نصیر احمد، نیو ایج اسلام
18 مارچ، 2015
"قرآن مجید میں مسلمان کون ہے؟" کے عنوان سے میرے مضمون نے تمام بنی نوع انسان کو کافر نہ کہے جانے کا ایک سیکولر معیار قائم کیا ہے جو کہ تمام انسانوں پر قابل انطباق ہے۔ حالآنکہ اس مضمون میں اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ہےکہ"مسلمان کون ہے"، جبکہ اس مضمون میں اس کے علاوہ تمام بنی نوع انسان کو ایک اچھا انسان سمجھنے کے لیے انتہائی بنیادی ضرورت کو پورا کیا گیا ہے، جیسا کہ یہ لفظ "کافر" سے نمایاں ہے۔ اگر ایک مسلمان سیکولرمعیار پر کھرا نہیں اترتا تو وہ پوری دنیا کے لئے ایک کافر ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے منہ سے کس مذہب کا اقرار کرتا ہے اور اپنے ایمان کے حصہ کے طور پر کس بات کی تبلیغ کرتا ہے یہ تمام باتیں محض منافقت ہیں۔
قرآن مجید میں موجود عام نا قابل تبدیل آفاقی اصولوں کو آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے اس لیے کہ ان میں نہ تو کوئی تبدیلی کی گئی ہے اور نہ ہی انہیں کسی مبین قیود و شرائط سے مقید کیا گیا ہے۔ اور ان اصولوں کو کسی مضمر قیود و شرائط سے بھی مقید نہیں کیا گیا ہےاس لیے کہ قرآن مجید میں کسی بھی آیت کا تعارض ان اصولوں سے نہیں ہوا۔ کسی بھی آیت کو سمجھنے میں کسی معمولی مسئلہ کو بھی ان عام اصولوں کے حوالے سے حل کیا جا سکتا ہے۔
جہاں کہیں سیاق و سباق اہم ہے وہاں قرآنی آیتیں ضروری سیاق و سباق کا تعین کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ اگر ہم اس نقطہ نظر پر عمل کرنا شروع کر دیں تو ثانوی ذرائع کا سہارا لیے بغیر ہر آیت کو سمجھنا ہمارے لیے آسان ہو جائے گا اور اس کے بعد واضح معنی سے عدول کیے بغیر آیتوں کی "تشریح" ناممکن ہوگی۔
میں نے اپنے سلسلہ وار مضمون "قرآن مجید میں کافر کون ہے" کے حصہ 4 میں نے اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ قرآن کا موضوع بحث یہ شعبے ہیں:
1۔ سیکولر، مادی یا دنیاوی
2۔ اور روحانی شعبہ ہائے زندگی
خالصتا روحانی شعہ وہ ہے جو دنیاوی سزا اور تشدد آمیز مداخلت دونوں سے ماوراء ہو۔ قرآن اس وقت تک کافروں کے لیے کسی سزا کا تعین نہیں کرتا جب تک وہ امن پسند ہیں۔ قرآن مجید میں توہین رسالت کے لئے اس وقت تک کوئی سزا مشروع نہیں ہے جب تک اس کی وجہ سے ایسا کوئی تشدد، دشمنی اور فتنہ پیدا کرنا لازم نہ آتا ہو کہ جو زمین پر فساد کا باعث بنے۔ لہٰذا، اس صورت میں جو سزا واجب ہوتی ہے وہ توہین رسالت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس ضمن میں اس مجرم نے دنیاوی شعبہ زندگی میں جن جرائم کا ارتکاب کیا ہے سزا اس کے لیے ہے۔ ارتداد کی بھی اس دنیا میں شرعاً کوئی سزا مشروع نہیں ہے جب تک کہ اس کی وجہ سے غداری یا بغاوت لازم نہ آئے۔ اس مسئلے میں قابل سزا جرم غداری یا بغاوت ہے ارتداد نہیں۔ تاہم، ارتداد سے غداری یا بغاوت مراد لینے کے لیے خود اس اصول کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ یہ واضح طور پر قرآنی پیغام کی خلاف ورزی ہے۔
(5:33) بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے، (34) مگر جن لوگوں نے، قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پا جاؤ، توبہ کرلی، سو جان لو کہ اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کرنا محض توہین رسالت یا ارتداد نہیں ہے بلکہ زمین میں فساد پیدا کرنے کی عمداً منصوبہ بند اور واضح طور پر ایک معاندانہ کوشش ہے۔ اس کی سزا جرم کی سنگینی کے اعتبار سے جلاوطنی سے لیکر موت تک مختلف ہے اور مجرم کو چھوڑا بھی جا سکتا ہے اگر وہ تائب ہو جائے۔
سیکولر کا پہلو "مومنوں" اور ساتھ ہی ساتھ "غیر مومنوں" کے درمیان مشترک ہے اور اس کا انطباق ایمان کی بنیاد پر کسی بھی امتیاز کے بغیر ان دونو پر ہوتا ہے۔
قرآن مجید پر عمل کرتے ہوئے ریاست اور "مذہب" کی علیحدگی ممکن اور ضروری بھی ہے۔ اور یہ فطری بھی ہے اس لیے آخری نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) دونوں شعبوں کے رہنما تھے۔ تاہم، قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کسی بھی صورت میں ضم نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے برعکس، قرآن اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ مومن ان لوگوں کے ساتھ بھی انصاف کا معاملہ کرتے ہیں جن کے خلاف کبھی ان کی دشمنی تھی اگر چہ اس طرح کا انصاف خود ان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اور یہ واضح طور پر مذہبی یا روحانی معاملات میں کسی بھی جبر و اکراہ کے خلاف ہے اور قرآن امن پسند‘‘کافروں’’ کو کسی بھی مداخلت کے بغیر امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔ اور اس طرح کا انصاف صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب روحانی یا مذہبی شعبہ ہائے زندگی کو سیکولر شعبہ زندگی سے الگ کر دیا جائے۔
ایک مرتبہ اگر قرآن مجید کی آیتوں کو دو علیحدہ اور الگ الگ تناظر میں سمجھ لیا گیا ، تو واضح طور پر مذہبی شعبہ زندگی کی حد بندی کی جا سکتی ہے اور مذہبی رہنماؤں کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ لوگوں کو اس پر قائل کرنا ہی رہ جائے گا۔ دنیاوی معاملات کا تعلق ریاست سے ہے اور ریاست کی ذمہ داریوں کا واضح تقاضہ یہ ہے کہ وہ محض دنیاوی معاملات پر ہی ایک خصوصی توجہ مرکوز کرے۔
یہ ان دونوں شعبوں کو علیحدہ نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ حکمران اور مفسد مذہبی رہنما دونوں نے ناجائز اور تشدد آمیز طاقت کا استعمال کرنے کے لئے قرآن کے پیغام کو مسخ کر دیا ہے۔ واضح مذہبی مضمرات کے ساتھ ارتداد یا توہین رسالت کا الزام غیر معقول شوریدگی کا باعث بن سکتا ہے۔ اور دونوں گروپوں کی جانب سے قرآن کا غلط استعمال کرنے کے لیے اس حیلہ کو سب سے زیادہ آسان پایا گیا ہے۔ اگر ابتدائی ادوار کے مسلمانوں نے قرآن کی واضح طور پر روحانی آیتوں کو سیکولر آیتوں سے الگ کر دیا ہوتا تو آج یہ صورت حال نہیں ہوتی۔ آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان روحانی طور پر کمزور تو ہے ہی ، اس کی حالت دنیاوی معاملات میں بھی ابتر اور نا گفتہ بہ ہو چکی ہے۔ ایک مسلمان کفر اختیار کر لینے کے بعد اس دنیا میں یا آخرت میں کبھی بھی اقبال مند نہیں ہو سکتا۔
سنی اسلام کے تمام آئمہ اربعہ کو حکمرانوں کے ہاتھوں ان کے خیالات و نظریات کی وجہ سے ظلم و ستم اور ساتھ ہی ساتھ قید و بند کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ علماء کی تعلیمات کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ امرائے سلطنت کسی بھی ذمہ داری کے بغیر مذہبی رہنماؤں کو ایسی دنیاوی طاقت اور اختیارات دے رہے تھے جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ ان کے آگے سر تسلیم خم نہ کرنے والوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے تھے ۔ ایسے ماحول میں فقہ اسلامی کو ریاست اور مذہبی رہنما دونوں نے مل کر بری طرح سے مسخ کر دیا تھا اور اقلیتوں کو ریاست اور مذہبی رہنما دونوں کا شکار ہونا پڑا تھا اور انصاف پوری طرح سے متاثر ہو چکی تھی۔
قرآن واضح طور پر مذہب سے قطع نظر تمام لوگوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتا ہے اور قرآن مذہب کے معاملے کسی بھی جبر و تشدد کے خلاف ہے۔ اور نہ ہی قرآن مذہب کو فروغ دینے کے لئے ریاستی طاقت کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ قرآن صرف مذہب کا دفاع کرنے اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف یا دوسرے لوگوں کے خلاف جبر و تشدد سے لڑنے کے لئے ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جبر و تشدد اور ظلم و ستم صرف مذہبی ہی ہو۔
دنیاوی معاملات میں قرآن مجید صرف حدود یا اللہ کی جانب سے مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں سزا کا تعین کرتا:
1۔ بیک وقت چار قابل اعتماد گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر زنا کا گناہ ثابت ہو جانے کی صورت میں قرآن مجید سزا کے طور پر ایک سو کوڑے کا تعین کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس قانون کا بھی غلط استعمال کیا گیا ہے
2۔ قرآن چوری کے لئے ہاتھ کاٹنے کا سزا مقرر کرتا ہے، جبکہ اس سلسلے میں قرآن مجید ثبوت کے لئے ضروریات اور اس سزا کے جرم کی سنگینی کی وضاحت نہیں کرتا ہے۔ نادر و نایاب معاملات میں حالات پر انحصار کرتے ہوئے اسے قابل نفاذ بنانا یا خشک سالی وغیرہ کی حالت یا انتہائی غربت اور محرومی کی صورت میں اسے نا قابل عمل بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
3۔ قرآن میں قتل کے لیے موت کی سزا مشروع ہے، جبکہ متوفی کے قریب ترین رشتہ دار معاوضہ لیے بغیر ہی مجرم کی سزا کو معاف کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کا ایسا کوئی دوسرا شرعی قانون نہیں ہے جو تمام لوگوں پر قابل اطلاق ہو۔ دوسرے معاشروں یا ثقافتوں میں صرف زنا ہی ایک قابل سزا جرم نہیں ہے، اور اسلام میں اس جرم کے ثبوت کے مطالبات اور مقتضیات اتنے سخت ہیں کہ بدکاری کا ارتکاب کرنے والے کو ہی سزا مل سکتی ہے۔ نہ تو قتل کے لیے موت کی سزا مشروع ہے اور نہ ہی عوامی سطح پرکوڑے مارنا مشروع ہے۔ یہ ساتویں صدی سے محض ایک معمول کے طور پر چلا آ رہا ہے۔
شادی، طلاق اور وراثت جیسے ذاتی معاملات میں شرعی قوانین صرف مسلمانوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ شادی کسی دوسرے معاہدے کی ہی طرح صرف ایک سماجی معاہدہ ہے، اور اس سلسلے میں دیگر معاملات پر فریقین باہمی گفتگو کر سکتے ہیں اور کسی ایک صورت پر متفق ہو سکتے ہیں۔ مخصوص شرائط کی عدم موجودگی میں طے شدہ شرائط قرآن کے مطابق ہوں گے۔ وصیت کیے بغیر مرنے والے مسلمان کے ورثاء کے درمیان وراثت کے قوانین میں وراثت کی تقسیم کا طریقہ بھی بیان کر دیا گیا ہے۔ بصورت دیگر ایک مسلمان اپنی خواہش کے مطابق اپنی زندگی میں ہی تمام مال یا اس کے صرف ایک حصہ کے لیے اپنی وصیت چھوڑ سکتا ہے یا اپنی خواہش کے مطابق اپنی جائیداد خود تقسیم کر سکتا ہے۔ ایک مسلمان کے مال کا وہ حصہ جس کی وصیت وہ اپنے پیچھے نہیں چھوڑتا ہے اسے قرآن میں وراثت کے قانون کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔
قرآن میں اخلاقی نگرانی یا دین کے معاملات میں مسلمانوں کو اپنے بچوں کو مجبور کرنے کے لیے بھی کوئی ایسا قانون نہیں ہے۔ قرآن کا بیان ہے کہ نوح کا بیٹا ایک کافر تھا، لوط کی بیوی کافرہ تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ایک کافر تھے (علیہم السلام)، لیکن ان سب کے باوجود قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس سے اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہو کہ ان نبیوں نے ان لوگوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانے کے لیے ان پر کسی بھی طرح کا کو ئی جبر و تشدد کیا تھا۔ بلکہ اس کے بر عکس لوط علیہ السلام نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیا، نوح نے اپنے بیٹے اور ابراہیم نے اپنے والد سے خود کو الگ کرنا بہت مشکل پایا اور ان حق میں اپنی دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا، جبکہ ان کے "کفر" کی تصدیق کر دی گئی تھی اور انبیاء (علیہم السلام) کو اس بات پر مطلع کر دیا گیا تھا کہ وہ ‘‘ایمان’’ نہیں لائیں گے۔
ریاست اور "مذہب" کی علیحدگی ممکن ہی نہیں بلکہ ضروری بھی ہے اور ایسا کرنے میں ناکامی کا نتیجہ مسلمانوں کے روحانی اور دنیاوی دونوں معاملات میں فساد کی صورت میں ظاہر ہو گا جس کی وجہ سے وہ آج کی دنیا میں روحانی طور پر کمزور و ناتواں اور دنیاوی معاملات میں بد ترین صورت حال کا شکار ہوں گے۔
اب اس سوال کا جواب کہ "کیا اسلام سیکولر ہے؟" یہ ہے کہ اسلام بالکل ایک مکمل مذہب ہے لیکن یہ تمام لوگوں کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور ان کے مذہب سے قطع نظر تمام لوگوں کے درمیان دنیاوی معاملات میں مکمل اور مطلق انصاف کی زبردست حمایت کرتا ہے۔ یہ لوگوں پر اسی صورت میں مذہب کا دفاع کرنے کی ذمہ داری عائد کرتا ہے جب کسی نے مذہب کے خلاف "جنگ" کا اعلان کر دیا ہو۔ اس دنیا سے متعلق امور میں مکمل اور مطلق انصاف صرف "مذہبی" امور کو ریاستی امور علیحدہ کر کے ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔
متعلقہ مضامین:
Who is a Muslim in the Quran?
https://www.newageislam.com/islamic-ideology/who-is-a-muslim-in-the-quran?/d/101862
Who is a Kafir in the Quran? (Part 4) Defining Kufr
The Concept of Unity in the Quran While Celebrating Diversity
URL for English article: https://www.newageislam.com/islamic-ideology/is-islam-secular?/d/102003
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/is-islam-secular-/d/102890