ناستک درانی، نیو ایج اسلام
5جنوری، 2014
اگر نمازی نا پاک ہو یا بغیر وضوء کے نماز پڑھے تو اسلام میں اس کی نماز قبول نہیں ہوتی کیونکہ طہارت اور وضوء نماز کے ارکان میں سے ہیں، طہارت میں جسم کی طہارت، لباس اور زمین کی طہارت شامل ہیں، جبکہ وضوء بالکل اسی طرح ہونا چاہیے جیسا کہ قرآنِ مجید اور حدیث میں آیا ہے: ”اللہ تعالیٰ کسی بے وضو انسان کی نماز قبول نہیں کرتا حتیٰ کہ وہ وضو کر لےِ“ 1۔
احادیث کی کتابوں میں مزید آیا ہے کہ: ”بغیر طہارت کے نماز نہیں“ 2،اور ”طہارت ایمان کا حصہ ہے“ 3، چنانچہ طہارت مسلمان کے لیے ایک لازمی شئے ہے اور اس کے بغیر اس کی نماز نہیں ہوتی، اسلام کے تمام مسالک کی فقہ کی کتابوں میں اس بات پر اجماع ہے۔
طہارت کے قاعدے قوموں کے نکتہ ہائے نظر اور مذاہب کے فرق سے مختلف مذاہب اور قوموں میں مختلف مفہوم رکھتے ہیں، تاہم ان سب کا طہارت کے بنیادی تصور پر اتفاق ہے اور وہ ہے نمازی کے ناپاک ہونے کی صورت میں نماز کا نہ ہونا یا نماز کی جگہ کا نجس ہونا، شرمگاہ کو ڈھانپنے کے تصور کی اگر بات کی جائے تو مثال کے طور پر یہودی شریعت نمازی کی نماز کو قابلِ قبول نہیں سمجھتی چاہے نماز کی ادائیگی کے وقت نمازی کی شرمگاہ پوری ظاہر ہو یا اس کا کچھ حصہ، ان معاملات میں اسلام اس مذہب سے اتفاق کرتا نظر آتا ہے 4۔
قرآنِ مجید نے نماز قائم کرنے سے قبل جنابت سے غسل کو واجب قرار دیا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (ترجمہ: مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کرکے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں پر مسح (کرکے تیمم) کرلو بےشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے) 5، یہ آیت نماز شروع کرنے سے قبل جسم سے نجاست رفع کرنے اور اسے پاک کرنے کا حکم دیتی ہے، یہ حکم مدینہ میں نازل ہوا کیونکہ سورہ النساء مدنی سورتوں میں سے ہے۔
لفظ نجس، نجاسۃ، طہر اور طہارۃ ایسے الفاظ ہیں جو جاہلیوں کے ہاں معروف تھے، تاہم ہم یہ تصور نہیں کر سکتے کہ ان الفاظ کا مدلول وہی تھا جو اسلام میں ہے، یعنی جاہلیوں نے فقہی نکتہ نظر سے ان کے مفاہیم کا تعین کردیا تھا جیسے نجاست کا تعین اور اسے ہٹانے کا طریقہ اور شرائط وغیرہ، معلوم ہوتا ہے بعض جاہلیوں کی نظر میں موت بھی ایک نجاست تھی لہذا انہوں نے لاشوں کو غسل دینے کا حکم دیا اور اسلام نے بھی اس کا اقرار کیا، اسی طرح انہوں نے حیض کو بھی نجاست کے طور پر شمار کیا اور اس کے لیے ایک مخصوص مدت متعین کی جبکہ جس مدت میں عورت کو پاک سمجھا جاتا تھا اسے الاطہار کہا جاتا تھا 6۔
جنابت بھی جاہلیوں کے ہاں نجاست سمجھی جاتی تھی اسی لیے وہ غسلِ جنابت کرتے تھے، اسلام نے بھی اس غسل کا اقرار کیا، جاہلی کعبے کا طواف تب تک نہیں کرتے تھے جب تک کہ وہ جنابت سے غسل نہ کر لیتے 7، اسی طرح وہ کلی بھی کرتے تھے، ناک میں پانی بھی ڈالتے اور مسواک بھی کرتے تھے 8۔
جسم کو بد روحوں سے پاک کرنے کی غرض سے غسل کرنا عرب اور سامی قوموں کے ہاں ایک قدیم روایت رہی ہے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ طہارت ان بد روحوں کو نکال کر جسم سے دور کردیتی ہے 9۔
وضوء کا طریقہ سورہ مائدہ میں بیان کیا گیا ہے جو مدنی سورت ہے: ”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ“ (ترجمہ: مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تم منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو) 10، یہ آیت اوپر پیش کردہ سورہ نساء کی آیت سے مشابہ ہے تاہم وضوء کے باب میں یہ زیادہ تفصیلی ہے، دونوں ہی آیات میں غسل، وضوء اور تیمم کا حکم دیا گیا ہے۔
کتبِ احادیث میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء کا طریقہ ملتا ہے، ان کا وضوء یقیناً مسلمانوں کا وضوء ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مُشرع ہیں اور انہوں نے خود مسلمانوں کو وضوء سکھایا ہے 11، وضوء کے طریقہ پر مسلمان بنیادی اور عام طور پر اختلاف نہیں کرتے ما سوائے چند فروعی باتوں پر جس سے وضوء کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں پڑتا، جیسے دونوں پیروں کا دھونا یا مسح کرنا، بازو کو دھونے کا آغاز کہنی سے ہاتھ تک یا ہاتھ سے کہنی تک کرنا وغیرہ، یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں صرف اہلِ اسلام ہی نوٹ کر سکتے ہیں اور یہ چیزیں وضوء کی عمومی شکل یا قرآنِ مجید اور کتبِ احادیث وفقہ میں آئی وضوء کی ترتیب کی مخالفت نہیں کرتیں۔
ایک مدنی سورت میں وضوء کے حکم کے آنے کی وجہ سے ”ابن حزم“ نے استدلال کیا ہے کہ وضوء کا حکم مدینہ میں نازل ہوا جو قرآنِ مجید سے واضح بھی ہے 12، تاہم سیرت واخبار کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وضوء کا حکم نماز کے حکم کے ساتھ ہی آگیا تھا، اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہلی نماز پڑھی تھی اس میں آپ نے وضوء فرمایا تھا، ان کتابوں میں درج ہے کہ: ”جب پہلے پہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز فرض ہوئی تو اس طرح ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ کی بلند جانب میں تھے، وہاں آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور ایک پتھر پر اپنی ایڑی ماری، اسی وقت اس میں سے ایک چشمہ ظاہر ہوا، جبرائیل نے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چشمہ سے وضوء کیا، پہلے جبرائیل نے وضوء کر کے حضور کو دکھایا، پھر حضور نے وضوء کیا، پھر جبرائیل نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ شریک ہوئے“ 13۔
مذکورہ بالا خبر جس میں جبریل علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سکھا رہے ہیں اور اسی معنی میں وارد ہونے والی کچھ دیگر خبروں کو بنیاد بناتے ہوئے ”السیرۃ الحلبیۃ“ کے مصنف نے ”ابن حزم“ کو جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وضوء نماز کے ساتھ مکہ میں فرض ہوا، یوں وضوء فرض کے طور پر مکی ہے اور تلاوت کے طور پر مدنی ہے، یہ رائے مالکیوں کی رائے سے زیادہ قریب ہے جو کہتے ہیں کہ وضوء ”ہجرت سے قبل مستحب تھا اور سورہ مائدہ کی آیت سے مدینہ میں فرض ہوگیا“ 14۔
جواب میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ”مائدہ کی آیت اتارنے کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ جو بیماری یا پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے وضوء اور غسل نہیں کر سکتا اس کے لیے تیمم جائز ہے، یعنی وضوء اور غسل کی فرضیت اس آیت کے نزول سے پہلے ہے، اس کے لیے انہوں نے حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس آیت پر اس قول سے استدلال کیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ: ”اور اللہ نے تیمم کی آیت اتاری“ یہ نہیں کہا کہ ”وضوء کی آیت اتاری“ کیونکہ وضوء اس آیت کے اترنے سے پہلے ہی فرض ہوچکا تھا“ 15۔
علماء کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ وضوء ہجرت سے ایک سال قبل نماز کے فرض ہونے کے ساتھ ہی فرض ہوگیا تھا، جبکہ ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ وضوء اور غسل اسراء کی رات نماز کے ساتھ فرض ہوئے، جبکہ کچھ دیگر نے درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وضوء اسراء سے قبل مستحب تھا اور اسراء کے بعد فرض ہوگیا لہذا یہ ان فرضوں میں شامل ہے جو مکہ میں نازل ہوئے 16۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضوء فرماتے تھے، جبکہ صحابہ میں سے کچھ ان کی اقتداء کرتے تھے یعنی ویسا ہی کرتے تھے جیسا کہ آپ کرتے تھے اور کچھ ایک ہی وضوء سے نماز پڑھتے تھے اگر وہ ٹوٹ نہ جائے، فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچوں نمازیں ایک ہی وضوء سے ادا فرمائیں جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ نے ایک ایسی چیز کی ہے جو پہلے نہ کرتے تھے، تو آپ نے فرمایا: اے عمر میں نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تاکہ ایک ہی وضوء پر پانچوں نمازوں کی ادائیگی کے جواز کی طرف اشارہ کر سکوں 17، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں میں سے ایک خوبی تھی۔
اہل سیرت واخبار لکھتے ہیں کہ: ”غسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر نماز کے لیے فرض تھا، پھر حدثِ اصغر کے لیے تخفیف کرتے ہوئے منسوخ کردیا گیا اور اس کی جگہ وضوء نے لے لی، پھر وضوء بھی ہر نماز کے لیے منسوخ ہوگیا“ 18، السیرۃ الحلبیۃ کے مصنف لکھتے ہیں کہ ”شاید ہر نماز کے لیے غسل کا فرض ہونا غیر قرآنی وحی تھی یا اجتہاد تھا“ 19، جس کا مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضوء کے فرض ہونے سے قبل ہر نماز کے لیے غسل فرماتے تھے، پھر ہر نماز کے لیے وضوء کے حکم سے اس میں تخفیف ہوگئی اور پھر جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے ہر نماز کے لیے وضوء بھی منسوخ ہوگیا۔
اس کا مطلب ہے کہ وضوء نماز کے ساتھ براہ راست فرض نہیں تھا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے پہلے غسل فرماتے تھے، پھر وضوء سے ان پر تخفیف کی گئی، نمازے سے پہلے یہ غسل جسم کی عام طہارت تھی، یہ خبر نہیں کہ غسل کو وضوء سے کب منسوخ کیا گیا۔
حدثِ اصغر وضوء کو توڑ دیتا ہے، وہ وضوء دار جسے قضائے حاجت کی ضرورت پڑے اسے چاہیے کہ دوبارہ وضوء کرے، انسان کو چاہیے کہ وہ قضائے حاجت کے بعد پانی سے استنجاء کرے جبکہ بعض مسالک نے پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں پتھر سے استجمار کو بھی جائز قرار دیا ہے، مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عوف سے کہا کہ: ”وہ کون سا طہور ہے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے؟ تو انہوں نے پتھر سے استجمار کے بعد پانی سے استنجاء کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: یہ ایسا ہی ہے تو اسی پر کاربند رہو“ 20، اس خبر سے معلوم پڑتا ہے کہ پانی سے استنجاء اور پتھر سے استجمار بعض جاہلیوں کے ہاں معروف تھا پھر اسلام نے اس کی تصدیق کی تاکہ جسم کے اس مقام سے نجاست کا اثر زائل کیا جاسکے۔
تیمم
تیمم کا حکم مدینہ میں نازل ہوا، یہ حکم سورہ النساء اور المائدہ میں نازل ہوا ہے 21، ان میں تیمم کا طریقہ اور ان حالات کا ذکر ہے جن میں تیمم جائز ہے۔
صحیح مسلم میں آیا ہے کہ: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک سفر میں تھے تو جب وہ مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک ہار کھو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا اور نہ ہی لوگوں کے پاس تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور جب صبح اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا تو اللہ تعالی نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا“ 22، چنانچہ تیمم کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد اس موقع پر دیا گیا۔
تیمم کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوہ المریسیع اور کہا جاتا ہے کہ غزوہ بنی المطلق سے واپسی پر طلوع فجر کے بعد دیا گیا 23 جب حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار کھوکیا 24 ابن قیم الجوزیۃ کے مطابق یہ واقعہ ہجرت کے پانچویں سال کو پیش آیا 25، جبکہ طبری کی روایت کے مطابق یہ واقعہ چھ ہجری کو پیش آیا 26۔
یہودی شریعت میں تیمم ایک جانی پہچانی چیز ہے، یہودی شریعت نے پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں یہودیوں کے لیے تیمم جائز قرار دیا 27، ذکر ہے کہ نصاری بھی جب پانی کا حصول مشکل ہوجاتا تھا تو وہ تیمم کرتے تھے 28۔
مجوسیت نے بھی اپنے ماننے والوں پر نیند سے جاگنے پر وضوء لازم قرار دیا ہے، مجوسی کے لیے لازم ہے کہ صبح نیند سے بیدار ہونے پر وہ اپنا منہ، ہاتھ اور پیر تین دفعہ دھوئے، اور جب یہ دھو لیے جائیں تو پھلوں کے جوس سے حاصل کردہ ایک مقدس مادہ ان اعضاء پر ملا جائے جسے کہورین (KEHURIN) کہا جاتا ہے اور اگر پانی کا حصول ممکن نہ ہو تو اس پر تیمم فرض ہے کہ اپنے ہاتھ ریت پر لگائے اور جسم کے مذکورہ اعضاء پر مسح کرے کیونکہ دور دراز خطوں کی ریت کو چونکہ روندا نہیں گیا ہوتا اس لیے وہ پاک ہوتی ہے 29۔
مجوسی اپنے جسم کے دائیں حصے سے دھونے کا عمل شروع کرتا ہے، پہلے دایاں ہاتھ دھوتا ہے، پھر غسل کے وقت جسم کا دایاں حصہ دھوتا ہے، اور وضوء کے وقت دایاں ہاتھ پہلے دھوتا ہے، اسی طرح وہ ہمیشہ دائیں پیر کو بائیں پیر سے زیادہ فوقیت دیتا ہے چاہے جوتے ہی کیوں نہ پہننے ہوں یعنی دائیں پیر سے شروع کرتا ہے، ایسا ہی کچھ یہودی شریعت میں بھی موجود ہے 30۔
حوالہ جات:
1- صحیح مسلم 140/1۔
2- صحیح مسلم 140/1۔
3- صحیح مسلم 140/1۔
4- Mischna, Be 'rahhoth, 3, 5, Mittwoch, S., 15.
5- النساء 43۔
6- تاج العروس 362/3۔
7- عرب بت پرستی کی باقیات کے بارے میں ”ولہوزن“ کو دیکھیے اس کے علاوہ ”مجلۃ الرسالۃ“ میں شائع شدہ مضمون ”الطہارۃ والوضوء“ حصہ 640، 8 اکتوبر 1945 صفحہ 1083 اور اس سے آگے دیکھیے۔
8- السیرۃ الحلبیۃ 299/1۔
9- Shorter Ency. of Islam, P., 635.
10- المائدہ 6۔
11- صحیح مسلم 141/1۔
12- السیرۃ الحلبیۃ 300/1، ”المکتبۃ التجاریۃ“۔
13- سیرت ابن ہشام 155/1، السیرۃ الحلبیۃ 251/1۔
14- السیرۃ الحلبیۃ 300/1، المکتبۃ التجاریۃ۔
15- السیرۃ الحلبیۃ 300/1، المکتبۃ التجاریۃ۔
16- السیرۃ الحلبیۃ 299/1۔
17- السیرۃ الحلبیۃ 301/1، ابن قیم الجوزیہ، زاد المعاد فی ہدی خیر العباد 48/1، القاہرۃ 1950۔
18- السیرۃ الحلبیۃ 300/1، المکتبۃ التجاریۃ۔
19- السیرۃ الحلبیۃ 300/1، المکتبۃ التجاریۃ۔
20- الروض الانف 11/2۔
21- النساء آیت 43، المائدہ آیت 6۔
22- صحیح مسلم 191/1، تفسیر ابن کثیر 506/1، اسباب النزول 113۔
23- المقریزی امتاع الاسماع 197/1۔
24- امتاع الاسماع 206/1۔
25- زاد المعاد 112/2۔
26- تأریخ 604/2، امتاع الاسماع 195/1۔
27- Berakot fol. 15a, Shorter Ency. of Islam, P. 589.
28- Cedrenus, Annals, ed. Hylander, basle 1566, P., 206 Shorter Ency. of Islam. P. 589.
29- Saddar C. 50. 74, Vend. 18, 21, The Old Persian Religion, P., 120.
30- The Old Persian Religion, P., 129.
URL for Part 1:
URL for Part 2:
URL for Part 3:
URL for Part 4:
URL for Part 5:
URL for Part 6:
URL for Part 7:
URL for Part 8:
URL for Part 9:
URL for Part 10:
URL for Part 11:
URL for Part 12:
: URL for this article
https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-(part-13)/d/35144