نصیر احمد، نیو ایج اسلام
9 اگست 2015
قرآن نے اس امر کو واضح کر دیا ہے کہ جب کوئی انسان خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کرتا ہے اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرتا ہے تو وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر:
57:27............... اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کرسکے...........۔
(3:93) "تورات کے اترنے سے پہلے بنی اسرائیل کے لئے ہر کھانے کی چیز حلال تھی سوائے ان (چیزوں) کے جو یعقوب (علیہ السلام) نے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں، فرما دیں: تورات لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو۔"
کیا انبیاء ان چیزوں کو حرام قرار دے سکتے ہیں جنہیں قرآن نے حرام نہیں کہا ہے؟
مندرجہ ذیل آیات پر غور کریں:
(7:157) "یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں"۔
(158) "آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لئے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی جلاتا اور مارتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ جو (شانِ اُمیّت کا حامل) نبی ہے (یعنی اس نے اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہیں پڑھا مگر جمیع خلق سے زیادہ جانتا ہے اور کفر و شرک کے معاشرے میں جوان ہوا مگر بطنِ مادر سے نکلے ہوئے بچے کی طرح معصوم اور پاکیزہ ہے) جو اللہ پر اور اس کے (سارے نازل کردہ) کلاموں پر ایمان رکھتا ہے اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکو۔"
(9:29) ‘‘اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں’’۔
کیا محولہ بالا آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کے پاس وہ شعور یا اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو حرام کرے جسے قرآن نے حرام نہیں کیا ہے؟ مندرجہ بالا آیات میں جن سیاق و سباق میں اہل کتاب کا ذکر ہے، اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہےکہ نبی انہیں چیزوں سے منع کرتا ہے جنہیں خدا نے اپنی وحی کے ذریعہ حرام کیا ہے ، جو قرآن میں مذکور ہیں۔ اس کے علاوہ، خدا نے نبی کو خود سے ان چیزوں کو حرام کرنے سے منع کیا ہے جنہیں خدا نے حرام نہیں کیا ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت سے واضح ہے:
(66:1) اے نبئ (مکرّم!) آپ خود کو اس چیز سے کیوں منع فرماتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال فرما رکھا ہے۔ آپ اپنی ازواج کی (اس قدر) دل جوئی فرماتے ہیں، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
لہٰذا، نبی ان چیزوں سے دوسروں کو کیسے منع کر سکتے ہیں جنہیں خدا نے حرام نہیں کیا ہے؟ لہٰذا، نبی نے صرف انہیں چیزوں کو دوسروں پر حرام کیا ہے جنہیں اللہ نے حرام کیا ہے، انہیں باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا حکم خدا نے دیا ہے۔ قرآن مجید میں حرام کی ہوئی چیزوں کے علاوہ ان کے لیے کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ لہٰذا، ممنوعات کو جاننے کے لیے احادیث کا سہارا نہ لیں۔
خدا نے کن باتوں کا حکم دیا ہے اور کن باتوں کو حرام کیا ہے؟
(6:150) "ان مشرکوں سے) فرما دیجئے کہ تم اپنے ان گواہوں کو پیش کرو جو (آکر) اس بات کی گواہی دیں کہ اﷲ نے اسے حرام کیا ہے، پھر اگر وہ (جھوٹی) گواہی دے ہی دیں تو ان کی گواہی کو تسلیم نہ کرنا (بلکہ ان کا جھوٹا ہونا ان پر آشکار کر دینا)، اور نہ ایسے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ (معبودانِ باطلہ کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں"۔
(151) فرما دیجئے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)، اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں، اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے، یہی وہ (امور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔
(52) اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور پیمانے اور ترازو (یعنی ناپ اور تول) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور جب تم (کسی کی نسبت کچھ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی ہو، اور اﷲ کے عہد کو پورا کیا کرو، یہی (باتیں) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو،
(53) اور یہ کہ یہی (شریعت) میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اس کی پیروی کرو، اور (دوسرے) راستوں پر نہ چلو پھر وہ (راستے) تمہیں اﷲ کی راہ سے جدا کر دیں گے، یہی وہ بات ہے جس کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ،
(2:173) اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔
(2:275) جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
(4:19) اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے۔
(5:3) تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہو گئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بیشک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
(5:63) کیوں راہبوں اور قانون کے ڈاکٹروں گناہ کی باتوں اور کھانے کی چیزوں بولے ان (کی عادت) سے ان کو منع نہیں کرتے حرام؟ بلاشبہ وہ بھی برا ہو گا۔
(5:79) انہیں (روحانی) درویش اور (دینی) علماء ان کے قولِ گناہ اور اکلِ حرام سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بیشک وہ (بھی برائی کے خلاف آواز بلند نہ کر کے) جو کچھ تیار کر رہے ہیں بہت برا ہے۔
(5:90) اور اس لعنت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ) وہ جو برا کام کرتے تھے ایک دوسرے کو اس سے منع نہیں کرتے تھے۔ بیشک وہ کام برے تھے جنہیں وہ انجام دیتے تھے۔
(7:33) فرما دیجئے کہ میرے ربّ نے (تو) صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں (سب کو) اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور اس بات کو کہ تم اﷲ کا شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور (مزید) یہ کہ تم اﷲ (کی ذات) پر ایسی باتیں کہو جو تم خود بھی نہیں جانتے۔
(9:71) اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔
(16:90) بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔
(16:115) اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، حرام کیا ہے، پھر جو شخص حالتِ اضطرار (یعنی انتہائی مجبوری کی حالت) میں ہو، نہ (طلبِ لذت میں احکامِ الٰہی سے) سرکشی کرنے والا ہو اور نہ (مجبوری کی حد سے) تجاوز کرنے والا ہو، تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
(22:41) یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔
(24:3) بدکار مرد سوائے بدکار عورت یا مشرک عورت کے (کسی پاکیزہ عورت سے) نکاح (کرنا پسند) نہیں کرتا اور بدکار عورت سے (بھی) سوائے بدکار مرد یا مشرک کے کوئی (صالح شخص) نکاح (کرنا پسند) نہیں کرتا، اور یہ (فعلِ زنا) مسلمانوں پر حرام کر دیا گیا ہے۔
(31:17) اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔
(40:66) فرما دیجئے: مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اُن کی پرستش کروں جن بتوں کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو جبکہ میرے پاس میرے رب کی جانب سے واضح نشانیاں آچکی ہیں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کے پروردگار کی فرمانبرداری کروں۔ "
(60:8) اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
(9) اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
وہ کون سی غلط باتیں ہیں جن سے لوگو ایک دوسرے کو منع کر سکتے ہیں؟
(3:104) اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔
سچائی یا عقلمندی کے خلاف سرکشی کرنا، ناانصافی، بے حیائی، بغاوت، سود خوری، حرام چیزوں کو کھنا یا پینا، دیگر مذاہب کے ان لوگوں کے ساتھ سختی اور غیر منصفانہ طریقے سے پیش آنا جو ان کے مذہب کے لیے ان سے جنگ نہیں کرتے، غیر قانونی قتل، اپنے تحت رہنے والے یتیموں کا مال کھانا، خدا کا شریک ٹھہرانا، جوا، مبالغہ اور ضیاع۔
لوگ کن نیک باتوں کا حکم ایک دوسرے کو دے سکتے ہیں؟
لوگ ایک دوسرے کو والدین کے ساتھ بھلائی، یتیموں، رشتہ داروں اور کمزور پر مہربانی، انصاف، عدل، انصاف کے ساتھ ناپنے اور تولنے، مسلمسل زکوٰت و صدقات ادا کرنے، صبر کرنے، تحمل اور بخشش، باقاعدہ نماز قائم کرنے، خدا کی اطاعت کرنے اور عہد پیمان کا لحاذ کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔
قرآن مجید میں خاص طور پر جن چیزوں کا ذکر ہے ان کے علاوہ کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے یا اپنی طبعی میلان کے مطابق اس پر عمل کیا جا سکتا ہے ، لیکن وہ اس کے اوپر واجب نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے، جیسا کہ اس سے مندرجہ ذیل آیت میں خبردار کیا گیا ہے:
16:116 اور وہ جھوٹ مت کہا کرو جو تمہاری زبانیں بیان کرتی رہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اس طرح کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ (کبھی) فلاح نہیں پائیں گے۔
اس کے علاوہ ان چیزوں کے بارے میں ضرورت سے زیادہ فکر مند نہ بنو جسے حرام قرار دیا گیا ہے، اور جس چیز کو واضح کر دیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن مجیدکا فرمان ہے:
(4:31) اگر تم کبیرہ گناہوں سے جن سے تمہیں روکا گیا ہے بچتے رہو تو ہم تم سے تمہاری چھوٹی برائیاں مٹا دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ میں داخل فرما دیں گے۔
خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگی کی تمام نعمتوں کا لطف اٹھائیں
اس دنیا کی نعمتیں لطف اندوز ہونے کےلیے ہیں۔ خوشی اور لطف اندوزی حرام نہیں ہے، لیکن خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگی کی تمام نعمتوں کا لطف اٹھائیں جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
(7:31) اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
(32) فرما دیجئے: اﷲ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟ فرما دیجئے: یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لئے) ہوں گی۔ اس طرح ہم جاننے والوں کے لئے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
معمولی چیزوں پر نہیں بلکہ اہم چیزوں پر توجہ مرکوز کی جائے
ان نیک باتوں پر اپنی توانائیاں مرکوز کریں جن کا حکم اللہ نے ہمیں دیا ہے اور ان پاتوں سے گریز کریں جن سے اللہ نے واضح طور پر ہمیں روکا ہے۔ صرف مخصوص ممنوعہ چیزوں کے لیے نہیں بلکہ تمام دوسری چیزوں کے لیے اپنی عقل اور صوابدید کا استعمال کریں اور ان چیزوں سے پرہیز کریں جو ہمیں ہماری ذمہ داری ،نیکی اور خلوص سے دور لے جاتی ہیں۔ اگر ہم ایک مرتبہ اپنے اوپر فرض کی گئی نیکیوں کو اولیت دے دیں تو ہم خود بخود ان چیزوں سے بچ جائیں گے جو ہمیں ان سے دور کرتی ہیں۔ اگر ہم اپنے اوپر حرام کی گئی چیزوں کی حد سے زیادہ تفصیل میں جائیں تو اہم باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم معمولی باتوں سے بچ جائیں گے۔ ضرورت سے زیادہ احتیاط کر کے معمولی غلطیوں سے بچنے سے کہیں زیادہ بہتر اور اہم ہمارا نیک اور اچھے کاموں میں مشغول ہونا ہے۔ اسلام میں بے جا اجتماعات کے لیے پسینہ بہانے کے بجائے سچائی، انصاف، عدل، اچھی ہمسائیگی، رحمت و مغفرت اور شکر گزاری پر زیادہ توجہ دی جائے۔ آپ ظاہری نام و نمود سے انسان کو دھوکہ دے سکتے ہیں اللہ کو نہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/halal-(permissible)-haram-(forbidden)-quran/d/104217
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/halal-(permissible)-haram-(forbidden)-quran/d/104238