ناستک درانی، نیو ایج اسلام
22 جولائی، 2013
کیا یہ نعرہ درست ہے جو ایک قوم پرست ہندو جماعت نے بلند کیا تھا؟ تمام دستیاب دلائل جو مستقل اور غیر جانبدار محققین کے ہاتھ میں ہیں بشمول عالمی رائے عامہ کے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ نعرہ بالکل درست ہے، مسلمانوں میں یہ مظہر بیسوی صدی کی نویں دہائی کے آغاز میں شروع ہوا جو تا حال جاری ہے جسے آپ آج بھی روز مرہ شائع ہونے والے اخبارات وجرائد اور ٹیلی ویژن کی خبروں میں دیکھ سکتے ہیں، ہندو قوم پرستوں نے تمام مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام نہیں لگایا، بلکہ انتہائی درستگی سے یہ تشخیص کیا کہ آج کی ساری دہشت گردی مسلمانوں کی صفوں سے آرہی ہے۔
اب اصولی طور پر عالمِ اسلام کے ہر عاقل وبالغ مسلمان انسان کو جو سوال اٹھانا چاہیے وہ ہے: مسلمانوں میں دہشت گردی کا رجحان کیسے آیا؟ اس خونین مظہر کے پیچھے کارفرما عوامل کیا ہیں؟ اور ان کے آگے بند کیسے باندھا جاسکتا ہے؟
اسلام اور مسلمانوں کے معاملات پر تحقیق کرنے والے زیادہ تر محققین کا کہنا ہے کہ پہلی بار اس مظہر کا ظہور گزشتہ صدی کی اسی کی دہائی کی شروعات میں ہوا، اس عملی ظہور کی ایک فکری اور سیاسی تمہید بھی تھی جو کہ کئی دہائیاں پرانی تھی، کچھ فکری اور سیاسی واقعات کے مجموعہ نے ایک مخصوص نوعیتی یا کیفیتی حالت اختیار کی جو سیاسی پریکٹس کی شکل میں ابھری جس کی وجہ سے سیاسی اسلام کی قوتیں پیدا ہوئیں۔
اس ضمن میں پہلا مسئلہ جو ریکارڈ پر ہونا چاہیے وہ بعض عرب اور اسلامی ممالک کا نظامِ تعلیم اور تعلیمی نصاب ہے جو بغیر کسی قابلِ ذکر تبدیلی کے کئی دہائیوں سے پڑھایا جا رہا ہے خاص طور سے سعودی عرب، پاکستان، افغانستان، مصر اور سوڈان میں، سعودی عرب نے جس کی بنیادیں مذہبی ہیں اور جہاں مذہبی ادارے مضبوط ہیں دہائیوں تک انتہا پسند حنبلی سلفی مسلک سے لبریز نصاب پڑھایا جا رہا ہے، عالمی منڈیوں میں سعودی تیل کی رسائی کے بعد اربوں ڈالر سعودی حکمرانوں اور شیخوں کی جیبوں میں آئے اور کچھ ہی عرصہ میں اس دولت کی مدد سے وہابی سیاسی اسلامی فکر تعلیمی نصاب کے ذریعے سعودی عرب کے سرکاری سکولوں میں چھا گئی، میڈیا سمیت مساجد کے منبر بھی اس متشدد مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کیے گئے، دیگر اسلامی ممالک میں سعودی دولت سے قائم ہونے والے مذہبی مدارس میں بھی اسی فکر کو پرموٹ کیا گیا (اب بھی کیا جاتا ہے) سیاسی مضمون کی اس سلفی وہابی فکر نے مندرجہ ذیل بنیادی نکات پر عمل کیا:
1- متن پر اکتفاء اور اجتہاد کا انکار، اس موقف میں عملاً ایک فکری جمود مضمر ہے جو آگے بڑھنے اور وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کے عمل کو مسترد کرتا ہے، ان کے خیال میں دستیاب مُتون سے زیادہ افضل تفسیر اور اجتہاد ممکن نہیں لہذا مؤمنین کو اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
2- دوسرے مسالک کو قبول کرنے سے انکار اور انہیں دین اور قرآنی متن سے خارج قرار دینا، چنانچہ وہ دین سے بھٹکے ہوئے اور کافر ہیں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں لہذا انہیں روکنا چاہیے، خاص طور سے شیعہ اور صوفی۔
3- دوسرے مذاہب کے تمام ماننے والوں کو کافر قرار دینا کیونکہ انہوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول نہیں کیا کیونکہ اسلام ہی آخری آسمانی مذہب ہے اور اس کے آنے سے تمام مذاہب منسوخ ہوگئے اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں۔
4- یہ سمجھنا کہ دنیا میں جنگ ایک طرف اسلام اور دوسری طرف کفر کے درمیان چل رہی ہے، یعنی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان، اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہر ممکنہ طریقہ سے یہ جنگ جیتیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ اسلام قبول نہ کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی بھی طریقہ اپنا سکتا ہے کیونکہ وہ کافر ہیں اور کفر کی حد صرف اور صرف قتل ہے، نظریاتی طور پر یہ موقف غیر حنبلی وہابی مسلمان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
5- سعودی عرب، پاکستان، افغانستان ودیگر اسلامی ممالک میں سعودی پیٹرو ڈالر سے چلنے والے دینی مدارس کی مسلسل سیاسی فکری تعلیم کی وجہ سے ایسی فکری وسیاسی تنظیمیں پیدا ہوئیں جنہوں نے سیاسی جہاد کا نعرہ بلند کیا، یعنی مقاصد کے حصول کے لیے طاقت اور تشدد کا استعمال کیونکہ ان کے خیال میں کفار کے خلاف تشدد اور طاقت کا استعمال جائز ہے جسے وہ اسلامی جہاد قرار دیتے ہیں۔
6- اسلام کے دیگر مکاتبِ فکر اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف اس قسم کی تعلیم وتربیت سعودی عرب کے تعلیمی نصاب کا نہ صرف پہلے حصہ تھی بلکہ اب بھی ہے، پیٹرو ڈالر کی طاقت سے اس طرزِ تعلیم کو دوسرے عرب اور اسلامی ممالک کے تعلیمی نصابوں میں بھی شامل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
اگرچہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان وسیع پیمانے پر سیاسی اور اقتصادی تعاون موجود ہے اور امریکہ سعودیوں کے اقتدار کی حفاظت کا پابند بھی ہے اس کے باوجود اس طرزِ تعلیم کا خاتمہ نہیں ہوا نا ہی امریکہ نے اسے روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی، اس کے برعکس تمام تر دلائل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ نے اسے مزید مہمیز دی، خاص طور سے افغانستان میں سوویت مداخلت کے دنوں میں جہاں امریکہ، سعودی عرب، پاکستان اور کچھ دیگر خلیجی ممالک نے سعودی عرب، پاکستان اور افغانستان کے دینی مدارس کے بطن سے پیدا ہونے والی انتہا پسند سیاسی اسلامی جماعتوں کو سوویت یونین کے خلاف لڑنے میں ان کی سرپرستی کی، امریکہ کے آئیڈیالوجسٹ اور سیاسی انتظامیہ نے ان جماعتوں کی فکری جڑوں پر کوئی توجہ نہیں دی کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے تشدد پر اتر سکتے ہیں اور یہ صرف سوویت یونین کے افغانستان میں وجود اور سوویت مملکت کے ‘‘اشتراکی الحاد’’ کے ہی خلاف نہیں ہیں بلکہ یہ سب آسمانی وغیر آسمانی مذاہب، سیکولرازم، اور انسانی ترقی کے بھی خلاف ہیں، اگرچہ بعض غیر سرکاری اداروں نے عداوت پر مبنی سعودی نظامِ تعلیم پر سوال اٹھائے مگر سعودی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی، اس کے علاوہ بین المذاہب گفتگو سے ممالک کے درمیان تعلقات مراد لیا جاتا ہے نا کہ سعودی عرب یا دیگر عرب و اسلامی ممالک میں مذہبی آزادی، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے خدوخال واضح ہونے چاہئیں تاکہ دنیا بین المذاہب گفتگو کے نام پر بے وقوف نہ بنتی رہے اور اسلامی ممالک میں مذہبی ایذا رسانی بغیر کسی بنیادی علاج کے جوں کی توں قائم رہے۔
دوسرا اہم مسئلہ سرمایہ کا ہے، اکثر اسلامی ممالک، یورپ اور امریکہ کے دینی مدارس اور سیاسی اسلام کی تنظیموں کو سرمایہ سعودی اور خلیجی تیل سے ملتا رہا، سعودی عرب اور بعض خلیجی ریاستیں بشمول اسلامی ممالک کا خوشحال طبقہ ان مدارس، مساجد اور تنظیموں کو سرمایہ فراہم کرتا رہا، اسی سرمائے سے تشدد پر اکسانے والی کتب شائع کی جاتی رہیں اور مفت تقسیم ہوتی رہیں، ان کتب کا لب لباب وہی نکات ہوتے تھے جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے، یہ مالی تعاون پہلے کی طرح آج بھی اتنی ہی سخاوت سے کیا جاتا ہے، مالی تعاون کی اس پالیسی کے ذریعہ دینی مدارس کے غریب طلباء اور سیاسی تنظیموں کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ایران نے بھی یہ پالیسی بڑے پیمانے پر اپنا رکھی ہے اور پوری دنیا میں شیعہ مسلک کے مدارس اور سیاسی گروہوں کی بھرپور مدد کی جاتی ہے اگرچہ دوسرے مسالک کی بھی مالی مدد کچھ خاص مقاصد کے حصول کے لیے کی جاتی ہے جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ انہیں مشرق وسطی اور عالمی سطح پر اپنی سیاسی پالیسیوں پر چلنے پر مجبور کیا جائے۔
تیسرا مسئلہ لٹکے ہوئے معاملات کا ہے جو سلفی فکر کی پر تشدد انتقامی ذہنیت کو مہمیز دیتا ہے اور مسائل کے حل کے جمہوری طریقوں سے انہیں باز رکھتا ہے، ان لٹکے ہوئے معاملات میں سب سے اہم مسئلہ فلسطین ہے، اس کے بعد شام کا مقبوضہ جولان، لبنان کے مزارع شبعا اور مسئلہ کشمیر سرِ فہرست ہیں، وہابی فکر کو لگتا ہے کہ دنیا میں ان سیاسی معاملات کے حل کے سلسلے میں عالمی طاقتیں دہرے معیارات اپنا رہی ہیں، اس کے علاوہ اسلامی ممالک میں غربت، محرومی، بیماری، جہالت، امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا فرق ایسے عوامل ہیں جو لوگوں میں احساسِ محرومی پیدا کرتے ہیں نتیجتاً لوگ ایسی انتہا پسند تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں یا ان کی تبلیغ کا آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا حصہ بن جاتے ہیں، اگرچہ اس سے کسی بھی حال میں دہشت گردی کو جواز نہیں ملتا تاہم حقیقتِ حال اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ غربت کے مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر کئی طرح کے واضح اثرات مرتب ہوتے ہیں، معاملات کو مزید خراب مغربی ممالک کی انسانی حقوق کی بلند وبانگ باتیں کرتی ہیں کیونکہ علمی طور پر مغربی ممالک کے ایسے سیاسی اور اقتصادی قوتوں کے ساتھ بہترین تعلقات قائم ہیں جو انسانی حقوق کو روز روندتی ہیں، اس ضمن میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو پیش کیا جاسکتا ہے اگرچہ یہ کوئی اکلوتی مثال نہیں ہے۔
یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر عرب اور اسلامی ممالک اپنی قوموں کے ساتھ جمہوری اور انصاف پر مبنی انسانی سلوک نہیں کرتے، چاہے بات قومی آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم ہو، اس کا غلط استعمال ہو، دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو، شخصی آزادیوں کا فقدان ہو یا ہاتھ گردن کاٹنے کی وحشیانہ پالیسیاں ہوں جیسا کہ سعودی عرب اور ایران میں رائج ہے۔۔ یہ سب عوامل مل کر ایسی نسلیں پیدا کرتے ہیں جو آمادہ تشدد ہوتی ہیں اور انتقام لینا چاہتی ہیں۔۔
(جاری ہے)
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-causes-rise-muslim-terrorism-part-1/d/12699