ناستک درانی ، نیو ایج اسلام
4فروری، 2013
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کو ایک رکعت نماز پڑھائی جبکہ دوسرا گروہ دشمن کا مقابلہ کر رہا تھا، پھر پہلا گروہ دشمن کا مقابلہ کرنے چلا گیا اور دوسرا گروہ آگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائی، پھر دونوں گروہوں نے ایک ایک رکعت قضا کی 1۔
اس نماز کو ”صلاۃ الخوف“ کا نام دیا گیا کیونکہ یہ تب قائم کی گئی جب اس وقت مسلمان خطرے میں تھے، فقہاء کی اس نماز کے رکعت اور سجدوں کے بارے میں مختلف آراء ہیں 2، امام احمد فرماتے ہیں کہ اگر دونوں فوجیں ٹکرا جائیں تو نمازِ خوف ایک رکعت ہے، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: صلاۃ الخوف ایک رکعت ہے 3۔
حضرت جابر سے مروی ہے کہ: جہاد کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں ایک قوم سے قبیلہ بنی جہینہ کی اور وہ بہت لڑے، پھر جب ہم ظہر پڑھ چکے مشرکوں نے کہا کاش کہ ہم ان پر ایک بارگی حملہ کرتے تو ان کو کاٹ ڈالتے اور جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ کو اس کی خبر دی اور حضرت نے ہم سے ذکر کیا اور مشرکوں نے کہا کہ ان کی اور ایک نماز آتی ہے کہ وہ ان کو اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے، پھر جب عصر کا وقت آیا ہم نے دو صفیں باندھ لیں (یعنی آگے پیچھے) اور مشرک قبلہ کی طرف تھے اور تکبیر اولی کہی رسول اللہ نے اور ہم سب نے، اور رکوع کیا آپ نے اور ہم سب نے (یعنی دونوں صفیں رکوع تک شریک رہیں) اور سجدہ کیا آپ نے اور پہلی صف نے پھر جب آپ اور پہلی صف کھڑی ہوگئی دوسری صف نے سجدہ کیا اور اگلی صف پیچھے اور پچھلی آگے ہوگئی اور اللہ اکبر کہا رسول اللہ نے اور ہم نے، اور رکوع کیا آپ نے اور ہم سب نے اور سجدہ کیا آپ کے ساتھ صف اول نے اور دوسری صف ویسی کھڑی رہی، پھر جب دوسرے بھی سجدہ کر چکے تو سب بیٹھ گئے اور سب کو سلام دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 4۔
مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بنی عیینہ میں ربیع الاول سنہ چھ ہجری کو نمازِ خوف پڑھی رسول اللہ غزوہ کے لیے نکلے اور مدینہ میں ابن ام مکتوم کو اپنا قائم مقام بنا گئے اور ذی قرد میں ایک دن اور رات قیام فرمایا، اس طرح نمازِ خوف کی پہلی نماز چھ ہجری کو بنتی ہے 5، یہ نماز بھی ان نمازوں میں شامل ہے جن کا حکم مدینہ میں نازل ہوا۔
یہ بھی مذکور ہے کہ نمازِ خوف کا حکم غزوہ ”عسفان“ میں ظہر اور عصر کے درمیانی وقت میں نازل ہوا کیونکہ کفار نے نمازِ عصر کے دوران مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری کر رکھی تھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ خوف پڑھائی، یہ بھی مروی ہے کہ اس کا حکم غزوہ ذات الرقاع میں نازل ہوا 6۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ غزوہ عسفان میں سرکردہ مشرکین میں شامل تھے، مشرکین نے غفلت میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تدبیر کی، ان میں سے ایک نے کہا کہ: ان کی ایک نماز ہے جو انہیں اپنی اولاد اور مال سے زیادہ عزیز ہے تم اکٹھے ہوجاؤ اور ایک ہی ساتھ حملہ کردو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تقسیم کرنے کا حکم دیا اور نمازِ خوف پڑھائی 7۔
ابن سحاق کی ایک روایت میں ہے کہ: نمازِ خوف کا حکم غزوہ بنی الرقاع میں نازل ہوا، یہ غزوہ غزوہ بنی النضیر کے بعد ہوا، واقدی نے اس غزوہ کی تاریخ محرم پانچ ہجری بتائی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد چلے ذات الرقاع کے پاس ایک نخلستان میں پہنچے، غطفان کی ایک بڑی جمعیت سے ہمارا مقابلہ ہوا، لڑائی نہیں ہوئی مگر مسلمان دشمن سے مرعوب ہوگئے اور اس موقع پر صلاۃ الخوف کا حکم نازل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے دو حصے کیے، ایک دشمن کے بالکل بالمقابل جا کھڑا ہوا اور دوسرا نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا، آپ نے تکبیر کہی، سب نے تکبیر کہی، آپ نے اپنے مقتدیوں کے ساتھ رکوع کیا اور سجدہ کیا اور جب دوبارہ کھڑے ہوئے تو وہ الٹے پاؤں چل کر اپنے دوسرے ساتھیوں کے مقام پر آکر دشمن کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اب یہ پہلی جماعت نماز کے لیے پلٹی، پہلے انہوں نے خود ایک رکعت پڑھی پھر کھڑے ہوئے اور اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز پڑھائی، رکوع کیا اور سجدہ کیا اور اس کے بعد جو لوگ اب دشمن کے سامنے کھڑے تھے وہ پلٹ کر آئے اور انہوں نے اپنی دوسری رکعت ادا کی مگر جلسہ میں سب ایک ہوگئے اور سلام کے وقت سب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا 8۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز خوف کے وقت کے تعین کی روایات میں کافی اختلاف ہے، اس اختلاف کی طرف طبری نے اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: اس نماز کی شکل میں بہت اختلاف ہے، ہم طوالت کے خوف سے یہاں اسے بیان نہیں کرتے ان شاء اللہ اپنی دوسری کتاب ”بسیط القول فی احکام شرائع الاسلام“ کے باب صلاۃ الخوف میں بیان کریں گے 9، ابن قیم الجوزیۃ نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے اور ”غزوۃ ذات الرقاع“ کی مختلف روایات پر بحث کرتے ہوئے خلاصہ کیا ہے کہ یہ غزوہ غزوہ خندق کے بعد ہوا ہے ناکہ خیبر کے بعد اور خندق سے پہلے جیسا کہ ”اہلِ سیر ومغازی“ کی کتابوں میں غلط طور پر آتا ہے، پھر فرماتے ہیں کہ اہلِ اخبار کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غزوہ ذات الرقاع دو مرتبہ ہوئی، ایک مرتبہ خندق سے پہلے اور ایک مرتبہ خندق کے بعد، اور یہ واقعات کی تعدید میں ان کی عادت تھی اگر اس کے الفاظ اور تاریخ میں اختلاف آجائے، اگر اس قائل کا قول درست ہے جو ممکن نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ خوف پہلی مرتبہ نہیں پڑھائی جس کی وجہ عسفان کا قصہ ہے جو خندق کے بعد کا ہے 10، ابن القیم اپنی بحث کا یہ خلاصہ کرتے ہیں کہ نمازِ خوف خندق کے بعد پڑھی گئی تھی خیبر کے بعد نہیں۔
سورہ النساء میں نمازِ خوف کا حکم موجود ہے 11۔
خوف یا ڈر کی صورت میں یہودی شریعت نے بھی نماز کو مختصر کرنے کا حکم دیا ہے لہذا کوئی بھی شخص جسے کسی طرح کا خوف ہو وہ نماز کو مختصر کر سکتا ہے اس طرح یہ نماز، نمازِ خوف کہلاتی ہے، اس کا حکم تلمود میں موجود ہے 12۔
حوالہ جات:
1- صحیح مسلم 212/2، الروض الانف 182/2۔
2- زاد المعاد 146/1۔
3- تفسیر ابن کثیر 259/1۔
4- صحیح مسلم 314/2۔
5- المقریزی امتاع الاسماع 262/1۔
6- المقریزی امتاع الاسماع 188/1، مسند احمد 59/4، شرح سنن ابی داؤود 181/1، شرح سنن النسائی 186،177/3۔
7- زاد المعاد، ابن قیم الجوزیۃ 110/2، تفسیر ابن کثیر 548/1۔
8- الطبری 555/2، غزوہ بنی الرقاع۔
9- الطبری 557/2۔
10- زاد المعاد 110/2۔
11- آیت 100 اور اس سے آگے، تفسیر ابن کثیر 295/1۔
12- برکوث 4/3، Tr. Berachot, IV, 4۔ URL for Part 19:
URL of this article: https://www.newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-fear-prayer-part-20/d/35575