ناستک درانی، نیو ایج اسلام
23 دسمبر، 2013
”احمد بن واضح الیعقوبی“ کہتے ہیں کہ: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی نماز ظہر کی فرض ہوئی تھی، آپ کے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور انہیں وضوء کرنا سکھایا، تو رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح وضوء فرمایا جس طرح حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا، پھر حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ کو دکھانے کے لیے کہ نماز کس طرح ادا کرنی ہے نماز پڑھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی 1، اسی طرح کی رائے نافع سے بھی وارد ہوئی ہے“ 2۔
میرے خیال سے دونوں خبریں ضعیف ہیں، کیونکہ بعض مفسرین کے نزدیک ظہر کی نماز ”درمیانی نماز“ ہے جس کا قرآنِ مجید میں ذکر ہوا ہے: ”حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ - سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص کر) درمیانی نماز کی اور الله کے لیے ادب سے کھڑے رہا کرو“ 3، تو اگر ظہر کی نماز درمیانی نماز ہے تو اسے دو نمازوں کے درمیان آنا چاہیے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نماز سے متعارض ہے کیونکہ اس کا درمیانی نماز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ پہلی نماز بھی ہو اور آخری نماز بھی، پھر عقل ظہر کی نماز کو پہلی نماز اس لیے بھی تسلیم نہیں کر سکتی کیونکہ زیادہ تر مذاہب میں نماز صبح اور شام میں ہوتی ہے کیونکہ ان اوقات میں وقت کا تعین کرنا آسان ہوتا ہے، چنانچہ ظہر کی نماز کا پہلی نماز ہونا ممکن نہیں۔
بعض مفسرین نے فجر کی نماز کو درمیانی جبکہ بعض دوسروں نے عصر کو درمیانی نماز قرار دیا ہے جبکہ کچھ دیگر نے مغرب اور کچھ دوسروں نے عشاء کو درمیانی نماز قرار دیا ہے، اسی طرح بعض نے جمعہ کو درمیانی نماز قرار دیا ہے 4 اور کچٖھ نے فجر کو، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ”جماعت کی نماز“ ہے، کسی نے ”صلاۃ الخوف“ کو درمیانی نماز کہا ہے، کسی نے عید الفطر کی نماز کو، کسی نے ”صلاۃ الاضحی“ کو، کسی نے وتر کو کسی نے ”ضحی“ کو، کچھ دلائل کے تعارض کی وجہ سے خاموش رہے اور کسی ایک نمازو کو ترجیح نہ دے سکے اسی لیے اس پر کسی ایک قول پر اجماع نہ ہوسکا بلکہ اس پر صحابہ کے زمانہ سے اب تک اختلاف موجود ہے 5۔
بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت (حافظوا علی الصلوات) سے مراد روزانہ کی پانچ نمازیں ہیں، آیت سورۃ بقرۃ کی ہے اور یہ ان آیات میں شامل ہے جو مدینہ میں نازل ہوئیں، صلوات کے ذکر کے بعد آیت (والصلاۃ الوسطی) میں حرفِ عطف کا وجود اس نماز کی فضیلت پر دلالت ہے چنانچہ باقی نمازوں سے اس کا ذکر تخصیص کے ساتھ الگ سے کیا گیا 6، لیکن پانچوں نمازیں ساری کی ساری فرض نمازیں ہیں جو اللہ کے لیے ہیں تو پھر کیوں درمیانی نماز کو خصوصی فضیلت دی گئی جبکہ وہ بھی باقی نمازوں کی طرح ہے؟
در حقیقت ہم ان متعدد روایات میں سے ”درمیانی نماز“ کے تعین میں کسی قائل کر دینے والے نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے، ہمارے پاس کچھ دیگر روایات بھی ہیں جو کہتی ہے کہ ”البراء بن عازب“ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگ سالوں تک: ”حافظوا علي الصلوات وصلاة العصر“ پڑھتے رہے پھر آخری قرات پر جم گئے: ”حافظوا على الصلواة والصلاة الوسطى“، ایک اور روایت کہتی ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا کاتب جب اس آیت تک پہنچا: ”حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى“ تو حضرت حفصہ نے اسے حکم دیا کہ وہ ”صلاة العصر“ یا ”وصلاة العصر“ لکھے، ایک اور روایت کہتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک مصحف تھا جس میں آیت اس طرح تھی: ”حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وهي العصر“ 7۔
تفسیر الطبرسی میں ایک معقول توجیہ ملتی ہے کہ کیوں ”درمیانی نماز“ کا باقی نمازوں سے علیحدگی سے ذکر کیا گیا جبکہ وہ ان میں سے ایک ہے، وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ایک روایت کا ذکر کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید گرمی میں نماز پڑھتے تھے اور یہ ان کے صحابہ پر سب سے بھاری نمازیں ہوتی تھیں اسی لیے ان کے پیچھے صرف ایک یا دو صفیں ہی ہوتی تھیں جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایسے لوگوں کے گھر جلانے والا ہوں جو نماز میں حاضری نہیں دیتے، جن لوگوں نے عصر کو درمیانی نماز قرار دیا ہے ان پر کلام کرتے ہوئے وہ ایک اور سبب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”کیونکہ یہ دن کی دونوں نمازوں اور رات کی دونوں نمازوں کے درمیان میں ہے، اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ لوگوں کی مصروفیت کا وقت ہے“ 8۔
معلوم ہوتا ہے کہ ظہر یا عصر کی ”درمیانی نماز“ کے طور پر تفسیر دیگر تفسیرات میں زیادہ معقول ہے خاص کر عصر، کیونکہ حجاز جیسے گرم ملکوں میں اس کی ادائیگی تکان ومشقت سے خالی نہیں اس لیے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس نماز میں حاضری نہیں دیتے تھے، اس لیے اس پر تشدید کا حکم نازل ہوا اور یہ پانچوں نمازوں میں درمیانی نماز ہے، اور چونکہ آیت مدنی ہے اور اس میں پانچوں نمازوں کی طرف اشارہ ہے لہذا عصر کی نماز ہی درمیانی نماز ہے، رہی بات نمازِ ظہر کی تو یہ فجر وعصر کے وقت کی درمیانی نماز ہے اور اس کی ادائیگی بھی ایک گرم وقت میں ہوتی ہے مگر اس کے وقت کی شدت عصر کے وقت کی شدت کے برابر نہیں ہے اور پھر یہ پانچوں نمازوں میں درمیانی نماز نہیں ہوسکتی، اگر آیت مکی ہوتی تو بلا شبہ ظہر کی نماز کی طرف توجہ جاتی اسی لیے میرے خیال سے درمیانی نماز یعنی ”الصلاة الوسطى“ نمازِ عصر ہی ہے اور یہی راجح قول ہے۔
حوالہ جات:
1- الیعقوبی 16/2، مطبوعہ نجف۔
2- سیرۃ ابن ہشام 156/1۔
3- سورہ البقرہ آیت 238، تفسیر النیسابوری، تفسیر طبری پر حاشیہ 385/2 اور اس سے آگے، بولاق۔
4- تفسیر الخازن 179/1، رسالۃ ابن ابی زید 23، تفسیر النیسابوری میں تفسیر طبری پر حاشیہ 383/2 اور اس سے آگے، تفسیر الطبرسی 343/2 مطبوعہ طہران، تفسیر ابن کثیر 290/1 اور اس سے آگے۔
5- تفسیر ابن کثیر 294/1۔
6- تفسیر الجلالین 35/1۔
7- الموطا 254/1 اور اس سے آگے، سنن الشافعی 8، تفسیر الطبری 321/2 اور اس سے آگے، کولدتسہیر، مذاہب التفسیر الاسلامی 24 اور اس سے آگے، تفسیر ابن کثیر 290/1 اور اس سے آگے۔
8- تفسیر الطبرسی 342/1 اور اس سے آگے۔
URL for Part 1:
URL for Part 2:
URL for Part 3:
URL for Part 4:
URL for Part 5:
URL for Part 6:
URL for Part 7:
URL for Part 8:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/history-namza-islam-(part-9)/d/34960