہ دونوں پر حد لاگو ہوگی۔
باعثِ حیرت امر یہ ہے کہ جن
لوگوں نے خلیفہ کو قتل کیا ان پر کوئی ❞شرعی
حد❝
جاری نہیں کی گئی محض اس لیے کہ وہ صحابہ اور صحابہ کی اولادیں تھیں، اس کے بعد ہی
یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ کیا حاکم کے خلاف جانا حلال ہے یا حرام؟ اور نتیجہ یہ نکالا
گیا کہ حاکم کے خلاف جانا حرام ہے جب تک اس سے واضح کفر سرزرد نہ ہوجائے، یوں قتلِ
عثمان کے فتنہ نے شریعت کے نقائص کو اجاگر کیا، کیونکہ یہ اظہر من الشمس ہے کہ شریعت
حدود کے اطلاق میں صحابہ میں معاشرتی رتبے کے اعتبار سے فرق کرتی ہے، یہ خلیفہ اور
رعیت میں بھی فرق کرتی ہے، مالک اور غلام، مرد وزن میں بھی فرق کرتی ہے، یوں چاروں
خلفائے راشدین کے فیصلے ایک دوسرے سے مختلف تھے، اگر شریعت مکمل ہوتی تو اسلامی تاریخ
فرقوں کی خونین جنگوں سے بھری نہ ہوتی، نا ہی خلیفے ایک دوسرے پر کفر اور صحیح اسلام
سے ہٹنے کا الزام لگا کر ایک دوسرے کا تختہ پلٹتے، یہ صورتِ حال آج تک جاری ہے مگر
کوئی بھی فرقہ ہمیں ❞صحیح
اسلام❝
بتانے سے قاصر ہے تاکہ اس خونین مسلکی لڑائی کے آگے بند باندھا جاسکے۔
قانون کے لیے یہ بہت ضروری
ہے کہ وہ کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے موجود ہو تاکہ اس واقعہ پر بغیر کسی اختلاف
اور تضاد کے اپنا حکم صادر کر سکے اور عوام الناس کو بھی یہ قانون پہلے سے معلوم ہونا
چاہیے تاکہ اس قانون کو لاگو کرتے وقت انصاف ہوسکے، جبکہ اسلامی قوانین واقعہ کے رونما
ہونے کے بعد آتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو شریعت کے قوانین کی
قبل از وقوع واقعہ خبر نہیں ہوتی تھی، اور ہر اگلا قانون سابقہ کو منسوخ کردیتا تھا،
اور جس طریقہ سے عثمانی مصحف جمع کیا گیا اس میں ناسخ اور منسوخ اس بری طرح سے خلط
ملط ہوئے کہ شرعی احکام میں تضادات سے بچنا ممکن ہی نہیں رہا۔
مکی دور میں مستقبل کی تصویر
واضح نہیں تھی، لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردِ عمل زمینی واقعات کی تبدیلیوں
کے مطابق ہوتا تھا، شرعی قانون واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد آتا تھا، مسلمان پہلے
عمل کر چکا ہوتا تھا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اس کے حرام اور حلال
کے بارے میں استفسار کرتا تھا جس پر نبی کریم حضرت جبریل سے اس پر نئے قانون کے بارے
میں استفسار فرماتے، یہی صورتِ حال عہدِ نبوی سے لے کر آج تک جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ
مسلمان مستقبل کے پلان نہیں بناتا کہ مستقبل کا علم اللہ کے پاس ہے، نا ہی وہ ان نظریات
سے واقف ہے جو صدیوں پہلے مصریوں یا رافدیوں کے پاس تھے، یا جیسے نظریات ارسطو، افلاطون
اور سولون ودیگر کے ہاں تھے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان آج تک بے یقینی کی سی کیفیت میں
رہتا ہے، پہلے وہ عمل کر گزرتا ہے پھر وہ مفتی صاحب کے پاس اس مسئلہ کے بارے دریافت
کرنے جاتا ہے جبکہ کسی بھی مفتی کو حضرت جبریل کی سہولت دستیاب نہیں۔
صحابہ کو بھی یہ خبر نہیں
ہوتی تھی کہ کل ان سے کیا مطلوب ہے، کیا وہ گزشتہ دنوں کے شرعی قوانین کے مطابق ہوگا
یہ اس میں کوئی تبدیلیاں واقع ہوگئیں ہیں؟ شراب کبھی حلال تو کبھی حرام ہوتی تھی، اسی
طرح متعہ کبھی حلال تو کبھی حرام۔۔ آج بھی مسلمانوں کے ہاں شرعی قوانین کا ایک ایسا
بہاؤ ہے جو رکنے میں نہیں آتا، پہلا قانون ساز قرآن تھا، پھر ابو بکر، پھر عمر، پھر
عثمان، پھر علی، بلکہ فوجوں کے سپہ سالار بھی حسبِ ضرورت شریعت سازی کرتے تھے، الغرض
ہر کوئی اپنے آپ میں ایک شریعت ساز تھا اور ہر کسی کی شریعت سازی دوسرے سے مختلف ہوتی
تھی، یہ منظرنامہ ہمارے استاد شیخ قرضاوی کو جھوٹا بنا دیتا ہے جو کہتے ہیں کہ قانون
ساز اداروں کے مقابلے میں شریعت میں کمال ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ قرضاوی
صاحب اپنی فیصلہ کن بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
❞کسی
مکلف کا ایسا کوئی فعل نہیں جو شریعت کے دائرہ کار سے باہر ہو، مکلف جو بھی عمل کرتا
ہے شریعت اسے بتاتی ہے کہ یہ حرام ہے اور یہ حلال ہے، یہ فرض ہے یا مستحب ہے یا مکروہ
ہے، ہمارے پاس ایک فقہ ہے جس کا نام شرعی سیاست ہے، عبادات کی فقہ ہے، خاندان کی فقہ
ہے، جرائم اور سزاؤوں کی فقہ ہے، وراثت کی فقہ ہے، دستوری فقہ ہے، بین الاقوامی تعلقات
کی فقہ ہے اور جہاد، امن اور جنگ کی فقہ ہے❝ (الجزیرہ کے پروگرام
الشریعۃ والحیاۃ کی دو قسطیں بعنوان ❞الدین
والسیاسۃ❝)
جبکہ یہی شیخ قرضاوی اپنی
کتاب ❞ملامح
المجتمع المسلم الذی ننشدہ❝
کے صفحہ 167 میں فرماتے ہیں:
❞قرآن
میں شرعی احکامات کی آیات دس آیتوں سے زیادہ نہیں❝
اب اگر ہم یہ پوچھیں کہ جناب
محض دس آیات سے لاکھوں احکامات کیسے کشید کر لیے گئے؟ تو شیخ صاحب فرماتے ہیں:
❞شریعت
اور اخلاق وآداب میں قطعیات ہیں، ان قطعی احکامات کے سوا باقی کچھ بھی لوگوں کی مرضی
کے لیے نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ یہاں اصولِ فقہ وحدیث اور تفسیر میں ائمہ اسلام کے وضع
کردہ اصول اور قاعدے ہیں❝
(سابقہ مصدر)
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت
محض دس احکامات پر مشتمل ہے جس میں ائمہ اسلام نے لاکھوں احکامات گھسیڑ کر رائی کا
پہاڑ بنا دیا جبکہ ان کا حضرت جبریل علیہ السلام سے کسی طرح کا کوئی رابطہ نہیں تھا،
اس صورتِ حال کے پشِ نظر شریعت بھی دراصل انسانی ہاتھ کی وضع کردہ ہی بنتی ہے، اور
آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان کا بنایا ہوا قانون ہی کامل ہے اور صرف وہی لوگوں
کے مسائل حل کرنے پر قادر ہے کیونکہ یہ قوانین لوگوں کے جدید مسائل کو پیشِ نظر رکھ
کر ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے قانون ساز اداروں میں بنائے جاتے ہیں یوں تمام لوگ
اس قانون سازی میں حصہ دار ہوتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/sharia-law-/d/13295