New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 02:52 AM

Urdu Section ( 22 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islam, wisdom and olive اسلام، عقل اور زیتون

 

ناستک درانی ، نیو ایج اسلام

22 مئی، 2013

 عقل ہی وہ امام ہے جس کے پیچھے چل کر سائنسدانوں اور فلاسفہ نے کائنات کے رازوں کو آشکار کیا ہے، یہی وہ اکلوتی دلیل ہے جس کے ذریعے فلاسفہ نے کسی بھی آسمانی مذہب کی آمد سے قبل فضیلت اور رذیلت کی تعریف بیان کی، زیادہ تر مفکرین کے لیے یہی خدا ہے کیونکہ یہ دوسروں کی اندھی تقلید سے روکتا اور انسان کی فلاح وبہبود کی طرف رہنمائی کرتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ جملہ مذاہب بشمول اسلام نے عقل کے ساتھ جنگ کی اور اسے شیطان قرار دیا جو لوگوں کے دلوں میں وسواس پیدا کرتا اور ان کے اندھے ایمان کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، قرآن نے کسی بھی موضوع پر بحث کو ‘‘جدال’’ قرار دیا ہے اور اس سے بار بار منع کرتے ہوئے مؤمنین کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنی کوئی رائے دیے بغیر جو کچھ بھی انہیں کہا جائے اسے من وعن تسلیم کر لیں، مثلاً:

وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰیٰ اَوۡلِیٰٓئِہِمۡ لِیُجَادِلُوۡکُمۡ وَ اِنۡ اَطَعۡتُمُوۡہُمۡ اِنَّکُمۡ لَمُشۡرِکُوۡنَ  (الانعام 121)

(ترجمہ: اور شیطان لوگ اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگ ان کے کہے پر چلے تو بیشک تم بھی مشرک ہوئے۔)

مَا یُجَادِلُ فِیۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا (غافر 4)

(ترجمہ: اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں)

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ یَتَّبِعُ کُلَّ شَیۡطٰنٍ مَّرِیۡدٍ (الحج 3)

(ترجمہ: اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی شان میں علم کے بغیر جھگڑتے اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرتے ہیں۔)

وَ اِنۡ جٰدَلُوۡکَ فَقُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ (الحج 68)

(ترجمہ: ور اگر یہ تم سے جھگڑا کریں تو کہدو کہ جو عمل تم کرتے ہو اللہ ان سے خوب واقف ہے۔)

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُجَادِلُوۡنَ فِیۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ سُلۡطٰنٍ اَتٰہُمۡ ۙ اِنۡ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ اِلَّا کِبۡرٌ مَّا ہُمۡ بِبَالِغِیۡہِ ۚ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ  اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ (غافر 56)

(ترجمہ: جو لوگ بغیر کسی دلیل کے جو انکے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں انکے دلوں میں اور کچھ نہیں ایسی بڑائی ہے جسکو وہ پہنچنے والے نہیں تو اللہ کی پناہ مانگو۔ بیشک وہ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے۔)

اَلَم تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یُجَادِلُوۡنَ فِیۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ  اَنّٰی یُصۡرَفُوۡنَ ﴿ۛۚ69 الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِالۡکِتٰبِ وَ بِمَا اَرۡسَلۡنَا بِہ رُسُلَنَا ۟ۛ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ70اِذِ الۡاَغۡلٰلُ فِیۡ اَعۡنَاقِہِمۡ وَ السَّلٰسِلُ  یُسۡحَبُوۡنَ ﴿ۙ71فِی الۡحَمِیۡمِ ۬ۙ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسۡجَرُوۡنَ ﴿ۚ72﴾ (غافر 69 تا 72)

(ترجمہ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں۔ یہ کہاں سے پھیرے جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے ہماری کتاب کو اور جو کچھ ہم نے پیغمبروں کو دے کر بھیجا اسکو جھٹلایا۔ وہ عنقریب معلوم کر لیں گے۔ جبکہ انکی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی وہ گھسیٹے جائیں گے۔ یعنی کھولتے ہوئے پانی میں۔ پھر آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔)

جیسا کہ اوپر کی آیات سے واضح ہے کہ اللہ کی آیات پر کسی قسم کی گفت وشنید اور رائے دہی ‘‘جدال’’ ہے اور مجادلین کی سزا گلے میں طوق اور زنجیریں باندھ کر جہنم میں گھسیٹا جانا ہے، فقہاء نے عقل کی تذلیل اور اندھے ایمان کی تعظیم میں وہ وہ قصیدے بیان کیے ہیں کہ مبالغہ آرائی اس کے سامنے چھوٹی اصطلاح معلوم ہوتی ہے، خلیفہ المستنصر باللہ الفاطمی کے دور کے فقیہ ہبۃ اللہ بن عمران الشیرازی الاسماعیلی کہتے ہیں: ‘‘رہی بات دہریے کا ستاروں کے بارے میں یہ کہنا کہ: کہ لوگوں نے خود سے ہی ان پر تحقیق کر کے ان کے طلوغ وغروب دریافت کیے اور اس کے لیے انہیں انبیاء کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے، اگر لوگ جو وہ کہہ رہا ہے اس پر قادر ہوتے تو وہ بولنے سے قاصر ہوتے، اگر آسمان کی خبریں دینے والا نبی نہ ہوتا تو وہ یہ سب نہیں کر پاتے’’ (تاریخ الالحاد فی الاسلام، صفحہ 112) غور کریں کہ ہبۃ اللہ بن عمران یہ بات کہہ رہے ہیں جبکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں نبی کی آمد سے بہت پہلے عرب کے بدو کھلے صحراؤوں میں ستاروں کے ذریعے نہ صرف اپنے راستوں کی سمت بندی کرتے تھے بلکہ مہینوں اور حج کے اوقات تک کا تعین بھی کرتے تھے، نبی نے تو اس بارے میں ان کی معلومات میں رتی بھر کا اضافہ نہ کیا، جب ان سے پوچھا گیا کہ ‘‘اہلۃ’’  یعنی چاند کا گھٹنا بڑھنا کیا ہے تو انہوں نے فرمایا:

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَھَۃِ قُلۡ ھِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ  (البقرۃ 189)

(ترجمہ: اے پیغمبر لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے کہہ دو کہ وہ لوگوں کے کاموں کی میعادیں اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔)

یہ کہہ کر انہوں نے گویا پانی کی وضاحت پانی سے بیان کی، سنن ابی داود، ترمذی اور نسائی کی ایک حدیث کے مطابق آپ نے فرمایا: ‘‘جس نے قرآن کی اپنی رائے سے وضاحت بیان کی اگرچہ وہ اس میں صحیح بھی ہو تب بھی وہ غلطی پر ہے’’ (الاتقان فی علوم القرآن جلد 3) لہذا قرآن کی آیات پر غور وفکر اور ان پر اپنی رائے دینا منع ہے اور اس ضمن میں صحیح نتیجہ نکالنے والا بھی غلطی پر ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ‘‘ ہلک المتنطعون ہلک المتنطعون ہلک المتنطعون’’ (مسلم) متنطعون وہ لوگ ہیں جو تحقیق میں گہرائی تک جاتے ہیں اور حدیث ان کی ہلاکت پر اصرار کرتی ہے، ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ‘‘ اللہ اور اس کے رسول کا کلام حق ہے جسے قبول کیا جانا چاہیے چاہے اس کا معنی ہی سمجھ نہ آئے اور غیر معصوم کا کلام تب تک قبول نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ اس کے معنی کی سمجھ نہ آجائے’’ (تعارض العقل والنقل، جلد 1 صفحہ 29)، تو گویا رسول اللہ کی بات چاہے سمجھ ہی نہ آئے اس پر اندھا ایمان لانا چاہیے چاہے وہ آپ تک بیس لوگوں کے ‘‘ عنعنہ’’ کے ذریعے سے پہنچی ہو جو سارے کے سارے مر چکے ہیں اور اپنے سے منسوب باتوں کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے، ان آیات واقوال کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ فقہاء اور عباسی خلفاء نے علمائے کلام کی خوب درگت بنائی جیسے ابن المقفع، ابن الرویندی، ابی زکریا الرازی اور ابی عیسی الوراق وغیرہ، یوں اجتماعی اسلامی عقل بالیدگی کا شکار ہوگئی اور فتاوی و احادیث سے آگے سوچنے کے قابل ہی نہ رہی، جب جابر بن حیان نے وقت کے ساتھ انسانی معرفت کی ترقی کی بات کی تو اسلام کے فقہاء اس کی تردید کرنے اٹھ کھڑے ہوئے اور ہمیں بتایا کہ سارا علم تو دراصل نبی اور صحابہ کے پاس تھا، پھر ان سے ایک درجہ کم تابعین کے پاس تھا، اور ان سے ایک درجہ کم تابعین کے تابعیوں کے پاس تھا، اور یوں آگے قیاس کرتے چلے جائیے حتی کہ علم بالکل ہی ختم ہوجاتا ہے۔۔۔ شاید انہوں نے سچ ہی کہا تھا، اسلامی دنیا میں سوائے حیض ونفاس اور نکاح کے علم کے اور کوئی علم باقی بچا ہی نہیں ہے۔

بعض مسلمانوں نے عالمِ اسلام کی شرمناک جہالت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دین کی تجارت کی اور ڈالر کمائے، اس دوڑ میں موریس بوکائی جیسے غیر مسلم بھی پیچھے نہیں رہے اور اس جاہلانہ مظہر کا خوب فائدہ اٹھایا، قرآن کے سائنسی معجزے کی شہرت کے بعد سعودی عرب میں کام کرنے والے ایک پاکستانی نے زمزم کے کنوئیں کے کیمیائی معجزے کا نظریہ پیش کیا جس کے بارے میں راوی کہتے ہیں کہ وہ اسماعیل کے پیروں تلے اس وقت پھوٹا تھا جب اس کی ماں ہاجر ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اسے مکہ کے صحراء میں لائی تھی حالانکہ کوئی ایک بھی ایسا تاریخی ثبوت موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجر مکہ آئے ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیل کی موت کے بعد اس معجزاتی کنوئیں کا پانی خشک ہوگیا تھا لہذا اللہ نے نبی کریم کے دادا عبد المطلب کو اسے نئے سرے سے کھودنے کا حکم دیا وہ بھی نبی اسلام کی پیدائش سے بہت پہلے (سیرۃ ابن اسحاق)، جس کنوئیں کو ایک مشرک نے کھودا تھا پاکستان کے طارق حسین کے مطابق اللہ نے اس میں کیمیائی معجزہ پیدا کردیا، طارق حسین کے مطابق مصر کے ایک ڈاکٹر کے اس بیان کے بعد کہ زمزم کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے، شاہ فیصل کو سخت غصہ آیا اور انہوں نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا چنانچہ سعودیہ کی وزارتِ زراعت نے مصری ڈاکٹر کے دعوے کو جھٹلانے کے لیے ان کا انتخاب کیا، طارق حسین کا دعوی ہے کہ مصری ڈاکٹر نے یورپ کے جرائد کو زمزم کے پانی پر اپنی رائے لکھ بھیجی (جرائد کا تعین کیے بغیر) جبکہ ہمارے اس نابغہ روزگار پاکستانی نے زمزم کے پانی کی جانچ کی اور جانچ کے لیے اس کے نمونے یورپ کی بڑی بڑی لیبارٹریوں کو ارسال کیے (لیبارٹریوں کا تعین کیے بغیر) یورپ کی تمام لیبارٹریوں کی جانچ سے پتہ چلا کہ زمزم کے پانی میں دوسرے کسی بھی پانی کے مقابلے میں کلیشئم اور میگنیشئم کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے، طارق حسین نے حاجیوں کی پھرتی کی وجہ زمزم کا پانی قرار دیا اور دعوی کیا کہ زمزم کے پانی میں نہ صرف فلورائیڈ کا مادہ پایا جاتا ہے جو جراثم کش ہے بلکہ جب سے کنواں وجود میں آیا ہے اس میں موجود معدنیات اور نمکیات کی مقدار بغیر کسی تبدیلی کے جوں کی توں رہی ہے تاہم طارق حسین نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ جب یہ کنواں وجود میں آیا تھا تب اس کی جانچ کس نے کی تھی تاکہ ہمیں یقین ہوسکے کہ کنوئیں کے وجود میں آنے سے اب تک اس کی نمکیات کی مقدار تبدیل نہیں ہوئی؟  اور اگر زمزم کے پانی کی نمکیات کی مقدار پہلے سے ہی معلوم تھی تو شاہ فیصل نے پانی کی دوبارہ چانچ کا حکم کیوں دیا؟ آخر میں طارق حسین صاحب فرماتے ہیں کہ زمزم کی جانچ سے پتہ چلا ہے کہ یہ جراثیم سے پاک پانی ہے، پھر انہوں نے اپنی عظیم رپورٹ پڑھنے والے ہر شخص سے درخواست کی کہ وہ اس رپورٹ کو اپنے جاننے والوں تک پہنچائیں تاکہ وہ اللہ کے ہاں نیکیاں کما سکیں اور وہ سعودیوں کے ہاں ریال۔

معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص جسے طارق حسین صاحب کی یہ رپورٹ ملی وہ نہ تو مسلمان تھا اور نہ ہی عیسائی، بلکہ جاپان کا ایک بدھ مت تھا، سوڈان کے اخبار ‘‘ الرای العام’’ کے مطابق زمزم کے پانی کی معجزانہ خصوصیات سے پردہ کشائی کا سہرا دراصل جاپانی محقق مسارو اموتو کے سر جاتا ہے، اس سائنسدان نے یہ ثابت کیا کہ زمزم کے پانی کے ذرات پر جب بسم اللہ پڑھی جاتی ہے تو پانی کے خواص پر اس کا ایک عجیب طرح کا اثر ہوتا ہے، مزید برآں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ زمزم کے پانی میں ایک ایسی خاصیت ہے جو دنیا کے کسی اور پانی میں نہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر اس کا ایک قطرہ عام پانی کے ہزار قطروں میں شامل کردیا جائے تو وہ پانی بھی اسی کی خصوصیات کا حامل بن جاتا ہے، اس عظیم جاپانی سائنسدان نے دعوی کیا کہ اسے یہ پانی جاپان میں مقیم ایک عرب سے ملا، اور اس پر تجربات کرنے پر اس نے یہ نوٹ کیا کہ اس کے ذرے دنیا کے کسی بھی دوسرے پانی سے نہیں ملتے اور لیبارٹری میں ہونے والے تمام تر تجربات اس کی خاصیت کو بدلنے میں ناکام رہے، اس کی تحقیق سے مزید انکشاف ہوا کہ بسم اللہ جس سے مسلمان اپنے کھانے پینے کا آغاز کرتے ہیں کا اس پانی پر عجیب اثر ہوتا ہے، اور صرف یہی نہیں بلکہ اللہ کے ننانوے نام بھی اس پر بعینہ وہی اثر ڈالتے ہیں جو بسم اللہ ڈالتا ہے۔۔ قابلِ غور بات یہ دعوی ہے کہ زمزم کا ایک قطرہ عام پانی کے ہزار قطروں میں شامل کرنے پر وہ اسی کی خاصیت کے حامل بن جاتے ہیں بعینہ ہیومیو پیتھی طریقہ علاج کی دوائیوں کی ترکیب کی مقدار ہے جسے بعض جعلساز جاپانیوں نے وضع کیا تھا۔

اس میں شک نہیں کہ میدانِ تحقیق میں جاپانی سائنسدان یدِ طولی رکھتے ہیں، اور جاپان کے مسارو اموتو نے یہ ثابت کردیا ہے کہ زمزم جیسا دنیا میں اور کوئی پانی ہے ہی نہیں، جیسا کہ اللہ جیسا کوئی اور نہیں، تاہم ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ زمزم اور بسم اللہ کے اتنے معجزے ثابت کرنے کے باوجود مسارو اموتو مسلمان کیوں نہ ہوئے اور بدھ مت پر ہی کیوں قائم رہے؟

درست علمی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ زمزم کے پانی میں نمکیات کی مقدار مطلوبہ حد سے متجاوز ہے اور اس میں دنیا جہان کے جراثیم پائے جاتے ہیں، ہر سال سینکڑوں حاجی زمزم کا با برکت پانی پینے سے کولیرا کا شکار ہوکر داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں، کچھ سال قبل کولیرا کا مرض نائیجیریا، بنگلادیش اور پاکستان میں بری طرح پھیل گیا تھا جس کی وجہ زمزم کا وہ پانی تھا جو حجاجِ کرام مکہ سے بوتلوں میں اپنے ساتھ بھر کر لائے تھے، اسلام کے مقدس شہروں کا پانی مقدس نہیں ہے، رسول اللہ کے شہر مدینہ کے پانی میں انیسویں صدی میں ایک کیڑا دریافت ہوا جو انسانی جلد کے نیچے پلتا بھولتا رہتا ہے اور جسم کے گیلا ہونے پر اپنی دم باہر نکال دیتا ہے جس سے پیروں میں زخم بن جاتے ہیں، اس کیڑے کو مدینے کا کیڑا Dracunculus medinensis کہا جاتا ہے۔

جاپانیوں کی سائنسی تحقیق ایک اور قرآنی معجزے میں بھی ظاہر ہوئی جس کا تعلق تین (انجیر) اور زیتون سے ہے، مصر کی جامعہ ازہر کے سابقہ چانسلر اور پودوں اور ادویات کے استاد ڈاکٹر طہ ابراہیم خلیفہ نے تین اور زیتون کی ایک مخصوص مقدار جاپان کے کچھ سائنسدانوں کو ارسال کی (جیسے جاپان میں انجیر اور زیتون نہ ملتے ہوں!!) جو بڑھاپے کو مؤخر کرنے کے لیے کسی مادے کی تلاش میں تھے اور ڈاکٹر طہ ابراہیم کا خیال تھا کہ یہ مادہ تین اور زیتون میں ہونا چاہیے۔

کافی عرق ریزانہ تحقیق کے بعد جاپانی سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ تین کی کسی مخصوص مقدار میں اگر سات گنا مماثل کمیت کے زیتون شامل کیے جائیں تو اس سے بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں، چنانچہ ڈاکٹر طہ ابراہیم نے قرآن میں تلاش شروع کی اور ان پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ زیتون کا ذکر قرآن میں چھ مرتبہ صریح اور ایک مرتبہ کنایتاً آیا ہے (وَ شَجَرَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ طُوۡرِ سَیۡنَآءَ تَنۡۢبُتُ بِالدُّہۡنِ وَ صِبۡغٍ لِّلۡاٰکِلِیۡنَ - المؤمنون 20) اس طرح زیتون کا ذکر کرنے والی آیات کی تعدد سات ہوجاتی ہے جبکہ تین (انجیر) کا ذکر صرف ایک بار آیا ہے، جب ڈاکٹر طہ ابراہیم نے یہ معلومات جاپانی سائنسدانوں کو ارسال کی تو ان کا سربراہ مسلمان ہوگیا مگر افسوس کہ سائنسدانوں کی باقی ساری ٹیم اپنی بدھ مت پر ہی قائم رہی اور مسلمان نہ ہوئی، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ابن البیطار (پیدائش 1197ء وفات 1248ء) جو درمیانے دور کا ایک اچھا نباتیات دان تھا اور قرآن پڑٖھنے والا ایک مسلمان تھا اس نتیجے پر نہ پہنچ سکا اور یہ راز چودہ سو صدیوں تک قرآن میں پوشیدہ رہا حتی کہ آج کے دور میں جاکر ڈاکٹر طہ ابراہیم کی مدد سے اسے جاپانیوں نے دریافت کیا؟!

قرآن کی سائنس اور اسلام کے مقدس پانیوں کے معجزات کے اس فیشن سے اہلِ مغرب نے بھی خوب فائدہ اٹھایا، شاہ فہد یونیورسٹی کے شعبہ طب میں کینڈا کے ایک ڈاکٹر کا تعین ہوا، اپنے ایک لیکچر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ کس طرح قرآن میں بچے کی تکوین کے مراحل کا بیان بعینہ وہی ہے جو جدید طب میں تسلیم شدہ ہے، جس پر ہال میں موجود طالب علموں نے خوب تالیاں بجائیں، تالیوں کی گونج میں وہ ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھنا بھول گئے کہ اتنے بڑے قرآنی معجزے کی دریافت کے باوجود وہ عیسائیت پر کیوں قائم رہے؟

زیادہ تر قارئین کو فرانس کے ڈاکٹر موریس بوکائی کے قصے کا علم تو ہوگا ہی جو شاہ فیصل کے دور میں سعودی عرب میں کام کرتا رہا اور پھر اچانک فرانس جاکر قرآن کے اساطیری قصوں اور سائنس کو مکس کر کے کئی کتابیں اور مقالے لکھ مارے اور ان سے ایسے معجزات تخلیق کیے جو سعودی خرچ پر فرانس میں مفت چھاپے اور بانٹے گئے۔

یہ وہ خوفناک جہالت ہے جو عالمِ اسلام پر چھائی ہوئی ہے، حالانکہ ان کا دعوی ہے کہ سب سے پہلی چیز جو اللہ نے بنائی تھی وہ عقل تھی (الملل والنحل، صفحہ 52) اور قرآن کی سب سے پہلی آیت ‘‘اقرا باسم ربک الذی خلق’’ تھی، اور سب سے پہلا آلہ جو اللہ نے تخلیق کیا وہ قلم تھا جس کے ذریعے اللہ نے سب کی تقدیریں لکھیں، ان سب دعووں کے باوجود مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت جاہل ہے جنہیں ٹھیک طرح سے قلم تک کو پکڑنا نہیں آتا، جو سائنس سے زیادہ اولیاء کی کرامات، زمزم کے پانی اور تین اور زیتون کے معجزات پر یقین رکھتے ہیں، یہ ان کا احساسِ کمتری ہے جو انہیں اپنے اندر کوئی ایسی چیز تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے جس کے ذریعے وہ کسی نہ کسی طرح خود کو ترقی یافتہ مغربی اقوام پر برتری دلا سکیں۔

مگر ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔۔۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/islam,-wisdom-olive-/d/11673

 URL for English article:

 https://newageislam.com/islam-science/islam,-intellect-olive/d/11677

 

Loading..

Loading..