ناستک درانی، نیو ایج اسلام
24اپریل، 2013
انتخابات سے قبل عرب ممالک میں بالخصوص اور اسلامی ممالک میں بالعموم اوباما کی جیت کا جوش وخروش اپنی انتہاؤوں پر تھا، اس جوش وخروش کا گواہ خود امریکی میڈیا بھی تھا، عالمی امور کی ماہر امریکی صحافی فریدہ گھیٹس (Frida Ghitis) نے اپنے ایک کالم بعنوان “مشرقِ وسطی میں اوباما کے لیے سرپرائز” (A surprise for Obama in the Middle East) میں لکھا: “پاکستان میں حیرت انگیز طور پر 90 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کس کو ترجیح دیں، یا انہوں نے جواب دینے سے انکار کردیا، اکثریت دونوں امیدواروں میں 5 فیصد کی رقت انگیز حمایت میں برابر تقسیم تھی، اوباما کی سب سے بڑی حمایت سعودی عرب میں تھی جو 50 فیصد رہی، صرف 33 فیصد فلسطینیوں اور 32 فیصد کویتیوں نے کہا کہ وہ اوباما کو ترجیح دیتے ہیں مگر یہ حمایت میکین کی حمایت سے تین گنا زیادہ ہے”۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اوباما جس قدر مشرقِ وسطی اور دیگر اسلامی ممالک میں مقبول تھے اسی قدر امریکی یہودیوں میں بھی مقبول تھے اور انتخابات میں یہودیوں کی ایک بڑی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے، فریدہ کے مطابق اس وقت کے ایک گیلپ سروے نے انکشاف کیا کہ 75 فیصد امریکی یہودی اوباما کے حامی تھے۔ تاریخ میں شاید ہی مسلمان ویہود میں کسی ایک بات پر اس قدر اتفاق پایا گیا ہو!!
جیسے ہی اوباما کی جیت کا اعلان ہوا عرب اور اسلامی ممالک میں امریکی انتخابات میں ایک افریقی نسل کے مسلمان باپ کے بیٹے کی فتح پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور تکبیر کے نعرے بلند ہوئے، تاہم انتخابات کے فوراً بعد ہی یہ عرب - اسلامی خوشی اس وقت ٹھنڈی پڑگئی جب صدر منتخب ہونے کے صرف دو دن بعد اوباما نے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے اور ایوانِ نمائندگان کے یہودی النسل اور سابقہ اسرائیلی شہریت رکھنے والے رکن راہم ایمانویل (Rahm Emanuel) کو وائٹ ہاؤس چیف آف سٹاف بنا دیا جس کا باپ اسرائیلی نیم عسکری انتہاء پسند تنظیم ارگون (Irgun) کا ایک سرگرم رکن تھا، یکلخت اوباما مسلمانوں اور خاص کر عربوں کی نظر میں ایک خالص یہودی بن گیا اور مسئلہء فلسطین اور دیگر عرب مسائل میں “انصاف” کی امید ایک بار پھر سے نا امیدی میں بدل گئی کیونکہ جس عینک سے عرب راہم ایمانویل کو بطور ایک اسرائیلی دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں وہ اوباما کی اس عینک سے مختلف ہے جس میں اوباما کو ایمانویل میں ایک ایسا امریکی نظر آتا ہے جس کی سیاسی اور انتظامی صلاحیتیں زبردست ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اوباما کے دوسرے دورِ اقتدار میں عربوں کے کیا مطالبات ہیں؟ اس کا سیدھا جواب ہے “انصاف” اور عربوں کی سیاسی لغت میں امریکی انصاف کا مطلب کچھ اس طرح سے بنتا ہے:
1- امریکہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرے حالانکہ اس حوالے سے خود فلسطینیوں میں آپس میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں، ایک بڑا گروہ (حماس) اس ریاست کے قیام کا حامی نہیں اور نا ہی وہ اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے چنانچہ اس کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات سے بھی پوری طرح سے انکاری ہے، “فتح” کو ایک سیکولر فلسطینی ریاست چاہیے جبکہ حماس اسے اسلامی خلافت بنانا چاہتا ہے جس کا مظاہرہ اس نے غزہ میں بھی کیا ہے، رہی بات اسرائیل کی تو وہ اس اختلاف سے بہت خوش نظر آتا ہے کیونکہ فلسطینیوں کے آپس کے اس اختلاف سے آزاد فلسطینی ریاست کا بھوت اس سے دور ہی رہے گا۔
2- امریکہ اسرائیل کے ساتھ سٹریٹجک اتحاد ختم کرے اور یہ اتحاد ان کے (عربوں) ساتھ قائم کرے تاہم یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کون سا عرب ملک ہے جس کے ساتھ امریکہ کو سٹریٹجک اتحاد قائم کرنا چاہیے؟
3- پارٹی آمریت، فوجی آمریت اور قبائلی آمریت کے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہ کی جائے، یعنی تقریباً سارے ہی عرب ممالک۔
4- عرب ممالک کی جیلوں میں قید سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ نہ کیا جائے خاص کر شام۔
5- عرب ممالک کے تعلیمی نصاب کی تبدیلی کا مطالبہ نہ کیا جائے خاص طور سے مذہبی نصاب جو اہلِ کتاب سے جہاد اور انہیں قتل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
6- کسی بھی عرب آمر کے اقتدار کے خاتمے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ یہ عربوں کا اندرونی معاملہ ہے اور امریکہ سمیت کسی بھی دوسرے ملک کو اس سے گریز کرنا چاہیے۔
7- غریب عرب ممالک (جیسے مصر) کو سالانہ امریکی امداد جاری رکھی جائے اور اس امداد کو عمومی اور خاص کر سیاسی اصلاحات سے نہ جوڑا جائے۔
8- امریکہ کو عرب سیاسی اپوزیشن کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہیے اور ان کی کسی بھی طرح کی امداد بند کردینی چاہیے۔
شاید یہ مطالبات سنجیدہ سے زیادہ جذباتی ہیں اور امریکہ کی طرف سے ایسے مطالبات کی پابندی مشکل نظر آتی ہے جس کا ماننا ہے کہ ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے مشرقِ وسطی میں اس کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ہر امریکی صدارتی انتخابات سے قبل عرب اور مسلمان ان انتخابات سے سیاسی خواب وابستہ کر لیتے ہیں اور یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ان کے خواب پورے ہوجائیں گے، انہیں ابھی تک اس بات کی سجھ نہیں آئی کہ ان کے خواب محض خواب ہی ہیں جن کا حقیقی دنیا میں پورا ہونا تقریباً نا ممکن ہے، کیا اسے عرب - اسلامی سیاسی بے شعوری کہا جائے؟ 2004 کے انتخابات میں بھی جب جارج بُش دوبارہ الیکش لڑ رہا تھا تب بھی عربوں نے عرب خوابوں کی تعبیر کی امید پر بُش کی حمایت کی مگر صبح ہوتے ہی ان پر انکشاف ہوا کہ ان کے خواب ایسے ہی ہیں گویا کہ ابلیس جنت کے خواب دیکھ رہا ہو۔۔ انہیں ابھی تک اس بات کا ادراک نہیں ہوسکا ہے کہ کوئی بھی ریپبلکن یا ڈیموکریٹ امریکی صدر نا تو کوئی ایسی قرار داد پیش کرتا ہے اور نا ہی ایسی کسی قرار داد کی توثیق کرتا ہے جس میں امریکہ کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو، اور مشرقِ وسطی میں عربوں کی ماضی اور حال کی حالتِ زار میں امریکہ کے لیے ایسا کوئی مفاد نہیں ہے کہ وہ ان کے ساتھ کھڑا ہو یا ان کے مسائل میں ان کے ساتھ انصاف ہی کرے۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/us-elections-arab-islamic-dream/d/11279