ناستک درانی، نیو ایج اسلام
16اگست، 2013
اگرچہ یہ سوال بہت اہم اور حساس ہے تاہم یہ تمام تر مشرقی تحقیقوں میں بڑی شدت سے اٹھایا گیا ہے اور ہمیں بھی یہ سوال خود سے کرنا ہوگا مگر دل سے نہیں عقل سے اور نقل سے بھی پہلے، جواب کا مقصد اسلام کو فتح مند کرنا یا اس میں کمی نکالنا نہیں ہونا چاہیے، جواب کی مقصدیت میں ملک وقوم کی مصلحت ہونی چاہیے کیونکہ ہمارے ایک طرف اسلام ہے اور دوسری طرف انسان کی جدید ترقی۔
موضوع پر آنے کے لیے سوال کو آسان بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے:
کیا ہماری پسماندگی علمی ہے یا مذہبی؟
حسبِ عادت اہلِ دین اس کا جواب یہ دیں گے کہ ہماری پسماندگی کی وجہ مسلمانوں میں ایمان کی کمی ہے جس کی وجہ سے اللہ ان سے دستبردار ہوگیا ہے جبکہ اہلِ مغرب صلیب اور یسوع علیہ السلام سے مخلص رہے لہذا اللہ نے انہیں اپنی نصرت سے نوازا یا پھر اللہ انہیں دنیا میں ڈھیل دے رہا ہے اور یہ کہ ان کی دنیا ہے اور ہماری آخرت ہے، یہ توجیہ خرافت کی طرف ایک چھلانگ کے سوا کچھ نہیں تاہم تعجب کی بات یہ ہے کہ مذہبی طبقہ میڈیا میں اسی توجیہ کی تشہیر میں سرگرداں نظر آتا ہے۔
مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب پر بات کرتے ہوئے شیوخِ اسلام یہ بات بھول جاتے ہیں کہ چودہ سو سالہ تاریخ میں یہی لوگ دینِ اسلام کے ٹھیکہ داران تھے، اور اب بھی ان کا یہ دعوی قائم ودائم ہے لہذا اگر پسماندگی کی وجہ مذہبی پہلو لیے ہوئے ہے تو وہ اس پسماندگی کے سب سے پہلے ذمہ دار ہوں گے اور یوں اس معاملہ پر ان پر مزید بھروسہ محض بے وقوفی ہی ہوگی کیونکہ چودہ صدیوں سے اللہ کے دین کی جو ذمہ داری انہوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی تھی وہ اس کا حق ادا کرنے میں ناکام رہے، اگر جواباً وہ یہ کہیں کہ مؤمنین کی اندرونی ایمانی حالت پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں تو ہم کہیں گے کہ جناب آپ نے ٹھیک فرمایا، مگر آپ تو لوگوں کے دلوں کے اندر کے ایمان کے بھی چوکیدار بنے رہے تھے، جامعہ ازہر کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے 2004 کے سمری آف ورک پر ایک نظر ڈال کر یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ اس انسٹی ٹیوٹ نے کتنے لوگوں کو ایمان کی سچائی کے الزام میں پکڑا۔
چونکہ دین کی حفاظت کے لیے تاریخ میں یہی لوگ جلاد بھی تھے، مدعی بھی تھے اور قاضی بھی، اور چونکہ ان کا دعوی ہے کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ ان کا اپنے دین سے دور ہونا ہے، اور چونکہ ساری تاریخ میں یہی لوگ زمین پر دین کے ٹھیکہ داران تھے، چنانچہ جس نے اپنے دین کے حق میں اتنی بڑی کوتاہی کی ہو اس پر اب نا تو دین، نا ہی وطن اور نا ہی لوگوں کے معاملات کے ضمن میں بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
شیوخِ اسلام اپنی اس تاریخی غلطی سے نہیں بچ سکتے، ان کے پاس یہ اعتراف کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ لوگوں کا ایمان سچا تھا، جس کے بعد انہیں سادہ لوح مسلمانوں پر سے اپنے لگائے ہوئے کفر کے فتوے واپس لینے ہوں گے جنہوں نے کبھی اسلام کے نام پر دولت کمانے کی کوشش نہیں کی، نا انہوں نے عطیات لیے، نا فطرات لیے، نہ زکاۃ لی اور نا ہی دین کی حفاظت کے نام پر شاہی وسلطانی سرپرستی، انہوں نے اگر اس دین کی حفاظت کی تو محض اس لیے کہ وہ ان کا اپنا دین تھا اور ان کی ثقافت اور شناخت کا ایک اہم جزو تھا، انہوں نے اس دین کی تب بھی حفاظت کی جب وہ غربت کو کھا رہے تھے اور غربت انہیں کھا رہی تھی، کیونکہ وہ اپنے دین سے محبت کرتے تھے اور اس سے کسی حال میں دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔
اس اعتراف کے بعد انہیں یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ ہماری پسماندگی علمی ہے، اور یہ اعتراف کرنے کے بعد انہیں پیچھے ہٹ جانا چاہیے کیونکہ مختلف علوم کی علمی تحقیق میں مذہبی رہنماؤں کا کوئی کردار نہیں، بلکہ یہ فلاسفہ، معاشریات دان، تاریخ دان، ریاضی دان، طبیعات دان اور کیمیاء گروں کا کام ہے، اور یہ سارے علوم دین کے دائرہ کار سے باہر ہیں اور مذہبی رہنما انہیں نہیں سمجھتے کیونکہ وہ آج بھی دسویں صدی عیسوی میں جیتے ہیں اور امت کو وہیں لے جانا چاہتے ہیں، اس کے باوجود وہ ایسی قوموں سے مقابلہ کرنے کے خواہاں ہیں جو اکیسویں صدی میں جیتی ہیں؟۔۔۔ جناب آپ مقابلے سے باہر ہیں۔
کیا اس سے یہ لگتا ہے کہ اسلام ہی امت کی پسماندگی کا سبب ہے؟ یہ سوال پہلی چار صدیوں میں امت کی ترقی کو نظر انداز کر رہا ہے۔۔ لہذا اسلام پسماندگی کی وجہ نہیں ہے!!
تو اگر بات یہی ہے اور یہ ترقی کا دین ہے تو آج ہم پسماندہ کیوں ہیں؟
لگتا ہے کہ معاملہ میں کوئی مکسنگ ہے جس سے کچھ التباس سا پیدا ہو رہا ہے، اصل بات یہ ہے کہ دین اپنے آپ میں اس مسئلہ کا فریق نہیں ہے، بلکہ وہ کھیل سے باہر ہے اور پسماندگی کا ذمہ دار نہیں ہے بالکل جس طرح وہ ترقی کا بھی ذمہ دار نہیں ہے، اسلام بطور مذہب رازی، فارابی اور ابن الہیثم کے کارناموں کا سبب نہیں تھا، نا ہی وہ ان جیسوں کے غائب ہونے کا سبب ہے، اگرچہ انہی لوگوں کے کندھوں پر اسلام کی بندوق رکھ کر اسلام کا دفاع کیا جاتا ہے جبکہ اسلام اس سے بری ہے، اسی اسلام سے مشرقی ایشیا کے کچھ ممالک نے اتنی ترقی کی کہ انہیں ایشین ٹائگر کہا جانے لگا اور اسی اسلام سے مسلمانوں کے باقی ممالک پسماندگی کا شکار ہیں۔
مسئلہ دین میں نہیں ہے بلکہ کسی بھی دین ومذہب میں نہیں ہے، بلکہ اس دین سے فائدہ اٹھانے کی کیفیت میں ہے، کسی نے اس سے ترقی کے لیے فائدہ اٹھایا اور کسی نے اس کا فائدہ پسماندگی کے لیے اٹھایا۔
کسی نے دین کا احترام کیا اور اسے سیاست، ملاؤوں اور بادشاہوں کے کھیل سے دور رکھا، اور کوئی اسے آج تک ایک فکری لکیر کی حفاظت کے لیے استعمال کر رہا ہے تاکہ اس کی دھاک بنی رہے۔
یہ وہ موقف ہے جس کی نمائندگی ہر وہ شخص کرتا ہے جس نے اسلام کو کمانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے شعور کو سلطانی خواہشات کے مطابق تشکیل دے سکتے ہیں، اور یہ شعور وہ شعور ہے جس کے مطابق اس کے اپنے سوا کچھ اور درست ہو ہی نہیں سکتا اور جو اسے نہیں مانتا وہ کافر ہے، یہی وجہ ہے کہ مخالف رائے کبھی ظاہر ہی نہیں ہوسکی اور اسی لیے مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی کوئی اپوزیشن نمودار نہیں ہوئی، اور اگر ہوئی بھی تو اس کا فکری ذریعہ اسی اسلام کی الگ تفہیم تھی، تاہم ایسے معاشرے میں جہاں نجات پانے والا صرف ایک ہی فرقہ ہوسکتا ہے ان کا انجام وہی ہوا جو ایسے ماحول میں ہوسکتا تھا۔
چنانچہ نا تو دین اور نا ہی ایمان کا کسی ترقی یا پسماندگی سے کوئی تعلق ہے، پسماندگی کا تعلق تو ان مفاد پرست ملاؤوں کے اس جرم سے ہے جو انہوں نے پوری ایک امت کے حق میں اسلام اور مسلمانوں کی ٹھیکہ داری کی آڑ میں دس صدیوں تک جاری رکھا، یوں دس صدیوں تک اس کا پاسبان ہی اسے کھوکھلا کرتا رہا۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/is-islam-reason-muslim’s-backwardness/d/13049