ناستک درانی، نیو ایج اسلام
13جنوری، 2014
محراب
مساجد میں محرابیں ہوتی ہیں جو قبلہ کے رخ کی طرف دلالت کرتی ہیں، امام جب نمازیوں کی امامت کرتا ہے تو وہ اسی کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، ان ساری محرابوں کا رخ مکہ کی طرف ہوتا ہے، قرآن مجید میں لفظ ”محراب“ وارد ہوا ہے: فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ (ترجمہ: تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا) 1، یعنی عبادت کی جگہ اور مسجد کا درمیان 2، جاہلیوں کی لغت میں یہ لفظ اسی معنی میں وارد ہوا ہے۔
لفظ محراب مطلق طور پر مکہ کی طرف سمت کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ اس خاص نشان زد جگہ کے لیے مخصوص ہے جو مسجد کی دیواروں میں اسے ممتاز بناتی ہے اور کعبہ کے رخ کا پتہ دیتی ہے، بعد میں محرابیں بنانے میں بخوبی فن کا مظاہرہ کیا گیا، البتہ لفظ قبلہ محراب اور نماز کے رخ کا معنی دیتا ہے 3۔
بعض مستشرقین کا کہنا ہے کہ لفظ کا اصل غیر معروف ہے، تاہم بعض دیگر مستشرقین وعلمائے لغت کا خیال ہے کہ اس لفظ کی اصل ”حربہ“ یا ”حریب“ ہے، یا اس کا اصل جنوبی عربی لفظ ”مکراب“ ہے جس سے حبشی زبان میں لفظ ”مکوراب“ (Mekwrab) بنتا ہے جس کا مطلب ہے ”عبادت گاہ“ تاہم اب ان آراء کی تصدیق نہیں ہوسکتی 4۔
نماز میں فاتحہ پڑھنا
نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا زیادہ تر اقوال میں نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ”اس کی نماز نہیں جس نے اس میں کتاب کی فاتحہ نہیں پڑھی“، اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ”جس نے ایسی نماز پڑھی جس میں کتاب کی فاتحہ نہ پڑھی گئی ہو وہ ناقص ہے“، اور چونکہ فاتحہ نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے لہذا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ اس کا نزول نماز کے حکم کے ساتھ ایک ہی دن میں ہوا ہوگا۔
تاہم سورہ فاتحہ وحی کے نزول کے ایک عرصہ بعد نازل ہوئی، یہ مکی سورت ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مدنی سورت ہے اور یہ بھی کہ یہ مکی مدنی سورت ہے، مروی ہے کہ جب قبلہ تبدیل ہوا تو جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ سورہ فاتحہ نماز کی رکن ہے، ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر آراء میں قبلہ کی تبدیلی سنہ دو ہجری کو مدینہ میں ہوئی، لہذا اسے نماز کا رکن بنانے کا حکم اسی دور میں دیا گیا ہوگا لہذا ایسی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں کہ: ”ایسا نہیں دیکھا گیا کہ کبھی اسلام میں نماز بغیر فاتحہ کے پڑھی گئی ہو“ 5۔
نماز میں بولنا
نماز کے دوران بولنا جائز نہیں کیونکہ نمازی اللہ تعالی کے حضور اس کی عبادت اور اس کا قرب حاصل کر رہا ہوتا ہے، لہذا کسی سے بات کرنا یا کسی کی بات کا جواب دینا جائز نہیں، اگر انسان کسی عظیم شخص کی مجلس میں کسی سے نہیں بولتا تو عظیم خالق کی عبادت کے دوران کسی سے بات کرنا جیسے جائز ہوسکتا ہے، اسلام نے اس کا اقرار کیا ہے اور نماز کے حکم کے نزول کے کچھ عرصہ بعد اسے مسلمانوں پر فرض کردیا ہے، تاہم علماء کا اس پر اختلاف ہے کہ یہ حکم ہجرت سے پہلے تھا یا ہجرت کے بعد۔
نماز میں بولنے کو حرام قرار دیے جانے سے قبل نمازی سلام کرنے والے کو سلام کا جواب دیتے تھے، اور جو بھی ان سے بات کرتا اس سے بات کرتے اور اپنی ضروریات پوری کرتے رہتے، انہیں اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا تھا تا آنکہ نماز کے دوران گفتگو کو حرام قرار دے دیا گیا۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نماز میں بولتے تھے، ہم میں سے کوئی اپنے ساتھی سے بضرورت بات کرتا حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (ترجمہ: سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص کر) درمیانی نماز کی اور الله کے لیے ادب سے کھڑے رہا کرو) تو ہمیں خاموشی کا حکم دے دیا گیا، ”قوموا لله قانتين“ عکرمہ سے مروی ہے فرمایا: وہ نماز میں گفتگو کیا کرتے تھے، نماز کے دوران کسی شخص کا خادم آتا اور اپنی ضرورت کے لیے اس سے بات کرتا تو انہیں بولنے سے منع کردیا گیا 6۔
نماز کے دوران سلام کرنے والے کو سلام کا جواب دیا جاتا تھا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: ”حبشہ ہجرت سے قبل ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے دوران سلام کرتے تو وہ ہمیں جواب دیا کرتے تھے، تو جب ہم واپس آئے تو میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے مجھے جواب نہیں دیا، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: میں نے تمہیں اس لیے جواب نہیں دیا کیونکہ میں نماز میں تھا اللہ تعالیٰ جو نیا حکم چاہتا ہے دیتا ہے اور اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ تم نماز میں باتیں نہ کرو 7۔
علماء میں اس بات پر اختلاف ہے کہ نماز میں گفتگو کب حرام ہوئی، بعض کا خیال ہے یہ حکم مدینہ میں دیا گیا کیونکہ جس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے وہ مدنی آیت ہے، لہذا یہ حکم ہجرت کے بعد دیا گیا، جبکہ بعض دیگر کا خیال ہے یہ حکم مکہ میں دیا گیا کیونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ مکہ میں نماز میں گفتگو اور سلام کچھ عرصہ تک جائز تھا، تاہم جب وہ حبشہ سے اپنی ہجرت سے واپس آئے اور مکہ میں مدینہ ہجرت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو انہوں نے پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں گفتگو اور سلام کا جواب دینے سے منع فرما رہے تھے، لہذا نماز میں گفتگو کو حرام قرار دینے کا حکم مکہ میں ہجرت سے کچھ عرصہ قبل نازل ہوا تاہم علماء نے درست طور پر اس عرصہ کا تعین نہیں کیا ہے 8۔
حوالہ جات:
1- آل عمران آیت 39۔
2- المفردات، الاصفہانی 110۔
3- المفردات، الاصفہانی 400۔
4- المفردات، الاصفہانی 110، Shorter, P., 343۔
5- دیکھیے اسباب النزول 11 اور اس سے آگے۔
6- تفسیر الطبری 354/2، تفسیر ابن کثیر 294/1۔
7- تفسیر ابن کثیر 294/1، تفسیر الطبری 354/2۔
8- تفسیر ابن کثیر 294/1، تفسیر الطبری 354/2۔
URL for Part 1:
URL for Part 2:
URL for Part 3:
URL for Part 4:
URL for Part 5:
URL for Part 6:
URL for Part 7:
URL for Part 8:
URL for Part 9:
URL for Part 10:
URL for Part 11:
URL for Part 12:
URL for Part 13:
: URL for Part 14:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-arch,-reciting-part-15/d/35248