New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 02:13 AM

Urdu Section ( 10 Aug 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Dogmatic Atheists ہٹ دھرم ملحدین

نصیر احمد، نیو ایج اسلام

04 اگست 2017

مذاہب کے زیادہ تر حصے خراب ہیں اور اسی وجہ سے کسی بھی مذہب کو تنقید کا نشانہ بنانا آسان ہے۔ اسلامی فقہ بھی متعفن ہو چکی ہے اسی بنیاد پر فقہی نظریات پر مبنی اسلام کو مسترد کرنا آسان ہے۔ مذہب بذات خود برا نہیں ہے – بلکہ اگر مذہب نہ ہو تو ہم سب وحشی حیوان ہوں گے۔ مذہب نے ہی ہمیں مہذب و متمدن کیا ہے۔

ابتدائی زمانوں کے فلاسفہ بھی مومن ہی تھے۔ ان کا بھی ایمان آخرت، ایک لا فانی روح اور انصاف پر تھا، اور وہ بھی ہماری آخرت کی زندگی میں کمال کے متلاشی تھے۔ انہوں نے دین سے اخلاقی اصولوں اور کافی تجرباتی مشاہدات کا انتخاب کیا جو مذہبی عقائد و معمولات کے دائرہ کار کے اندر ان پر عمل کر کے دستیاب تھے، اور یہ دریافت کیا کہ ان کا کافی عملی شعور ہے۔ مذہب کے اخلاقی اصول پس منظر میں بالکل منطقی نظر آئے۔ اسی لئے انہوں نے عقل کا استعمال کیا اور اس معقولیت پسندی اور عملیت پسندی پر مبنی اخلاقیات مرتب کیا۔ اسی وجہ سے آج فلسفہ میں ہمارے پاس افادیت پسندی اور نتائج پسندی کے نظریات موجود ہیں۔

ایک مدت کے دوران جوں جوں عقلیت پسندی کا رجحان مضبوط ہوتا گیا - مذہب کے ساتھ اس کا تعلق کمزور ہوتا گیا۔ سب سے پہلے فلسفیوں نے مذہب کے تئیں مشفقانہ نظریہ اختیار کیا اور کہا کہ مذہب ضروری ہے کیوں کہ یہ عالمگیر طریقے سے انسانوں کی رہنمائی حکمت کی طرف کرتا ہے۔ تاہم فلسفیوں اور عقلمندوں کے لئے مذہب ضروری نہیں تھا۔ بعد میں، اخلاقی اصولوں پر مبنی مذہب کے عملی حصے پر قابض ہونے کے بعد فلسفیوں نے یہ دعوی کیا کہ آسمانی مذاہب بھی اسی بصیرت اور فہم و فراست کی تعلیم دیتے ہیں جسے فلسفیوں نے اپنی تعلیمات کے اندر پیش کیا۔ فرق صرف اس حقیقت میں ہے کہ نبیوں نے اپنی حکمت و دانائی کو عام لوگوں تک زیادہ سے زیادہ پہنچانے کے لئے علامتیت کا سہارا لیا۔ لہذا، اب نبیوں کو فلسفی مع ماہر نفسیات سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ یہ خیال آج ملحدوں کا عقیدہ بن چکا ہے۔ اب چونکہ انبیاء صرف ایسے فلسفی ہیں جن کا بڑے پیمانے پر اثر و رسوخ ہے، وہ مذہب کے تمام عملی اجزاء پر - جو کہ مذہب کے اخلاقی اصول ہیں – اس میں مذہب کی کاکردگی تسلیم کئے بغیر قبضہ جما سکتے ہیں۔

تاہم، دلچسپ بات یہ ہے کہ 600 قبل مسیح سے لیکر اب تک فلسفہ کی پوری تاریخ میں فلسفہ نے اپناایک بھی حقیقی اخلاقی اصول نہیں پیش کیا ہے، بلکہ فلسفہ میں پائے جانے والے تمام اخلاقی اصولوں کا تعلق صرف اور صرف مذہب سے ہے۔ اس سے مذاہب کے اس دعوے کی دلیل فراہم ہوتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ میرے مضمون " سائنس اور مذہب" میں اس موضوع پر پوری تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے:

اسلام کیا ہے؟

اسلام کو اس کے نظریہ، اس کے پیروکاروں کے عقائد و معمولات یا اس کے صحیفہ (قرآن) کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ آسمانی صحیفہ مذہب کو ایک نظریاتی شکل میں پیش کرتا ہے اور فقہ سے مذہب کی وہ شکل سامنے آتی ہے جو مذہب کے عالموں نے مذہب کو دیا ہے۔ مذہب کے پیروکاروں یا عوام کے معمولات ان معتقدات پر مبنی ہوتے ہیں جو انہوں نے فقہ سے سمجھا ہے۔ اسلامی فقہ سے حاصل ہونے والے اپنے مذہب کے بارے میں سمجھنے کے لئے عام مسلمان کبھی بھی براہ راست قرآن کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اسلامی نظریات اور قرآن کے درمیان کا خلاء انتہائی وسیع ہے۔ سنی اسلامی نظریات کی تشکیل کا بنیادی محرک تکفیر یعنی دوسرے فرقوں / مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی تعریف ہے۔ تاہم، قرآن مجید نے کبھی بھی تمام مشرکین مکہ کو کافر نہیں قرار دیا ہے لہٰذا، اپنے معتقدات کی بنیاد پر دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دینا قرآن کے پیغام کے خلاف ہونے کی وجہ ان کا یہ عمل خود کفر ہے۔

اشعری فقہ نے ہمارے سامنے اسلام کے پانچ ستون اور چھ کلمے پیش کئے جو اسلام کے تمام فرقوں کے لئے عقیدہ بن چکے ہیں۔ آپ اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ یہ کلمات اپنی زبان سے نہ پڑھ لیں اور آپ اس وقت تک ایک مسلمان نہیں رہتے جب تک آپ ان تمام پانچ ستونوں پر عمل نہ کر لیں۔ لیکن جہاں تک قرآن کا تعلق ہے، تو قرآن کا فرمان ہے:

(2:112) ہاں، جس نے اپنا چہرہ اﷲ کے لئے جھکا دیا (یعنی خود کو اﷲ کے سپرد کر دیا) اور وہ صاحبِ اِحسان ہو گیا تو اس کے لئے اس کا اجر اس کے رب کے ہاں ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہو گا اورنہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

فقہ داخل بین ، آسانی پسند اور ایک متعصب نقطہ نظر کا حامل ہے۔ کیا قرآن کے مطابق 'شرک' ایک ناقابل معافی گناہ نہیں ہے؟ ہاں! یقیناً ہے۔ تو پھر کس طرح تمام مشرکین کافر نہیں ہیں؟ قرآن کے مطابق کفر کی بنیاد آپ کے علم اور آپ کے عقیدے پر ہے اسی لئے کفر یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے ایک ناقابل بخشش گناہ ہے لیکن یہ مشرکوں اور عیسائیوں کے لئے ایک ناقابل معافی گناہ نہیں ہے کیوں کہ یہ انتباہ کے ساتھ تثلیث کے قائل ہیں اور بھلائی کا کام کرتے ہیں اور اس کے علاوہ پر یقین کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی دوسری وجہ بھی نہیں ہے۔ اس پر میرے مضامین "کیا قرآن کریم تضادات کی کتاب ہے؟" میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔

قرآن کریم میں کافر کون ہے؟ (حصہ 3)

اگر قرآن کو صحیح طریقے سے سمجھا جائے تو اس کے تمام تضادات ختم ہو جاتے ہیں اور یہ ایک ایسی کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے ہوتا ہے جس میں ایک بھی تضاد کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر فقہی نقطہ نظر سے قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں بے شمار تضادات ظاہر ہوتے ہیں۔ فقہی نظریات اور شیطانی احادیث کو مسترد کر دیں تو یہ ایک کامل و اکمل کتاب ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ اسلامی فقہ کافر کا نظریہ بن چکی ہے، کیونکہ یہ ہر موضوع پر قرآن کے واضح پیغام سے مختلف ہے۔

قرآن بہت سے یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے ایک کتاب مبین ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلامی فقہ اور احادیث سے بے خبر ہیں۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ یہودی اور عیسائی مسلمان کیوں نہیں بن جاتے ہیں؟ ان میں سے بہت سے لوگ اسلام قبول کرلیتے ہیں اور بہت سے نہیں۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں انہیں عیسائی / یہودی روایت میں مسلمان سمجھتا ہوں۔ آپ ہندو روایات میں ایک مسلم ہوسکتے ہیں اگر آپ ان مشترکہ روایات پر عمل پیرا ہیں قرآن جن کی دعوت دوسرے مذہبی عقائد کے حامل لوگوں کو دیتا ہے اور یہ مشترکہ اقدار ہندو صحیفوں میں پائے جاتے ہیں۔

کیا قرآن واقعی کتاب مبین ہے؟

اس سوال کا تعین اس دلیل کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا کہ متن قرآن کی بے شمار تعبیرات و تشریحات موجود ہیں اور ہر موضوع پر لوگوں کے درمیان زبردست اختلاف ہے۔ لوگ کسی بھی بات کا کچھ بھی مطلب نکال سکتے ہیں اور نکالتے بھی ہیں۔ قرآن کریم کتاب مبین ہے یا نہیں اس کا جواب اس سوال کے جواب پر منحصر ہے کہ "کیا منطقی طور پر تمام آیات محکمات سے صرف ایک ہی معنی اخذ کرنا ممکن ہے؟" اگر جواب ہاں ہے، جو کہ بظاہر ہونا بھی چاہئے- تو قرآن کتاب مبین ہے، ورنہ یہ کتاب مبین نہیں ہے۔ لہذا، ہمیں کسی ایسے کی ضرورت ہے جو یہ ظاہر کرے کہ یہ کتاب مبین ہے۔ قرآن پر مبنی میرے مضامین ایسے ہی مظاہر ہیں۔

قرآن کے تمام احکامات کے تعلق سے صرف ایک معنیٰ حاصل کر لینے کے بعد کیا اب بھی اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی پریشانی ہے کہ انہیں خدا نے نازل کیا ہے؟ اگر جواب ہاں ہے تو پھر ہمیں انہیں خدا کا حکم ماننا چھوڑ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر جواب یہ ہے کہ ان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ہماری زندگی میں اخلاقیات کو فروغ دیتے ہیں، تو ہمیں اسے قبول کر کے ان کی پیروی کرنی چاہئے۔

اس صورت میں اصلاحات قرآن، خدا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کا آلہ کار نہیں بنتے، بلکہ یہ اسلامی فقہ پر حملہ کرنے اور قرآن کے مطابق اس میں اصلاح پیدا کرنے کا آلہ کار بنتے ہیں۔ اسلام میں اصلاحات کے لئے اور کوئی معیار نہیں بن سکتا ہے۔ اسلامی اصلاحات کی کوشش ہر مسلم کوملحد بنانے کی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ ہر ایک ملحد کا یہی ہدف معلوم ہوتا ہے۔

اگرچہ اکبر کے دین الٰہی جیسے اور سکھ ازم اور تمام اصلاحی تحریکیں ایک ولولہ انگیز رہنما کی قیادت میں معاشرتی حالات پر عوامی ردعمل ہیں، لیکن یہ نقطہ نظر ہر مذہب کے بارے میں درست نہیں ہے۔ کیا ملحدین ہر مذہب کو سماجی منصوبہ مان کر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں؟ جانچ اور پرکھ کے بغیر عقل و استدلال کے خلاف معتقدات سائنس اور مذہب دونوں کے لئے مہلک ہیں۔ فلسفیوں نے ہمیں مذہب کے اخلاقی اصولوں کے عملی اقدار کی طرف متوجہ کر کے بہت اچھا کام انجام دیا ہے۔ اس سے مذہب کو عقیدے کے طور پر نہیں بلکہ سائنس کے طور پر سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ بعد کے فلسفیوں نے پہلے تو مذہب کے تئین مشفقانہ رویہ اپنایا اور اس کے بعد اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا اور بڑی تیزی کے ساتھ وہ اپنی اس تردید میں ہٹ دھرم بن گئے۔ آپ ایک معقولیت پسند مومن بن سکتے ہیں یا ایک ہٹ دھرم انسان، لیکن کیا آپ ایک منطقی نقطہ نظر رکھنے والے ملحد بن سکتے ہیں؟ مجھے شک ہے۔ اس لئے کہ کوئی بھی صرف ایک ہٹ دھرم ملحد ہی بن سکتا ہے۔ مجھے خوشی ہوگی اگر کوئی مجھے غلط ثابت کر سکے۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/spiritual-meditations/naseer-ahmed,-new-age-islam/the-dogmatic-atheists/d/112087

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-dogmatic-atheists-/d/112164

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..