نصیر احمد، نیو ایج اسلام
31 جولائی 2018
شاعری، ادب اور فصاحت بلاغت میں الفظ اور تخیلات کا استعمال کوئی ٹھوس نظریہ پیش کرنے کے لئے نہیں بلکہ اذہان کو متاثر کرنے اور جذبات کو بھڑکانے کے لئے کیا جا تا ہے۔ اس طرح کی زبان جس میں الفاظ کے متعدد معانی ہوتے ہوں ان سے سائنس، ریاضی اور فلسفہ جیسے کسی علمی شعبے میں مہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ان خالص علمی اور فنی شعبوں نے اپنے لئے مناسب حال ایک الگ زبان تیار کی ہے جس کی وجہ سے جب ان شعبوں کے ماہرین اپنے ہم پیشہ افراد کے ساتھ اپنے موضوعات پر بحث کرتے ہیں تو ایک ریاضی دان، سائنسدان ، منطقی اور ایک قانون دان کی گفتگو میں غلط فہمی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لہذا ایک ریاضی دان بالکل متعین آبجیکٹس (objects) اور ریلیشنز (relations)، ماہر قانون متعین کنسٹرکٹس (constructs)، اور ایک منطقی منطقی آپریٹرز (operators) یا کنک ٹیوس (connectives) کے بارے میں اپنی رائے پیش کرتا ہے۔
منطق میں الفاظ کے داؤپیچ کے برعکس مخلوط افکار و نظریات سے بچنے کے لئے فلسفہ میں سب سے پہلے واضح ، مبین اور مبرہن اصطلاحات ایجاد کی گئیں۔ ہر علمی اور فنی شعبہ اپنے متعینہ اصطلاحات سے مزین ہوتا ہے۔ ریاضی داں کی زبان میں بات کی جائے تو اس میں عمومی طور پر استعمال ہونے والے ایک لفظ کا کوئی ایک خاص معنی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گروپ(group)، رنگ (ring)، فیلڈ (field)، کیٹیگیری (category)، ٹرم (term)، فیکٹر (factor)، یونین (union)، انٹرسیکشن (intersection)وغیرہ جیسے الفاظ پیش کیے جاسکتے ہیں، اس لیے کہ ریاضی میں ان الفاظ کے خاص معانی ہیں جنہیں ریاضی کے علاوہ میں پائے جانے والے ان کے متعدد معانی کے ساتھ مخلوط نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ہر فن کے اپنے مخصوص اصطلاحات ہوتے ہیں مثلاً “necessary and sufficient”, “if and only if”, “without loss of generality وغیرہ۔ کسی خاص معنی کے ساتھ مخصوص الفاظ اورکسی خاص فن ، کنوینشنس (conventions)،اور اصول و ضوابط سے متعلق اصطلاحات اس خاص فن کے اندر ابلاغ و ترسیل کی زبان کو آسان بنا دیتے ہیں جن میں غلط فہمی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم ریاضی کی تھیوری (theory) اور اس کا پروف (proof) کبھی غلط نہیں سمجھا جاتا خواہ اسے پیش کرنے والے کی مادری زبان جرمن ہو، انگلش ہو، چینی ہو، ترکی ہو، یا ہندی ہو۔
ماہرین فن کے جانب سے استعمال کی جانے والی اصطلاحات کو ایک عام شخص غلط سمجھ سکتا ہے یا ان کا غلط استعمال کر سکتا ہے لیکن ماہرین فن کے نزدیک ان اصطلاحات کے معانی واضح ہوتے ہیں اور ان الفاظ کے متعلق انہیں کوئی غلط فہمی نہیں ہوتی۔ لہذا ہم ماہر فن ہونے کا ڈھونگ کرنے والے افراد کو اکثر دیکھتے ہیں کہ وہ اس فن کے الفاظ اور تصورات کا غلط استعمال کرتے ہیں جس کا انہیں بہت کم علم ہوتا ہے۔
تخیلات کی دنیا آباد کرنا فصاحت و بلاغت کا کمال ہے اور تمام اسلامی علماء فصاحت و بلاغت میں ماہر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی فصاحت و بلاغت تو اچھی ہوتی ہے لیکن فنی اعتبار سے ان کی قرآنی تعلیم کمزور ہوتی ہے۔
قرآن کریم بھی انہیں اصول و ضوابط کا پابند ہے جن کے دیگر اور علوم و فنون پابند ہیں۔ ہر کلیدی لفظ کا کیا معنی ہے اور کیا نہیں ہے قرآن دیگر متعدد آیات کے ذریعے اس کی پوری وضاحت کردیتا ہے، لہذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قرآن پڑھنے والے کی مادری زبان عربی ہے یا نہیں۔ دراصل جسکی مادری زبان تو عربی ہو لیکن قرآن کی زبان میں اسے مہارت نہ ہو وہ قرآن کو اتنا بہتر نہیں سمجھ سکتا جتنا وہ شخص سمجھ سکتا ہے جو قرآن کا مطالعہ ایک منظم انداز میں کرتا ہے۔
قرآن کے اندر ہر کلیدی لفظ اور تصور کو ان دیگر آیات کی مدد سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جن میں وہ کلیدی الفاظ وارد ہوئے ہیں اور اس سے کسی بھی طرح کی تعبیر و تشریح کی ضرورت بھی مرتفع ہو جاتی ہے اور اس طرح قرآن کی ہر آیت سے ایک واضح معنی اخذ کیا جا سکتا ہے اور قرآن کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ یہ ایک واضح کتاب ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود علما قرآن کے اس واضح پیغام کو سمجھنے میں ناکام ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کے قرآن کے مطالعہ میں جو نظم و ضبط درکار ہے اس سے یہ علما واقف نہیں۔ اور علماء کے اندر اس نظم و ضبط کے فقدان کا اندازہ چند مثالوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ میں نے قرآن کا ایک بھی ترجمہ ایسا نہیں دیکھا جس میں لفظ مشرک کا ترجمہ بت پرست نہ کیا گیا ہو۔ اور جب علماء سے یہ سوال کیا جاتا ہے تو وہ متعجب نظر آتے ہیں۔ ان کے لئے مشرک اور بت پرست ایک ہی ہیں جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے غلط ترجمہ کا کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ لفظ "بت پرست" ایک ذہنی خاکہ تیار کرتا ہے جبکہ مشرک ایک پیچیدہ لفظ ہے اور کسی بھی ذہنی خاکہ کے بغیر یہ دماغ پر زور بھی ڈالتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے آپ کو سوچنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قرآن کا غلط ترجمہ کرنے کا رجحان اور الفاظ بدل کر اس کی آیتوں کو غلط سمجھنا اور ان کے لئے وہ معانی وضع کرنا جو قرآن میں ہیں ہی نہیں ایک عام سی بات ہو چکی ہے۔
اس کی ایک وجہ تعصب و تنگ نظری بھی ہے جس کی بنیاد پر علما نے اپنی جانب سے قرآنی آیات کے معانی وضع کئے ہیں ۔ چونکہ " کافر" جہنم کا مستحق ہے اسی لئے وہ متعصب علماء کی نظر میں کسی بھی صورت میں مؤمن نہیں ہو سکتا اور اس سے ہر صورت میں ‘‘غیر مسلم’’ ہی مراد لیا جانا چاہئے تاکہ جنت تک لے جانے والے ایک واحد راستے کے طور پر لوگوں کے سامنے صرف دین اسلام کوہی پیش کیا جا سکےاور یہ کہا جا سکے کہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کی پیروی انسان کو جہنم تک لے جاتی ہے۔
منظم طریقے سے قرآن کے معانی میں فساد پیدا کرنے کے بعد یہ علماء زبان کے اپنے استعمال کافی کمزور ہو چکےہیں۔ ان کی زبان میں لفظ "مومن" لفظ ‘‘مسلم’’ کے ہم معنی ہے اگرچہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔
لیکن ہمارے سامنے ایسے متعدد بیوقوفوں کے دعوے بھی ہیں جن پر –‘شاعری سے ہٹ کر’ کا لیبل لگا ہوا ہے ، ایسے لفاظوں سے خبردار رہیں جو علم کے دشمن ہیں۔
مختلف لوگ جب لفظ ‘‘مذہب’’ بولتے ہیں تو بہت کم ہی ان کی مراد بھی یہی ہوتی ہے، اور نہ ہی وہ اس کا مطلب ہی سمجھتے ہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/the-language-quran/d/115992
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-language-quran-arabic-social-scientist-theologians/d/116006
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism