New Age Islam
Wed Sep 18 2024, 10:26 AM

Urdu Section ( 20 Aug 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islam Has No Interest In State ریاست اسلام کی دلچسبی نہیں

 

ناستک درانی،  نیو ایج اسلام

20اگست، 2013
میں محمد حسین ہیکل کی مشہورِ زمانہ کتاب
محمد پڑھ رہا تھا، صفحہ 308 پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس خط کا متن تھا جو آپ نے قیصر روم ہرقل کو بھیجا تھا، خط کا متن کافی کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے، قارئین ملاحظہ فرمائیں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم، من محمد بن عبد اللہ الی ہرقل عظیم الروم، سلام علی من اتبع الہدی، اما بعد، فانی ادعوک بدعایۃ الاسلام، اسلم تسلم یؤتک اللہ اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیک اثم الاریسیین، یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمہ سواء بیننا وبینکم، الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا، ولا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللہ فان تولوا فقولوا اشہدوا بانا مسلمون
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا ہی مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ خط ہے محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف، اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت قبول کر لے۔ اما بعد میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرو، تمہیں بھی سلامتی و امن حاصل ہو گی اور اسلام قبول کرو اللہ تمہیں دہرا اجر دے گا (ایک تمہارے اپنے اسلام کا اور دوسرا تمہاری قوم کے اسلام کا جو تمہاری وجہ سے اسلام میں داخل ہو گی) لیکن اگر تم نے اس دعوت سے منہ موڑ لیا تو تمہاری رعایا کا گناہ بھی تم پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسے کلمہ پر آ کر ہم سے مل جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہی ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو پروردگار بنائے اب بھی اگر تم منہ موڑتے ہو تو اس کا اقرار کر لو کہ (اللہ تعالیٰ کے واقعی) فرمان بردار ہم ہی ہیں۔ (ترجمہ از: صحیح بخاری شریف مترجم: حضرت مولانا علامہ محمد داؤد راز دہلوی رحمہ الله، ناشر : مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند)
اس خط کے متن پر اگر غور کیا جائے تو بہت سارے قابلِ غور پہلو سامنے آتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کو مخاطب کرتے ہوئے اسے
روم کا بادشاہ قرار دیا مگر خود کو عرب کا بادشاہ قرار نہیں دیا کیونکہ وہ نبی تھے بادشاہ نہیں، ہرقل سیاست کا آدمی تھا جس کے لیے ایسے تعظیمی القاب کا استعمال جائز ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرقل کی طرح سیاست سے کوئی لگاؤ نہیں تھا بلکہ انہیں اس چیز کی تبلیغ کی فکر تھی جس کی ذمہ داری اللہ تعالی نے انہیں سونپی تھی نہ زیادہ اور نہ کم، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل سے سیاسی فرمانبرداری طلب نہیں فرمائی اور نا ہی روم کے سیاسی، اقتصادی اور انتظامی ڈھانچے اور نظام حکم کو تبدیل کرنے کا کوئی حکم دیا کیونکہ اسلام میں ایسا کوئی نظام وجود ہی ںہیں رکھتا، نظامِ حکم اسلام اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلچسبیوں کا مرکز نہیں تھے، لہذا انہوں نے صرف وہی چیز مانگی جس کی ذمہ داری اللہ تعالی نے انہیں سونپی تھی۔۔ اور وہ ہے صرف اور صرف اسلام کی دعوت۔
انہوں نے ہرقل سے یہ نہیں کہا کہ
قرآن ہمارا آئین ہے کیونکہ اہلِ روم آئین ودستور کو سب سے زیادہ جاننے والے لوگ تھے اور اسلام کے ظہور سے ایک ہزار سال قبل ان کا ایک جمہوری آئین تھا اور ایسی صورت میں وہ اس نئے آئین کو دیکھنے کی درخواست کرتے تاکہ اس کا اپنے آئین سے موازنہ کر سکیں اور حسبِ ضرورت اس سے فائدہ اٹھا سکیں جس طرح اس سے قبل انہوں نے یونان کے آئین اور سیاسی اور قانونی نظام سے فائدہ اٹھانے کے لیے وفود بھیجے تاکہ اپنے آئین کو مکمل کر سکیں، یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ یہ خط ارسال کرتے وقت قرآن ابھی مکمل نہیں ہوا تھا اور ابھی تک صحابہ کے سینوں، ہڈیوں اور پتھروں پر نقش تھا۔
اگر مذہب کا تعلق نظامِ ریاست اور سیاست سے ہوتا تو خط میں روم کے بادشاہ سے مذہب بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کی ریاست کے سیاسی نظام کو بدلنے کی بات بھی کی جاتی مگر نبوی خط نے نا ایسا کچھ طلب کیا اور نا ہی ایسا کوئی اشارہ دیا، خط نے یہ نہیں کہا کہ صلیب کو توڑ دو اور خنزیر کو قتل کردو، خط میں صرف اسلام مانگا گیا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ریاست اور اس کی سیاست ایک الگ معاملہ ہے، اسی لیے اسلام نے کبھی یہ اعلان نہیں کیا کہ وہ مذہب اور سیاست کا مجموعہ ہے، کیونکہ یہ آسمان کی اسلامی تلقین نہیں تھی، اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ فرماتے اور اللہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے خط میں اسے صراحتاً واضح کرتے۔
اگر ریاست اور سیاست ہی اسلام کی مطمع نظر ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہ کا وہ لقب نہ ٹھکرا دیتے جو قریش نے انہیں پیش کیا تھا، قرآن بھی بادشاہت کو ریاست پر تسلط کی ایک شکل قرار دیتا ہے:
اِنَّ ال
ۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡیَۃً اَفۡسَدُوۡہَا وَ جَعَلُوۡۤا اَعِزَّۃَ اَہۡلِہَاۤ اَذِلَّۃً ۚ (سورۃ النمل، آیت 34)
(ترجمہ: بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں)
بادشاہی لقب شہریوں سے مکمل تسلیم کا طالب ہوتا ہے اور یہ چیز صحرا میں آزاد گھومتے بدو کی ناک کو گوارا نہیں اسی لیے جزیرہ نما عرب کے بدو کبھی کسی مرکزی حکم کے زیرِ نگیں نہیں رہے سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ بھی ایک طرح کے قبائلی اتحاد کی شکل میں جو زیادہ دیر قائم نہیں رہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرماتے ہی بکھر گیا اور پھر کبھی متحد نہ ہوسکا حتی کہ ابن سعود نے محمد بن عبد الوہاب کے ساتھ مل کر انہیں زور زبردستی سے متحد ہونے پر مجبور کردیا اور مملکت سعودی عرب قائم کی جہاں اب بھی قبائلیت زوروں پر ہے، آج بھی جزیرہ نما عرب کے لوگ باقی دنیا کے برعکس اپنے طویل انساب یاد رکھتے اور قبائلی وفاداری پر فخر کرتے ہیں، اگر آپ کسی سعودی سے اس کا قبیلہ پوچھ لیں تو وہ آپ کو ایک طویل سلسلہ کا نسب ونسل بتائے گا اور اگر آپ یہی سوال کسی امریکی یا فرانسیسی سے کر لیں تو وہ آپ کا مطلب نہیں سمجھے گا اور اگر سمجھ گیا تو آپ کو پاگل قرار دے گا۔
قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سورۃ الکہف میں ہمیں ذو القرنین (
Alexander the Great) کے بارے میں بتاتا ہے، اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالی جانتا تھا کہ ذو القرنین مشہور فلسفی ارسطو کا تربیت یافتہ تھا جو افلاطون کا شاگرد تھا، اس کے باوجود قرآن نے نا تو فلسفہ کو برا کہا نہ ارسطو کو، نہ ارسطو کی سیاست کو اور نا ہی افلاطونی جمہوریت کو کیونکہ سیاست اسلام کی دلچسبیوں میں نہیں ہے، اگر ہوتی تو قرآن نے جس طرح اس زمانے کے مذاہب سے خود کا موازنہ کر کے بتایا کہ وہ بہتر ہے اسی طرح وہ اپنی مملکت کا موازنہ اس دور کی دیگر عظیم مملکتوں سے کرتا جیسے فارس، ایتھنز، روم اور مصر اور اپنے نظامِ سیاست کو بہتر قرار دیتا مگر قرآن نے ایسا نہیں کیا۔
سورہ سبا میں قرآن بتاتا ہے کہ کس طرح اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام نے اپنا سفیر (ہدہد) مملکت سبا کی طرف بھیجا جو اللہ کی بجائے سورج کی عبادت کرتی تھی، خط میں بلقیس کو ایمان کی دعوت دی گئی، اس نے یہ خط اپنے وزیروں اور قوم کے بڑوں کو دکھایا اور ان سے مشورہ کیا جو صورتِ حال کو سمجھنے کا ایک جمہوری طریقہ تھا مگر قرآن نے یہ نہیں کہا کہ عورت سربراہ نہیں بن سکتی، نا ہی اس کے نظامِ حکم کو برا کہا اور اس کا خاتمہ کرنے کا حکم دیا، قرآن نے اس سے صرف اسلام مانگا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دین کے مُبلغ تھے اسلامی ریاست کے نہیں، اگر ریاست دینِ اسلام کا مقصد ہوتی تو یہ سوال اٹھتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود موجود تھے، انہیں اللہ اور اس کے فرشتوں کی مکمل سپورٹ بھی تھی اس کے باوجود انہوں نے یہ ریاست کیوں قائم نہیں کی؟ صاف ظاہر ہے کہ اسلام کا مقصد ریاستیں بنانا نہیں تھا، اگر ایسا ہوتا تو اللہ کے رسول کے ہاتھوں یہ ریاست نہ صرف اس وقت بن گئی ہوتی بلکہ آج تک قائم ہوتی اور ہمیں اس کے لیے اخوان جیسی تنظیموں کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔

URL:

 https://newageislam.com/urdu-section/islam-no-interest-state-/d/13109

 

Loading..

Loading..