ناستک درانی، نیو ایج اسلام
8جنوری، 2014
علمائے اسلام کی اصطلاح میں قبلہ نمازکی سمت اور مسجد کا رخ ہے جس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جاتی ہے 1۔
علمائے مذاہب کی اصطلاح میں قبلہ وہ رخ ہے جسے نمازی اپنے گھر، عبادت گاہ یا کسی دوسری کھلی یا بند جگہ میں نماز کے لیے اختیار کرتا ہے، یہ فرد کی رغبت پر منحصر اختیاری معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعین شریعتیں اور حکامات کرتے ہیں، توریت میں آیا ہے کہ: ”اگر تیرے لوگ خواہ کسی راستہ سے تو انکو بھیجے اپنے دشمن سے لڑنے کو نکلیں اور وہ خداوند سے اس شہر کی طرف جسے تونے چنا ہے اور اس گھر کی طرف جسے میں نے تیرے نام کے لیے بنایا ہے رخ کر کے دعا کریں تو تو آسمان پر سے ان کی دعا اور مناجات سن کر ان کی حمایت کرنا“ 2، ”سفرِ دانیال“ میں ہے کہ: ”دانیال نے جب اس نئے فرمان کے بارے میں سنا تو وہ اپنے گھر چلا گیا ۔ دانیال اپنے مکان کی چھت کے اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ دانیال ان کھڑکیوں کے پاس گیا جو یروشلم کی جانب کھُلتی تھیں۔ پھر وہ اپنے گھٹنوں کے بَل جھکا اور جیسا ہمیشہ کیا کرتا تھا اس نے ویسی ہی دعا کی۔“ 3، چنانچہ ”یروشلم“ یہودیوں کا قبلہ ہے، وہ اپنی نمازوں میں اسی کی طرف رخ کرتے ہیں اور اسی کی طرف ان کی عبادت گاہوں کے قبلہ کا رخ ہوتا ہے۔
مسلمانوں کا قبلہ جس کی طرف وہ رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں وہ مکہ میں مسجد الحرام ہے، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ چاہے جہاں بھی ہو اسی طرف رخ کر کے نماز ادا کرے کیونکہ انہیں اس کا حکم قرآن دیتا ہے: قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (ترجمہ: (اے محمدﷺ) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم تم کو اسی قبلے کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو، منہ کرنے کا حکم دیں گے تو اپنا منہ مسجد حرام (یعنی خانہٴ کعبہ) کی طرف پھیر لو۔ اور تم لوگ جہاں ہوا کرو، (نماز پڑھنے کے وقت) اسی مسجد کی طرف منہ کر لیا کرو۔ اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ (نیا قبلہ) ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے۔ اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں، خدا ان سے بے خبر نہیں) 4، سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (ترجمہ: احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے۔ تم کہہ دو کہ مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، سیدھے رستے پر چلاتا ہے) 5۔
وہ قبلہ جس پر پہلے مسلمان قائم تھے اور جس کے بارے میں احمق لوگوں نے کہا کہ مسلمان جس قبلے پر پہلے سے چلے آتے تھے اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے وہ ”بیت المقدس“ ہے جسے مذکورہ بالا حکم سے بدل دیا گیا، مدینہ ہجرت سے قبل مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ ”کعبہ“ تھا جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ میں رہے رخ مبارک کر کے نماز ادا کرتے رہے، زیادہ تر علماء کی یہی رائے ہے جبکہ کچھ کی رائے ہے کہ صرف ایک مخصوص عرصہ تک، ”ابن جریج“ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: ”سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف نماز پڑھی پھر بیت المقدس کی طرف رخ کر لیا، چنانچہ انصار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل تک حجوں تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد سولہ ماہ نماز پڑھی پھر اللہ تعالی نے انہیں کعبہ کی طرف کردیا“ 6، یہ بھی وارد ہوا ہے کہ ”البراء بن معرور“ جنہوں نے عقبہ کی بیعت میں بیعت کی تھی جب اپنی قوم کے ساتھ واپس آئے تو ان سے کہا: ”میری ایک رائے ہے، واللہ میں نہیں جانتا کہ تم مجھ سے اتفاق کروگے یا نہیں!۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس عمارت کو پیٹھ نہ کروں – یعنی کعبہ – اور اسی کی طرف نماز پڑھوں“ تو انہوں نے کہا: ”واللہ ہمیں تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ صرف شام کی طرف نماز پڑھتے ہیں اور ہم ان کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے“ تو انہوں نے کہا: ”میں اسی کی طرف نماز پڑھ رہا ہوں“ تو انہوں نے کہا: ”مگر ہم ایسا نہیں کریں گے“ تو جب نماز کھڑی ہوتی ہم شام کی طرف نماز پڑھتے اور وہ کعبہ کی طرف تا آنکہ ہم مکہ سے چلے گئے“ 7۔
ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کعبہ کی طرف تھی، اور وہ حجرِ اسود کو سامنے رکھتے تھے، یعنی وہ اپنی نماز بیت المقدس کی طرف رخ کر کے ادا نہیں کرتے تھے مگر جب پانچ نمازیں فرض ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر لیا 8۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب نماز مکہ میں فرض ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بیت المقدس کی طرف تھی حتی کہ وہ مدینہ تشریف لے گئے اور مدینہ میں بھی تبدیلی تک وہ بیت المقدس کی طرف ہی نماز ادا کرتے تھے 9، اس کے لیے وہ ایک قول سے استدلال کرتے ہیں جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے 10۔
چنانچہ ہمارے سامنے کئی آراء ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت تک کعبہ کی طرف نماز پڑھتے رہے، ایک رائے یہ ہے کہ انہوں نے مکہ میں ہی ہجرت سے کچھ پہلے کعبہ سے بیت المقدس کی طرف رخ کر لیا، اور ایک رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے، میری نظر میں پہلی رائے زیادہ درست ہے کیونکہ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی 11، اور یہ کہ جب وہ مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے انصار میں اپنے ننہال میں ٹھہرے اور یہ کہ انہوں نے بیت المقدس کی طرف سولہ ماہ تک نماز پڑھی 12، علماء کے اقوال میں یہ قول بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے قبل انصار نے بیت المقدس کی طرف دو سال تک نماز پڑھی، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدینہ تشریف آوری کے بعد بیت المقدس کی طرف سولہ ماہ تک نماز پڑھی پھر اللہ تعالی نے اس کے بعد انہیں بیت اللہ الحرام میں کعبہ کی طرف پھیر دیا 13، علماء کا یہ بھی اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیت المقدس کی طرف نماز محدود مدت تک تھی جسے انہوں نے متعین کرتے ہوئے ہجرت کے پہلے اور دوسرے سال میں ڈال دیا ہے، وہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ اس مدت کا خاتمہ بیت المقدس سے قبلہ بدلنے پر ہوتا ہے لہذا آغاز یقیناً ہجرت کے دور کے دورانیہ میں ہی آئے گا۔
قبلہ کی تبدیلی کے حکم کا نزول قرآنِ مجید میں سب سے پہلی منسوخی ہے، ”عکرمہ“ اور ”الحسن البصری“ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: ”قرآن میں سب سے پہلی منسوخی قبلہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کے پتھر کی طرف رخ کرتے تھے جو یہودیوں کا قبلہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سترہ ماہ تک اس کی طرف رخ کیا تاکہ یہودی ان پر ایمان لے آئیں اور ان کی اتباع کریں اور اس طرح وہ عرب کے ”بے کتاب“ لوگوں کو دعوت دے سکیں، تو اللہ تعالی نے فرمایا: وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (ترجمہ: اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ تو جدھر تم رخ کرو۔ ادھر خدا کی ذات ہے۔ بے شک خدا صاحبِ وسعت اور باخبر ہے) 14۔
بیت المقدس کے انتخاب کی وجہ:- کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے حکم سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی وجہ کا ذکر کرتے ہوئے طبری لکھتے ہیں کہ: ”اہلِ علم کا اس پر اختلاف ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی پسند تھی، جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام ایسا اس لیے کرتے تھے کیونکہ یہ ان پر اللہ تعالی کی طرف سے فرض کیا گیا تھا“ 15، پھر ہر گروہ کی رائے پر طبری نے مثالیں دی ہیں، پہلے گروہ کا موقف یہ تھا کہ: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کے پتھر کی طرف رخ کرتے تھے جو یہودیوں کا قبلہ ہے، اس طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سترہ ماہ تک رخ کیا تاکہ وہ ان پر ایمان لے آئیں اور ان کی اتباع کریں اور پھر وہ دیگر عرب امیوں کو اس کی دعوت دے سکیں“ 16، اور یہ کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جس طرف چاہیں رخ کر لیں تو آپ نے بیت المقدس کا انتخاب کیا تاکہ اہلِ کتاب کو الفت ہوسکے“ 17۔
دوسرے گروہ کا موقف بیان کرتے ہوئے طبری لکھتے ہیں کہ: ”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کی جہاں یہودی رہتے تھے تو اللہ تعالی نے انہیں بیت المقدس کا رخ کرنے کا حکم دیا، اس بات سے یہودی خوش ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رخ کچھ ماہ تک اختیار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قبلہ سے محبت تھی، وہ دعاء کرتے اور آسمان کی طرف دیکھتے تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی: قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ 18۔
مکہ کی طرف واپسی:- علماء نے اس مدت پر اختلاف کیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑٖھتے رہے، کچھ نے کہا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف نو ماہ تک نماز پڑھتے رہے، اور کچھ دیگر نے کہا کہ: دس ماہ، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ: تیرہ ماہ، اور ایک اور گروہ کا کہنا ہے کہ: سولہ ماہ، یا سترہ ماہ یا اٹھارہ ماہ، تاہم اکثریت کے ہاں اس بات کو ترجیح دی گئی ہے کہ بیت المقدس کی طرف سے کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی ہجرت کے دوسرے سال کے آخری مہینوں یعنی سولہویں یا سترہویں، یا اٹھرویں ماہ میں ہوئی تھی، کچھ دیگر نے ذکر کیا ہے کہ کعبہ کی طرف رخ بدر سے دو ماہ پہلے کیا گیا تھا 19۔
یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ قبلے کی کعبہ کی طرف تبدیلی رجب یا شعبان کے مہینہ میں ہوئی تھی 20، مروی ہے کہ: ”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ظہر کی نماز ادا کر رہے تھے اور آپ نے بیت المقدس کی طرف دو رکعت پڑھ لی تھیں آپ نے اپنا رخ کعبہ کی طرف موڑ لیا“ 21، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”بنی سلمہ“ میں ام بشر بن البراء بن معروز سے ملنے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا پکایا اور ظہر کا وقت ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی پھر آپ کو حکم ہوا کہ آپ کعبہ کی طرف رخ کر لیں تو آپ کعبہ کی طرف گھوم گئے، اس طرح مسجد کا نام جو مسجد بنی سلمہ تھا ”مسجد القبلتین“ ہوگیا، یہ واقعہ بروز پیر نصف رجب سترہویں ماہ میں ہوا، اور رمضان کے روزے ماہِ شعبان میں اٹھرہ ماہ بعد فرض ہوئے“ 22۔
علماء نے ان اسباب پر تحقیق کی ہے جن کی وجہ سے قبلہ مکہ کی طرف پھیر دیا گیا، طبری ان سب کا خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب یہودیوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آکر ان کے قبلہ کی طرف رخ کرنے لگے تو وہ کہنے لگے کہ ”واللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دوست نہیں جانتے کہ ان کا قبلہ کہاں ہے حتی کہ ہم نے انہیں ہدایت دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے کراہت ہوئی اور آپ نے اپنا چہرہ مبارک آسمان کی طرف کیا تو قبلہ تبدیل ہوگیا“ 23، اور یہ بھی کہ وہ کہتے تھے: ”ہمارے قبلے کی طرف رخ کرتا ہے اور ہمارے دین کی مخالفت کرتا ہے“ 24 تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے کراہت ہوئی تو قبلہ تبدیل کردیا گیا“۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ”عرب کعبے سے بے انتہاء محبت اور اس کی تعظیم کرتے تھے، کعبہ کی طرف توجہ میں ان کے دلوں کو مائل کرنا مقصود تھا تاکہ وہ اس طرف نماز کی پابندی کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دین کی طرف مائل کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اس لیے ممکن ہے کہ آپ نے ان وجوہات کی بنا پر یہ پسند کیا ہو 25۔
قبلہ کی تبدیلی نے تبدیلی کی وجوہات پر اہلِ مدینہ کے ذہنوں میں سوالات کھڑے کیے، یہودیوں اور منافقین نے باتیں بنانی شروع کردیں، حتی کہ خود مسلمان بھی حیرت زدہ تھے، اور جیسا کہ مذکور ہے کئی لوگ جو مسلمان ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے تھے مرتد ہوگئے تھے، اور کئی منافقین نے اس پر اپنا نفاق ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ہوگیا ہے کہ کبھی ہمیں اس طرف گھماتا ہے تو کبھی اس طرف؟“ مسلمانوں نے اپنے گزرے ہوئے مسلمان بھائیوں کے بارے میں کہا جو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھا کرتے تھے کہ: ”ہمارے اور ان کے اعمال باطل ہوکر ضائع ہوگئے“، مشرکین نے کہا کہ: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دین میں پریشان ہوگیا ہے“، چنانچہ یہ لوگوں کے لیے فتنہ اور مسلمانوں کے لیے امتحان تھا اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا: وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ (ترجمہ: اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔) 26۔
قتادہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: ”قبلے میں ابتلاء اور امتحان تھا، انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل بیت المقدس کی طرف دو سال نماز پڑھی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کر کے آنے کے بعد بیت المقدس کی طرف سترہ ماہ نماز پڑھی تھی، پھر اللہ تعالی نے انہیں بیت الحرام کے کعبہ کی طرف پھیر دیا، تو لوگوں میں سے کہنے والوں نے کہا کہ: انہوں نے اپںا قبلہ کیوں بدل دیا جس پر وہ تھے؟ اس شخص (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنی جائے پیدائش کی یاد آرہی ہے، تو اللہ تعالی نے فرمایا: قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (ترجمہ: تم کہہ دو کہ مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، سیدھے رستے پر چلاتا ہے)، تو جب قبلہ بیت الحرام کی طرف پھیر دیا گیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ: ”ہمارے ان اعمال کا کیا جو ہم اپنے پہلے قبلہ کے وقت کرتے تھے؟“ تو اللہ تعالی نے نازل کیا: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ (ترجمہ: اور الله تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا) 27۔
”سدی“ سے بھی کچھ ایسی ہی باتیں مروی ہیں، کہتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف نماز پڑھا کرتے تھے تو کعبے نے اسے منسوخ کردیا، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام کی طرف متوجہ ہوئے لوگوں میں اس پر اختلاف ہوگیا، اور وہ تقسیم ہوگئے، منافقین نے کہا: انہیں کیا ہے کہ ایک عرصہ تک اپنے قبلہ پر قائم تھے پھر اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کی طرف متوجہ ہوگئے؟ مسلمانوں نے کہا کہ: ہمارے ان بھائیوں کا کیا جو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہوئے مر گئے، کیا اللہ نے پہلے ہم سے اور ان سے قبول کیا ہے؟ یہودیوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے باپ اور پیدائش کے شہر کی یاد ستا رہی ہے، اگر وہ ہمارے قبلے کی طرف قائم رہتا تو ہم امید رکھتے کہ وہ وہی ہے جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں، اہلِ مکہ کے مشرکین نے کہا کہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دین میں پریشان ہوگیا ہے اس لیے اس نے اپنا قبلہ تمہاری طرف کر لیا ہے اور اس نے جان لیا ہے کہ تم اس سے زیادہ ہدایت پر تھے اور قریب ہے کہ وہ تمہارے دین میں داخل ہوجائے 28۔
”ابن جریج“ نے روایت کیا ہے کہ: کچھ لوگ اسلام لانے کے بعد اسلام سے پلٹ گئے، انہوں نے کہا کہ کبھی اس طرف قبلہ اور کبھی اس طرف، اگر کوئی اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کرے کہ: کیا نبی کی اتباع کرنے کے بعد اور الٹے پیروں پھرنے والوں کے پھر جانے کے بعد ہی اللہ کو ان لوگوں کا علم ہوتا ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اور جو الٹے پیروں پھر جاتے ہیں، کہ خدا کو یہ کہنا پڑا کہ: کہ تحویل قبلہ کے حوالے سے ہم نے جو کچھ بھی کیا وہ اس لیے تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کی اتباع کرنے والوں میں سے کون الٹے پاؤں پلٹ جائے گا؟ جواب میں کہا جائے گا: اللہ تمام باتوں کو ان کے ہونے سے پہلے ہی جانتا ہے۔ 29
مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ: ”جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ تبدیل کیا تو یہودیوں نے کہا کہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے باپ کے شہر اور جائے پیدائش کا مشتاق ہوگیا ہے، اگر وہ ہمارے قبلے پر قائم رہتا تو ہم امید رکھتے کہ وہ وہی ہے جس کے ہم منتظر ہیں، تو اللہ تعالی نے ان پر نازل کیا: وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ۔۔ تا ارشادِ باری: لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ 30، اللہ تعالی کا مطلب یہ ہے کہ یہود ونصاری ایک قبلہ پر جمع نہیں ہوسکتے لہذا اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہے کہ: ”اے محمد اپنے آپ کو ان لوگوں کی رضا کے لیے پریشان مت کرو کہ اس کی کوئی سبیل نہیں ہے، آپ ان میں سے ہر گروہ کو راضی نہیں کر سکتے کیونکہ اگر آپ نے یہودیوں کے قبلے کا اتباع کیا تو نصاری ناراض ہوجائیں گے اور اگر آپ نے نصاری کے قبلے کا اتباع کیا تو یہودی ناراض ہوجائیں گے، تو ایسا کام چھوڑ دیں جس کی کوئی سبیل نہیں اور انہیں اس طرف دعوت دیں جس کی سبیل ہے کہ وہ آپ کی مسلمان ملتِ حنیفیہ اور آپ کے قبلے جو ابراہیم کا قبلہ تھا اس پر جمع ہوجائیں 31۔
حوالہ جات:
1- اللسان 544/11۔
2- عہد نامہ قدیم، سلاطین اول، باب 8 آیت 44۔
3- عہد نامہ قدیم، سفر دانیال 6.10۔
4- البقرہ 144۔
5- البقرہ 142۔
6- تفسیر الطبری 4/2، ”بولاق“۔
7- الطبری 360/2، 274/1۔
8- انسان العیون، یا السیرۃ الحلبیۃ 299/1۔
9- ابن سید الناس، عیون الاثر 233/1۔
10- الروض الانف 274/1۔
11- تفسیر الطبری 4/2۔
12- تفسیر الطبری 3/3، ابن سید الناس، عیون الاثر 231/1۔
13- تفسیر الطبری 4/2۔
14- تفسیر الطبری 4/2۔
15- تفسیر الطبری 4/2۔
16- تفسیر الطبری 4/2۔
17- تفسیر الطبری 4/2۔
18- تفسیر الطبری 4/2۔
19- تفسیر الطبری 4/2، الطبری 415/2، ”دار المعارف“، صحیح مسلم 65/2، تفسیر الطبری 227/2۔
20- تفسیر الطبری 4/2، الیعقوبی 31/2، ”نجف“، Shorter Ency. of Islam, P., 260۔
21- تفسیر الطبری 4/2، ابن سید الناس، عیون 230/1۔
22- طبقات ابن سعد 241/1، الیعقوبی 31/2، ”نجف“، الناسخ والمنسوخ 42، اسابِ نزول پر حاشیہ، Shorter Ency. of Islam, P., 260۔
23- تفسیر الطبری 13/2، ہبۃ اللہ بن سلامۃ، الناسخ والمنسوخ 408، ”اسبابِ نزول پر حاشیہ“۔
24- تفسیر الطبری 13/2، تفسیر الطبرسی 227/2۔
25- تفسیر الطبرسی 227/2۔
26- تفسیر الطبری 8/2۔
27- تفسیر الطبری 12،8/2، ابن سید الناس، عیون 234/1۔
28- تفسیر الطبری 16،9/2۔
29- تفسیر الطبری 9/2۔
30- البقرہ آیت 143 اور اس سے گے، تفسیر الطبری 16/2۔
31- تفسیر الطبری 16/2۔
Religion, P., 129.
URL for Part 1:
URL for Part 2:
URL for Part 3:
URL for Part 4:
URL for Part 5:
URL for Part 6:
URL for Part 7:
URL for Part 8:
URL for Part 9:
URL for Part 10:
URL for Part 11:
URL for Part 12:
URL for Part 13:
: URL for this article
https://newageislam.com/urdu-section/history-islam-qiblah-(part-14)/d/35182