ناصر مصباحی
16اگست، 2009
چند دنوں قبل مولاناندیم الواجدی صاحب کے شائع شدہ مضمون کی غلط بیانیو ں کو گرفت میں لیتے ہوئے حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن افسوس کہ اس پر سنجیدگی سے غور وخوض کرنے کی بجائے موصوف نے جواب الجواب کے طور پر ایک دوسری تحریر لکھ ڈالی جس میں ایک مرتبہ پھر زبردست قلمی چابک دستی اور مطلب نگاری کی کوشش کی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ راقم کے ذریعے بیان کردہ ساری سچائیوں اور ثبوتوں کو بیک قلم مغالطہ قرار دے دیا گیا۔علمی گفتگو ،علمی اسلوب میں کرنے کی بجائے حددرجہ برہم بھی ہوگئے اور اس آئینہ داری کے لیے راقم سمیت تمام بریلوی علما کرام کو متشدد ،اشتعال پسند، تکفیر سازی کی مہم چلانے والے ، مکفرین اور نہ جانے کیا کیا کہہ ڈالا۔ حالانکہ یہاں اس برہمی اور خود اشتعالی کا کیا دخل ؟ میں یہاں وضاحت کردو ں کہ میں نے موصوف کی چند ہی باتوں پر وضاحتی نقدکیا تھا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نقش اول مکمل قابل مؤاخدہ تھا۔ جس قدر اور جتنی زیادہ فرضی وغیرہ حقیقی باتیں سابقہ تحریر میں کہی گئی تھیں، وہ سب بعد میں اس وقت معلوم ہوئیں جب ان کی پوری تحریر ایک دوسرے خریدے میں شائع ہوئی۔ ناچیز کی وضاحتی تنقید اس لحاظ سے بلاشبہ بہت کم گوشوں پر مشتمل تھی۔ افسوس ہے کہ موصوف نے اس پر دیانت داری کے ساتھ اظہار خیال نہیں کیا ہے۔ کہیں شدت اسلوب کا احساس جتادیا جودراصل موصوف کی شدت احساس کا نتیجہ ہے اور کہیں بریلویوں پرتکفیری فتوے داغنے کاشرپسند انہ الزام عائد کردیا جبکہ برّ صغیر میں افتراق بین المسلمین کی واحد ذمہ دار کتاب تقویۃ الایمان کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسانی کرنے لگے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ‘‘قول وفعل کا تضاد’’ میں صرف دوباتوں پر زور دیا گیا تھا ۔
ایک یہ کہ مسلمانوں میں مسلکی انتشار و افتراق کے ذمہ دار شاہ اسمعیل دہلوی اور علما دیوبند ہیں اور دوسری یہ کہ مولانا احمد رضا خاں سے پہلے بہت سے علمائے ہند وعرب شاہ اسمعیل دہلوی کے کفر وفسق کو اجاگر کرچکے تھے۔ اس دعوے کے ثبوت میں شاہ اسمعیل دہلوی، مولانا اشرف علی تھانوی،مولانا ابوالکلام آزاد کے والد مولانا خیرالدین ، شاہ ابوالحسن زید فاروقی ،ممتاز دیوبندی عالم مولانا محمد احمد رضا بجنوری وغیرہ جید اور معتمدترین حضرات کے اقوال واعترافات بھی پیش کئے گئے تھے، بات بالکل واضح تھی۔ مگر مولانا ندیم الواجدی صاحب نے عجب نیرنگی قلم دکھائی ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کے والد مرحوم کی بات کو خود ہی مولانا ابوالکلام کی بات سمجھنے کی غلطی کی اور بلاوجہ مجھ پر برس پڑے کہ ابوالکلام صاحب تو ہماری ہی لائن کے ہیں، ان کی زبان سے یہ ان کہی کیسے نکل سکتی ہے۔دوسری جگہ مولانا ابوالکلام آزاد کی گفتگو کو صورت حال کی حکایت قرار دے کر بے وزن کرنے کی کوشش کی ، یہ بھی نہیں سوچا کہ یہاں زمانہ تقویۃ الایمان کے افتراق بین المسلمین کی اصل صورت حال کی وضاحت وحکایت ہی مقصود ہے،اسی طرح مولانا احمد رضا بجنوری کے اعتراف حقیقت کی بھی بے فائدہ توجیہ کی سعی کی ، یہ قطعاً نہیں سوچا کہ اس توجیہ سے کیا ہوا، مولانا بجنو ری افسوس کریں یا خوشی منائیں، یہ بات تو بہر حال ثابت ہی رہی کہ تقویۃ الایمان ہی کی وجہ سے مسلمانان ہند سی وہابی میں تقسیم ہوگئے اور مولانا بجنوری کو اس کا اعتراف ہے۔ موصوف نے اسی طرح کچھ نہ کچھ ذہنی کاوش اور قلمی گل کاری دیگر تمام ثبوتوں اور حوالوں پر بھی کردی اور جس کے بعد بھرپور طاقت سے ابھر کر پھر وہی دعوائے بلاثبوت کردیا گیا کہ تقویۃ الایمان معرکۃ الآفا کتاب ہے اور ہندوکتاب ہے اور ہندوپاک میں اس کے ذریعے افتراق بین المسلمین کا آغاز نہیں ہوا ۔ موصوف سے سوال یہ ہے کہ اگر یہ بہتان ہےتو شاہ عبدالعزیز دہلوی اور آپ کے جملہ نسبی وروحانی فرزندان ، جملہ علمائے دہلی ورامپور وفرنگی محلی غرض جملہ علمائے غیر منقسم ہندوستان تقویۃ الایمان کی مخالفت پر کیوں متحد ہوگئے تھے؟شاہ عبدالعزیز دہلوی نے تقویۃ الایمان کے خلاف تحفہ ٔ اثنا عشری جیسا رد لکھنے کی خواہش کیوں ظاہر کی تھی اور آپ کے بھتیجے اور شاگرد مولانا مخصوص اللہ نے تقویۃ الایمان کو مواد کے لحاظ سے تفویۃ الایمان کیوں قرار دیا تھا اور اس کے رد میں پوری ایک کتاب ‘معید الایمان’ کیوں لکھی تھی؟ مولانا فضل حق خیر آبادی نے تقویۃ الایمان کے رد میں تحقیق الفتویٰ کیوں تحریر کی تھی اور تصدیق میں 17نمائندہ علما اہل سنت دہلی نے کیوں دستخط کئے تھے؟ مناظرۂ جامع مسجد دہلی کیوں ہواتھا، یہ سب کیوں ہوا؟ کیا اس کا سیدھا سا مطلب یہ نہیں ہوا کہ تقویۃ الایمان نے پورے ملک میں آگ لگارکھی تھی ، ایک دو پیروکاروں کا چھوڑ کر کسی نے بھی اس بدنام زمانہ کتاب کی حمایت نہیں کی ،یہ انتشار بین المسلمین نہیں تو اور کیا ہے؟ جواباً یہ بالکل نہیں کہا جاسکتا کہ یہ انگریزوں کی سازش تھی، مسلمانوں کا سواد اعظم ہر گز کسی کی غلط سازش کا شکار نہیں ہوسکتا اور ہر گز کسی کی ناحق مخالفت پر متحد نہیں ہوسکتا ، ہاں شاہ اسمٰعیل دہلوی اور ان کے ایک دو معتقدین کسی پہلو سے غلط سازش کا شکار ہوگئے ہوں، یہ الگ بات ہے ، ہوسکتا ہے، اس میں کوئی استحالہ نہیں۔ غرض حقیقت یہی ہے کہ تقویۃ الایمان ہی برّ صغیر میں افتراق بین المسلمین کا حقیقی واصلی نقطۂ آغاز ہے اور یہ ہندوستان کی اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی سچائی ہے جسے صبح قیامت تک بھی غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔تقویۃ الایمان کے وجہ انتشار ہونے پر پردہ ڈالنے کے لیے عموماً اس طرح بھی مغالعہ دیا جاتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں پیر پرستی اورقبر پرستی کی وبا اپنے عرو ج پر تھی ، جہالت او رکم علمی کے باعث مسلمان قرآن وسنت سے دور ہوگئے تھے اور رسوم وبدعات کے دلدل میں گلے گلے دڈب گئے تھے ،اس دوران تقویۃ الایمان جیسی معرکۃ الآراکتاب لکھی جو شرک وبدعت کے رد میں لاجواب کتاب ہے۔ مغالطہ انگیز ی کی اس کوشش میں زمانہ تقویۃ الایمان کے مسلمانوں کو زبردست طریقے پر شرک و بدعت کے دلد ل میں گلے گلے ڈبو کر اس وقت کا پورا ماحول اس طرح بنادیا جاتا ہے گویا قبل اسلام کی عرب کی جاہلیت عود کرآئی تھی اور پھر اچانک اس درمیان تقویۃ الایمان کو غار حرا کا سانسخہ کیمیا بنا کر پیش کردیا جاتا ہے۔
حالانکہ ‘‘ہمارے پاس اس امر کا کوئی ثبوت اور جواز نہیں کہ ہم بیک قلم سارے برصغیر کے علما ،صوفیا، فقرا اور عوام کے متعلق یہ کہہ دیں کہ وہ نعوذباللہ سارے سارے شرک وبعدعات میں مبتلا تھے اور پہلی بادشاہ اسمٰعیل ان کو حقیقی توحید سے رو شناس کرارہے تھے، آخر شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز اور شاہ اسمٰعیل میں کتنا فاصلہ ہے؟ کیااس درمیانی عرصہ میں سارا بر صغیر کفر وشرک کی لپیٹ میں آگیا تھا اور اگر پہلے سے تھا تو خود حکیم الامت شاہ ولی اللہ وار شاہ عبدالعزیز نے یہ تشدد اور زبان کیوں استعمال نہ فرمائی۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سواداعظم کے مسلک سے ہٹ کر یہ وہ پہلی آواز تھی جو برصغیر میں گو نجی جسے شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کی صدائے بازگشت تو یقیناً کہا جاسکتا ہے مگر ولی الّہی فکر اور معمولات کا ترجمان ہر گز نہیں کہا جاسکتا ’’۔(انفاس العارفین مترجم معروف ادیب محمد فاروق القادری ص 18بار چہارم مکتبہ الفلاح دیوبند)۔شاہ اسمٰعیل دہلوی کے بعد یہ فتنہ ختم بھی ہوسکتا تھا مگر اس موقع پر علما دیوبند دستگیر ی کے لئے آگئے اور افتراق بین المسلمین نے براہین قاطعہ میں شیاطین کا علم حضور علیہ السلام کے علم سے زیادہ بتایا، مولانا اسمٰعیل دہلوی نے نماز میں حضور ﷺ کے خیال کو گدھے اور بیل کے خیال سے بدتر لکھا، مولانا ناتوی صاحب نے تخدیر الناس میں حضور علیہ السلام کو خاتم یعنی آخری نبی ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ حضور علیہ السلام کے بعد اگر اور بھی نبی آجائیں ، تب بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا، خاتم کا معنی ہے اصلی نبی ،حضور اصلی نبی ہیں اور دیگر نبی عارضی نبی ہیں۔علما دیوبند کیے ان ایمان سوز تحریروں کی وجہ سے پھر انتشار جاگ اٹھا اور اس مرتبہ کچھ ایسے زوروشور سے اٹھا کہ گویا اب اسکے دوام اور ہمیشگی پر مہر لگ گئی۔
مضمون نگار نے بریلوی علما پر تکفیر وتشدد کی زبان برتنے کا بڑا پرزور الزام لگایا ہے حالانکہ دیوبندی علما کی انتہائی ایمان سوز اور فتنہ پرور تحریروں کو دیکھتے ہوئے کسی قدر ایسا کرنا ضروری تھا، معروف دہلوی صوفی خواجہ حسن نظامی کہتے ہیں‘‘ ان کے مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ مولانا کی تحریروں میں سختی بہت ہے اور بہت جلد دوسروں پر کفر کا فتویٰ لگا دیتے ہیں ،مگر شاید ان لوگوں نے مولانا اسمعیل شہید اور ان کے حواریوں کی دل آزار کتابیں نہیں پڑھیں ہیں جن کو سالہا سال تک صوفیائے کرام برداشت کرتے رہے ، ان کتابوں میں سخت کلامی برتی گئی ہے، اس کے مقابلے میں جہاں تک میرا خیال ہے، مولانا احمدرضا خاں صاحب نے اب تک بہت کم لکھا ہے، جماعت صوفیا علمی حیثیت سے مولانا کو اپنا بہادر صف شکن سیف اللہ سمجھتی ہے اور انصاف یہ ہے کہ بالکل جائز سمجھتی ہے’’( ہفت روزہ ‘‘خطیب’’ 22 مارچ 1915ص 173۔174جلد اول دہلی)۔موصوف نے مولانا احمد رضا خاں پرشدت پرتنے کا الزام تو عائد کردیا یہاں یہ بھی نہیں سوچا کہ خود دیوبندی مسلک کی بنیاد واساس تکفیر المسلمین اور تشدد پر قائم ہے۔ علما دیوبند اپنے مسلک کی نسبت شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی طرف کرتے ہیں ۔شیخ محمد بن عبدالوہاب کے شوق تکفیر کا عالم یہ تھا کہ اپنے علاوہ دنیا میں کسی کو مسلمان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتےتھے،یہ لوگ نجد سے نکلے تھے اور مکہ ومدینہ شریف پر حملہ آور ہوگئے، یہ اپنے کو حنبلی مذہب کی طرف منسوب کرتے تھے لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف ہم ہی مسلمان ہیں اور جو ہمارے عقیدہ کے خلاف ہے وہ مشرک ہے( ردالمحتار جلد ششم باب البغاۃ ص 317ناشر دارالکتاب دیوبند)۔شیخ محمد بن عبدالوہاب خاص جریرۃ العرب کے مسلمانوں تک کو کافر مشرک وبت پرست خیال کرتے تھے، بصرہ کے مسلمانوں کو بڑی قطیعت سے مشرکین تعبیر کی ہے( عبدالوہاب نجدی از علی طنطاوی جوہری ص19)۔شیخ نجدی ہی کے پیروکار علما دیوبندہیں جنہوں نے شیخ کی اتباع کرتے ہوئے ہندوستان میں رہ کر بڑا مسلکی تشدد اختیار کیا ہے، شیخ کی طرح ان حضرات نے بھی اپنا یہ عقیدہ بنالیا ہے کہ صرف وہ ہی سچے توحید پرست اور مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ سب مشرک وبت پرست ہیں ۔ شاہ ولی اللہ دہلی اور شاہ عبدالعزیز دہلوی کے عہد زریں کو ہندوستان کی اسلامی تاریخ کا سب سے تاریک عہد قرار دیتے ہوئے اس وقت کے مسلمانان ہند کو یک لخت شرک وبدعات میں گلے گلے ڈبو کر رکھ دیا، نبیوں اور ولیوں کے مزاروں کو بتوں کا درجہ دے کر ان کے ادب واحترام کو عبادت وپرستش کا درجہ دے دیا اور اس طرح سارے کے سارے مسلمانوں کو مشرک وغیر اللہ کا عباعت گزار بنادیا۔
علما دیوبند نے تشدد اختیار کیا ہے، اس کا اعتراف خود دیوبند کو بھی ہے۔ شاہ اسمٰعیل دہلوی کہتے ہیں کہ میں نے خود تشدد اپنایا ہے اور شرک خفی کو اپنی مرضی سے شرک جلی لکھ دیا ہے۔ ایک مشہور دیوبند ی عالم کی یہ تحریر دیکھئے‘‘ہمارے متاخرین بھائیوں نے شرک کے معاملے میں بہت شدت اختیار کی ہے اور اسلام کادائرہ تنگ کردیا ہے اور مکر وہ یا حرام امور کو شرک قرار دے دیا ہے اور شیخ محمد بن عبدلوہاب ہے جنہوں نے ان امور کو شرک قرار دیا ہے اور مولانا اسمعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان میں اکثر امور میں ان کی پیروی کی ہے( ہدایۃ المہدی ص26،ج اول میور پریس دہلی)۔دیوبندی مسلک کے لوگوں کی کتابوں میں شرک کو لے کر جو کفر کے ہم معنی ہے اور قدر تشدد برتا گیا ہے کہ کوئی سلام پڑھے تو مشرک ، فاتحہ پڑھے تو مشرک، تیجے چالیسویں کا کھالے تو مشرک، مزار پر چلاجائے تو مشرک ، انگھوٹے چوم لے تو مشرک ،میلاد منالے تو مشرک ، عرس کرے تو مشرک ، یارسول اللہ کہہ دے تو مشرک ، اجمیر چلا جائے تو مشرک، عبد النبی نام رکھ لے تو مشرک ،غلام غوث سے موسوم ہوئے تو مشرک، غرض مسلمانوں کے ہر عمل کو شرک سے تعبیر کردیا گیا ہے جو حقیقت میں انتہائی قسم کا تشدد او ربھولے بھالے مسلمانوں کو مشرک کی خطرناک تحریک ہے۔ علما دیوبند آج بھی اس تحریک مشرک سازی کو بڑے خلوص کے ساتھ آگے بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔
‘مشغلہ ان کا ہے تکفیر مسلمانان ہند’
موصوف نے تازہ تحریر میں سوار مسجد تنازع (رام پور) پر بھی قدرے گفتگو کی ہے۔ لکھتے ہیں ‘‘سوار میں بریلویوں کی اکثریت ہے، ایک ہی مسجد ایسی تھی جس میں دیوبند یوں کے امام مقرر تھے، بریلویوں نے یہ بھی زبردستی ان سے چھین لی، دیوبندیوں نے مزاحمت کرنا چاہی تو ان پر پتھراؤں کیا گیا، مسجد کی عظمت اور اس کا تقدس پامال کیا گیا، دیوبندی ہی زخمی ہوئے اور ان ہی کےخلاف رپورٹ درج کرائی گئی’’۔افسوس ! صد افسوس! مولانا ندیم الواجدی صاحب کو سراسر کذب بیانیا اور دروغ گوئی پر ذرا بھی حیا نہیں آئی ، بات شروع کی تو کل کا کل جھوٹ بول دیا گیا ۔ابھی کل ہوئے واقعہ کو جس کے عینی شاہدین بھی سوار کے تقریباً آدھے لوگ ہیں، دروغ گوئی سے بالکل الٹ دیا گیا ۔ میں موصوف کے ایمان کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ سوار جاکر وہاں کے ان بیشمار لوگوں سے یادگوئی کرسکتے ہیں جو بوقت واقعہ موقع پر موجود تھے، جنہوں نے گھنٹوں تک دیوبند یوں کو مسجد میں صحن کے کودتے ، چھت ہر چڑھتے ،بری طرح ادھم مچاتے ،کبھی فائرنگ کرتے، کبھی پتھراؤ کرتے اور کبھی پتھراؤ کے لئے مسجد کی دیواروں کو بے دردی سے توڑ تے ہوئے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھا ہے، دیوبندیوں نے مسجد کے مین گیٹ کو اندر سے مقفل کررکھا تھا ۔ ان لوگوں نے دروازے پر موجود بھیڑ پر ہی فائرنگ اور پتھراؤ نہیں کیا بلکہ ضلع انتظامیہ کے جملہ افسران اعلیٰ اور کثیر تعداد میں پولس اور پی ایس سی پر بھی سنگ باری کی۔ حد تو یہ ہے کے ان کے اوپر دستی بم سے بھی حملہ کیا گیا جس سے ضلع مجسٹریٹ بال بال بچ گئے اور جودوسرے دن کے اکثر اخبارات کے صفحۂ اوّل کی پہلی خبر بنی۔ غرض یہ اپنی نوعیت کا بالکل منفرد واقعہ ہے جسے کسی مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش میں صرف دیوبند یوں نے یک طرفہ طور پر انجام دیا۔ رات کے بارہ بجے بجلی بھی غائب تھی اور پورے سوار میں رات کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ایسے میں پچاسوں دیوبندیوں کا چاقوؤں ،چھریوں اور طمنچوں سے پوری طرح مسلح ہوکر مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنا مکمل طور پر خطرناک اور منصوبہ بند تھا جنہیں ضلع انتطامیہ کے اعلیٰ افسران نے پولس اور پی ایس سی کی مدد سے گھنٹوں بعد قابو میں کیا۔ ایسے میں بریلویوں کو یہ دوش دینا کہا تک صحیح ہے کہ انہوں نے دیوبندیوں کو قید وگرفتار کرایا ،حقیقت یہ ہے کہ دیوبندی خود اس کے مستحق تھے۔ دوسرے دن جب بعض دیوبندی علما ڈی ایم کے پاس یہی معذرت کرنے گئے تو خود ڈی ایم نے یہ کہہ کر سب کو باہر کردیا کہ فساد مچاتے ہوئے تو میں انہیں خود دیکھا ہے۔ مجھے اس پر کسی شہادت اور حوالے کی ضرورت نہیں ۔ بریلویوں پر مسجد کے چھیننے کا الزمام بھی سراسر غلط ہے۔ اس مسجد کے لئے جگہ وقف کرنے والے اور مسجد کی تعمیر کرنے والے سب بریلوی ہیں، مسجد کی کمیٹی بھی بلکہ بریلوی خیالات کے لوگوں پر مشتمل ہے اور اس سب کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔ہاں کچھ دنوں کے لئے ضرور یہاں تقیہ کر کے ایک دیوبندی امام نے نماز پڑھائی ہے۔ ایک مرتبہ لوگوں کو شک بھی ہواتو امام صاحب نے مسجد میں سب کے سامنے قرآن پاک ہاتھوں میں اٹھا کر اس بات کا حلف لیا کہ وہ دیوبندی نہیں ہیں۔ اس کے بعد باضابطہ بریلوی امام کی تقرری دیوبندی امام کے تحریر ی استعفیٰ کے بعد عمل میں آئی۔ کوئی جھگڑا ،فساد کچھ نہیں ۔دیوبندیوں نے اندر ہی اندر ایک جھگڑے کا کام یہ کیا کہ پہلے سے غیر مستعفی اصلی اور سرگرم کمیٹی کے رہتے ہوئے اپنی طرف سے ایک دوسری نئی کمیٹی خفیہ طور پر تشکیل دے ڈالی۔ خلاصہ یہ کہ سوار مسجد تنازع سے متعلق جملہ گزشتہ وموجود پہلوؤں پر نظر ڈالنے کے بعد یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس تنازع کے ذمہ دار صرف او رصرف دیوبندی حضرات ہیں۔ یہاں یہ کہنا بھی عوامی ہمدردیوں کے حاصل کرنے کی غیر محمود کوشش کرنا ہے کہ سوار میں بریلویوں کی اکثر یت ہے ، ایک ہی مسجد ایسی تھی جس میں دیو بندی مقرر تھے، بریلویوں نے یہ بھی زبردستی ان سے چھین لی، یہ عام لوگوں کوبیوقوف بنانا ہے ، سوار میں گھاس منڈی والی مسجد آج بھی دیوبندیوں کے قبضہ میں ہے، دیوبندی امام، دیوبندی مؤذن اور دیوبندی ہی نماز ی ۔حقیقت یہ ہے کہ دیوبندیوں کے ذریعہ ایسے قصبہ کی جامع مسجد پر قبضہ اور اس میں اپنی مرضی کے امام کی تقرری کی کوشش نہایت فتنہ انگیز ہےکہ جس کی آبادی کا 90فیصد حصہ بریلویوں پر مشتمل ہے۔ ایسی صورت میں لازماً فتنہ وفساد پیدا ہوگا۔
مضمون نگار کا یہ کہنا بھی محض افترا ہے کہ بریلوی حضرات متشدد ہوتے ہیں اور یہ کہ بریلوی علما تشدد انگیز تقریریں کرتے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ تشدد کا مظاہرہ دونوں طرف سے برابر ہوتا ہے ۔ مولانا جرجیس او رمولانا طاہر گیاوی صاحبان یہ دوا یسے مکتب وہابیت کے مقرر ومبلغ ہیں کہ خدا معلوم اب تک ملک کے کتنے حصوں میں دیوبند ی بریلوی جھگڑے کر اچکے ہیں۔ ان حضرات کی تقریروں کا لازمی جزبریلوی علما کو مناظرہ کا چیلنج دینا ہے۔ ان میں سے ایک مولانا صاحب کئی سال قبل بریلی کے رچھا حلقے کے ایک جلسہ میں آئے جہاں انہوں نے انتہائی اشتعال انگیز تقریر کی اور پھر آخر میں علما کو عربی زبان میں مناظرہ کا چیلنج دے کر سویرے ہی رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد سے جس کی وجہ سے بعد میں وہاں کئی دنوں تک ماحول میں زبردست مسلکی تناؤ رہا اور کئی دنوں تک دونوں طرف سے اپنے اپنے محلوں میں بیٹھ کر لاؤڈاسپیکر وں میں مناظر انہ بحث چلتی رہی یہی مولانا ایک مرتبہ ایک ضلع اعظم گڑھ کے قبصہ مبارک پور میں تقریر کے لئے گئے تو وہاں شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمتہ کے متعلق انتہائی اشتعال انگیز جملے چست کردیئے اور حالات پوری طرح خراب ہوگئے۔سال بھر قبل بلیاضلع کے قاضی پورہ میں دیوبندیوں علما کو بری طرح مار مار کر زخمی کردیا جہاں ایک اصلاحی جلسہ ہونا تھا اور ابھی تلاوت ونعت کا دورہی چل رہاتھا ۔امروہہ کے حسن پور کے حلقہ میں تبلیغی جماعت والوں نے راقم کے ایک فاضل دوست کے استاد کو پہلے مناظرہ کا چیلنج دیا اور پھر دوران بحث ومباحثہ بری طرح مارا پیٹا ،چند سال قبل بستی ضلع میں دیوبند ی مدرسہ جامعہ اسلامیہ کے قریب بریلویوں کی ایک مسجد میں خود طلبہ وعلما جامعہ اسلامیہ نے وہاں نماز پڑھ رہے ایک بریلوی صوفی مزاج پنج وقتہ نمازی شخص کو اتنا زدوکوب کیا کہ مارہی ڈالا اور مسجد سے ان کی لاش اٹھائی گئی، ممبئی میں ابھی تقریباً چھ ماہ قبل ایک جلسہ میں ایک معروف دیوبندی مناظر بریلویوں کو مناظرہ کا چیلنج دے گئے جس سے وہاں کے ماحول میں خاصا مسلکی تناؤ پیدا ہوگیا۔دیوبندی حضرات بات چیت میں بھی بڑی اشتعال انگیز ی کرتے ہیں، راقم کے گاؤں میں ایک دیوبندی مولانا کی سسرال ہے ۔ ایک مرتبہ گاؤں کی مسجد میں اذان کے وقت انہو ں نے کچھ لوگوں کو محمدﷺ کے نام پر انگوٹھا چومتے ہوئے دیکھ لیا تو کہنے لوے کہ یہ گھوڑے کی دم کی طرح کیا چمُ چمُ کررہے ہو ،خاموشی سے اذان سنو۔ انہی مولانا نے ایک مرتبہ گاؤں کی بعض عورتوں کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ چھوٹے مزار میں چھوٹا کتا اور بڑے مزار میں بڑا کتا۔
غرض اس طرح کی بکثرت مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ دیوبندیوں اور بریلوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ دیوبندی حضرات انبیا یا اولیا کی شان میں زیادہ جسارت کرتے ہیں یا کچھ مخصوص مسائل پر شرارت انگیز جملہ کستے ہیں اور بریلوی حضرات خود دیوبندیوں کو برا بھلا یا وہابڑا کہتے ہیں ،گاؤں دیہات کے سادہ لوح مسلمان جب دیوبندی مکتب فکر کے لوگوں سے اس طرح کی باتیں سنتے ہیں تو وہ پوری طرح بھڑک جاتے ہیں اور پھر آئندہ ایسے لوگوں سے سننا پسند نہیں کرتے ۔اگرچہ شروع شروع میں انہیں خالص نماز وروزہ ہی کی باتیں کیوں نہ بتائی جائیں۔ مسلم عوام یا پھر علما بھی ایک لمحہ کے لئے اپنے اوپر تو کسی بھی طرح کی نازیبا باتیں برداشت کرسکتے ہیں ،کوئی انہیں قبرپُجا کہے ،مزاری کہے ، بدعتی کہے ،خرافاتی کہے، یہ سب تو برداشت ہوسکتا ہے مگر نبیوں اور ولیوں کی شان کے خلاف کچھ بھی ناقابل برداشت ہے۔ اس کے لئے ضروری طور پر دیوبندیوں کو اپنے اوپر کنٹرو ل کرنا پڑے گا ورنہ حقیقیت یہ ہے کہ آئے دن سوار جیسے واقعات رونما ہوتےرہیں گے ،ملت بکھرتی رہے گی اور ہم یہی رہیں گے کہ یہ انتشار ہم نے نہیں آپ نے پیدا کیا ہے یعنی ہم ایک دوسرے پرالزام تراشیاں کرتے رہیں گے۔
(بشکریہ ہمارا سماج ، نئی دہلی)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/charges,-stubbornness-contradictions-/d/1653