ناستک درانی، نیو ایج اسلام
2013، مئی 4
معلوم ہوتا ہے کہ تیسرے ہزاریے کی آمد مسلمانوں کو دنیا کے سامنے شرمندہ کرنے کا ایک اچھا موقع تھا، اس سال کم سے کم کوئی ہزار کے قریب کتابیں، رسالے اور مقالے شائع ہوئے جن میں گزشتہ ہزاریے میں انسان کے اہم کارناموں کا ذکر تھا جن میں ایجادات، تصنیفات، شخصیات اور واقعات شامل ہیں، ان میں ایسی کوئی ایک بھی اثر انگیز یا اچھوتی چیز نہیں تھی جس کا تعلق عرب اسلامی دنیا سے ہو، گویا وہ اس دوران کرہ ارض پر رہے ہی نہ ہوں، یا وہ حال ہی میں کسی پڑوسی سیارے کے اجتماعی سفر سے واپس آئے ہوں!! روسی سے عربی میں ترجمہ شدہ ایک کتاب نظر سے گزری جس میں گزشتہ ہزاریے کی دس اہم کتابیں، دس اہم واقعات اور دس اہم شخصیات کا ذکر تھا، کتاب نے جو دس اہم کتابیں قرار دیں وہ یہ ہیں: خدائی کامیڈی از دانتے، لاہوتی خلاصہ از تھامس ایکویناس، عقلِ خالص پر تنقید از کانٹ، اس طرح زرتشت نے کہا از نیٹشے، خابوں کی تاویل از سگمنڈ فرائیڈ، کابالا ڈینوڈاٹا از کرسٹن روزینرتھ، سرمایہ از کارل مارکس، جادوگرنیوں کی ہتھوڑی از ہینرچ انسٹیٹر، اور کارامازوف برادران از ڈسٹوویسکی۔ جبکہ ابی العلاء المعری کی رسالۃ الغفران اور الف لیلۃ ولیلۃ کو کتاب نے شامل کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اگرچہ ان کی اہمیت ہے مگر یہ دوسرے ہزاریے سے پہلے شائع ہوئی تھیں!! روسی کتاب کے مطابق گزشتہ ہزاریے کے اہم واقعات میں امریکہ کی دریافت، جرمنی کی شکست، سقوطِ قسطنطینیہ، سقوطِ باسٹل، بلشفی انقلاب، 1045 میں چرچ کی علیحدگی، واسٹوالیا کا امن معاہدہ، ویینا کی آزادی کی جنگ، منگولوں کا بغداد پر قبضہ، ٹیمپل عبادت گاہ کا گرایا جانا، اور جیک مولیہ کا جلایا جانا شامل ہیں جبکہ اہم دس شخصیات میں چنگیز خان، مارٹن لوثر کنگ، ساتویں پوپ جارج، لینن، جان ڈارک، اولیور کروم ویل، نپولین بوناپارٹ، شہزادہ ولادیمیر، شہنشاہ پطرس اول، اور امام آیۃ اللہ خمینی شامل ہیں۔
تمام فہرستوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان میں صرف مغرب کے نقطہ نظر کی کتابیں، واقعات اور اہم شخصیات شامل ہیں کیونکہ یورپ کے واقعات میں ان کا براہ راست اثر تھا، تاہم ان فہرستوں کی مسلمانوں کے ہاں وہ اہمیت نہیں، کیونکہ گزشتہ ہزار سال میں ان پر قطعی مختلف افکار، واقعات اور شخصیات نے اثر ڈالا، اگر مشرق میں پھیلے تحقیقی مراکز میں سے کسی مرکز نے دس اہم کتابوں، واقعات اور شخصیات کی فہرست مرتب کرنے کی تکلیف کر لی ہوتی تو مسلمانوں کے پاس ایک ایسا اہم مصدر دستیاب ہوجاتا جس سے وہ اپنے معارف اپنی مناسب سے حاصل کر سکتے اور عالمی لائیبریریوں میں صرف مغرب کے مفادات کو فائدہ پہنچانے والی تفصیلی ہزاریائی تصنیفات کے انبار نہ ہوتے، مگر افسوس کہ مشرق کے زیادہ تر مثقف اور مصنفین مغربی تہذیب کے آگے مبہوت نظر آتے ہیں اور انہوں نے سارا زور لائبریریوں کو مشرق کی مختلف زبانوں کے ایسے تراجم سے بھرنے پر لگا دیا جو ساری کی ساری عالمی واقعات کے حوالے سے مغربی نطقہ نظر کی حامل ہیں، حتی کہ بعض مسلمان مصنفین کی تحاریر میں کبھی کبھار ایسے اشارے بھی مل جاتے ہیں کہ یورپ کی اسلامی فتوحات غاصبانہ حملے تھے۔!
جب سے اللہ کے فضل وکرم سے مسلمانوں نے پڑھنا سیکھا ہے تب سے وہ اپنی تاریخ مستشرقین کے قلم اور آنکھوں سے پڑھ رہے ہیں جیسا کہ وہ دیکھتے ہیں، جب ذرا ترقی کی تو خبریں اور شماریات بھی مغربی نیوز ایجنسیوں اور شماریاتی اداروں سے حاصل کرنے لگے، کوئی اس امر سے فروگزاشت نہیں کر سکتا کہ مغرب ہر ممکنہ طریقے سے اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح سے تیار رہتا ہے تاکہ اپنی چودھراہٹ برقرار رکھ سکے اور شاید کسی حد تک بعض معلومات کی جانبداری کے پیچھے یہی راز پوشیدہ ہے۔
اور جس طرح تمام راستے روم کی طرف جاتے ہیں، اسی طرح حالیہ دور کی گفتگو ہمیں تہذیبوں کی جنگ کی طرف لے جاتی ہے جو ترقی یافتہ مغرب اور پسماندہ مشرق کے درمیان جاری ہے، اگرچہ ہم اس موازنے کو شدت کے ساتھ مسترد کرتے ہیں تاہم ہمارے ذہن میں اس وجہ کے بارے میں سوال ضرور اٹھتا ہے جس نے مسلمانوں کو دنیا سے غائب اور انہیں انسانی کارناموں سے محروم رکھا جو توانائیوں کے زیاں، دولت کی لوٹ کھسوٹ اور لڑائیوں کے ایک طویل سلسلے میں الجھائے رکھنے پر منتج ہوا؟! کتنے ہی ذہن اور صلاحیتیں ہیں جو مغربی استعمار اور اس کے نتیجے میں قوموں پر زبردستی حکومت کرنے بشمول مذہبی عنصر کے سبب جلا وطن اور قتل ہوئے؟! گزشتہ ہزار سال میں جہاں مغرب پرسکون رہا اور لوٹی ہوئی دولت اور ہجرت کرنے والے دماغوں سے فیض یاب ہوا، مشرق لڑائیوں، قتل، جنگوں، حملوں اور استعمار کے نرغے میں تھا جو قتل عام، غربت، جہالت، قرضے، پابندیاں اور لڑائیوں اور جنگوں میں آج تک شدید تھکان پر منتج ہوا، اس کے باوجود مغرب اپنے کارناموں اور کامیابیوں پر کتابیں اور مقالے شائع کرتا چلا جا رہا ہے اور مسلمان مغرب سے، ضمیر کی انتہائی ذمہ داری سے نقل کرتے چلے آرہے ہیں، اور اس ضمن میں اچھے اور برے میں قطعی کوئی تمیز نہیں کر رہے، چنانچہ مغرب کا موازنہ ان لوگوں کے درمیان جاری ہے جو تیسرے ہزاریے میں راکٹ کے ذریعے اڑ کر چاند پر داخل ہوئے اور جو اس میں بینجو کے اثر سے اڑ کر داخل ہوئے۔
URL for English article:
http://newageislam.com/islam-and-the-west/the-developing-west-and-islamic-banjo/d/11881
URL for Arabic article:
https://newageislam.com/arabic-section/the-developing-west-islamic-banjo/d/11886
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-developing-west-islamic-banjo/d/11887