ناستک درانی، نیو ایج اسلام
نومبر، 2013
سندھ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے، امری، کوٹ دیجی، موہنجو داڑو اور چند نسبتاً غیر معروف کھنڈرات اس علاقے کے عظیم اور شاندار ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کا عمومی پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ لوگ کپاس اگاتے اور سوتی کپڑے پہنتے تھے۔ کپاس کے متعلق یونانی مورخ ہیروڈوٹس (Herodotus) کچھ یوں لکھتا ہے کہ وادی سندھ میں ایک عجیب و غریب پودا ہوتا ہے جس میں چاندی کے سفید پھول اگتے ہیں۔
وادی سندھ کے لوگ اپنی ہم عصر سومیری، مصری اور دیگر تہذیبوں کے بر عکس انتہائی امن پسند اور صلح جو لوگ تھے۔ انہوں نے کبھی کسی نزدیکی ملک پر حملہ کر کے لوٹ مار یا قتل عام نہیں کیا تھا، لیکن اس کے برعکس انہیں بہت سے غیر ملکی لٹیروں کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں ایرانی، یونانی اور عرب سر فہرست ہیں۔
سر زمینِ عرب دنیا کے سب سے زیادہ گرم اور خشک ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ سوائے کچھ قابل کاشت اور زرخیز علاقوں (نخلستان) کے علاوہ اس ملک کا بیشتر حصہ ایک جھلسا دینے والے صحرا اور دشت پر مشتمل ہے۔ یہاں پر کوئی ایک بھی قابل ذکر دریا نہیں ہے جس کے کنارے دنیا کی کوئی تہذیب جنم لیتی۔ رسولِ اسلام کے وقتوں میں اس علاقے کا بیشتر حصہ خانہ بدوش بدوؤں کی آماجگاہ تھا جو پانی کے چشموں اور چراگاہوں کے حصول کیلیے آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے، دوسرے قبیلوں پر حملہ کر کے ان کا مال و دولت، مویشی، عورتیں اٹھا لینا عام سی بات تھی، انہی جنگوں میں دوسرے قبیلے کے مردوں کو قیدی کرنے کی وجہ سے غلامی اپنے عروج پر تھی، اس علاقے کو اگر ایک صحرائی سمندر کہیں تو عرب بدو اس صحرائی سمندر کے ”بحری قزاق“ تھے۔
یہی صحرائی لٹیرے بعد میں اسلام قبول کرتے ہیں اور لوٹ مار کی بدوی روایت مذہب اسلام کا حصہ بنتی ہے جو قریش مکہ کے تجارتی قافلوں کے لوٹنے سے شروع ہوتی ہے اور ان قافلوں کے لٹنے کی وجہ سے قریش مکہ اور مدینہ کے مسلمان مہاجروں کے درمیان غزوہ بدر کا باعث بنتی ہے، غزوہ بدر در حقیقت قریش مکہ کی مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف ایک دفاعی جنگ تھی۔ مسلمان طاقت پکڑنے کے بعد مدینہ کے یہودیوں کو بے دخل کرنے، قتل عام کرنے، ان کا مال و دولت لوٹنے، ان کی عورتوں کو باندیاں بنانے کے بعد خیبر سمیت دیگر نزدیکی بستیوں کا رخ کرتے ہیں۔ صحرائی بدووؑں کی یہ لوٹ مار صرف عرب تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ ارد گرد کی عظیم تہذیبیں بھی اس کا شکار بنتی ہیں۔
عربوں پر تبصرہ کرتے ہوئے جی ایم سید فرماتے ہیں:
”ساتویں صدی میں جب سندھ اپنی شان و شوکت کے عروج پر تھا، عرب جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق تھا۔ عرب مجموعی طور پر نہ صرف جاہل ترین بلکہ بد ترین لوگ تھے“ (جی ایم سید: سندھو جی سانجھ)۔
جبکہ معروف معاشریات دان ابنِ خلدون اپنے مشہورِ زمانہ مقدمہ میں عربوں کی کچھ اس طرح تعریف کرتے ہیں:
”عرب ایک وحشی قوم ہے، جن میں وحشت کے علت و اسباب مستحکم ہیں، جو ان کی گھٹی میں پڑے ہیں اور ان کی طبیعتِ ثانیہ بن چکے ہیں اور انہیں بہت پیارے ہیں کیوں کہ انہیں آزادی میسر ہے کہ ان کی گردن میں کسی حکومت کا پٹہ نہیں۔ اور یہ عادتیں معاشرہ کے خلاف اور معاشرتی زندگی کے متضاد ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی عادت ہے کہ یہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتے، ہر طرف لوٹ مار کرتے ہیں جو امن و سلامتی کے موجب تمدن کے خلاف ہے، مثال کے طور پر انہیں پتھر اس لیئے چاہئیں کہ ان پر دیگیں رکھ کر پکائیں، اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے وہ عمارت ڈھا دیتے ہیں، مکان منہدم کر دیتے ہیں اور اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے پتھر اکھاڑ کر لے جاتے ہیں۔ اس طرح خیمے گاڑنے کیلئے انہیں لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے جہاں سے موقع پاتے ہیں، چھتیں اکھاڑ کر لے جاتے ہیں۔ لہذا ان کا وجود تعمیر کے منافی ہے، اور تخریب پسند ہے۔ اور تعمیر ہی معاشرے اور آبادی کی بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ لوٹ مار ان کا ذریعہ معاش ہے اور ان کا رزق ان کے نیزوں کے نیچے ہے۔ اور لوٹنے کے سلسلے میں ان کے ہاں کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ کہ اس پر آ کر رک جائیں، بلکہ جب بھی ان کی نگاہ کسی کے مال، برتنے کی چیز یا کسی سامان پر پڑتی ہے، اسے لوٹ لیتے ہیں۔ جب ان کے غلبہ و اقتدار کا مدار لوٹ کھسوٹ پر ہے، تو اگر ان کے ہاتھوں میں حکومت آ جائے، تو لوگوں کا مال اور جانیں ان سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں؟ لا محالہ آبادی اجڑے گی اور معاشرہ خراب ہو گا۔ نیز یہ صنعت کاروں سے جبریہ کام کراتے ہیں اور ان کی نگاہ میں ان کے کام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ اس لیے صنعت کاروں کو ان کی محنت کا کافی صلہ نہیں ملتا، اور صنعت و حرفت ہی معاش کا اصلی ذریعہ ہے۔ پس جب لوگوں کے کام اور محنت کی بے قدری ہوتی ہے، اور صنعت و حرفت والوں کو ناحق بیگار کرنی پڑتی ہے، تو اہل حرفہ کی توجہ اس طرف سے اٹھ جاتی ہے اور ہاتھ کام سے رک جاتے ہیں، امن و سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور آبادی اجڑنے لگتی ہے، مثلا یمن ان کی قرار گاہ بنا تو بربادی کے گھاٹ اترا سواۓ چند شہروں کے، عراق کا بھی یہی حال ہوا کہ پارسیوں کے زمانے میں کیسا سر سبز تھا اب کیسا اجڑا ہوا ہے، ادھر شام بھی ویران ہے یہی حال مغرب و افریقہ کا ہے کہ تمام ملک ویرانی کی بھینٹ چڑھا حالانکہ بنو بلال بنو سلیمہ کی آمد سے پہلے سارا علاقہ آبادی سے بھرپور تھا، شہروں اورقریوں میں مٹی ہوئی آبادی کے آثار و علامات اور اجڑے گھروں کےکھنڈر اب بھی زبانِ حال سے اگلی آبادی کا پتہ دے رہے ہیں، عرب ملکی سیاست میں تمام اقوام سے دور تر اور نا آشنا ہیں، ان کی پوری ہمت اس بات پر جمی ہوتی ہے کہ کسی صورت سے لوگوں کا مال لوٹ کھسوٹ کر لے جائیں، جب وہ اپنی غرض پوری کر لیتے ہیں تو پھر اہل ملک سے نظر پھیر لیتے ہیں۔ نہ ان کی مصلحتوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں نہ ان کو ارتکابِ فساد سے روکتے ہیں، بہت سے لوگوں پر جرمانے کرتے ہیں صرف اس لالچ سے کہ کسی راستے ان کو مالی فائدہ پہنچے اور بکثرت مال و دولت جمع ہو سکے، ان کے حاکم رعایا کو خوب نچوڑتے ہیں، رعیت بربادی کا نشانہ بنتی ہے اور آبادی گھٹنے لگتی ہے، نقل ہے کہ ایک اعرابی حجاز سے عبد الملک کے پاس آیا عبد الملک نے اعرابی سے حجاج بن یوسف کا حال پوچھا اس نے گویا حجاج بن یوسف کی تعریف کرتے ہے اور حسن انتظام کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ: میں اس کو تنہا ظلم کرتے ہوئے چھوڑ آیا ہوں، گویا عرب میں اگر صرف حاکم ہی ظلم و ستم کرتا ہو تو یہ اس کے حسن انتظام کی دلیل ہے۔“ ( دیکھیے مقدمہ ابن خلدون)۔
عربوں کے پہلے خلیفہ ابو بکر بن ابو قحافہ کا دور زیادہ تر اندرونی شورشوں کا خاتمہ کرنے میں مصروف رہا۔ لیکن عمر بن خطاب کے خلیفہ بننے تک اندرونی خلفشار پر قابو پایا جا چکا تھا۔ اس سے عمر کو ارد گرد کے ملکوں میں اسلام پھیلانے کے نام پر استعمارانہ قبضے اور لوٹ مار کرنے کا موقعہ ملا، ہمیں اگر یہ دعوے سننے کو ملتے ہیں کہ عمر کے دور میں مدینہ اور مکہ میں کوئی خیرات لینے والا نہیں ملتا تھا، تو اس خوش حالی کی وجہ ان علاقوں میں صنعت و حرفت یا تجارت کا عروج نہیں بلکہ دیگر ممالک کے مالی وسائل کی لوٹ مار تھی۔ عربوں کے ارد گرد کے ملکوں پر حملوں کا واحد مقصد لوٹ مار، غلاموں اور لونڈیوں کا حصول تھا جسے اسلام کی تبلیغ کے خوبصورت لفظوں کے نیچے چھپایا گیا۔ جس مذہب کے ماننے والوں کا دعویٰ ہو کہ: ”دین میں جبر نہیں ہے” ان کا نزدیکی بستیوں اور ملکوں کو مال غنیمت کے نام پر لوٹ مار، قتل و غارت، اور زنا بالجبر کو دین پھیلانے کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
”عرب مادی فوائد کی خاطر حضرت عمر کے زمانے میں سیاسی طور پر بہت متحد تھے۔ کیونکہ اس نے اپنی خلافت کے دوران پڑوسی ملکوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ یوں عرب سامراج نے عرب مسلمانوں کو یہودیوں کی طرح خدا کی منتخب قوم قرار دیتے ہوئے تلوار کے زور پر اسلام پھیلانے اور دوسری قوموں کو لوٹنے کا آغاز کیا۔ کسے معلوم نہیں کہ حضرت عمر نے اسلام کے نام پر جو خلافت کا ادارہ قائم کیا اور اسلامی فتوحات کیلئے ”جہاد“ کا اعلان کیا۔ اس خلافت کے ادارے کا نہ تو قران میں کوئی ذکر ہے اور نہ ہی پیغمبر کا فرمان۔ لہذا یہ کبھی بھی ایک متبرک ادارہ نہیں تھا“ (جی ایم سید: سندھو جی سانجھ)۔
پاکستان کی درسی کتابوں میں عربوں کے سندھ پر حملے کی وجہ دیبل کے نزدیک سمندری قزاقوں کا سراندیپ (سری لنکا) سے مکہ جاتے ہوئے حاجیوں کا ایک جہاز کو لوٹ لینا بتایا جاتا ہے، ان حاجیوں میں بنی عزیز قبیلہ کی بھی ایک عورت تھی۔ ویکیپیڈیا کے مطابق سراندیپ ( موجودہ سری لنکا) کے راجہ نے اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کیلئے تحائف سے بھرا ایک جہاز بھیجا جس میں ایک خوبصرت لڑکی بھی شامل تھی، اس جہاز کو سمندری قزاقوں نے لوٹ لیا، حجاج بن یوسف نے راجہ داہر سے ان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا جسے راجہ داہر نے مسترد کر دیا۔۔ حجاج بن یوسف ثقفی نے غصے میں آ کر راجہ داہر کو حکم عدولی کی سزا دینے کیلئے فوجیں بھیجیں۔
اس حملے کی دوسری وجہ محمد بن حارث علافی اور اس کے پانچ سو ساتھیوں کو امویوں کے حوالے نہ کیا جانا بھی بتایا جاتا ہے۔ پاکستان کی درسی کتابوں میں دانستہ اس نام کا ذکر نہیں کیا جاتا کیونکہ اس سے اسلام اور کفر کی جنگ کا بیان کمزور ہو جاتا ہے۔
چچ نامہ کے مطابق حجاج کے مقرر کردہ مالیاتی عامل جس کا نام سعید تھا، اس نے بلا وجہ سفہوی بن لام الحمامی کو قتل کر دیا، جواب میں علافی قبیلے والوں نے سعید کو قتل کر دیا، حجاج نے علافیوں کے کئی لوگوں کو قتل کروایا۔ اس کے علاوہ حجاج نے اپنے نئے گورنر کو کہا: ”علافیوں کو تلاش کرنا اور کسی طرح بھی انہیں قبضہ میں کر کے سعید کا انتقام لینا“۔ نتیجتاً علافی قبیلہ کے لوگ بھاگ کر راجہ داہر کے ہاں پناہ لیتے ہیں۔ سندھ میں علافیوں کے پناہ لینے کی وجہ راجہ داہر کا مذہبی رواداری پر مبنی رویہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں سندھ میں ہندو، بدھ، زرتشتی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے موجود تھے، وہیں اموی حکومت کے مخالف مسلمان بھی پناہ گزیں تھے۔ مذہبی رواداری کا یہ رویہ راجہ داہر سے پہلے سے ہی وادی سندھ کا طُرہ امتیاز تھا۔ جس کی واضح اور بہترین مثال داہر کے باپ چچ بن سیلائج کا سکھر کے قلعے کو فتح کرنے کے بعد اس کی حاکمیت امیر عین الدین ریحان مدنی کے حوالے کرنا ہے۔ ایک غیر مذہب اور غیر زبان کو اتنی اہم ذمہ داری سپرد کرنے کا مطلب صاف واضح کرتا ہے کہ یہاں حملے سے پہلے ہی مسلمانوں کی خاصی تعداد مقیم تھی اور راجہ کو ان کی وفاداری پر پورا بھروسہ تھا، سکھر کے قلعہ پر قبضے کے وقت یقیناً کوئی اکیلا مسلمان تو نہیں ہوگا جو مہم جوئی کے نقطہ نظر سے سندھ کی جانب آ نکلا ہو، جی ایم سید کے بقول راجہ داہر نے امام حسین بن علی کو بھی پناہ کی پیشکش کی تھی لیکن انہیں کربلا کے مقام پر شہید کر دیا گیا۔
محمد بن قاسم کے حملے کے وقت راجہ داہر نے علافیوں کے سردار محمد بن حارث علافی کو عربوں کی جاسوسی کرنے کا عہدہ سپرد کیا، چچ نامہ کے مطابق محمد علافی نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ باوجود اس کے کہ آپ کی عنایتوں کے بدلے آپ کی خیر خواہی ہم پر واجب ہے لیکن ہم مسلمان ہیں اس لئے لشکرِ اسلام کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے کیونکہ اگر ہم قتل ہوگئے تو جہنم میں جائیں گے اور اگر ہم نے کسی کو قتل کیا تو ان کا خون ہماری گردن پر ہو گا لہذا مجھے یہاں سے نکل جانے کی اجازت دیجئے۔ لیکن چچ نامہ کا تضاد اس وقت سامنے آتا ہے جب اسی چچ نامہ کے مطابق محمد علافی داہر کی شہادت کے بعد اس کے بیٹے جے سنہا کے ساتھ مل کر آخری دم تک عربوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے ملتا ہے۔
جیسے عمر کے زمانے میں عربوں کی ارد گرد کے پڑوسی ملکوں پر قبضے کو اسلام پھیلانے کی کوشش نہیں سمجھا جا سکتا، ویسے ہی سندھ پر اموی دور میں محمد بن قاسم کے حملے کو کسی مسلمان حاجی خاتون کی پکار پر لبیک کہنا بالکل جھوٹ ہے، سندھ کی شان و شوکت اور خوش حالی ہمیشہ سے عرب لٹیروں کے منہ میں رال ٹپکانے کا باعث رہی تھی۔ حاجیوں کے جہاز لٹنے کی کہاںی اس حملے کو جائز ٹھہرانے کیلئے گھڑی گئی ہے، آج سری لنکا جہاں 2013 میں احمدیوں سمیت مسلمانوں کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہے، تیرہ صدیاں پہلے وہاں اتنے مسلمان کہاں سے آ گئے کہ ان کے حاجیوں کے قافلے جہاز بھر بھر کر مک٘ہ جانے لگے؟ اور اگر واقعی کوئی جہاز لٹا بھی تھا تو اس کا ذمہ دار راجہ داہر کو کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ داہر یا اس کے سپاہیوں نے تو جہاز نہیں لوٹا تھا اور نا ہی وہ عربوں کا ماتحت تھا کہ ان کا حکم بجا لانا اس کا فرضِ منصبی تھا۔
اگر مسئلہ محمد علافی اور اس کے ساتھیوں کو امویوں کے حوالے کرنے کا تھا، تو راجہ داہر اپنے وقت کے سماجی قوانیں کے خلاف جاتے ہوئے کیسے ایک پناہ گزیں مہمان کو اس کے دشمن کے حوالے کر دیتا۔ سندھ پر حملے کی اصل وجہ عربوں کی لوٹ مار کی وہی جبلت تھی جسے مختلف بہانوں سے جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
ذیل میں چند حملوں کا ذکر کیا گیا ہے، مزید تفصیلات کیلیے چچ نامہ یا فتوح البلدان دیکھیں۔ جو مصنفین کے مقامی لوگوں کے خلاف تعصب کے باوجود یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اصل کہانی سندھ کی لوٹ مار تھی نا کہ حاجیوں کے قافلے کا لٹنا یا کچھ اور۔ وادی سندھ پر حملوں کا سلسلہ عمر بن خطاب کے زمانے سے شروع ہوا۔ عمر کے زمانے میں شام، عراق، مصر اور ایران پر قبضہ ہونے کے بعد کی لوٹ مار کی وجہ سے جہاں بہت زیادہ مال و دولت عربوں میں خوش حالی پیدا کرتی ہے، وہیں یہ دولت عربوں کی فوجی طاقت میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے۔ چنانچہ اموی دور میں عربوں کی نگاہیں سندھ، سپین اور دیگر ممالک کی دولت لوٹنے پر مرکوز ہوتی ہیں۔ چیدہ چیدہ حملوں کی تفصیل کچھ یوں ہے: جی ایم سید کے بقول ولید بن عبد الملک کے زمانے میں ہونے والے سندھ پر حملے سے پہلے یہاں 14 حملے ہو چکے تھے۔ (تفصیل کیلئے دیکھیے: سندھو جی سانجھ از جی ایم سید)
عمر بن خطاب کے زمانے مین مغیرہ بن ابو العاص دیبل کی جانب روانہ ہوتا ہے، اس وقت یہاں پر داہر کے باپ چچ بن سیلائج کی حکومت ہوتی ہے، جنگ میں مغیرہ مارا جاتا ہے ،مغیرہ کی موت کے بعد جب عمر کو ربیح بن زیاد حارثی کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ: ”ہند اور سندھ میں ایک ایسے راجہ کا ظہور ہوا ہے جو کہ سرکشی اور لاپرواہی کرتا ہے اور دل میں نافرمانی کے بیج بوئے ہوئے ہے“ تو عمر سندھ کی جانب مزید لشکر بھیجنے سے منع کر دیتا ہے۔
تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان نے عبداللہ بن امیر کو عراق کا والی مقرر کیا اور اس سے کہا کہ ہند کے طرف کسی کو بھیج کر اس علاقے کے متعلق معلومات فراہم کرے۔ جس نے عبداللہ بن عامر اور حاکم بن جبلہ کو اس کام کو سرانجام دینے کیلئے بھیجا اور وہاں سے واپسی کے بعد اسے عثمان کے پاس اطلاع دینے کیلئے بھیجا، عثمان کو ہند کے متعلق کچھ یوں بتایا جاتا ہے:
”اے امیر المومنین، میں نے معائنہ کیا ہے اور بہت اچھی طرح جانتا ہوں، تو حضرت عثمان نے کہا: بتاؤ۔ اس نے کہا: وہاں کا پانی میلا، پھل کسیلے اور کھٹے ہیں، زمین پتھریلی ہے، مٹی شوریدہ اور باشندے بہادر ہیں۔ اگر چھوٹا لشکر جائے گا تو تباہ جائے گا اور بڑا لشکر بھوکوں مر جائے گا۔ عثمان نے پوچھا کہ: وہ لوگ قول و قرار کے کیسے ہیں، وفا دار ہیں یا بے وفا، حکیم نے جواب دیا کہ: خائن اور غدار ہیں“ نتیجتاً عثمان نے سندھ پر لشکر کشی سے منع کر دیا اور کوئی حملہ نہیں کیا۔
علی بن ابو طالب کو خلافت کے آغاز میں ہی اندرونی خلفشار کا سامنا ہوتا ہے، جس سے فارغ ہونے کے بعد اس نے صغیر بن دعر کو لشکر کی کمان دے کر ہند کی جانب روانہ کیا، لشکر فتح مند ہوا اور بہت زیادہ مال غنیمت اور غلام ہاتھ آئے۔
بعد میں حارث بن مرہ کی سرکردگی میں ایک اور لشکر بھیجا گیا جو شروع میں فتح مند ہوا اور کثیر مال غنیمت کے علاوہ اس قدر غلام ہاتھ آئے کہ فتوح البلدان کے مطابق صرف ایک دن میں 1000 غلام تقسیم ہوئے۔ حارث بعد میں اپنے ساتھیوں سمیت کیکانان کے درے کے پاس ہلاک ہوا۔
معاویہ بن ابو سفیان نے اس علاقے کا انچارج عبداللہ بن سوار العبدی کو مقرر کیا اور اسے کہا: ”سندھ میں ایک پہاڑ ہے جسے کیکانان کہتے ہیں، وہاں کے گھوڑے قد آور اور موزوں شکل و شباہت کے ہیں، تم سے پہلے وہاں کی غنیمتیں اور اموال غنیمت یہاں پہنچ چکے ہیں، وہاں کے لوگ غدار ہیں اور اسی پہاڑ کی وجہ سے شرارتیں اور سرکشی کرتے رہتے ہیں“ عبداللہ کو کمک کے طور پر قیس بن ہیثم السلمیٰ کو بھی بھیجا گیا۔ لیکن انہیں اس قدر بری شکست ہوئی کہ پہاڑ (کوہ سلیمان) عربوں کی لاشوں سے بھر گیا۔
عبداللہ کے بعد راشد بن عمرو کو مکران کی جانب بھیجا گیا، جسے ابتدا میں کامیابیاں ملیں لیکن بھرج کے نزدیک مقامی لشکر کے ہاتھوں مارا گیا۔ راشد کے مرنے کے بعد سنان بن سلمہ گورنر بنا، وہ بھی ابتدائی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد بدھیہ ( مغربی جیکب آباد) میں ہلاک ہوا۔ اس کے بعد منضر بن جارود کو اس مہم کے لیئے روانہ کیا گیا، وہ پورالی کے نزدیک بیمار ہو کر مر گیا۔
گو امویوں کو اپنی حکومت کے شروع میں مشکلات پیش آتی ہیں، لیکن امام حسیں کو شہید کرنے اور انہی کے خاندان کے عبداللہ بن زبیر کو خانہ کعبہ کے اندر قتل کرنے کے بعد اہل بیت کی بغاوت تقریباً کچلی جا چکی ہوتی ہے اور حکومتِ بنی امیہ اندرونی خلفشار سے نپٹنے کے بعد اسلام کو پھیلانے کے نام پر بیرونی لوٹ مار کیلئے نکل کھڑی ہوتی ہے۔ عرب جو اپنے خاندانی اور قبائلی جھگڑوں میں الجھے تھے ان کی توجہ ان سے ہٹانے کیلئے اس سے بہتر کوئی اور حل نہیں تھا کہ انہیں پڑوس کی امیر آبادیوں اور شہروں کو لوٹ کر اپنی حالت بہتر بنانے کی طرف مائل کیا جائے۔ ولید بن عبدالمالک کے زمانے میں جہاں موسیٰ بن نصیر کو فتح سپین کیلئے بھیجا گیا، وہیں قتیبہ بن مسلم سمرقند اور بخارا تک جا پہنچا ۔ لیکن جب حجاج خلیفہ سے سندھ پر حملہ کی اجازت طلب کرتا ہے تو ماضی کے تلخ تجربات کی وجہ سے اسے پہلی بار اجازت نہیں ملتی۔ عجیب لگتا ہے کہ خلیفہء وقت ولید بن عبد الملک کو حاجیوں کے ”لٹے جہازوں” کی کوئی پرواہ نہیں تھی، دوسری بار حجاج کے اصرار پر سندھ پر حملہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
عرب عبداللہ بن نبہان السلمیٰ کو سندھ بھیجتے ہیں لیکن وہ دیبل میں مارا جاتا ہے۔ دیبل کی جانب دوسری مہم کا سربراہ بذیل بن تحفہ تھا، جسے راجہ داہر کے بیٹے جے سنہا کے ہاتھوں بری طرح شکست ہوئی، بذیل بھی اس جنگ میں مارا گیا۔ جس جگہ بذیل بن تحفہ مارا جاتا ہے وہاں کی عورتوں کی خوبصورتی کی وجہ سے عرب اسے یاقوتوں کا جزیرہ کہتے تھے۔ بدیل کی موت کی خبر جب حجاج تک پہنچی تو اس نے کہا ”اے موذن، جب بھی نماز کیلئے اذان دو تو دعا میں مجھے بذیل کا نام یاد دلاتے رہنا، تا کہ میں اس کا انتقام لوں“۔
پہلی بار جب حجاج نے نے شکست کا بدلہ لینے کی اجازت مانگی تو خلیفہ ولید بن عبد المالک نے اسے یہ جواب دیا:
”وہ قوم بہت مکار اور ملک بہت دور ہے، لشکر، اسلحہ جات اور جنگ کی تیاری پر بہت خرچہ ہوگا اور بیت المال پر بڑا بوجھ ہوگا جو کہ ٹھیک بات نہیں ہے، چنانچہ اس سلسلے کو موقوف کر دینا چاہیئے کیونکہ جب بھی وہاں لشکر جاتا ہے مسلمان ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اس بات کو بھول جاؤ“ (چچ نامہ)۔
حجاج پھر دوسری بار لکھتا ہے اور اجازت پر اصرار کرتا ہے: ”اے امیر المومنین۔۔ کتنی مدت گزر چکی ہے کہ مسلمان قیدی (بذیل بن تحفہ والی جنگ کے) کافروں کے ہاتھوں گرفتار ہیں، اور اسلام کا لشکر ایک مرتبہ شکست کھا چکا ہے جس کا بدلہ لینا اور مسلمانوں کو آزاد کرانا ضروری ہے، اگر خرچہ کی تکلیف ہے تو میں اس کا ذمہ لیتا ہوں، دار الخلافہ کے خزانہ سے اس لشکر پر جو رقم خرچ ہوگی اس سے دوگنی، سہ گُنی رقم خزانے میں جمع کرائی جائے گی“ (چچ نامہ)۔
حجاج اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو بھیجتا ہے، سندھ پر حملے سے پہلے محمد بن قاسم فارس کا گورنر تھا، اور اس کی عمر 17 سال بتائی جاتی ہے۔ محمد بن قاسم سب سے پہلے دیبل کے قلعے کا محاصرہ کرتا ہے، دیبل کوئی بڑا شہر نہیں تھا، لیکن پھر بھی محاصرہ دس دن لیتا ہے۔ قلعہ تب فتح ہوتا ہے جب ایک برہمن قلعے سے باہر نکل کر عربوں کو مشورہ دیتا ہے کہ قلعے کے اوپر لگے ہوئے سرخ رنگ کے جھنڈے کو مار گرایا جائے۔ جس سے قلعے کے اندر محصور لوگوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے۔ برہمن کے کہنے کے مطابق منجنیقیں جھنڈے کو نشانے پر رکھ لیتی ہیں۔ جس سے قلعے کی وہ چوٹی ٹوٹ جاتی ہے۔
”تب اہل دیبل نے دروازہ کھول کر امان طلب کی اور اس پر محمد بن قاسم نے فرمایا: مجھے امان کا حکم نہیں ہے، پھر ہتھیار بندوں کا قتل عام تین دن تک جاری رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر محمد بن قاسم مندر کے اندر آیا جہاں کچھ لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی، اور دروازہ بند کر کے خود کو جلانا چاہ رہے تھے۔ اندر داخل ہونے کیلئے دو چوکیداروں کو کھینچ کر باہر نکال کر قتل کیا گیا۔ سات سو دیوداسیاں جو بت کی خدمت کلیئے تھیں، انہیں ان کے قیمتی زریں لباسوں اور جڑاوؑ زیوروں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ ایک وقت میں چار آدمیوں کو اندر داخل کیا گیا، اور کچھ کہتے ہیں کہ چار سو آدمی ایکدم سے اندر آئے اور ان کے زیورات زبردستی اتار لیئے“ (چچ نامہ)۔
نیرون کوٹ کا قلعہ بھنڈر شمنی کے زیر نگرانی تھا، جب عرب خوراک اور اسلحہ کی شدید کمی کی وجہ سے بد دل ہو چکے ہوتے ہیں تو بھنڈر یہ کہہ کر قلعہ عربوں کے حوالے کر دیتا ہے کہ وہ بدھ ہے اور اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کس کے پاس ہو۔
”دوسرے دن جب صبح صادق تاریکی کے پردے سے اطلسی لباس پہن کر نمودار ہوئی، تب شمنی بھی بے اندازہ تحفوں اور بے شمار نذرانوں کے ساتھ محمد بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوا اور رضا مندی کا خلعت پہنا اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا، اور محمد بن قاسم کی دعوت کی، یہاں تک کہ لشکر کو فراخی کے ساتھ غلہ ملنے لگا“ (چچ نامہ)۔
محمد بن قاسم کی ان کامیابیوں کی اہم وجہ کچھ مقامی غداروں کا ساتھ مل جانا تھا، جن میں سب سے نمایاں نام بدھ سردار کاکا کوتک اور موکا بن وسایا کا ہے، بعد میں موکا کا بھائی راسل بن وسیایا بھی عربوں کا ساتھی بن جاتا ہے۔ جب عربوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ دریا کیسے پار کریں تو موکا انہیں پل بنانے کیلیے کشتیاں مہیا کرتا ہے۔ جب بھی محمد بن قاسم کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے وہ موکا بن وسایا سے مدد مانگتا ہے۔ کاکا کوتک نامی بدھ سردار جو بدھیہ کے قلعہ کا حاکم ہے، وہ نہ صرف بغیر لڑے قلعہ حوالے کر دیتا ہے، بلکہ دوسروں کو بھی لڑنے سے روک دیتا ہے، اور جو پھر بھی لڑنا چاہتے ہیں، انہیں عربوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ افواہ بھی پھیلا دی جاتی ہے کہ ہماری کتابوں اور نجوم کے حساب سے یہ حکم صادر ہوا ہے کہ ہندوستان لشکرِ اسلام کے ہاتھوں فتح ہوگا۔ اس لیے اب میرا ارادہ ہے کہ مسلمانوں کا استقبال کروں۔ قلعہ کے فتح ہو جانے کے بعد عرب مال غنیمت اکٹھا کرنے میں جٹ جاتے ہیں۔
”اس کے بعد شمنیوں کے علاوہ جن کے ساتھ پختہ عہد نامہ کیا تھا، دوسروں کے پاس جہاں بھی سونا چانسی دیکھا، اپنے قبضے میں کیا۔ اور سارا سونا چاندی، زیور اور نقدی ضبط کر کے لشکر کا حق لشکر کو دے کر باقی پانچواں حصہ حجاج کے خزانچی کے حوالے کیا“ (چچ نامہ)۔
محمد بن قاسم راجہ داہر کے چچا زاد بھائی بجھرائے بن چندر بن سیلائج اور دیگر چھوٹے سرداروں کو شکست دیکر آگے بڑھتا ہے۔ جب وہ دریائے سندھ کے کنارے پہنچتا ہے تو اس کی اس پیش قدمی پر وزیر راجہ داہر کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال اور بچوں کو ہند بھیج دے اور اکیلے جنگ کرے یا دوسرے راجاوں کو کہے کہ میں تمہارے اور عرب لشکر کے درمیان میں دیوار کی طرح حائل ہوں، لہذا میرے ماتحت آ کر عربوں کے خلاف جنگ لڑو، لیکن راجہ داہر نے تمام تجاویز یہ کہہ کر ٹھکرا دیں کہ اگر میں نے اپنے اہل خاندان کو بھیجا تو رعایا بوکھلا جائے گی اور میرے ٹھاکر اور امیر دل شکستہ ہو کر جنگ نہیں کریں گے اور منتشر ہو جائیں گے۔ اور نا ہی میں کسی اور کے دروازے پر جا کر اندر آنے کی اجازت مانگوں گا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ راجہ داہر اپنے وزیر کو کہتا ہے:
”میرا منصوبہ ہے کہ میں کھلے میدان میں عربوں سے مقابلہ کروں، اور پوری قوت اور شدت سے جنگ کروں۔ اگر میں غالب آیا تو میں ان کو کچل دوں گا اور میری بادشاہت مضبوط ہوگی۔ لیکن اگر میں عزت و ناموس کے لیے قتل ہوگیا، تو یہ بات ہند اور عرب کی کتابوں میں درج ہوگی، اور شرفا اس بات کا ذکر کریں گے اور دنیا کے دیگر بادشاہ سنیں گے، اور یہ کہا جائے گا کہ فلاں بادشاہ نے اپنے ملک کی خاطر اپنے دشمنوں سے لڑتے ہوئے اپنی قیمتی جان قربان کر دی“ (چچ نامہ)۔
حجاج کو جنگ کی آہستہ رفتار سے بہت الجھن ہوتی ہے، وہ ایک غصہ بھرا خط محمد بن قاسم کو لکھتا ہے:
”میں تم سے غیر مطمئن ہوں اور تمہاری نرمی کی روش مجھے حیران کر رہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ تم لوگوں سے اس قدر رحم سے کیوں پیش آ رہے ہو۔ جب تمہاری آزمائش کے مطابق کوئی تمہارا دشمن ثابت ہوا ہے تو تمہیں اس پر قطعی مہربان نہیں ہونا چاہیے۔ تمہیں عام اور خاص کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے تمہاری نا سمجھی آشکار ہوگی اور دشمن تمہیں کم عقل اور نابالغ سمجھے گا“ (چچ نامہ)۔
راجہ داہر اور محمد بن قاسم کے درمیان دریا حائل ہے، محمد بن قاسم اپنے قاصد کے ذریعہ پیغام بھیجتا ہے کہ یا تو داہر اپنی فوجیں دریا کے پار لے آئے یا عربی فوجوں کو دریا پار کرنے دیا جائے۔ راجہ داہر نے محمد علافی سے پوچھا تو اس کا مشورہ تھا کہ قاسم کو دریا پار نہ کرنے دیا جائے، لیکن داہر کی حمیت نے اسے قبول نہ کیا کہ اگر اس نے عربوں کو جنگ کیلیے دریا پار کرنے نہ دیا تو اس حرکت کو اس کی کمزوری یا عاجزی پر محمول کیا جائے گا۔ چنانچہ اس نے شامی قاصد کو کہا:
”واپس جا کر اپنے امیر سے کہہ دو کہ دریا پار کرنے کے سلسلے میں اسے آزادی ہے، ہم جنگ کرنے کیلیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔۔ یا تم دریا پار آ جاؤ، نہیں تو ہم دریا پار کر کے آ جاتے ہیں“۔
موکا بن وسایا کی دی گئی کشتیوں کی مدد سے عربی فوج پل بنا کا دریا کے دوسرے پار آتی ہے۔
مقابلہ کئی دن تک جاری رہتا ہے، باوجود اس کے کہ محمد بن علافی کا ایک ساتھی جس کا نام عبید تھا، عربوں سے جا ملتا ہے اور داہر کا جنگ کا منصوبہ عربوں کو بتا دیتا ہے لیکن داہر بہادری سے جنگ لڑتا ہے۔ جنگ کے گیارہوں (آخری) دن عربی لشکر میں بھگدڑ مچ جاتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ عربوں کو شکست ہو گئی ہے۔
”اس پر کافروں نے سمجھا کہ اسلامی لشکر فرار ہو رہا ہے، اور واقعی عرب دہشت زدہ اور حیران ہو گئے تھے۔ محمد بن قاسم تو اتنا مدہوش تھا کہ پانی پلانے والے غلام کو کہتا ہے: مجھے پانی کھلا“۔
اس وقت موکا بن وسایا بھی اپنے ساتھیوں سمیت عربوں کی مدد کیلئے جنگ میں شامل ہو جاتا ہے۔
داہر اپنے ہاتھی پر بیٹھ کر داد شجاعت دے رہا ہے کہ اسے عورتوں کی طرف سے آواز آتی ہے: ”اے رائے، ہم عورتیں ہیں، ہمیں عربوں نے پکڑ کر قیدی بنا لیا ہے“ داہر نے یہ کہہ کر اپنا ہاتھی ان کی طرف موڑ دیا: ”کیا کہا میں ابھی زندہ ہوں، تمہیں کون پکڑ سکتا ہے“ یہ سنتے ہی محمد بن قاسم نے ایک نشانہ باز کو کہا، یہی وقت ہے۔ اس نشانہ باز کے آتشیں تیر سے داہر کے ہودے میں آگ لگ جاتی ہے، فیل بان اپنا ہاتھی دریا کی جانب بڑھاتا ہے، داہر کا ہاتھی جب باہر آتا ہے تو تیر اندازوں کی ایک باڑ اس کا انتظار کر رہی ہوتی ہے، ایک تیر اس کے دل میں لگتا ہے، اور یوں یہ سندھی سورما اپنی جان اپنے وطن پر نچھاور کر دیتا ہے۔ داہر کا سر قلم کر کے حجاج کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ جب حجاج کے سامنے راجہ داہر کا سر لایا جاتا ہے تو بنی ثقیف کا ایک آدمی یہ شعر پڑھتا ہے۔
”خوشیاں مناؤ، گناہگار ذلیل ہوئے، ان کی دولت ہمارے ہاتھ آئی۔ اب وہ تنہا ہیں اور انڈے کی طرح آسانی سے ٹوٹنے والے۔ اور ان کی کستوری ہرنیوں جیسی (شوخ اور خوشبودار) عورتیں سو رہی ہیں (ہمارے حرم میں)، ان کے بادشاہ کا (کٹا ہوا) سر یہاں پڑا ہوا ہے، اب وہ شرم سے جھکے ہوئے سر کے ساتھ اونٹوں پر سوار ہوں گے، اور ان کی فوج زار و قطار روئے جا رہی ہے“۔
حجاج نے منادی کرائی اور منبر پر چڑھ کر کہا: ”اہلِ شام اور اہل عرب کو ہند کی فتح مبارک ہو، کثیر مال و دولت، مہران کا میٹھا پانی، اور بے انتہا نعمتیں جو خدا نے انہیں عطا کی ہیں“۔
اس مہم پر ساٹھ کروڑ درہم خرچ ہوئے، لوٹ مار سے ایک ارب 20 کروڑ کا مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ حساب کرنے کے بعد حجاج نے کہا:
”ہم نے انتقام لے کر اپنا غصہ ٹھنڈا کر لیا ہے، ہم نے ساٹھ کروڑ کا نفع حاصل کیا اور ساتھ میں داہر کا سر بھی“۔ (فتوح البلدان: احمد بن یحییٰ البلاذری)۔
محمد بن قاسم آگے بڑھتا ہے تو اروڑ کے مقام پر راجہ داہر کی بہن بائی قلعہ بند ہو کر مقابلہ کرتی ہے، لیکن جب اسے منجنیقوں اور تیروں کی بارش سے بچنے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا تو وہ حکم دیتی ہے کہ تیل، لکڑیاں اور روئی اکٹھی کی جائے، محمد بن قاسم آ پہنچا ہے، ان چنڈالوں اور گوشت خوروں کے ہاتھوں ذلیل ہونے کی بجائے ہم اپنے آپ کو آگ کی نذر کر کے اپنے شوہروں سے جا ملتی ہیں، یہ سوچ کر انہوں نے اپنے آپ کو زندہ جلا ڈالا۔ اس کے بعد محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ: ”جنگ کرنے والے لوگ اگر فرمانبرداری کیلئے بھی سر جھکائیں تب بھی انہیں نہ چھوڑا جائے“۔ چنانچہ چھ ہزار جنگجو سندھیوں کو قتل کیا گیا اور ان کے بیوی بچوں کو قیدی بنایا لیا گیا۔ اروڑ کے قلعے سے محمد بن قاسم کو بہت زیادہ مال و دولت کے علاوہ ساٹھ ہزار غلام اور کنیزیں ہاتھ آئیں جن میں تیس کا تعلق شاہی خاندان سے تھا، ان میں راجہ داہر کی بھانجی بھی شامل تھی، قیدی شاہزادیوں کو خلیفہ کے حکم سے بیچ دیا گیا، کچھ تحفتا بانٹ دی گئیں۔
محمد بن قاسم نے برہمن آباد کا رخ کیا، راستے میں بھرور اور دھلیلہ کے قلعے تھے، جن میں سولہ ہزار جنگجو مرد تھے، دو ماہ دھلیلہ کے قلعے کا محاصرہ جاری رہا، جب قلعہ منجنیقوں سے ٹوٹا تو تقریباً تمام جنگجو مرد ہلاک ہو چکے تھے، باقیوں کو غلام اور عورتوں کو کنیزیں بنا کر پانچواں حصہ دار الخلافہ بھیج دیا گیا۔
برہمن آباد کے قلعے کے جنگجو صبح کے وقت باہر آتے ہیں اور شام تک جنگ کرتے ہیں، اس طرح یہ سلسلہ چھ ماہ تک جاری رہا، محاصرے سے تنگ آ کر کچھ لوگوں نے باہر آ کر امان مانگی، محمد بن قاسم نے امان دینے کے بعد سب ہتھیار بندوں کو قتل کروا دیا اور ان کے متعلقین کو قیدی بنا لیا گیا، تیس سال اور اس سے نیچے کے جوانوں کو بیڑیاں پہنا دی گئیں، اکثر جوانوں کو قتل کر دیا گیا، بچنے والوں پر جزیہ نافذ کر دیا گیا۔
برہمن آباد کا قلعہ چند لوگوں کی سازش کی وجہ سے فتح ہوا کہ انہوں نے دروازہ کھول دیا، جب قلعہ ٹوٹا تو راجہ داہر کی بیوی لاڈی جس کی تجویز تھی کہ اگر قلعہ فتح ہوا تو میں بچوں سمیت بھڑکتی چتا میں کود جاؤں گی، لیکن قلعہ اچانک فتح ہو گیا اور لاڈی اپنی ہم خیال عورتوں سمیت گرفتار ہوگئی، کچھ روایات کے بقول لاڈی گرفتار نہیں ہوئی۔
”یہاں پر داہر کی ایک بیوی تھی، پکڑے جانے کے ڈر سے اس نے اپنی باندیوں اور جمع پونجی کے ساتھ اپنے آپ کو زندہ جلا دیا“ (فتوح البلدان: احمد بن یحییٰ البلاذری)
برہمن آباد سے راجہ داہر کی دو بیٹیاں گرفتار ہوتی ہیں۔ باقی ماندہ لوگوں میں سے بیس ہزار لوگوں کو غلاموں کے طور پر چنا گیا۔ ایک روایت کے مطابق یہاں چھ ہزار سندھیوں کو قتل کیا گیا، جبکہ دوسری روایت کے مطابق سولہ ہزار سندھی قتل کیے گئے۔ باقیوں پر جزیہ نافذ کر دیا گیا۔
”میں آج تمہیں جانے دیتا ہوں۔ تم میں جو مسلمان ہو جائے اور دائرہ اسلام میں آ جائے، ان پر جزیہ معاف ہوگا۔ لیکن جو اب بھی اپنے عقیدے سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں، ان کو اپنے بزرگوں کا مذہب رکھنے پر جرمانہ اور جزیہ دینا ہو گا“۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے وہیں رہنا پسند کیا، باقی اپنے آبائی مذہب کی خاطر وہاں سے بھاگ گئے، اور ان کے گھوڑے، مال و اسباب اور جائیداد ان سے لے لی گئی، محمد بن قاسم نے سوداگروں اور صناعوں پر صرف بارہ درہم کے برابر کی چاندی بطور جزیہ مقرر کی، کیونکہ ان کے اثاثے (عربوں کے ذریعہ) لٹ چکے تھے“ (چچ نامہ)۔
برہمن آباد کی فتح کے بعد محمد بن قاسم کو حجاج کا ایک اور خط ملتا ہے: ”اب اس جگہ پر مزید قیام نہیں کرنا چاہیے، ہند اور سندھ کی بادشاہت کے ستون اروڑ اور ملتان ہیں جو کہ بادشاہوں کی تخت گاہ ہیں۔ بادشاہوں کے خزانے اور دفینے بھی ان دونوں مقامات پر مدفون ہیں۔ اگر قیام ہی کرنا ہے تو کسی ایسی جگہ پر قیام کرو کہ جو پُر فضا ہو تاکہ سارا سندھ اور ہند قبضے میں آ جائے، جو اسلام کی تابعداری سے انکار کرے، اسے قتل کر ڈالو، اللہ ہماری مدد کرے گا۔ ہند کے شہروں سے لے کر چین کی حدود تک کے علاقے فتح کرنا تجھ پر لازم ہے ۔ میں نے قتیبہ بن مسلم قریشی کو تمہیں کمک پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ اپنے تمام غلام اس کے پاس پہنچا دو۔“ (چچ نامہ)۔
حجاج کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے محمد بن قاسم ملتان کا رخ کرتا ہے۔ اسکلندہ کے قلعے کا مقامی لشکر باہر نکل کر مقابلہ کرتا ہے لیکن ایک خونریز جنگ کے بعد مقامی لشکر پسپا پو کر قلعے میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جب محاصرے کے دوران قلعے میں خوراک کی قلت ہوتی ہے، تو اہلِ قلعہ امان کی درخواست کرتے ہیں، امان دینے کے بعد محمد بن قاسم چار ہزار ہتھیار بندوں کو تہہ تیغ کرنے کے بعد ان کے پسماندگان اور متعلقین کو غلام بنانے کا حکم جاری کرتا ہے۔
اس سے اگلا قلعہ دریائے راوی کے کنارہ ہے جس کا حاکم بجھرا ہے، سترہ دن تک سخت لڑائی ہوتی ہے، جس میں عربوں کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ محمد بن قاسم قسم کھاتا ہے کہ میں اس قلعے کو منہدم کر ڈالوں گا، چنانچہ اس کے حکم سے فتح کے بعد سارے شہر کو ویران کر دیا جاتا ہے۔
اگلے قلعے پر عربوں کا مقابلہ راجہ کندا سے ہوتا ہے۔ اہل قلعہ دو ماہ تک مقابلہ کرتے ہیں، تا آنکہ ایک غدار قلعے کے اندر آنے کا راستہ عربوں کو بتاتا ہے جس سے قلعہ فتح ہو جاتا ہے، چھ ہزار سپاہیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور ان کے متعلقین کو غلام بنا لیا جاتا ہے۔
اس ساری مہم کے دوران عرب لشکر کی ایک اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ مقامی عبادت گاہوں کو یا تو ڈھا دیا گیا یا انہیں مسجدوں میں تبدیل کر دیا گیا، ہندوؤں کے مندروں کو انتہائی بے رحمی سے لوٹا گیا۔
”علی بن محمد مدائنی سے روایت ہے کہ محمد بن قاسم وزیروں اور نائبوں کے ساتھ اس بت خانے میں آیا۔ یہاں اس نے سونے کا ایک بت دیکھا جس کی آنکھوں کی جگہ پر سرخ یاقوت جڑے ہوئے تھے۔ محمد بن قاسم نے سمجھا کہ یہ کوئی آدمی ہے چنانچہ اس نے وار کرنے کیلیے تلوار نکالی۔ اس پر بت کے مجاور نے کہا، اے امیر یہ وہی بت ہے جو ملتان کے راجہ جوبن نے بنوایا تھا، اور جو مال و دولت دفن کر کے فوت ہو گیا تھا۔ اس کے بعد محمد بن قاسم نے اس بت کو اٹھا لینے کا حکم دیا، اس کے نیچے سے 230 من سونا اور سونے کی کترن سے بھرے ہوئے چالیس مٹکے برآمد ہوئے۔ کُل تیرہ ہزار دو سو من سونا دفینے سے نکلا۔ وہ سونا اور بت خزانے میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ موتی اور جواہرات جو کہ ملتان کی لوٹ میں ہاتھ آئے تھے، وہ اور بہت سے دوسرے خزانے اور دفینے بھی قبضے میں کیے گئے“ (چچ نامہ)۔
سندھ کی داستان راجہ داہر کی دو بیٹیوں سوریا دیوی اور پرمل دیوی کے بغیر نا مکمل ہے، جب انہیں خلیفہ کے حرم میں پیش کیا گیا، تو بڑی بہن نے خلیفہ کو کہا کہ وہ کنواری نہیں رہی اور یہ کہ محمد بن قاسم ان دونوں بہنوں کو خلیفہ کے پاس بھیجنے سے پیشتر ان کی عزت لوٹ چکا ہے، خلیفہ کے حکم پر محمد بن قاسم کو ایک تازہ ذبح شدہ بیل کی کھال میں سی کر بھیجا جاتا ہے۔ خلیفہ کو جب اطلاع ملتی ہے کہ محمد بن قاسم کا صندوق آ پہنچا ہے تو خلیفہ دریافت کرتا ہے: ”زندہ ہے یا مردہ“ تو اسے بتایا جاتا ہے کہ: ”خدا خلیفہ کی عمر اور عزت کو دائمی بقا عطا کرے، جب اودھا پور میں فرمان ملا تب حکم کے مطابق محمد بن قاسم نے خود کو کچے چمڑے میں بند کرایا، اور دو دن بعد راہ میں جان اللہ تعالیٰ کے حوالے کر کے دار البقا کو کوچ کر گیا“ اس وقت خلیفہ داہر کی بیٹیوں کو بلاتا ہے، اور اپنے ہاتھ میں پکڑی سبز زمرد کی چھڑی کو محمد بن قاسم کے دانتوں پر پھیرتے ہوئے کہتا ہے: ”اے راجہ داہر کی بیٹیو، ہمارا حکم اپنے ماتحتوں پر اس طرح جاری ہے۔ اس لیے کہ سب منتظر اور مطیع رہتے ہیں۔ جیسے ہی ہمارا فرمان اسے قنوج میں ملا، ویسے ہی ہمارے حکم پر اس نے اپنی پیاری جان قربان کر دی“ لیکن جب خلیفہ کو داہر کی بیٹی یہ بتاتی ہے کہ اس نے اپنے باپ راجہ داہر کی موت کا انتقام لینے کیلیے جھوٹا الزام لگایا ہے تو خلیفہ دونوں بہنوں کو دیوار میں زندہ چنوا دیتا ہے۔
کیا یہ واقعی ایک ایسی جنگ تھی جسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ یا یہ عربوں کی اپنے وقت کی مہذب دنیا کو لوٹنے کی ایک کاروائی تھی۔ جیسے اس سے پہلے وہ شام، مصر، عراق و ایران کو لوٹ چکے تھے۔ کیا وجہ ہے کہ خلیفہء وقت دونوں بار سندھ پر چڑھائی کی اجازت دینے سے ہچکچاتا ہے، کیا اس کا جذبہ ایمانی حجاج بن یوسف سے کمزور تھا، خلیفہ اور حجاج کے درمیان جو خط و کتابت ہوتی ہے اس میں بھی کسی جہاز کے لٹنے کا کوئی ذکر نہیں ہے، دوسری بار بھی جو خط لکھا جاتا ہے اس میں بھی شکست کا انتقام لینے اور بذیل بن تحفہ کے سندھ کے حملے کے دوران قید ہونے والے قیدیوں کا ذکر ہے۔ فتح کے بعد بھی حجاج صرف شکست کے انتقام اور منافع کا ذکر کرتا ہے۔ حجاج کی یہ بھی خواہش تھی کہ سندھ کے بعد باقی ماندہ ہندوستان اور اس کے بعد چین پر بھی حملہ کیا جائے، کیا باقی ماندہ ہندوستان اور چین نے بھی حاجیوں کے جہاز لوٹے تھے یا یہ خواہش دیگر قوموں کی مال و دولت لوٹنے کی عربی جبلت کا اظہار تھا؟!
خلیفہ عثمان بن عفان کے زمانے میں سندھ کا پانی کڑوا اور کسیلا تھا، فتح کے بعد اس قدر میٹھا ہو جاتا ہے کہ حجاج باقاعدہ اس کا ذکر کرتا ہے؟!
ڈاکٹر ممتاز حسین پٹھان کے مطابق عربوں کے سندھ پر حملے کی وجوہات صرف جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ دیبل کی فتح کے بعد عرب قیدیوں کی بازیابی بھی ایک جھوٹ ہے اور تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ڈاکٹر خان کے مطابق اس جنگ کا مقصد لوٹ مار اور عربوں کو آپس میں لڑنے اور داخلی انتشار پیدا کرنے کی بجائے ملک سے باہر مصروف رکھنا تھا۔
سندھ کی فتح حجاج کے پیشگی منصوبے کا حصہ تھی، جسے جائز ٹھہرانے کیلئے بودے دلائل گھڑے گئے، علافی جو حجاج کے مظالم سے بھاگ کر راجہ داہر کی پناہ میں آئے تھے، انہوں نے بھی عربوں کے لیے جاسوسی کا کام کیا۔ انہوں نے اہم معلومات عربوں تک پہنچائیں اور عربوں کو سندھ پر حملہ کرنے کی ترغیب دی”۔ ڈاکٹر خان بدھوں کو بھی راجہ داہر کی شکست کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے جنہوں نے اہم مواقع پر داہر کو دھوکہ دیا۔
گو سندھی قوم پرست آج بھی دو جولائی کو راجہ داہر کا دن مناتے ہیں لیکن راجہ داہر کا یہ کہنا انتہائی غلط ثابت ہوا کہ ہند اور عرب کے تاریخ دان اسے ایک سورما کے طور پر یاد رکھیں گے، عرب تو در کنار داہر کو اپنی ہی دھرتی پر نہ صرف بھلا دیا گیا بلکہ اس کے مقابلے میں ایک غیر ملکی لٹیرا قابل ستائش ٹھہرا۔ آقاؤں کے تلوے چاٹنے والوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی، عرب ہونا انتہائی افضل ٹھہرا اور عربوں کی ہر چیز اتنی برتر، مقامی لوگوں کا احساس کمتری اس سطح پر آ گیا کہ مقامی لوگوں نے اپنی جڑیں عرب میں تلاش کرنے شروع کر دیں۔ راجپوت ہونا جو کبھی باعث فخر ہوتا تھا، انہوں نے بھی اپنا سلسلہ نسب عرب سے جوڑنا شروع کر دیا، سموں نے اپنے آپ کو عبد العزیٰ (ابولہب)، سومروں نے علوی سادات، کلہوڑوں نے خود کو عباسی، اور بلوچوں نے خود کو حمزہ بن عبد المطلب کی اولاد کہنا شروع کر دیا، سندھ ایک دم اور اچانک سے قریشیوں، عباسیوں، سیدوں اور صدیقیوں وغیرہ سے بھر گیا۔
کیا کبھی تاریخ اس سندھی سورما کو اس کا جائز مقام دے گی۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/arab-military-attack-war-crimes/d/34651