New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 03:38 AM

Urdu Section ( 21 Sept 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Golden Opportunity for Arab Liberals عرب لبرلوں کا سنہری موقع

 

ناستک درّانی، نیو ایج اسلام

23ستمبر، 2013

اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ مصر میں “سیاسی اسلام” کی ریاست زمیں بوس ہوچکی ہے اور شاید یہ زمیں بوسی اتنی بڑی اور طاقتور ہے کہ اب شاید ہی “سیاسی اسلام” کی ریاست کبھی عود کر آئے کیونکہ ایک ایسی ریاست جس کی قیادت “اخوان المسلمین” یا “حزب النور” جیسی سلفی جماعتوں یا اقتدار کے لالچی ازہر کے بعض شیخوں کے ہاتھ میں ہو جو مذہبی تسلط کے ساتھ ساتھ سیاسی تسلط کے بھی خواہاں ہیں کا مصر میں دوبارہ قائم ہونا اب ممکن نہیں رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مصریوں نے “سیاسی اسلام” کے اس جعلی اور اغوا کردہ دورِ حکومت میں جو کچھ سہا ہے وہ ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے، بعض مفکرین کے مطابق مصر پر گزشتہ سال مسلط کی جانے والی “سیاسی اسلام” کی حکومت “پاک” اور “صحیح” اسلام کی نمائندگی نہیں کرتی تھی۔۔ بہرحال “سیاسی اسلام” کی جعلی اور اغوا کردہ ریاست مصر سے جا چکی ہے اور جدید دور کے جدید لبرل مصر پر حکومت کرنے واپس آگئے ہیں تاکہ مصر کو دوبارہ لبرل ازم کی پٹری پر ڈال سکیں جو یقیناً ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام ثابت ہوگا۔

مجھے نہیں لگتا کہ مستقبلِ قریب میں مصر “اخوانی سیاسی اسلام” کا تجربہ دہرائے گا، تمام تر سیاسی، ابلاغی اور عالمی ابتدائی اشارے یہ بتاتے ہیں کہ آج اخوان المسلمین نہ صرف مصر بلکہ مصر کے باہر بھی شکست سے دوچار ہوئے ہیں، یہ شکست اس شکست سے بھی کہیں بڑی ہے جس سے وہ گزشتہ صدی کی چالیس کی دہائی میں دوچار ہوئے تھے اور جس کا شکار مصر کی سرکردہ شخصیات ہوئی تھیں جن میں مصر کے دو دفعہ وزیرِ اعظم بننے والے النقرانی باشا (1888-1948) جبکہ بعد میں خود حسن البنا (1906-1949) بھی اس کا شکار ہوئے تھے۔

اُس وقت کے عالمی اور علاقائی حالات میں آج کے مقابلے میں مندرجہ ذیل فرق پایا جاتا تھا:

1- میڈیا میں اتنی طاقت اور تنوع نہیں تھا جتنا کہ آج ہے، آج ہر شخص کو تمام تر حالات کی فوراً خبر ہوجاتی ہے۔

2- سیاسی اسلامی اور عرب شعور اتنا نہیں تھا جتنا کہ آج ہے۔

3- اخوان المسلمون اور حزب النور السلفی جیسی انتہا پسند مذہبی سلفی سیاسی جماعتیں اتنی طاقتور اور منظم نہیں تھیں جتنی کہ آج ہیں۔

4- دنیا میں دہشت گردی نہیں پھیلی تھی اور 11 ستمبر 2001 کا واقعہ ابھی رونما نہیں ہوا تھا۔

5- اخوان المسلمین کی گود سے نکلنے کے با وجود مسلح مذہبی جماعتیں ابھی وجود میں نہیں آئی تھیں۔

6- مصر میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں ٹکراؤ کی وہ شدت نہیں تھی جو کہ آج ہے۔

7- مصر کی عسکری مقتدرہ نے ابھی تک اخوان المسلمین کا تعاقب کر کے انہیں جیلوں میں نہیں بھیجا تھا جیسا کہ عبد الناصر، سادات اور مبارک کے دور میں ہوا۔

8- اخوان المسلمین پر حافظ الاسد نے 1982 میں وہ چڑھائی نہیں کی تھی جسے اب “حماۃ کے قتلِ عام” کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس میں بیس ہزار سے زائد لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا جبکہ کوئی ایک لاکھ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔

9- عرب اور اسلامی دنیا میں اخوان المسلمین کا وہ پھیلاؤ نہیں تھا جو آج نظر آتا ہے۔

10- اور آخر میں عرب انتظامیہ اس قدر کمزر نہیں تھی جتنی کہ آج ہے اور عرب قومیں اتنی با شعور اور طاقتور نہیں تھیں جتنی کہ آج ہیں اور “عرب بہار” اس کا ثبوت ہے۔

عرب اور اسلامی رائے عامہ اب عرب لبرلوں کو سننے کے لیے تیار ہے جبکہ ماضی میں ایسا نہیں تھا، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے “سیاسی اسلام” کی لہر پر سوار ہوکر خود ہی دیکھ لیا ہے کہ خوشنما مذہبی نعروں اور حقیقت میں ان کے اطلاق میں کیا فرق ہوتا ہے، لہذا عرب لبرل ازم کو چاہیے کہ وہ اپنے منشور میں فوراً تبدیلی لائے جس کی اس صورتِ حال میں اشد ضرورت ہے، اگر وہ عرب دنیا میں مقبول ہونا چاہتے ہیں اور اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دھارتا دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں مندرجہ ذیل کو باتوں کا خیال رکھنا ہوگا:

1- معلوم ہوتا ہے کہ “سیاسی اسلام” کے نام پر حکومت کرنے والے انتہا پسند سلفیوں نے “پاک” اور “اصل” اسلام کو اغوا کر لیا ہے، عرب لبرل ازم کو چاہیے وہ خطے کے مسلمانوں کو یہ اسلام پاک صاف حالت میں واپس لوٹائیں۔

2- مذہبی انتہا پسند سلفیت کا دعوی ہے کہ وہی اسلام کے ٹھیکہ دار اور چوکیدار ہیں اور صرف انہی کو اسلام کے افکار ونظریات کی نمائندگی کرنے کا حق ہے، عرب لبرل ازم کو چاہیے کہ وہ اسلام کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں اور مذہبی طور پر خود کو با شعور بنائیں۔

3- عوامی طور پر مذہب پرست عرب اور اسلامی دنیا کو صرف سمجھنے میں آسان اور واضح باتیں ہی قائل کر سکتی ہیں، عرب لبرلوں کو چاہیے کہ وہ جمہور سے مخاطب ہوتے وقت آسان اور سادہ زبان استعمال کریں۔

4- عرب لبرل ازم کو چاہیے کہ وہ تیونسی لیڈر حبیب بو رقیبہ کے نقشِ قدم پر چلیں اور دیکھیں کہ کس طرح انہوں نے تیونس کے اسلامی معاشرے کی اسلام کے اندر سے اصلاح کی نا کہ باہر سے، انہوں نے 1957 میں اپنی اصلاحات میں جامع الزیتونہ کے علماء کو شامل کیا اور ایسے قوانین تیار کیے جس کی بیشتر شقوں کو بعد میں مراکش میں بھی اپنایا گیا، اس سے عورت کو بطورِ خاص اس کے مذہبی اور سول حقوق حاصل ہوئے جن سے وہ پہلے محروم تھی۔

5- عرب لبرلوں کو مغربی لبرل ازم سے اپنی دستبرداری کا اعلان کرنا ہوگا جس پر عام طور پر فحاشی، جنسی بے راہ روی اور عریانیت کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

6- عرب لبرلوں کو اپنے اسلامی لبرل ازم پر زور دے کر اس پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی کیونکہ اسلام میں بہت سارے لبرل پہلو موجود ہیں جو مخفی ہیں اور اسے محققین کی تلاش ہے کہ وہ اسے دریافت کریں، جس طرح انتہا پسند سلفیت کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اسلام کے اندر سے اپنے مطلب کی باتیں مل گئیں اسی طرح عرب لبرل ازم کو بھی مل جائیں گی کیونکہ اسلام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مطابق “حمال اوجہہ” یعنی کئی چہر ہے، مصری مفکر حسن حنفی نے بھی اپنے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ: “آپ کو اسلام میں شمال سے لے کر جنوب تک وہ سب کچھ مل جائے گا جو آپ کو چاہیے”۔

7- انتہا پسند سلفیت کے دعوے جو کہ کم نہیں ہیں ان کا جواب اسلامی مُتون سے دیا جانا چاہیے، ماضی میں انتہاء پسند سلفیت اپنے دعوے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ودیگر صحابہ کرام کے اقوال پیش کر کے کرتی تھی جس کا جواب عرب لبرل مارکس، ہیگل اور ڈیکارٹ کے اقوال سے دیتے تھے جو ایک بہت بڑی غلطی ہے، ایسی صورت میں عرب لبرلوں کا جواب کم سے کم امام غزالی، ابن رشد اور محمد عبدہ کے اقوال سے دیا جانا چاہیے یعنی روشن اسلام کے اندر سے ناکہ باہر سے، تیونس کے بو رقیبہ اس کی ایک روشن مثال ہیں، انہوں نے 1957 میں ہی یہ کام شروع کردیا تھا اور کامیاب رہے تھے (دیکھیے: بو رقیبۃ والاسلام الزعامۃ والامامۃ از لطفی حجی)۔

8- عرب مارکسیوں کو لبرل ازم پر بات کرنی بند کردینی چاہیے اور اس کی دعوت وتبلیغ کو معتدل لبرل مفکروں پر چھوڑ دینا چاہیے جیسے محمد عابد الجابری (مراکش)، رجاء بن سلامۃ (تیونس)، فاطمۃ المرنیسی (مراکش)، عزیز العظمۃ (شام)، محمد ارکون (الجزائر)، نصر حامد ابو زید (مصر)، حسن حنفی (مصر)، یوسف ابا الخیل (سعودی)، ابراہیم البلیہی (سعودی) ودیگر۔

URLhttps://newageislam.com/urdu-section/a-golden-opportunity-arab-liberals/d/13622

Loading..

Loading..