ناستک درانی ، نیو ایج اسلام
13 دسمبر، 2013
سیرت اور تفاسیر کی کتابوں پر تحقیق سے محقق اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ پانچوں نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے کے سالوں بعد فرض کی گئیں، اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ نمازوں کے حکم سے قبل تہجد پڑھتے اور رات کا قیام کرتے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اسلام کے آغاز پر ”رات کا قیام“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت پر واجب تھا، وہ اس حال پر ایک سال یا دس سال تک رہے پھر اسے پانچ نمازوں سے منسوخ کردیا گیا 1۔
دیگر سے وارد ہوا ہے کہ: جب اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ”يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ“ اتاری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حال میں دس سال تک رات کا قیام کرتے رہے جیسا کہ اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا تھا، صحابہ کا ایک گروہ بھی ان کے ساتھ قیام کرتا تھا تو اللہ تعالی نے دس سال بعد نازل کیا: ”إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ“ تا ”وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ“ چنانچہ اللہ تعالی نے دس سال بعد ان پر تخفیف کی 2، یہ بھی وارد ہوا ہے کہ جب ”يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ“ نازل ہوئی تو وہ ایک سال تک قیام کرتے رہے تا آنکہ ان کے پیر اور پنڈلیاں سوج گئیں، پھر جب ”فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ“ نازل ہوئی تو لوگوں کو راحت ہوئی 3، یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ: جب سورہ مزمل کا شروع کا حصہ نازل ہوا تو وہ رات کو اتنا ہی قیام کرتے تھے جتنا کہ ماہ رمضان میں کرتے تھے، اور اس کے شروع اور آخر میں کوئی ایک سال کی مدت ہے 4۔
اوپر کی مذکورہ باتیں سورہ مزمل کی تفسیر میں علماء کی روایات کا خلاصہ ہے، یہ سورت پرانی سورتوں میں سے ایک ہے، روایات میں ہے کہ یہ ”اقرا“ کے بعد نازل ہونے والی دوسری سورت تھی، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مکی سورتوں میں سے تیسری سورت ہے جو ”المدثر“ کے بعد نازل ہوئی، جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ چوتھی سورت تھی 5، بہرحال اس سورت کی ترتیبِ نزول کے بارے میں جو بھی کہا جائے، اس بات پر اجماع ضرور ہے کہ یہ پرانی سورتوں میں سے ہے اور کسی نے اسے میرے مذکور اعداد سے متاخر نہیں کیا، اس طرح رات کا قیام اور نازل شدہ قرآن کی تلاوت کا حکم وحی کے نزول کے شروع کے سالوں میں دیا گیا۔
علماء نے قیامِ لیل میں تخفیف اور قرآنِ مجید کی حسبِ استطاعت تلاوت کا جو ذکر کیا ہے، اس سے یہ لازم قرار پاتا ہے ہے کہ اس کا نزول مدینہ میں ہو نا کہ مکہ میں، کیونکہ سورہ مزمل کا آخر یعنی بیسویں آیت یثرب میں نازل ہوئی، اس کی تصدیق آیت میں زکات کے حکم سے بھی ہوتی ہے: ”وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ“ 6، کیونکہ زکات کا حکم مدینہ میں دیا گیا تھا مکہ میں نہیں، پھر آیت میں یہ بھی ہے کہ: ”وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ“ اور قتال بھی مدینہ میں ہی فرض ہوا تھا، اس طرح علماء نے جو ذکر کیا ہے کہ رات کا قیام مکہ میں تھا اور یہ کہ وہ ایک سال یا دس سال تھا پھر اس کی منسوخی کا جو ذکر کرتے ہیں وہ ان کے ہی ذکر کردہ قیام اللیل سے تعارض رکھتا ہے، مزید برآں وہ حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث بھی روایت کرتے ہیں جس کا متن اس طرح سے ہے: حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائے نماز بچھا رہی تھی تاکہ وہ رات کو اس پر نماز پڑھ سکیں، تو لوگوں کو معلوم ہوگیا اور وہ جمع ہوگئے تو وہ ایسے نکلے جیسے غصہ میں ہوں اور وہ ان پر رحیم تھے، انہیں خدشہ تھا کہ ان پر رات کا قیام نہ لکھ دیا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو، ان اعمال کی ذمہ داری اٹھاؤ جو تم برداشت کر سکتے ہو، اللہ ثواب سے بے زار نہیں ہوتا تا آنکہ تم عمل سے بے زار ہوجاؤ، سب سے اچھے اعمال وہی ہیں جن پر تم قائم رہو 7، اسی معنی میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور حدیث بھی روایت کی جاتی ہے جس کا متن کچھ اس طرح سے ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائے نماز خریدی تو وہ اس پر رات کے پہلے پہر سے قیام کرتے تھے، تو لوگوں کو ان کی نماز کی خبر ہوگئی اور لوگوں کی ایک جماعت اکٹھی ہوگئی، تو جب انہوں نے ان کا اجتماع دیکھا تو اس سے کراہت کی اور انہیں خدشہ ہوا کہ یہ کہیں ان پر نہ لکھ دی جائے، تو وہ گھر میں ایسے داخل ہوئے جیسے غصہ میں ہوں، تو لوگ کھانستے رہے حتی کہ وہ ان کے پاس باہر چلے گئے اور فرمایا: اللہ تب تک بے زار نہیں ہوتا جب تک کہ تم بے زار نہ ہوجاؤ (یعنی ثواب سے) تو اس عمل کی ذمہ داری اٹھاؤ جو تم برداشت کر سکو، سب سے اچھا عمل وہ ہے جو دائم رہے چاہے کم ہی کیوں نہ ہو، پھر ان پر ”يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ - قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا“ نازل ہوئی، کہا: تو وہ ان پر لکھ دی گئی اور اسے فرض کا درجہ دے دیا گیا حتی کہ کوئی رسی باندھ کر اس سے لٹکتا رہتا، تو کہا: ”إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ، تا: ”عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ“ تو اللہ نے انہیں واپس فرض نمازوں کی طرف واپس کردیا اور ان پر سے نوافل کا بوجھ ہٹا دیا ما سوائے کہ جو وہ رضاکارانہ پڑھیں 8۔
حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے منسوب یہ دونوں احادیث ذہن کو مکہ کی طرف نہیں لے جاتیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہجرت کے بعد ہی فرمایا تھا یعنی مدینہ میں، پھر حدیث میں جو لوگوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے باہر جمع ہونے کا وصف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ والے گھر پر منطبق نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمان اس وقت نہ صرف کم تھے بلکہ پوشیدہ رہتے تھے، بلکہ ان احادیث سے ذہن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ والے گھر کی طرف جاتا ہے جہاں مسلمان کثرت میں تھے اور ان کے گھر کے گرد جمع ہوسکتے تھے اور ان کی بات سن سکتے تھے، چنانچہ اس بنا پر رات کے قیام میں تخفیف کا حکم مدینہ میں نازل ہوا اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ قرآن کی تلاوت اتنی کریں جتنی کہ وہ کر سکتے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکات دیں جیسا کہ آیت میں آیا ہے۔
رات کا قیام عبادت ہے اور اگر آپ چاہیں تو اسے نماز بھی کہہ سکتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے مکہ میں ادا کیا کرتے تھے، یہ ”تہجد“ کی عبادت ہے، وارد ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تہجد کرتے، اللہ سے دعاء کرتے اور اللہ کے لیے نماز پڑھتے تھے 9، ”متہجد“ اسے کہا جاتا ہے جو رات کو نماز پڑھتا ہے 10، جس میں قرآن کی تلاوت بھی شامل ہے، خبروں میں بصد افسوس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت اور دعاء کے بارے کوئی ذکر نہیں ہے۔
سورہ ہود جو مکی سورت ہے سے پتہ چلتا ہے ”وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ“ 11 (اور دن کے دونوں سروں (یعنی صبح اور شام کے اوقات میں) اور رات کی چند (پہلی) ساعات میں نماز پڑھا کرو۔) اور سورہ اسراء سے ”أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا - وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا“ 12 ((اے محمدﷺ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب، عشا کی) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ کیوں صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور (ملائکہ) ہے - اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو (اور تہجد کی نماز پڑھا کرو) ۔ (یہ شب خیزی) تمہاری لئے (سبب) زیادت ہے (ثواب اور نماز تہجد تم کو نفل) ہے قریب ہے کہ خدا تم کو مقام محمود میں داخل کرے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تہجد پڑھا کرتے تھے اور دن کے دونوں سروں اور رات کو نماز پڑٖھا کرتے تھے، اپنی رات کا آغاز وہ ایک نماز سے شروع کرتے پھر آرام فرماتے، پھر تہجد کے لیے اٹھتے اور تہجد پڑھتے، پھر تھوڑا آرام فرماتے اور فجر کے لیے اٹھتے اور اس میں نازل شدہ قرآن کی تلاوت فرماتے پٖھر دن کے سرے کی دوسری نماز ادا فرماتے۔
دیگر مذاہب جیسے یہودیت اور نصرانیت میں تہجد ایک معروف عبادت ہے، بلکہ اسے ان عبادات میں شُمار کیا جاتا ہے جس کی دلوں میں ایک خاص منزلت ہے، مزامیر میں آیا ہے کہ: ”آدھی رات کو تیری نیکی کے احکام پر حمد کرنے کے لیے اٹھتا ہوں“ 13، یہ ان عبادات میں سے تھی جو راہب اور ناسک ادا کیا کرتے تھے۔
تہجد یا رات کا قیام اس عبادت کا تسلسل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل غارِ حراء میں اکیلے ہی ایک ماہ یا اس سے کم تحنث یا اعتکاف کیا کرتے تھے، پھر گھر واپس آتے اور مزید اتنے ہی عرصہ کے لیے تیاری فرماتے تا آنکہ ان پر حق آگیا 14، خبروں نے اس عبادت کی کیفیت اور نوعیت پر نا تو کوئی روشنی ڈالی اور نا ہی اس کی کوئی واضح تصویر کشی کی، مندرجہ بالا احادیث میں بھی آپ کی اس عبادت کی کوئی وضاحت نہیں ہے 15۔
مکہ میں یہ اعتکاف مذہبی لوگوں میں رائج تھا، خبروں میں آیا ہے کہ بعض لوگ اسلام سے پہلے اعتکاف کرتے اور غارِ حراء میں تنہائی اختیار کرتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ اعتکاف زمین وآسمان کی تخلیق، کائنات کی حالت، اس کے منشا اور دیگر مذہبی امور پر پر محض غور وفکر تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد میں تخفیف کے حکم کے آنے کے بعد بھی تہجد ترک نہیں کی اور اسے جاری رکھا تاہم پہلے سے ذرا ہلکی صورت میں تا آنکہ وہ اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے، تہجد کو ایک ایسی سنت قرار دیا گیا ہے جس پر بے تحاشہ اجر ہے 16۔
حوالہ جات:
1- تفسیر النیسابوری 68/29، تفسیر الطبری پر حاشیہ، بولاق، تفسیر الطبری 79/29۔
2- تفسیر الطبری 79/29، بولاق۔
3- تفسیر الطبری 79/29، بولاق۔
4-تفسیر الطبری 80/29، بولاق، تفسیر ابن کثیر 434/4 اور اس سے آگے۔
5- الیعقوبی 24/2، النجف۔
6- سورہ المزمل آیت 20۔
7- تفسیر الطبری 79/29۔
8- تفسیر الطبری 79/29۔
9- التجرید 78/1۔
10- اصفہانی کی المفردات 558۔
11- سورہ ہود آیت 114۔
12- سورہ الاسراء آیت 78 اور 79۔
13- المزامیر، مزمور 119، آیت 62۔
14- ابن ہشام 150/1، ابن الاثیر 21/2۔
15- السیرۃ الحلبیۃ 226/2۔
16- سنن ابی داوود، باب التطوع، باب 18، ابو اسحاق الشیرازی، التنبیہ 27، مطبوعہ الہیتمی، التحفہ 201/1،
Shorter, P., 559, Sprenger, Das Leben und die Leher des Muhammad, I, 321.
URL for Part 1:
http://www.newageislam.com/urdu-section/history-of-namaz-in-islam--part-1-(اسلام-میں-نماز-کی-تاریخ---نماز-(1/d/14330
URL for Part 2:
URL for Part 3:
URL for Part 4:
URL for Part 5:
URL for Part 6:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-part-7/d/34836