نصیر احمد، نیو ایج اسلام
13 اکتوبر 2016
قرآن مجید میں تحریف کا سب سے بڑا ذریعہ لفظ "کفرو" کا ترجمہ قرآن کے تقریباً تمام مترجمین کا غلط طریقے سے "کافر" کرنا ہے۔ کافر سے وہ شخص مراد لیا جاتا ہے جو"حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار نہیں ہے" اگرچہ لفظ کافر کا یہ معنی درست نہیں ہے ۔ قرآن کی ایک بھی آیت میں "کافر" کے اس معنی میں لفظ کفرو کا استعمال نہیں کیا گیا ہے! حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن انتہائی واضح انداز میں یہ بیان کرتا ہے کہ لفظ کفرو سے کافر نہیں بلکہ مندرجہ ذیل افراد مراد ہیں:
الف) مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم کرنے والے
ب) ظالم و جابر
ج) مسلمانوں کے خلاف صرف ان کے ایمان کی بنیاد پر جنگ کرنے والے
د) ایک ریاکار اور غیر مخلص مسلمان
ھ) جان بوجھ کر سچائی اور حقیقت کا انکار کرنے والا۔
لڑائی اور جنگ سے متعلق ہر آیت میں قرآن نے لفظ کفرو کا استعمال یا تو (ا) یا (ب) یا پھر (ج) کے معنی میں کیا ہے، اور ان لوگوں کے لیے استعمال نہیں کیا گیا ہے جو (د) اور (ھ) کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہم ذرا تصور کر سکتے ہیں کہ ایسی آیتوں میں کس طرح تحریف کی جاتی ہے، اس لیے کہ بالعموم ترجمہ نگاروں نے کفرو کا ترجمہ کافر کیا ہے جو کہ ہو سکتا ہے کہ ظالم و جابر نہ ہوں بلکہ ایک پر امن کافر ہوں! اس لیے کہ اس یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید مشرکین کے خلاف لڑنے کا حکم دیتا ہے یا اسلام کا مقصد دیگر تمام مذاہب کو ختم کرنا ہے۔ حقیقت سے کچھ بھی نہیں چھپ سکتا ہے۔
قرآن میں کفرو سے جو لوگ مراد ہیں وہ ایک الگ طبقے کے لوگ ہیں اور اس میں مسلمان، یہودی، عیسائی یا مشرک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
(98:1) اہلِ کتاب میں سے جو لوگ کافر ہو گئے اور مشرکین اس قت تک (کفر سے) الگ ہونے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس روشن دلیل (نہ) آجاتی۔
(98:6) بیشک جو لوگ اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے اور مشرکین (سب) دوزخ کی آگ میں (پڑے) ہوں گے وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والے ہیں، یہی لوگ بد ترین مخلوق ہیں۔
(2:105) وہ لوگ جو اہلِ کتاب میں سے کافر ہو گئے اور نہ ہی مشرکین اسے پسند کرتے ہیں کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی اترے، اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کر لیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
(9:90) اور صحرا نشینوں میں سے کچھ بہانہ ساز (معذرت کرنے کے لئے دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) آئے تاکہ انہیں (بھی) رخصت دے دی جائے، اور وہ لوگ جنہوں نے (اپنے دعویٰ ایمان میں) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھوٹ بولا تھا (جہاد چھوڑ کر پیچھے) بیٹھے رہے، عنقریب ان میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا دردناک عذاب پہنچے گا۔
مندرجہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہے کہ لفظ کفرو سے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے اور یہاں تک کہ مسلمان بھی مراد ہو سکتے ہیں اور یہ کہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو کفرو میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ لہذا، لفظ کفرو کا ترجمہ کافر کرنا قرآن کی ایک بہت بڑی تحریف ہے۔
اگر تمام مشرکین کافر ہوتے تو پھر مندرجہ بالا آیات کے الفاظ وہ نہیں ہوتے جو ہیں بلکہ اس طرح ہوتے:
(98:1) اہلِ کتاب میں سے جو لوگ کافر اور مشرک ہو گئے اس قت تک (کفر سے) الگ ہونے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس روشن دلیل (نہ) آجاتی۔
(98:6) بیشک اہلِ کتاب میں سے جو لوگ کافر اور مشرک ہو گئے وہ دوزخ کی آگ میں (پڑے) ہوں گے وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والے ہیں، یہی لوگ بد ترین مخلوق ہیں۔
(2:105) جو لوگ اہلِ کتاب میں سے کافر اور مشرک ہو گئے وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے ہیں کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی اترے، اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کر لیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
نئی ترتیب سے پیش کی گئی آیات کا مطلب یہ ہے کہ تمام مشرکین اور اہل کتاب میں صرف کافر لوگوں کو جمع کر دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام مشرکین کافر ہیں۔ بلکہ واضح طور پر حقیقت یہ نہیں ہے اور قرآن کی کسی بھی آیت میں تمام مشرکین کو کافر کہا گیا ہے۔ آیت 9:3 اس حقیقت کی ایک اور واضح مثال ہے جس میں صرف مشرکین کا ذکر ہے اور اس آیت میں دونوں اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے لفظ مشرکین کا استعمال اس لیے کیا گیا ہے کہ اس میں ان تمام لوگوں کو شامل کر لیا جا ئے جن کے ساتھ معاہدہ ٹوٹ چکا ہے، اور اس آیت میں لفظ کفرو یا مشرکین کے درمیان کفرو کا استعمال ان لوگوں کے لیے کیا گیا ہے جن کے لیے دردناک عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ کافر وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کیا اور غیر کافر وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا۔
(9:3) یہ آیات) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے تمام لوگوں کی طرف حجِ اکبر کے دن اعلانِ (عام) ہے کہ اللہ مشرکوں سے بے زار ہے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی (ان سے بری الذمّہ ہے)، پس (اے مشرکو!) اگر تم توبہ کر لو تو وہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ تم ہرگز اللہ کو عاجز نہ کر سکو گے، اور (اے حبیب!) آپ کافروں کو دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔
قرآن مجید میں ایک بھی ایسی آیت نہیں ہے جس میں مشرکین کی لعنت و ملامت کی گئی ہو یا جس میں اس بات کا ذکر ہو کہ انہیں جہنم میں ڈالا جائے گا۔ قرآن میں ہر مقام پر صرف کافروں کے لیے جہنم کی وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ پورے قرآن میں صرف دو ہی آیات ایسی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ شرک ایک ناقابل معافی گناہ ہے لیکن وہ آیات بھی یہودیوں اور مسلمانوں کے تناظر میں ہیں۔ اس لیے کہ یہودیوں اور مسلمانوں کا شرک کرنا ان کے مذہب کی واضح اور معروف اصولوں کے خلاف کانے کے مترادف ہوگا جس کی وجہ سے یہ ایک ناقابل معافی گناہ ہے۔ لیکن دوسروں کا معاملہ یہ ہے کہ کافر صرف ان لوگوں کو کہا جائے گا جو جان بوجھ کر سچائی کا انکار کرتے ہوں اور اسی حالت میں ان کی موت واقع ہو جائے۔ اور جو لوگ "سچائی" کو جاننے سے پہلے ہی مر جائیں وہ کافر نہیں ہیں۔
دوسری بڑی غلط فہمی
دوسری اہم تفہیم کا تعلق مندرجہ ذیل آیت سے آتا ہے:
(3:85) اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
تاہم، اسلام اور مسلم کا معنی وسیع تر ہے اور اس میں ہر مذہب کے صالح افراد شامل ہیں۔
(2:62) بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور (جو) نصاریٰ اور صابی (تھے ان میں سے) جو (بھی) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے، تو ان کے لئے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
ہر وہ انسان مسلمان ہے جو خدا پر اور روز آخرت یا قیامت کے دن پر ایمان لایا اور نیک عمل کیا۔
(22:34) اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اﷲ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیں، سو تمہارا معبود ایک (ہی) معبود ہے پس تم اسی کے فرمانبردار بن جاؤ، اور (اے حبیب!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔
آیتِ مذکورہ بالا میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کا ذکر ہے۔ چونکہ خدا صرف ایک ہی ہے اور وہ تمام اللہ کی اطاعت میں اپنے اوپر مقرر کردہ فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں اسی لیے ان کا مذہب اسلام ہے۔
( (27:44 اس (ملکہ) سے کہا گیا: اس محل کے صحن میں داخل ہو جا، پھر جب ملکہ نے اس کو دیکھا تو اسے گہرے پانی کا تالاب سمجھا اور اس نے (پائینچے اٹھا کر) اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں، سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ تو محل کا شیشوں جڑا صحن ہے، اس (ملکہ) نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان (علیہ السلام) کی معیّت میں اس اللہ کی فرمانبردار ہو گئی ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
مندرجہ بالا آیت نبی اور بادشاہ سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کا ذکر ہے جن کا زمانہ حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے کا زمانہ تھا اور ان کے مذہب کو اسلام قرار دیا گیا ہے۔
(2:132) "اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب (علیہ السلام) نے بھی (یہی کہا:) اے میرے لڑکو! بیشک اللہ نے تمہارے لئے (یہی) دین (اسلام) پسند فرمایا ہے سو تم (بہرصورت) مسلمان رہتے ہوئے ہی مرنا۔"
(2:136) "اے مسلمانو!) تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں"۔
اسلام ہر نبی کا اور ہر اس شخص کا مذہب ہے جو خدا پر ایمان رکھتا ہے اور نیک عمل انجام دیتا ہے۔
خدا کے گھر
خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ (22:40)
غلط فہمی کا تیسرا بڑا ذریعہ وہ آیتیں ہیں جن میں جنگ کی اجازت یا حکم دیا گیا ہے۔
غلط بیانی اور تحریف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ:
1۔ غلط طریقے سے لفظ کفرو کا ترجمہ مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم کرنے والے کے بجائے کافر کر دیا گیا ہے جبکہ متعلقہ تمام آیات میں لفظ کفرو کا اول الذکر معنیٰ ہی مراد ہے۔ اگر درست معنیٰ مراد لیتے ہوئے اس کا ترجمہ مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم کرنے والا کیا جائے تب بھی دست سیاق و سباق غیر اہم بن جاتا ہے اس لیے کہ ظالم کے خلاف لڑنے پر کون اعتراض کر سکتا ہے؟
2۔ لڑو جب تک کہ "اللہ کا دین" غالب نہ ہو جائے۔ اور اللہ کے دین کا مطلب اللہ کا قانون ہے، جس میں اللہ کا یہ حکم بھی شامل ہے کہ (1)"دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے (2:256)، (2) تمہارے لیے (پر امن کافروں)تمہارا دین (109:6)۔ تاہم، اکثر مترجمین نے "اللہ کے دین" کا ترجمہ اللہ پر ایمان کیا ہے جو کہ غلط ہے اور اس سے مذہب اسلام کو قبول کرنے کا ایک مکمل طور پر مختلف پیدا ہوتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے آیت 12:76 کا بھی مطالعہ کریں جس میں دین مالکی کا مطلب بادشاہ کا قانون ہے۔
مذکورہ بالا درست ترجمہ کے ساتھ سیاق و سباق جانے بغیر قرآن کی کسی بھی آیت کو سمجھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
(2:190) اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (191) اور (دورانِ جنگ) ان (کافروں) کو جہاں بھی پاؤ مار ڈالو اور انہیں وہاں سے باہر نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی زیادہ سخت (جرم) ہے اور ان سے مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) کے پاس جنگ نہ کرو جب تک وہ خود تم سے وہاں جنگ نہ کریں، پھر اگر وہ تم سے قتال کریں تو انہیں قتل کر ڈالو، (ایسے) کافروں کی یہی سزا ہے۔ (192) پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔ (193) اور ان سے جنگ کرتے رہو حتٰی کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور اللہ کا قانون (دین اﷲ) غالب ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر زیادتی روا نہیں۔
(2:217) لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور اﷲ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اﷲ کے نزدیک (اس سے بھی) بڑا گناہ ہے، اور یہ فتنہ انگیزی قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہے اور (یہ کافر) تم سے ہمیشہ جنگ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر (وہ اتنی) طاقت پاسکیں، اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور پھر وہ کافر ہی مرے تو ایسے لوگوں کے دنیا و آخرت میں (سب) اعمال برباد ہو جائیں گے، اور یہی لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
(2:246) اے حبیب!) کیا آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ کو نہیں دیکھا جو موسٰی (علیہ السلام) کے بعد ہوا، جب انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم (اس کی قیادت میں) اﷲ کی راہ میں جنگ کریں، نبی نے (ان سے) فرمایا: کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر قتال فرض کردیا جائے تو تم قتال ہی نہ کرو، وہ کہنے لگے: ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اﷲ کی راہ میں جنگ نہ کریں حالانکہ ہمیں اپنے گھروں سے اور اولاد سے جدا کر دیا گیا ہے، سو جب ان پر قتال فرض کردیا گیا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے، اور اﷲ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔
(4:75) اور (مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (غلبۂ دین کے لئے) اور ان بے بس (مظلوم و مقہور) مردوں، عورتوں اور بچوں (کی آزادی) کے لئے جنگ نہیں کرتے جو (ظلم و ستم سے تنگ ہو کر) پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جہاں کے (وڈیرے) لوگ ظالم ہیں، اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر فرما دے، اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا دے۔
(8:36) بیشک کافر لوگ اپنا مال و دولت (اس لئے) خرچ کرتے ہیں کہ (اس کے اثر سے) وہ (لوگوں کو) اللہ (کے دین) کی راہ سے روکیں، سو ابھی وہ اسے خرچ کرتے رہیں گے پھر (یہ خرچ کرنا) ان کے حق میں پچھتاوا (یعنی حسرت و ندامت) بن جائے گا پھر وہ (گرفتِ الٰہی کے ذریعے) مغلوب کر دیئے جائیں گے، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے۔ ( 37) تاکہ اللہ (تعالیٰ) ناپاک کو پاکیزہ سے جدا فرما دے اور ناپاک کو ایک دوسرے کے اوپر تلے رکھ دے پھر سب کو اکٹھا ڈھیر بنا دے گا پھر اس (ڈھیر) کو دوزخ میں ڈال دے گا، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ (38) آپ کفر کرنے والوں سے فرما دیں: اگر وہ باز آجائیں تو ان کے وہ (گناہ) بخش دیئے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور اگر وہ پھر وہی کچھ کریں گے تو یقیناً اگلوں کا طریقہ گزر چکا ہے ۔ (39) اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (انقلابی) جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ (دین دشمنی کا) کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے۔
(22:39) ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ ( 40) (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے۔
جنگ کا سبب واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ جنگ صرف مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم یا کسی بھی قسم کے جبر کے خلاف ہے یہاں تک کہ اللہ کا قانون غالب آ جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ دین میں جبر یا کسی بھی قسم کے ظلم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان آیات کی اہمیت و افادیت ابدی ہے۔ اسی تحریف کی بنیاد پر بعض مسلمان ظالم بن چکے ہیں یا "کفرو" کے زمرے میں شامل ہو چکے ہیں جسے ختم کیا جانا ضروری ہے۔
(21:18) بلکہ ہم حق سے باطل پر پوری قوت کے ساتھ چوٹ لگاتے ہیں سو حق اسے کچل دیتا ہے پس وہ (باطل) ہلاک ہو جاتا ہے، اور تمہارے لئے ان باتوں کے باعث تباہی ہے جو تم بیان کرتے ہو۔
(39:32) سو اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور سچ کو جھٹلائے جبکہ وہ اس کے پاس آچکا ہو، کیا کافروں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے؟
(33) اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ ہی تو متقی ہیں۔
(34) اُن کے لئے وہ (سب نعمتیں) ان کے رب کے پاس (موجود) ہیں جن کی وہ خواہش کریں گے، یہی محسنوں کی جزا ہے۔
(35) کیا اللہ اپنے بندۂ (مقرّب نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافی نہیں ہے؟ اور یہ (کفّار) آپ کو اللہ کے سوا اُن بتوں سے (جن کی یہ پوجا کرتے ہیں) ڈراتے ہیں، اور جسے اللہ (اس کے قبولِ حق سے اِنکار کے باعث) گمراہ ٹھہرا دے تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
جب تک لوگ قرآن کے درست ترجمہ اور تشریح کی اشاعت کی حمایت نہیں کرتےتب تک ہم کس طرح اسلامی فقہ میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں؟ میں نے جو کچھ بھی اس مضمون میں لکھا ہے اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے اور میں نے اپنے تمام مضامین میں قرآنی آیتوں کی صرف درست تفہیم کی اشاعت کی ہے، لوگ غلط ترجمہ اور قرآن کی غلط تفہیم کی بنیاد پر اسی قسم کے دلائل میں ملوث ہیں۔ زیادہ آسان طریقہ کیا ہے-غلط تراجم پر مبنی قرآن مجید کی غلط تفہیم کو درست کرنا یا متن قرآن کے ساتھ ناگوار طریقہ کار؟ کسی بھی صورت میں قرآن کے کسی ایک لفظ کو بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں تبدیلی کی کوئی ضرورت ہے، لیکن جن آیتوں کا مطلب اچھی طرح واضح نہیں ہے اس میں تبدیلی کے مطالبات پیدا ہوتے رہیں گے۔ اب یہ امر ظاہر ہو چکا ہے کہ متعصب علماء کرام نے قرآن مجید کی آیتوں کے تعلق سے غلط تراجم، تفہیم اور تشریحات کا انبار لگا دیا ہے اور قرآن مجید کی ان تمام غلط تشریحات، تراجم اور ان کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے نیک کوششیں اللہ کی مدد اور نصرت سے کی جائیں گی۔ کیا لوگ اس کے لیے اچھا طریقہ اختیار کریں گے یا اس کے لیے ملعون و مذموم راستہ اختیار کریں گے؟
(10:25) اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے، اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ (26) ایسے لوگوں کے لئے جو نیک کام کرتے ہیں نیک جزا ہے بلکہ (اس پر) اضافہ بھی ہے، اور نہ ان کے چہروں پر (غبار اور) سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت و رسوائی، یہی اہلِ جنت ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ (27) اور جنہوں نے برائیاں کما رکھی ہیں (ان کے لئے) برائی کا بدلہ اسی کی مثل ہوگا، اور ان پر ذلت و رسوائی چھا جائے گی ان کے لئے اللہ (کے عذاب) سے کوئی بھی بچانے والا نہیں ہوگا (یوں لگے گا) گویا ان کے چہرے اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیئے گئے ہیں۔ یہی اہلِ جہنم ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں!
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/the-misrepresentation-quran-mistranslation/d/108846
URL for this article: