نصیر احمد ، نیو ایج اسلام
28 اگست 2019
ہومو
پرجاتی کے جانوروں کا ظہور پہلی بارتقریبا دو لاکھ سال پہلے ہوا تھا ۔
ہاں اتنا ضرور تھا کہ ستر ہزار سالوں تک ،
وہ بندر ، بلییا گائے جیسے جانوروں
سے کچھ زیادہ الگ نہیں تھے۔ ما قبل یا مابعد تاریخ کا یہ دورمعنی خیز تاریخی
دور ہوسکتا ہے، اس کا ذکر قرآن میں
بھی آیا ہوا ہے۔ [هل اتی علی الانسان
حین من الدهر لم یکن شیا مذکورا (سورہ
الانسان آیت ۱) ،ترجمہ:
یقیناً انسان پر زمانے کا ایک ایسا لمبا عرصہ بھی گزرا ہے،جب وہ کوئی قابلِ ذِکر
چیز نہ تھا۔ ]۔غیر اہم وجود کے اس طویل عرصہ کی کہانی دوسرے تمام جانداروں کی کہانی سے بالکل الگ ہے۔
جانوروں کے سماجی برتاو کا تعین بڑی حد تک ان کے جین سے ،
اور کچھ حد تک سماجی کنڈیشنگ اور ذاتی
خصوصیات یعنی آڈیو سنکریسی سے ہوتا
ہے۔
مختلف
پرجاتیوں اور ذیلی پرجاتیوں
میں پائے جانے والے مختلف
برتاو وں کا تعین جین سے ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، چمپینزی درجہ بندی والے
گروہوں میں رہتے ہیں جن کی سربراہی ایک
الفا مرد کرتا ہے۔ بونوبوس مساواتی گروہوں
میں رہتے ہیں جن کی سربراہی عورتوں کاایک اتحاد یا جماعت کرتی ہے۔یہ دونو ں ذیلی پرجاتیاں اگرچہ
ایک دوسرے سے قریبی مماثلت
رکھتی ہیں ، تاہم ، دوسرے کے برتاو یا سماجی کنڈیشنگ سے کچھ سیکھ نہیں سکتی ہیں۔ برتاو کی ایسی تبدیلی کہ
چمپینزی بونوبوس کی طرح برتاو کرنے
لگے یا بونوس چمپینزی کی طرح عمل کرنے لگے صرف
ڈی این اے کی تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔
ٹھیک اسی وجہ سے، ما قبل تاریخ کے انسانوں میں بھی ماقبل تاریخ کے لمبے عرصہ میں
کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ بیس لاکھ سال پہلے
، ، جینیاتی تغیرات کے نتیجے میں ایک نئی
انسانی پرجاتی کا ظہور ہوا، جسے ہومو
اریکٹس کہا جاتاہے۔ جانداروں کی یہ پرجاتی
دوسروں سے کافی مختلف ہوئی کیونکہ اس نے پتھر سے اوزار بنا کر اسے استعمال کرنا شروع
کیا۔ اگلے دو لاکھ سالوں تک ہومو
اریکٹس میں مزید جینیاتی تبدیلی نہیں ہوئی اور اسی وجہ سے ان کے پتھر کے اوزار ایک ہی جیسے رہے۔ جدید
انسانوں کے علاوہ دیگر تمام مخلوقات کے مابین معاشرتی برتاو میں نمایاں تبدیلیصرف
جینیاتی تغیرات سے ہی ممکن ہیں۔
یووال نوح ہراری
جسے علمی یا شعوری انقلاب کہتا ہے وہ ستر
ہزار سال پہلے آدم کی تخلیق کے ساتھ واقع ہوا تھا۔ یہ تخلیق
دوسری تمام تخلیقات سے اتنی
مختلف تھی کہ اسے نئی تخلیق
کہا جا سکتا ہے۔ اولاد آدم کے برتاو
میں بہت جلد نئی تبدیلی آئی اور وہ اسے اپنی
آئندہ نسلوں کو منتقل کرتے رہے
اور جینیاتی یا ماحولیاتی تبدیلی
کی کوئی ضرورت بھی نہیں پڑی۔ جہاں ما قبل تاریخ کے انسانوں کے طرز
برتاو میں لاکھوں سالوں تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی
وہیں اولاد آدم اپنی ہی زندگی میں کئی بار
معاشرتی ، سیاسی اور معاشی ڈھانچے میں تبدیلی دیکھ سکے۔
یووال نوح ہراری اپنی کتاب سیپینس
میں مندرجہ ذیل مثا ل دیتا ہے: تصور کرو
کہ برلن کا ایک باشندہ ہے، جو سنہ ۱۹۰۰ میں پیدا ہوا اور
پورے سو سال کی زندگی پائی۔ اس نے اپنا بچپن ولہیم ۲ کے ہوہنزولرن
سلطنت میں گزار ا ہوگا، اس کی جوانی
کے دن جمہوریہ وایمار، ،
نازی تھرڈ ریخ، اور کمیونسٹ مشرقی جرمنیمیں گزرے ہوں گے، اور اس کی موت ایک جمہوری اور متحدہ جرمنی میں ہوگی ۔ ڈی این
اے کی تبدیلی
کے بغیر ہی وہ بہت مختلف سماجیاور سیاسی نظاموں کا حصہ بن
سکا۔ اس طرح اولاد آدم دوسری تمام مخلوقات سے
مختلف ہیں۔
جہاں جانوروں کے معاشرتی برتاو جبلی اور فطری ہوتے ہیں وہیں پر اولاد آدم کے برتاو
سیکھے اور حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ انسان سیکھ کر بہت کچھ تبدیل کر سکتا ہے جبکہ
دوسری مخلوق ایسا نہیں کر سکتی ہے۔ انسان اپنی جبلت کابھی پوری طرح غلام نہیں ہوتا
ہے۔ ہر دور میں اللہ کی وحی نے اخلاقی ایجنٹ کی طرح جبلت پر قابو پانے کی تعلیم
میں خصوصی کردار ادا کیا ہے۔ انسان
ہی ایک ایسی پرجاتی ہے جسےوہ
شعوری قابلیت حاصل ہے کہ وہ اپنے صحیح غلط کا انتخاب کرے ، اور
تکلیف سے بچے۔آ دم کی تخلیق سے لے کر شعوری پختگی کی سطح تک پہنچنے میں ستر ہزار سال
لگ گئے ،جب انسان پر اخلاقی ایجنٹ کے بطور برتاو کرنے کے لئے
زبردستی کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اس شعوری پختگی کی تکمیل
خاتم الانبیاء محمد ﷺ پر قرآن کے نزول کے ساتھ ہوئی۔ قرآن
میں کامل اور مکمل دین موجود ہے۔ الیوم
اکملت لکم دینکم و رضیت لکم الاسلام دینا (سورہ
المائدہ آیت نمبر ۳)۔ قرآن کے کچھ حصے
ماضی کے واقعات کی تصدیق ہیں اور یقینا اسے تمام برگزیدہ لوگوں اور تمام
انبیاء کے بہترین عمل کا مجموعہ قرار دیا جا
سکتا ہے۔
يريد الله ليبين لكم ويهديكم سنن الذين من
قبلكم ويتوب عليكم ،والله عليم حكيم (سورہ االنساء آیت نمبر ۲۶)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے خوب کھول کر بیان
کرے اور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راه پر چلائے اور تمہاری توبہ قبول
کرے، اور اللہ تعالیٰ جاننے واﻻ حکمت واﻻ ہے۔
ما يقال لك إلا ما قد قيل للرسل من قبلك
إن ربك لذو مغفرة وذو عقاب أليم (سورہ فصلت
آیت نمبر ۴۳)
ترجمہ: آپ سے وہی کہا جاتا ہے جو آپ سے پہلے کے
رسولوں سے بھی کہا گیا ہے۔ یقینا آپ کا رب معافی
والا اور درد ناک عذاب والا ہے۔
وما كان هذا القرآن أن يفترى من دون الله
ولكن تصديق الذي بين يديه وتفصيل الكتاب لا ريب فيه من رب العالمين (سور ہ یونس آیت نمبر ۳۷ )
ترجمہ: اور یہ
قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ (کی وحی) کے بغیر کسی نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہو، بلکہ یہ تو (ان کتابوں کی) تصدیق
کرنے واﻻ ہے جو اس کے قبل (نازل) ہوچکی ہیں،او ر کتاب کی تفصیل بیان کرنے واﻻ ہے،اس میں کوئی بات شک کی
نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے
سورہ المائدہ
کی آیت نمبر ۳ کے مطابق ، اگر قرآن میں مکمل اور کامل دین موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر کچھ چیزیں پچھلی
صحیفوں میں موجود ہیں
لیکن قرآن میں موجود نہیں تو
ان
کو منسوخ مانا جائے گا۔
ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخير منها أو
مثلها ألم تعلم أن الله على كل شيء قدير (سورہ البقرہ آیت نمبر
۱۰۶ )
ترجمہ: جس آیت کو ہم منسوخ کردیں،یا بھلا دیں اس سے
بہتر یا اس جیسی اور ﻻتے ہیں، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر
ہے
خدا نے آدم کی تخلیق دوسری تمام تخلیقات سے الگ
کی ہے ، اسے حیرت انگیز علمی اور عقلی
قابلیت عطا کی ہے، وحی کے ذریعہ اس کی ہدایت فرمائی ہے،
ناقابل ذکر وجود سے قابل ذکر وجود
بخشاہے، اور اتنا اشرف بنا دیا کہ اس پر
کامل اور مکمل دین نازل ہو سکے، اور اس مکمل اور کامل دین کا نزول اس کے جینیاتی میک اپ کے انسانی
صلاحیتوں کے بالکل مناسب
تھا ، آدم کی تخلیق کے بعد سے
اس جینیاتی میک اپ میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، اور نہ قیامت تک آئے گی۔
اسی لئے قرآن ابدی ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، اوریہ ہمیشہ اسی طرح برقرار رہے گا۔
-------
English Article: Why the Message of the 7th Century Quran Is Eternally and Universally Valid
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism