ناستک درّانی، نیو ایج اسلام
21 ستمبر ، 2013
گزشتہ دنوں سعودی لبرل عبد الرحمن الراشد کا ایک پرانا کالم نظر سے گزرا جو الشرق الاوسط اخبار کی اشاعت 17 دسمبر 2010 میں شائع ہوا تھا جس سے اسلامی لبرل ازم کے کچھ سابقہ مفاہیم کی مزید تصدیق ہوگئی، وہ فرماتے ہیں:
“لبرل ازم ایک سادہ انسانی مفہوم ہے جو صرف آزادیء انتخاب پر یقین رکھتا ہے، یہ آزادی ہر شخص کی اپنی انفرادی سوچ کی وسعت یا تنگی کے حساب سے ہوتی ہے، اگر اکثریت قدامت پسندی کا انتخاب کرے تو یہ ان حق ہے، اور اگر اس کے برعکس انتخاب کرے تو بھی یہ ان پر ہے، یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ میں حشیش پینے کی اجازت ہے جبکہ برطانیہ میں پولیس حشیش پینے والے کو جیل میں ڈال دیتی ہے کہ فرد کی آزادی بالآخر جماعت کے انتخاب سے مقید ہوتی ہے، اگر معاشرے کی اکثریت قدامت پسند ہو تو ان کا انتخاب ہی رائج ہوگا، لہذا نظریاتی طور پر لبرل تمام لوگوں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں کیونکہ وہ اسلام پسندوں، کمیونسٹوں، قوم پرستوں اور قدامت پسندوں سمیت سب کے حق کو تسلیم کرتے ہیں”
میں لبرل ازم کی سادہ ترین تشریح کرتے ہوئے اس میں مزید اتنا اضافہ کروں گا کہ لبرل ازم جس ماحول میں ہم رہتے ہیں اس کے فریم کے اندر معاشرتی، سیاسی اور مذہبی آزادی کا نام ہے۔
سعودی لبرل یوسف ابا الخیل کو ان کے اسلامی لبرل ازم کی سزا ان کا خون بہانے کے فتوے کی شکل میں دی گئی جو 14 مارچ 2008 کو جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ اگر ابا الخیل اپنی کہی گئی باتوں کو واپس نہیں لیتے تو “انہیں مرتد سمجھتے ہوئے قتل کردینا چاہیے جس کے بعد نا ہی انہیں غسل دیا جائے گا نا کفن اور نا ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی” سعودی عرب کے کئی بڑے بڑے علماء نے اس فتوے کی تائید کی جبکہ سعودی لبرلوں کے ایک گروہ نے ابا الخیل سے یکجہتی دکھاتے ہوئے فتوے کی مذمت کی اور اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسے فتاوی سعودی معاشرتی امن کے لیے نقصان دہ ہیں۔
تاہم فتوے کے باوجود یوسف ابا الخیل نے اپنے اقوال واپس نہیں لیے، انہوں نے ایک کالم لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ: “اسلام غیر مسلموں کی تکفیر نہیں کرتا جب تک کہ کوئی شخص لوگوں کے عقیدے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے”، ابا الخیل لبرل ازم کو کسی بھی طرح کے مسلک سے جوڑنے کے سخت مخالف ہیں، ان کے خیال میں یہ دونوں چیزیں آپس میں ملتی ہی نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ: “بنیادی طور پر لبرل ازم کا ظہور ہی مسلکی تفریق کے خاتمے کے لیے ہوا ہے”۔
میرے خیال سے اسلامی لبرلوں کو ان سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے!!
تاہم جس انداز سے یوسف ابال الخیل مقدس مُتون کو سمجھتے ہیں اس سے ان کے اسلامی لبرل ازم کی خوبصورتی کی تجلی ہوتی ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مُقدس مُتون سے تاریخی طور پر کیسے نبرد آزما ہونا ہے، وہ تاریخ کے اوپر سے نہیں کودتے، مرحوم شیخ وفقیہ جمال البنا کے عورت اور حجاب کے حوالے سے آراء ونظریات جنہوں نے عرب اور اسلامی دنیا میں خاصی ہلچل مچائی تھی پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مُقدس مُتون کی تاریخیت اور ان کی تاریخی محدودیت پر زور دیا، انہوں نے عقلیت پسند فقہاء کی شجاعت دکھاتے ہوئے مُقدس مُتون کی تشریح تاریخی پس منظر بلکہ تاریخ کے اندر سے کی، الریاض اخبار کی اشاعت بتاریخ 8 اپریل 2006 میں اپنے ایک کالم میں وہ رقمطراز ہیں:
“یہ مُتون - جیسا کہ مسلمانوں کے زیادہ تر گروہ تسلیم کرتے ہیں - کسی خاص تاریخی واقعہ کی کیفیات تک محدود ومحصور ہیں، اس حقیقت کی تعبیر مذکورہ تمام گروہ مُتون کی نُدرت (کمی) اور نئی ضروریات وواقعات کی لا متناہیت سے کرتے ہیں، وحی کے منقطع ہوجانے کے بعد نئے واقعات سے نبرد آزما ہونے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ درپیش نئے واقعات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے عقل کے ملکہ کو فعال کیا جائے، اس عقلی ملکہ کو اسلامی عقل کے کام کرنے کے حلقہء عمل کو محدود کرتے ہوئے ساری اسلامی تاریخ میں مقید رکھا گیا جس میں سرِ فہرست امام محمد بن ادریس الشافعی (150 – 204 ہجری) رحمۃ اللہ علیہ کا متعارف کردہ “سابقہ اصل پر قیاس” کا نظام ہے، یہ وہ نظام ہے جسے فعال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اصولِ تشریع کے کسی اصل میں تلاش کی جائے تاکہ اس پر حکم کی علت کا استنباط کیا جاسکے اور مجتہد فقیہ اس کی روشنی میں شاخ اور اصل میں علت کا تعلق تلاش کرتے ہوئے شاخ پر فیصلہ دے سکے، مسلمان متکلمین نے اس قیاس کی تعریف یوں کی ہے: “شاہد پر غائب کا قیاس”۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے ابا الخیل لکھتے ہیں:
“یہاں شاہد نئے واقعات ہیں جبکہ غائب وہ اصول (جڑیں) ہیں جو مخصوص واقعات کے شرعی احکامات کے حامل تھے اور تاریخی طور پر اپنے زمانے سے منسلک تھے، قیاس کے ذریعہ بنائے گئے احکام فقہ کے سوا کچھ نہیں چنانچہ یہ فقہ چونکہ شاخوں کو جڑوں پر قیاس کرتے ہوئے کشید کردہ دلائل ہیں لہذا یہ بذاتِ خود شریعت نہیں ہیں بلکہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے انسانی اجتہاد ہے جن کا انحصار قیاس پر ہے لہذا یہ قطعی احکام نہیں بلکہ محض ظنی ہیں کیونکہ قطعی حکم پر کوئی اختلاف نہیں ہوتا، یہ وہ حکم ہوتا ہے جو اصل سے آتا ہے (جس پر بعد میں قیاس کیا جاتا ہے) خاص طور سے اگر وہ قطعی ثبوت کا حامل ہو، جبکہ قیاس کردہ شاخ ہے اور اس کا حکم ظنی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ فقیہ جب قیاس کا استعمال کرتا ہے تو جس اصل پر قیاس کرتا ہے اس سے حاصل کردہ حکم کی علت کی قطعیت کا دعوی نہیں کر سکتا۔”
اس میں شک نہیں کہ مسلمان لبرلوں کو ابا الخیل سے بھی سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس سب کا خلاصہ یہ ہے کہ:
1- مذکورہ بالا آراء “اسلامی لبرل ازم” کا لُبِ لُباب ہیں جن کی بنیاد علم ومعرفت اور مسائل کے حل کے لیے عقل کے استعمال پر ہے۔
2- مُقدس مُتون کی تفسیر ان کے تاریخی سیاق وسباق میں کی جانی چاہیے نا کہ اس سے باہر، اس طرح ان سے وہ “مقصدیت” برآمد کی جاسکتی ہے جن سے ہم جدید زندگی کی سلوکیات کے ضمن میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں، یہ مُقدس مُتُون کی لبرل تاویل کی اولین بنیاد ہے۔
3- اسلامی تشریعی تاریخ میں اسلامی عقل کے دائرہ کار کی حدیں متعین کرتے ہوئے اس کا دائرہ کار محدود کردیا گیا، اس عقلی ملکہ کو فعال کرنے کے لیے لازم ہے کہ تشریع کے کسی اصل میں تلاش کی جائے تاکہ اس پر حکم کی علت کا قیاس کیا جاسکے اور اس کی روشنی میں فقیہ اُس اصل کو بنیاد بناتے ہوئے اور دونوں کی علت کو جمع کرتے ہیں اس کی شاخ پر کوئی مناسب فیصلہ کر سکے۔
4- فقہ شریعت نہیں ہے بلکہ محض انسانی اجتہاد ہے، یہ چونکہ شریعت سے استنباط ہے لہذا یہ فقہی احکام قطعی نہیں بلکہ محض ظنی ہیں۔
یاد رہے کہ ان جدید فقہی نظریات کی بنیاد محمد عبدہ، مصطفی عبد الرازق، امین الخولی، خالد محمد خالد اور دیگر مصری اصلاح پسند لبرلوں کے نظریات پر قائم ہے جبکہ کئی دیگر لبرل اصلاح پسندوں نے بھی کچھ ایسے ہی نظریات کا اظہار کیا ہے جن میں الطاہر الحداد، الطاہر بن عاشور، العفیف الاخضر، عبد المجید الشرفی، محمد حداد، ہشام جعیط اور کئی دیگر نام شامل ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/learn-islamic-liberalism-them-/d/13600