نصیر احمد، نیو ایج اسلام
26 فروری 2022
اس مضمون میں بحث کی گئی
ہے کہ اسلام میں ضروری مذہبی معمولات کیا ہیں۔ میں ایک مثال کے ساتھ شروع کرتا ہوں
کہ آدھی ادھوری سچائیوں کی وجہ سے غلط نتائج پر پہنچنے کے نقصانات سے کیسے بچنا
چاہئے ۔ بابری مسجد کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہی لے لیں۔
کیا مسجد اسلام کا جزو
لازم ہے؟
یہ سوال کہ آیا مسجد
اسلام کا ایک جزو لازم ہے، ایودھیا اراضی معاملے میں سامنے آیا تھا اور یہ 1994 کا
ہے جب سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ "مسجد اسلام ایک جزو لازم نہیں ہے اور مسلمان
کہیں بھی نماز ادا کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ کھلے میں بھی۔"
سپریم کورٹ نے جو کہا وہ
سچ ہے لیکن یہ صرف ایک آدھی ادھوری سچائی ہے جو اس مشاہدے پر مبنی ہے کہ مسلمان
کھلے میں نماز ادا کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے
والی جماعتیں قرآن کی متعلقہ آیات کو سپریم کورٹ کے سامنے لانے میں ناکام رہیں جس
سے ایک الگ ہی حقیقت سامنے آتی ہے۔ غور کریں کہ قرآن کریم خدا کے تمام گھروں یا
عبادت گاہوں کی حرمت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔
(22:39) پروانگی (اجازت) عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس
بناء پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔ |40|وہ
جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللہ
ہے اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں
خانقاہیں اور گرجا اور کلیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے،
اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بیشک ضرور
اللہ قدرت والا غالب ہے۔
مذکورہ بالا آیات عبادت
کی جگہ سے نکالے جانے سے بچنے کے لیے لڑنے کی اجازت دیتی ہیں اور کسی بھی عبادت
گاہ کو منہدم ہونے سے بچانے کے لیے بھی لڑنے کی اجازت دی گئی ہے، خواہ وہ خانقاہ
ہو، گرجا گھر ہو، عبادت گاہ ہو، مسجد ہو یا مندر۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ
جب کوئی مسجد نہ ہو تو مسلمان کھلے میں نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن جب مسجد ہو تو نہ
مسلمانوں کو اس سے بے دخل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے گرایا جا سکتا ہے۔ انہیں
حکم دیا گیا ہے کہ وہ مزاحمت کریں تاکہ لوگوں کو ان کی عبادت گاہوں سے نکالنے سے
روکا جا سکے اور انہیں گرانے سے روکا جا سکے۔ مزاحمت کا یہ حکم اس وقت بھی لاگو
ہوتا ہے جب عبادت گاہ ان کی اپنی مسجد نہ ہو بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی عبادت
گاہ ہو۔
اس کے علاوہ درج ذیل آیات
پر بھی غور کریں:
(24:35) اللہ نور ہے آسمانوں اور زمینوں کا، اس کے نور کی مثال
ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے وہ چراغ ایک فانوس میں ہے وہ فانوس گویا ایک
ستارہ ہے موتی سا چمکتا روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ
پچھم کا قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے نور پر نور ہے اللہ
اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے، اور اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے لوگوں کے
لیے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
|36|ان گھروں میں جنہیں بلند کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ان
میں اس کا نام لیا جاتا ہے، اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ان میں صبح اور شام۔
آیت 24:36 میں گھر سے
اللہ کے تمام گھروں مراد ہے خواہ وہ خانقاہ ہو، چرچ ہو، مندر ہو یا مسجد۔ قرآن نے
تمام عبادت گاہوں کو اپنی عبادت کے لیے لازم قرار دیا ہے کیونکہ یہ وہ جگہیں ہیں
جہاں اس کا نام سب سے زیادہ لیا جاتا ہے اور جہاں اس کا نور چمکتا ہے۔ اس لیے مسجد
اسلام کا ایک جزو لازم ہے۔ اس دعوے کو ہٹانے کے لیے عدالت عظمی کے اس کیس کو
نظرثانی کے لیے بھیجا جانا چاہیے تاکہ یہ مستقبل میں دیگر معاملات کے فیصلوں کو
متاثر نہ کر سکے۔
اسلام میں ضروری معمولات
کیا ہیں؟
درج ذیل آیت پر غور کریں:
(2:562) کچھ زبردستی نہیں دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ
گمراہی سے تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے بڑی محکم گرہ
تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں، اور اللہ سنتا جانتا ہے۔
اگر آپ آیت کے پہلے حصے
پر غور کریں، "کچھ زبردستی نہیں دین میں"، تو آپ اس نتیجے پر پہنچ سکتے
ہیں کہ اسلام میں کوئی بھی چیز لازمی عمل نہیں ہے، کیونکہ مذہب کے کسی معاملے میں
کسی شخص پر جبر نہیں کیا جا سکتا! لیکن باریک بینی سے جانچ کرنے پر یہ بات واضح ہو
جاتی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کے کسی معاملے میں کسی شخص پر جبر نہیں کیا
جا سکتا، اور ہر ایک کو یہ آزادی ہے کہ وہ کس بات پر عمل کرے یا نہ کرے۔ تاہم،
قرآن نے صحیح کو غلط سے ممتاز کر دیا ہے، اور جو لوگ صحیح کو کرنے اور غلط کو ترک
کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں وہ کامیاب ہوں گے۔ جو لوگ قرآن کے حکم پر عمل کرتے ہیں اور
جن چیزوں سے قرآن نے منع کیا ان سے اجتناب کرتے ہیں، تو وہ اپنے فائدے کے لیے کرتے
ہیں اور جو لوگ اسلام پر عمل کرنے میں سستی برتتے ہیں وہ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔
چند کلیدی الفاظ کے معانی
جو یہ سمجھنے میں مدد کرتے ہیں کہ کیوں ہر وہ کام کرنا جس کا قرآن حکم دیتا ہے،
اور جس چیز سے منع کرتا ہے اس سے اجتناب کرنا، اسلام میں ایک ضروری عمل ہے۔
مومن: اس کا مطلب ہے قرآن
پر یقین رکھنے والا۔ قرآنی آیات مومنین کو یہ بتاتے ہیں کہ انہیں مسلمان بننے کے
لیے کن چیزوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور کن چیزوں سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں سے خطاب کرنے والی قرآن مجید میں ایک بھی آیت نہیں ہے، کیونکہ تعریف کے
لحاظ سے، مسلمان وہ ہے جو قرآن کے حکم پر عمل کرتا ہے اور جن چیزوں سے قرآن منع
کرتا ہے اس سے پرہیز کرتا ہے۔
مسلمان: مسلمان وہ مومن
ہے جو قرآنی ضابطہ حیات پر عمل کرتا ہے۔ مسلمان ایک باعمل مومن ہے۔ بے عمل مسلمان
نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ "نان پریکٹسنگ مسلمان" ایک باہم متضاد لفظ ہے۔
تاہم آپ ایک بے عمل مومن ہونا ممکن ہے۔
تقویٰ: تقوی شعاری۔ ہر
کام کو بہترین طریقے سے کرنے یا ہر لحاظ سے عاقبت اندیش رہنا تقوی ہے۔ قرآن مجید
میں اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے اس کے تناظر میں، جس چیز کا حکم دیا گیا
ہے اس کو بہترین طریقے سے انجام دینا اور جس چیز سے منع کیا گیا ہے اس سے سختی سے
پرہیز کرنا تقویٰ ہے۔ کوئی شخص سراسر تجسس سے، اللہ کے خوف/تعظیم/محبت سے، فضیلت
کی خواہش سے، تقویٰ حاصل کرنے یا اللہ کا قرب حاصل کرنے کے مقصد سے تقوی شعار بن
سکتا ہے۔
مزید تفصیلی وضاحت کے لیے
پڑھیں "تقویٰ کا کیا مطلب ہے؟"
متقی: متقی وہ شخص ہوتا
ہے، جو عاقبت اندیش ہوتا ہے، اور وہ جو کچھ بھی کرتا ہے، بہترین طریقے سے یا تقویٰ
کے ساتھ کرتا ہے۔
(2:2) وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں، اس میں ہدایت
ہے ڈر والوں کو ۔
ہدایت کی ضمانت قرآن کے
ہر قاری کے لیے نہیں بلکہ صرف متقین (متقی کی جمع) کے لیے ہے۔ متقین قرآن کیسے
پڑھتے ہیں؟ عاقبت اندیشی کے ساتھ۔ یہ بہترین طریقے سے پڑھنا/سننا ہے جس کا مطلب ہے
عاجزی اور قبول کرنے والے ذہن کے ساتھ ہر لفظ اور اس کے ہر معنی پر پوری توجہ
دینا۔ قرآن خواہ پڑھنے والا کافر ہو لیکن متقی کی طرح پڑھے تو پڑھنے سے ہدایت حاصل
ہو جائے گی اور پڑھنے والا مومن ہو جائے گا۔
ہدایت صرف متقین کے لیے
ہی نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی یا جنت کا حصول بھی صرف متقین کے لیے ہے۔
(15:45) بیشک متقین باغوں اور چشموں میں ہیں (46) (ان کا سلام ہو
گا) ان میں داخل ہو سلامتی کے ساتھ امان میں‘‘۔
جنت کا وعدہ مومن یا
مسلمان سے نہیں ہے بلکہ صرف متقین سے ہے اور کوئی بھی اس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا
جب تک قرآن کے ہر حکم پر عمل نہ کر لے اور قرآن نے جن باتوں سے منع کیا ہے ان سے
ہر ممکن طریقے سے اجتناب نہ کرے۔ آیت 3:133، 5:27، 7:128، 11:49، 16:30، 19:85،
26:90، 28:83، 38:49، 43:35، 44:51، 50:31، 51:15، 52:17، 54:54، 68:34، 77:41،
78:31۔ بھی دیکھیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جنت صرف متقین کے لیے ہے۔
(نوٹ: متقین ضروری نہیں کہ صرف مسلمان ہوں بلکہ وہ کسی بھی مذہب کا
فرد ہو سکتا ہے۔ اسے اپنی ذات کے ساتھ ایماندار ہونا چاہیے اور اپنے بہترین علم کے
مطابق جس چیز پر وہ واقعی ایمان رکھتا ہے اس پر ایمانداری سے عمل کرنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا بھی ذکر ہے۔)
جو کوئی بھی دنیاوی مال و
متاع کے لیے اپنے دین سے سمجھوتہ کرتا ہے، وہ آخرت میں یقیناً خسارے میں ہوگا۔
(3:76) ہاں کیوں نہیں جس نے اپنا عہد پورا کیا اور پرہیزگاری کی
اور بیشک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں۔
|77|جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے ذلیل دام لیتے ہیں آخرت
میں ان کا کچھ حصہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے نہ ان کی طرف نظر فرمائے قیامت
کے دن اور نہ انہیں پاک کرے، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
(3:115) اور وہ جو بھلائی کریں ان کا حق نہ مارا جائے گا اور اللہ
کو معلوم ہیں ڈر والے۔
|116|وہ جو کافر ہوئے ان کے مال اور اولاد ان کو اللہ سے کچھ نہ
بچالیں گے اور وہ جہنمی ہیں ان کو ہمیشہ اس میں رہنا۔
|117|کہاوت اس کی جو اس دنیا میں زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس ہوا کی
سی ہے جس میں پالا ہو وہ ایک ایسی قوم کی کھیتی پر پڑی جو اپنا ہی برا کرتے تھے تو
اسے بالکل مارگئی اور اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے
ہیں۔
خلاصہ: اسلام میں ایک
ضروری عمل کیا ہے۔
صرف متقین یا باضمیر
مسلمان جو اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل کرتے ہیں اور ان تمام چیزوں سے پرہیز
کرتے ہیں جن سے اس نے منع کیا ہے، آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ ہر وہ چیز جس کا قرآن
حکم دیتا ہے اور یا جس سے منع کرتا ہے وہ اسلام میں ضروری عمل ہے۔ کوئی بھی اسلامی
طرز عمل ملکی مفاد کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔ جو لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ "پہلے
کیا ہے، ملک یا مذہب؟"، وہ غلط سوال کرتے ہیں۔ کسی ایک کو منتخب کرنے کا سوال
درست ہی نہیں ہے۔ کوئی انسان متقی یا اپنے مذہب کا مخلص پیروکار اور دیش بھکت دونوں
ہو سکتا ہے۔
کیا قرآن میں حجاب کا حکم
ہے؟
اس متعلق آیات قرآنیہ ذیل
میں پیش کی گئی ہیں اور ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ آیت کا وہ حصہ جس میں مسلم خواتین
کے لیے سر ڈھانپنے کا حکم ہے وہ آیت 24:31 ہے۔
وَلْيَضْرِبْنَ
بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ
اس کا مطلب ہے: اپنی زینت
کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہو اور وہ اپنے دوپٹے کو اپنے سینوں پر ڈال
دیں۔
لباس کے ایک حصے کے طور
پر لفظ خمر قرآن میں صرف ایک بار استعمال ہوا ہے۔ ایڈورڈ ولیم لین کی عربی-انگریزی
لغت کے مطابق خمارہ، "عورت کا مفلر، یا پردہ ہے، جس سے وہ اپنے سر اور چہرے
کے نچلے حصے کو ڈھانپتی ہے، جس سے صرف آنکھیں اور کچھ حصہ یا ناک کا پورا حصہ ظاہر
ہوتا ہے: آج کے دور میں پہنا جانے والا خمارہ ایسا ہے۔
قرآن میں جو لفظ استعمال
ہوا ہے وہ خمارہ نہیں ہے بلکہ خموری ہے جس کا مطلب ہے سر ڈھانپنے والا کپڑا ہے اور
لین کی لغت کے مطابق اس کا مطلب مرد کی پگڑی بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا قرآن میں جو
لفظ استعمال ہوا ہے اس کا مطلب یقیناً سر ڈھانپنے والا کپڑا ہے لیکن ضروری نہیں کہ
اس سے وہی مراد ہو جو آج کل خمارہ کے نام سے مشہور ہے۔ آیت 24:31 کے مطابق عورت کے
سر ڈھانپنے والے کپڑے یا خموری کا صرف سر ہی نہیں بلکہ جُوبِهِنَّ یا سینہ کو بھی
ڈھانپنے والا ہونا ضروری ہے۔ خموری بلاشبہ سر ڈھانپنے والا کپڑا ہے۔ یہ آیت مسلمان
عورتوں پر واجب ہے۔ یہاں صوابدید کا کوئی عنصر نہیں ہے۔
ہم اس جملے سے اچھی طرح
واقف ہیں کہ "عورت کے بال اس کا تاج ہیں" اور شاعری میں عورت کے بال/زلف
پر بے شمار اشعار ہیں۔ لہٰذا، خموری کا اتنا لمبا ہونا ضروری ہے جو سر کے علاوہ
سینہ بھی ڈھانپنے کے لیے کافی ہو، زینت کو چھپانے کی ضرورت سے سر ڈھانپنے کی ضرورت
کو بھی دوگنی تقویت ملتی ہے۔
آئیے اب اس بات پر غور
کریں کہ کیا حجاب ایک ضروری اسلامی عمل ہے؟
برقع، نقاب یا مکمل پردے
کے بارے میں کیا خیال ہے؟
حجاب کا لفظ قرآن مجید
میں متعدد آیات میں استعمال ہوا ہے جس سے مراد ایک ایسا پردہ ہے جو اس چیز کو مکمل
طور پر چھپا دیتا ہے جس کی پردہ پوشی مطلوب ہے۔ عورتوں کے حوالے سے، یہ آیت 33:53
میں صرف ایک بار استعمال ہوا ہے۔
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ
مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ
ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِ
اور جب تم (پیغمبر کی
ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور ان کے
دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔
یہ صرف نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی ازواج مطہرات کے لیے ہی کیوں استعمال ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر
اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک عوامی شخصیت تھے اور بہت سے لوگ اپنے شکوک و شبہات
کو دور کرنے اور مسائل پر ان سے مشورہ کرنے کے لئے ان کے گھر جاتے تھے۔ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم ہمیشہ گھر پر نہیں ہوتے تھے اس لیے آپ کی ازواج کو اجنبیوں کا
سامنا کرنا ضروری ہو جاتا تھا۔ لہذا، قرآن ایسی صورت حال میں حجاب کیوں تجویز کر
رہا ہے اور یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ حجاب آپ کے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ
پاکیزگی کا باعث ہے؟ یہ انسانی فطرت کی وجہ سے ہے۔" مرد اور عورت دونوں دونوں
سے ایک خاص انداز میں یکسانیت اور ایک خاص انداز میں تنوع کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ مرد اور خواتین ہمیشہ قلیل مدتی حکمت عملیوں کا انتخاب کرتے
ہیں، ہم جس کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جب وہ بے وفائی یا بدکاری کی
طرف مائل ہوتے ہیں تو مرد بڑی تعداد پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور خواتین معیار پر
توجہ مرکوز کرتی ہیں۔" (David P. Schmitt, PhD,
Bradley University, International Sexuality Description Project کے ٹیم لیڈر۔
پراجیکٹ کے نتائج جولائی 2003 کے جرنل آف پرسنالٹی اینڈ سوشل سائیکالوجی کے شمارے
میں شائع کیے گئے)
ایک عام انسان کو وہ
مسائل درپیش نہیں ہوتے جو کسی عوامی شخصیت کو درپیش ہوتے ہیں۔ تشبیہ کے لحاظ سے،
یہ آیت ایسے دوسرے لوگوں پر بھی یکساں طور پر لاگو ہوگی جو عوامی شخصیات ہیں اور
جن کی خواتین کو اجنبیوں کے ساتھ مستقل بنیادوں پر بات چیت کرنا ضروری ہوتا ہے۔
لہٰذا، اگر کوئی عورت عوامی مقامات میں نکلتے وقت اپنے خود کو مکمل طور پر ڈھانپنے
کا فیصلہ کرتی ہے، تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے اور اس آیت کی روح کے مطابق ہے۔ اس بات
سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مکمل حجاب والی عورت ان حالات میں خود کو زیادہ محفوظ
محسوس کرتی ہے جب وہ بہت سے اجنبی مردوں کے سامنے آتی ہے؟ مکمل حجاب صوابدید اور
اختیار کا معاملہ ہے۔ اسے لازمی نہیں بنایا جا سکتا اور اسے مکمل طور پر عورت کی
پسند پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ ایسی حالتیں پیش آتی ہیں جن میں عورت پورے جسم کے
حجاب میں زیادہ آرام محسوس کرتی ہے اور ایسے حالات بھی پیش آتے ہیں جب وہ صرف
خموری میں ہی آرام محسوس کرتی ہیں۔
24:31 آیت کے مطابق ایک مسلمان عورت کے لیے سر کا پردہ اتنا بڑا
ہونا ضروری ہے جو سینے کو ڈھانپ سکے۔ تاہم آیت 2:256 کے مطابق دین میں کوئی جبر
نہیں ہے۔ ایک مومنہ باعمل بھی ہو سکتی ہے اور بے عمل بھی ہو سکتی ہے، لیکن جو مومن
عورت متقی یا باضمیر مسلمان بننا چاہتی ہے، اس کے لیے یہ ایک لازمی اور ضروری عمل
ہے۔
English
Article: Essential Religious Practices in Islam
Malayalam
Article: Essential Religious Practices in Islam ഇസ്ലാമിലെ
അനിവാര്യമായ മതപരമായ ആചാരങ്ങൾ
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism