نصیر احمد، نیو ایج اسلام
16 مئی 2022
ہر نبی اللہ کی واضح
نشانیاں لے کر آئے تھے تاکہ لوگوں کو اپنی صداقت پر قائل کر سکیں
اہم نکات:
1. جن لوگوں نے نبی کو اور مومنوں کو مٹانے کی کوشش کی خدا نے
انہیں تباہ کر دیا
2. اپنی مرضی اور پورے جوش و جذبے کے ساتھ اخلاقی تعلیمات کی پیروی
کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو یہ سوجھ بوجھ ہو کہ کیوں اس پر عمل کرنا بہتر ہے
3. اہل ایمان اور نبیوں نے کبھی بھی سب کچھ نہیں سمجھا اسی وجہ سے
نبیوں کو بھی دعا کرنے کا حکم دیا گیا تھا
-----
کیا اللہ اندھی عقیدت کا
مطالبہ کرتا ہے؟ دین کی تاریخ میں اللہ نے کبھی اندھی عقیدت کا مطالبہ نہیں کیا۔
ہر نبی اللہ کی واضح نشانیاں لے کر آئے تھے تاکہ لوگوں کو اپنی صداقت پر قائل کر
سکیں۔ ہم نوح، ابراہیم، لوط، موسی، عیسی وغیرہ (علیہم السلام) جیسے ان نبیوں کی
کہانیاں جانتے ہیں.
صریح اور واضح علامات کے
باوجود ہر انسان نے ایمان قبول نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت کم لوگ ایمان
لائے۔ لہٰذا، نوح، لوط، صالح، ہود، اور شعیب جیسے انبیاء کی قوموں کی مثالیں ہمارے
سامنے ہیں جنہیں دعوت ایمان مسترد کرنے کی وجہ سے خدا کے عذاب نے تباہ کر دیا۔
موسی کے زمانے میں فرعون اور اس کی فوج جو موسی اور ان کی قوم کے پیچھے انہیں قتل
کرنے کے لیے دوڑی تھی وہ سب دریائے نیل میں غرق ہو کر تباہ و برباد ہو گئے۔ انبیاء
کی تاریخ کے مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف ان لوگوں کو عذاب الٰہی نے
تباہ و برباد کیا جنہوں نے نبی اور اہل ایمان کو ختم کرنے کی کوشش کی یا عذاب کی
دھمکیوں کا مذاق اڑایا۔ کئی دوسرے انبیاء کی کہانیوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جن
لوگوں نے صرف دعوت ایمان کو مسترد کیا وہ تباہ نہیں کیے گئے۔ کیونکہ ان کا مسترد
کرنا غرور اور تشدد پر مبنی نہیں تھا، اور نہ ہی انہوں نے یہ طنز کیا اور چیلنج
کیا کہ اگر نبی سچ بول رہیں تو عذاب نازل ہو جائے۔ ان کا انکار معتدل تھا اور اس
طرح کے لوگوں کی اس زمین پر نہ تو گرفت ہوئی اور نہ ہی ان پر عذاب الٰہی نازل ہوا۔
لہٰذا اللہ کی وحدانیت پر
وہی واضح اور بے نظر نشانیاں، ایمان کی ابتدائی بنیاد بنیں۔ اس کے بعد مومنوں کو
حکم دیا گیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر مکمل ایمان لائیں۔ یہ اس لیے ضروری تھا
کہ اللہ کا دین یا اخلاقی طرز زندگی خلاف توقع اور لوگوں کی سمجھ سے باہر تھی۔
اپنی مرضی اور پورے جوش و جذبے کے ساتھ اخلاقی تعلیمات کی پیروی کرنے کے لیے ضروری
ہے کہ لوگوں کو یہ سوجھ بوجھ ہو کہ کیوں اس پر عمل کرنا بہتر ہے۔ اور یہ سوجھ بوجھ
ایک مذہبی فریضہ کی شکل میں ضابطہ اخلاق پر ہزاروں سال تک عمل کرنے کے بعد ہی پیدا
ہوئی۔
لہذا، بائبل میں ہے،
پروورب 9:10، "خداوند
کا خوف حکمت کا آغاز ہے: اور واحد قدوس کا علم سمجھ ہے۔"
زبور 111:10
خداوند کا خوف حکمت کا
آغاز ہے۔ وہ تمام لوگ جو اُس کے احکام کی پیروی کرتے ہیں وہ بھرپور سمجھ حاصل کرتے
ہیں۔
تاہم، اگر چہ "خداوند
کا خوف علم کی ابتدا ہے، لیکن احمق حکمت اور نظم و ضبط کو حقیر جانتے ہیں۔"
(1:7)
ان احکام کے پس پردہ حکمت
کو سمجھنے کے لیے پہلے ان احکام پر عمل کرنا ضروری تھا۔ لیکن، مسئلہ یہ ہے کہ
لوگوں کو کسی ایسی چیز پر عمل کرنے کے لیے کیسے آمادہ جا سکتا ہے جب وہ اس عمل کے
پیچھے کی حکمت سے ہی ناواقف نہ ہوں؟ قانون دینے والے کے خوف سے۔ اس لیے رب کا خوف
ہی حکمت اور خدا کی صفات کے علم کے حصول کے عمل کا آغاز تھا۔
ہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہر
وہ رسول جس پر شریعت نازل ہوئی، وہ ایک حاکم بھی تھا، جو قانون وضع کر سکتا تھا،
ساتھ ہی اس بات کو یقینی بناتا تھا کہ اس دنیا میں عذاب کے خوف سے اس کی اطاعت کی
جائے، جو خطاؤں پر نازل ہوتی تھی۔
نزول قرآن کی صورتحال
ہزاروں سال تک اللہ کے دین
پر عمل کرنے کے بعد، اخلاقی اصولوں نے ایک مہذب معاشرے کی بنیاد ڈالی۔ ہر ایک اصول
کے پیچھے موجود حکمت پر فلسفیوں نے تبادلہ خیال کیا اور ان قوانین پر سوال اٹھانے
والا کوئی نہیں تھا، لہٰذا یہ ملکی قانون بن چکے تھے۔ مومنوں نے اپنے مذہبی عقائد
کی بنیاد پر اس قانون کی پیروی کی اور کافروں نے ملکی قانون کی خلاف ورزی کے نتائج
کے خوف سے اور معاشرے میں بدنامی کے خوف سے ان قوانین پر عمل کیا۔ اس صورت حال میں
کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور آج تک جاری ہے۔
لہٰذا، اب خدا کا خوف
دلانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اب ان قوانین کا بہتر عملی احساس پیدا ہو چکا ہے۔
اس وجہ سے آپ قرآن میں مندرجہ بالا جیسی کوئی چیز نہیں پا سکتے۔ بلکہ قرآن مزید
ایک قدم آگے بڑھ کر یہ اعلان کرتا
(2:562) کچھ زبردستی نہیں
دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ
پر ایمان لائے اس نے بڑی محکم گرہ تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں، اور اللہ سنتا جانتا
ہے۔
مندرجہ بالا فرمان کو مذہب
کو نظرانداز کرنے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اللہ کے دین سے انحراف کرنے
والوں کو آخرت میں اس کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ تاہم، اس دنیا میں اب جبر کی
کوئی وجہ نہیں بچی کیونکہ 'اب حق باطل سے ممتاز ہو چکا ہے'۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات
واضح ہو جانی چاہیے کہ کیوں ایمان بالغیب ضروری تھا، تاکہ اس کی بھی پیروی کی جائے
جو سمجھ سے باہر ہے، لیکن اس طرح کا بھی ایمان اللہ کی طرف سے اس زمانے کے مطابق،
کسی واضح نشانی بغیر مطلوب نہیں تھا، تاکہ لوگ مطمئن ہو سکیں کہ ہم جس ہستی پر
ایمان رکھ رہے ہیں وہ اس کے لائق ہے۔
یہی صورت حال اب تک باقی
ہے۔ آج بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو قرآن کی ہر آیت کے پیچھے کی حکمت نہیں سمجھ
سکتے۔ اہل ایمان اور نبیوں نے کبھی بھی سب کچھ نہیں سمجھا اسی وجہ سے نبیوں کو بھی
یہ دعا کرنے کا حکم دیا گیا تھا:
20:114 "اے میرے رب!
مجھے علم زیادہ دے۔"
مذہب کے ماننے والے ان
باتوں کو سمجھنے میں اللہ کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو باتیں ابتدائی طور
پر سمجھ سے پرے ہیں، اس امید پر کہ ہمیں جواب ضرور ملے گا، بشرطیکہ دوسرے تمام
ذرائع سے حاصل ماقبل کے تمام تصورات کو ترک کریں اور قرآن پر اور اللہ کی ہدایت پر
مکمل یقین رکھیں۔ یہ ان آیات کے لیے ہے جنہیں وہ پریشان کن پاتے ہیں، ان آیات کے
لیے نہیں جن کے متعلق ان کی تفہیم کی کمی ان کا ایمان نہیں ہلاتی۔ قرآن میں بہت سی
آیات ایسی ہیں جن میں ہمارے زمانے کے لیے نشانیاں ہیں ان کے لیے نہیں جن کا زمانہ
گزر چکا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت وہ نشانیاں نبی اور امت کی سمجھ سے باہر ہوں
یہاں تک کہ ان کی حقانیت سائنسی دریافتوں کی روشنی میں اب واضح ہو چکی، مثلا،
کائنات کی تخلیق اور اس کی پرورش سے متعلق آیتیں۔
یہ آیات اس بات کا پختہ
ثبوت ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس کتاب پر ایمان لانے کی ایک مضبوط بنیاد
ہے۔ یہ آیات اس لیے بھی ثبوت ہیں کہ قرآن اب تک فرسودہ نہیں ہوا کیونکہ یہ 1400
سال پہلے نازل ہوا تھا۔ واضح طور پر یہ کتاب زمانے کی بندشوں سے بے نیاز ہے،
کیونکہ اس میں ایسی آیتیں ہیں جنہیں ہم صرف آج ہی سمجھ سکتے ہیں جن کو سمجھنے کے
لئے ضروری سائنسی علوم کے حصول میں ہمیں 1400 سال کا عرصہ لگ گیا۔
شک کا علاج
جہاں تک ان آیات کا تعلق ہے جو قارئین کے لیے پریشان کن
ہیں، تو صبر اور تحمل کے ساتھ ان کی تفہیم حاصل کرنے میں اللہ سے مدد مانگنا
چاہیے، اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو ضرور اسے ایسا جواب ملے گا جو اس کے لیے
اطمینان بخش ہوگا۔
ذہن و دماغ کی ایسی بعض
خصوصیات ہیں جو لوگوں کو اس طرح ایمان لانے پر آمادہ کرتی ہیں اور کردار کی ایسی
خامیاں ہیں جو ایسے ایمان کی راہ میں روکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ لیکن آیت 2:2 کے
مطابق ہدایت تقوی والوں کے لیے ہے اور اس تناظر میں تقوی صبر کے ساتھ مستقل مزاجی
اور نیک نیتی سے اس کا جواب تلاش کرنے میں مکمل طور پر اللہ کی مدد کی امید کرنا ہے۔
(47:17) اور جنہوں نے راہ
پائی اللہ نے ان کی ہدایت اور زیادہ فرمائی اور ان کی (برائی سے) پرہیزگاری انہیں
عطا فرمائی۔
اور جن کے کردار میں
خامیاں ہیں ان کا شک اس وقت تک دور نہیں ہو سکتا جب تک وہ ان خامیوں کی شناخت کر
کے انہیں دور کرنے کی کوشش نہ کریں اور اللہ سے مدد کی دعا نہ کریں۔ تھامس جیسے شک
کرنے والے جو مومنوں سے بحث و مباحثہ کرنے
میں خوشی و مسرت محسوس کرتے ہیں اور ان کے دل میں بھی شک پیدا کرنے کی کوشش کرتے
ہیں وہ کبھی ہدایت کے راستے پر نہیں آ سکتے۔ اس طرح کے لوگوں کے بارے میں ہے اللہ
تعالی کا فرمان ہے کہ:
(2:10) ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری اور
بڑھائی اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بدلا ان کے جھوٹ کا۔
اہل ایمان اور کافروں پر
آیات کا اثر
(9:124) اور جب کوئی سورت اترتی ہے تو ان میں کوئی کہنے لگتا ہے کہ
اس نے تم میں کس کے ایمان کو ترقی دی تو وہ جو ایمان والے ہیں ان کے ایمان کو ترقی
دی اور وہ خوشیاں منارہے ہیں،
125 اور جن کے دلوں میں آزار ہے انہیں اور پلیدی پر پلیدی بڑھائی
اور وہ کفر ہی پر مر گئے،
126 کیا انہیں نہیں سوجھتا ک ہ ہر سال ایک یا دو بار آزمائے جاتے
ہیں پھر نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت مانتے ہیں،
127 اور جب کوئی سورت اترتی ہے ان میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگتا ہے
کہ کوئی تمہیں دیکھتا تو نہیں پھر پلٹ جاتے ہیں اللہ نے ان کے دل پلٹ دیئے ہیں کہ
وہ ناسمجھ لوگ ہیں،
128 بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا
مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال
مہربان مہربان،
129 پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرمادو کہ مجھے اللہ کافی ہے اس
کے سوا کسی کی بندگی نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے
-----
English Article: Blind Faith? Never In The History Of Religion Has
Allah Ever Demanded Blind Faith
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism