ناستک درانی ، نیو ایج اسلام
11ستمبر، 2013
ایک حقیقت جسے آسانی سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں یہ ہے کہ اسلام کے درخت کی کئی شاخیں ہیں اور اس کے پتے دیگر تمام درختوں کی طرح حجم میں مساوی اور شکل میں مشابہ نہیں ہیں، اسلام میں سینکڑوں مکاتبِ فکر ہیں جن کا انحصار یا مصدر ایک ہی ہے اور وہ ہے قرآن اور سنت، ایک ہی مصدر پر انحصار کرنے کے باوجود یہ سارے مکاتیبِ فکر قرآن وسنت سے مختلف اور ایک دوسرے سے متضاد آراء حاصل یا کشید کرتے ہیں، انتہاء پسند کے پاس ایسی بھرپور اسانید ہوتی ہیں جو اس کے موقف کو سپورٹ کرتی ہیں، اسی طرح امن پسند کے پاس بھی ایسی اسانید ہوتی ہیں جو اس کے موقف کو تقویت بخشتی ہیں، سیاسی تنظیمیں بھی جو ایک دوسرے سے مختلف فکر کی حامل ہوتی ہیں انہیں بھی بڑے بڑے اور جانے پہچانے علمائے اسلام کی سپورٹ حاصل ہوجاتی ہے جو بڑی بے شرمی سے سب کے سامنے کھڑے ہوکر کسی شہنشاہیت، یا آمریت کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں اور اسے اسلامی جواز دے رہے ہوتے ہیں اور اس کے لیے شریعت کا سہارا لیتے ہیں جو ہر طرح کی اسانید کے لیے بڑی زرخیز ہے۔
مثال کے طور پر ایک مشہور حدیث کہتی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اور اگر ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپنی زبان سے روکے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو اپنے دل میں اسے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین پہلو ہے، اس ایک حدیث سے تین گروہ پیدا ہوجاتے ہیں، ایک گروہ تشدد کا راستہ اپنا کر اس کا حامی بن جاتا ہے، دوسرا زبان اور گفت وشنید کی حمایت کرتا ہے اور تیسرا امن پسندی کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے ایک لفظ بھی نہیں بولتا اور منظر سے غائب رہتا ہے، تاہم یہ کمزوری عارضی ہوتی ہے جو جلد ہی کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہو ہی جاتی ہے، یہاں سے اسامہ بن لادن حق پر نظر آتا ہے، اسی طرح وہ بھی جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی حق پر ہیں کہ سب کے پاس سند موجود ہے۔
یہی اسلام کی حقیقت ہے کہ اس سے ہر طرح کی چیز برآمد کی جاسکتی ہے، اسلام میں اگر کسی بات پر اختلاف نہیں ہے تو وہ ہے اللہ سبحانہ وتعالی کا وحدہ لا شریک ہونا، باقی ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس پر اختلاف نہ ہو، حتی کہ قرآن پر بھی شیعہ اور سنی مکاتبِ فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے رہی بات احادیث کی تو اس کے لیے شاید کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کی مصداقیت پر کس قدر اختلافات پائے جاتے ہیں، لہذا اُس امن پسند مسلمان پر حیرت ہوتی ہے جو شدت پسند مسلمان کی قرآن وسنت سے مدلل شدت پسندی پر اعتراض اٹھاتا ہے اور اسی طرح اس شدت پسند پر بھی تعجب ہے جو امن پسند مسلمان کی قرآن وسنت سے مدلل امن پسندی کو رد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی طرح تلوار اٹھا کر لوگوں کو قتل نہیں کرتا اور اپنے آپ کو بازاروں میں بم سے نہیں اڑاتا، فکری تنوع کے یہ سارے رنگ اسلام میں مذہبی طور پر مقبول ہیں اور ان کے جواز کے لیے مذہبی مُتون موجود ہیں، چنانچہ ہر عرب وعجم، مسلمان، ہندو، عیسائی کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہی اسلام ہے، اسی سے سارے سیاسی وغیر سیاسی، شدت پسند اور امن پسند نظریات برآمد ہوتے ہیں، کوئی بھی موقف اسی فہم پر مبنی ہونا چاہیے، یہ کہنا کہ اسلام پوری طرح سے امن پسند ہے غلط ہے، اور یہ کہنا بھی کہ اسلام پوری طرح سے شدت پسند ہے غلط ہے، بلکہ اسی سے دونوں طرح کے رویے برآمد ہوتے ہیں جنہیں کسی طور یکجا نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام اس طرح “حمال اوجہ” یعنی کئی چہرہ کیوں ہے جو تمام متضاد نظریات کو جواز فراہم کرتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے پاس اعلی اقدار کا یکطرفہ مفہوم پایا جاتا ہے جیسے حق، اچھائی اور خوبصورتی وغیرہ۔
لہذا اسلام کے نزدیک حقیقت محض وہ ہے جو سلف کے مقدس ورثہ کے مُتون میں آئی ہے ناکہ وہ جو واقعی حقیقی ہے اور جس کا کسی واقعے کے مضمرات اور معاشرے کے اجتماعی استحکام اور علمی ترقی سے تعلق بنتا ہے۔
اسی طرح اسلام اچھائی کے مفہوم کو جزوی طریقہ سے دیکھتا ہے جس کا تعلق محض مسلمان کی انفرادی مصلحت سے ہے ناکہ سارے معاشرے یا ایک ملک سے جس میں مذہب، نسل اور رنگ کے سبھی لوگ شامل ہوتے ہیں۔
خوبصورتی کا مفہوم بھی مسلمان کے نزدیک مقدس مُتون سے منسلک ہے جنہیں وہ ایسی مسلمات سمجھتا ہے جو ہر زمان ومکان کے لیے کارآمد ہیں لہذا انہیں سارے معاشرے پر تھوپ دینا چاہیے چاہے اس کے لیے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
ایسے مفاہیم سے فتاوی کا وہ جمِ غفیر پیدا ہوتا ہے جو مسلمان کو جدیدیت اور تہذیب کا مادی، ثقافتی اور سلوکی دشمن بنا دیتا ہے، سلوکی طور پر مذہبی فکر انسان کو یک جہتی بنا دیتی ہے یا جیسا کہ کسی مفکر نے کہا ہے کہ: “مذہبی انسان ایک ایسا جانور ہے جو نشہ میں ہے”، حالتِ سکون ہو یا حالتِ تشدد، مذہبی انسان دونوں حالتوں میں نشہ میں ہوتا ہے، حالتِ سکون میں وہ اپنے حواس کو غیب اور غیبی وعدوں میں گُم کردیتا ہے جبکہ حالتِ تشدد میں وہ اپنا اخلاقی وانسانی شعور کھو بیٹھتا ہے اور ایک ایسے جانور کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے محض اپنے شکار کو شکار کرنے کا جنون سوار ہوتا ہے اور ایسے میں وہ کسی طرح کی انسانی اخلاقیات کو خاطر میں نہیں لاتا۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں دنیا نے محسوس کیا کہ مشرقی اقوام مذہبی نشہ میں مبتلا ہیں، اور اگر حالت یہی رہی تو اکیسوی صدی کے اگلے نصف میں یہ مشرقی اقوام مذہبی انتشار کا اس طرح سے شکار ہوں گی کہ وہ خود ہی انسانی تہذیبی ارتقاء کے راستہ سے ہٹ کر تہذیبی پسماندگی کا شکار ہوجائیں گی اور آخر میں وہ مذہب کی طرف سے پیش کردہ کسی بھی طرح کے حل سے مایوس ہوجائیں گی۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/a-reality-islam-/d/13456