نصیر احمد، نیو ایج اسلام
17 اکتوبر 2015
احادیث کی مدد سے ہم اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ کیا جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوگی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال حقائق اور آپ کی رائے دونوں پر مشتمل ہیں۔ جہاں تک رائے کا تعلق ہے تو انہوں نے اس بات کو واضح کر دیا تھا کہ آپ انسان ہی تھے اور آپ سے غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا، اب ہم حقیقت یا رائے کے طور پر ہر حدیث کی درجہ بندی کرتے ہیں۔
حقیقت یا رائے؟
"ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلم بن زریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابورجاء نے بیان کیا اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو جنتیوں میں زیادتی غریبوں کی نظر آئی اور میں نے دوزخ میں جھانک کر دیکھا تو دوزخیوں میں کثرت عورتوں کی نظر آئی۔"
(بخاری، 3241، مسلم، 2737)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مشاہدہ فرمایا اسے حقیقت کے خانے میں رکھا جانا چاہئے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ انہوں نے قیامت کے دن سے پہلے کسی کو جہنم یا جنت میں کس طرح دیکھا؟ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دکھا دیا گیا تھا کہ قیامت کے دن کے بعد کیا ہو گا۔
حقیقت 1: جہنم میں خواتین کی اکثریت۔
اب ہم یہ دریافت کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ اس کی توجیہ کے حوالے سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا جس پر آپ نے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہما) نے روایت کی روایت کی کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: "میں نے جنت دیکھی اور اس کا یک خوشہ توڑنا چاہا تھا اگر میں اسے توڑ سکتا تو تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے اور مجھے جہنم بھی دکھائی گئی میں نے اس سے زیادہ بھیانک اور خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے دیکھا اس میں عورتیں زیادہ ہیں۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے کفر (انکار) کی وجہ سے، پوچھا گیا۔ کیا اللہ تعالیٰ کا کفر (انکار) کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شوہر کا اور احسان کا کفر کرتی ہیں۔ زندگی بھر تم کسی عورت کے ساتھ حسن سلوک کرو لیکن کبھی اگر کوئی خلاف مزاج بات آ گئی تو فوراً یہی کہے گی کہ میں نے تم سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔" (بخاری، 1052)
وجہ 1: اس لیے کہ وہ اپنے شوہروں کی شکر گزار نہیں ہیں۔ (رائے ہے اور حقیقت نہیں)
وجہ 1 واضح طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے ہے۔ اگر یہ حقیقت ہوتی تو قرآن مجید میں اس سے متعلق کوئی آیت ضرور ہوتی، جبکہ ہم قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں پاتے۔
‘ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے زید نے اور یہ زید اسلم کے بیٹے ہیں، انہوں نے عیاض بن عبداللہ سے، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ایسا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کی کہ ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا، جی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے، عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔’
(بخاری، 304)
وجہ 2: عورتیں ناقص العقل ہیں اس لیے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے
وجہ 2 کو ایک کمزور رائے قرا دیا جانا چاہیے کیونکہ یہ قرآن کے مطابق نہیں ہے، اس لیے کہ قرآن محض دو عورتوں کی مشترکہ گواہی کو ایک واحد گواہ کی حیثیت سے دینے کی اجازت دیتا ہے۔ انہیں الگ الگ دو شہادتیں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک رعایت ہے کوئی قانونی ضرورت نہیں۔ اگر ہم اس حدیث کو صحیح مان لیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح طریقے سے قرآن کی آیت کو نہیں سمجھا ہے۔ اور یہ ایک احمقانہ بات ہے اور اس وجہ سے ہمیں اس حدیث کوموضوع قرار دینا ہوگا۔ اس موضوع پر میرا یہ مضمون ملاحظہ فرمائیں:
کیا ایک عورت کی ایک گواہی ایک مرد کے مقابلے میں نصف ہے؟
وجہ 3: خواتین ناقص فی الدین بھی ہیں اس لیے کہ وہ حیض کے دوران نہ تو نماز ادا کر سکتی ہیں اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہیں
اگر وجہ 3 محض نقص ہے تو یہ خالق کی جانب سے ہے (نعوذ باللہ من ذالک) نہ کہ عورتوں کی جانب سے۔ وجہ 3 کو ایک من گھڑت حدیث اور صریح جھوٹ اور زیادہ بہتر ہو گا کہ سراسر بکواس قرار دیکر اسے مسترد کر دیا جانا چاہئے۔
متضاد حدیث
ایک مرتبہ کچھ لوگ اس بات پر گفتگو کر رہے تھے کہ جنت میں زیادہ عورتیں ہوں گی یا زیادہ مرد ہوں گے۔ اس پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ابوالقاسم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ ‘‘جنت میں داخل ہونے والے ہر شخص کے ساتھ دو (دنیاوی) بیویاں ہوں گی، اور ان کے ٹانگوں کا مغز گوشت کے نیچے چمکتا ہوگا، اور جنت میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہو گا جس کے پاس ایک بیوی نہ ہو۔ (صحیح مسلم)
حافظ بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ 'سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کا استعمال کیا کرتے تھے کہ جنت میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی کثرت ہوگی۔' (فتح الباری، صفحہ 400۔ جلد6)
اب ان دو حدیثوں کے درمیان ایک واضح تضاد ظاہر ہوتا ہے جن کے درمیان مندرجہ ذیل طریقوں سے مطابقت پیدا کی جاتی ہے:
1۔ شروع میں خواتین جہنم میں زیادہ اور جنت میں کم ہوں گی۔ اس کے بعد، جب وہ اپنے گناہوں سے پاک ہو جائیں گی، یا ان کی جانب سے شفاعت قبول کر لی جائے گی، تو وہ جنت میں داخل ہو جائیں گی، اور وہ وہاں تعداد میں مردوں سے زیادہ ہو جائیں گی۔ (فتح الباری، صفحہ۔401 ، جلد 6)
لیکن مردوں کو بھی کیوں نہیں گناہوں سے پاک کر کے جنت میں داخل کیا جائے گا؟ یہ ایک نامعقول وضاحت ہے۔
2۔ احادیث میں وہ وقت مراد لی جائے گی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی طور پر جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کیا تھا۔ ان احادیث میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں اسی طرح رہیں گی۔ (فیض الباری۔ صفحہ244 ۔ جلد 4)
پھر بھی، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک قلیل تعداد میں موجود جنت میں عورتوں کی تعداد اب مردوں کے مقابلے دوگنی ہو جائے؟
یہ ممکن ہے کہ یہ ایک حقیقت ہو کہ مردوں کے مقابلے میں جہنم میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو۔ اس کے لئے، خواتین کو نافرمان، ناشکر اور دین اور عقل میں ناقص قرار دیکر ان کی تذلیل کیے بغیر ایک سادہ توضیح ہے! یہ حدیث اور یہ توضیح اللہ، قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین ہے۔
اعداد و شمار کی رو سے اس کی توضیح:
پوری دنیا کو دیکھتے ہوئے، ہر 100 عورتوں پر 107 مرد پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن نسبتا مرد بچوں کی زیادہ شرح اموات کی وجہ سے 15 سال کی عمل تک یہ تناسب 105 مرد بمقابلہ 100 عورت تک پہنچ جاتا ہے۔ چونکہ بچے جنت میں جاتے ہیں اور مرد بچوں کی شرح اموات عورتوں کی شرح اموات کے مقابلے میں 47 فیصد زیادہ ہے، (مجموعی طور پر شرح اموات = 5.7 ہے)، جس کے مطابق جنت میں ہر 100 خواتین بچوں کے مقابلے میں 147 مرد بچے ہوں گے۔
جہاں تک بالغ مردوں کی بات ہے تو جنگوں میں زیادہ تر مرد ہی ہلاک ہوتے ہیں۔ ایک جنگ میں دو فریق ہوتے ہیں۔ ایک فریق انصاف کی جانب ہوتا ہے اور دوسرا فریق ظلم کی جانب ہوتا ہے۔ لہٰذا جنگ میں ہلاک ہونے والے تقریبا 50 فیصد افراد جنت میں داخل ہو جاتے ہیں اور 50 فیصد جہنم میں۔ اگر جنگ کا معاملہ نہیں ہوتا تو قدرتی موت مرنے والے انہیں مردوں میں سے 10 فیصد سے زیادہ لوگ جنت میں داخل نہیں ہو پاتے۔ لہٰذا، جنگ نے نمایاں طور پر جنتی مردوں کے تناسب میں ایک تفاوت پیدا کر دیا ہے۔
اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر شخص یا تو جنت میں جائے گا یا جہنم میں جائے گا۔ چونکہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے، تمام چیزوں کے برابر ہونے کی وجہ سے ہمیں اس بات کی امید کرنی چاہئے کہ جنت اور جہنم دونوں میں مردوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ تاہم، مذکورہ بالا عوامل سے ان کی تعداد میں تفاوت پیدا ہوتا ہے، جس میں جہنم میں جانے والے مردوں کی تعداد میں یا تو جنگ یا مرد بچوں کی موت میں اضافہ کی وجہ سے نمایاں کمی ثابت ہوتی ہے۔
کیا خدا مردوں کی طرفداری کر کے انصاف پر ہے؟
اعداد و شمار پر مبنی توضیح کو بھی مسترد کر دیا جانا چاہئے، اس لیے کہ پھر اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا "خدا ایک مخصوص جنس کی حمایت کر کے ظلم پر ہے"۔
خدا نے عورتوں کو ممتا کی دولت سے نوازا ہے جس کے تعلق سے قرآن کا فرمان ہے۔"........... جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے۔" (31:14)
"............. قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)................" (4:1)
اپنی اولاد کی پرورش میں ایک ماں کا اہم کردار ادا ہوتاہے اور اگر بچے نیک ہوتے ہوں تو اس کا اجر بہت عظیم ہے۔
اس موضوع پر احادیث حقائق اور رائے کی حیثیت سے انتہائی کمزور ظاہر ہوتی ہیں، لہٰذا، انہیں ناقابل اعتماد افواہ قرار دیکر مسترد کر دیا جانا چاہئے۔
یہ بات واضح ہے کہ مرد دنیا و آخرت دونوں میں بہترین زندگی چاہتے ہیں اور اسی کے مطابق انہوں نے احادیث گھڑ لی ہیں۔ سب سے پہلے انہیں ایسی خواتین کی ضرورت تھی جو ان کی اطاعت کرتی ہیں اور ان کی شکر گزار ہیں۔ اور انہوں نے یہ کہہ کر اسے حاصل کیا کہ جہنم میں اکثریت خواتین کی ہوگی اس لیے کہ وہ اپنے شوہروں کی ناشکری اور نافرمانی کرتی ہیں۔ اور انہوں نے یہ کہہ کر اپنے مقام اور اپنی اہمیت کو برقرار بھی رکھا کہ عورتیں عقل اور مذہب دونوں میں ناقص ہیں۔ ان کی زندگی میں خواتین کو اپنا تابع بنانا ان کے لیے کافی نہیں ہوا۔ اسی لیے انہوں نے ہر مرد کے ساتھ جنت میں دو بیوں کا قول کر دیا، جب کہ ہر مرد کے لیے نصف عورت بھی نہیں ہے! اپنی بیویوں کو تابع بنا کر اور اپنے مفادات کو پورا کر کے مردوں نے دین اسلام میں تحریف کر دی ہے۔ احادیث مقدس ہونے کے علاوہ سب کچھ ہیں۔ زیادہ تر احادیث مردوں کی طرف سے بیان کیے گئے غیر حقیقی جھوٹ کا ایک مجموعہ ہیں، جنہیں اس مجموعہ کو مرتب کرنے سے دو صدی پہلے بیان کی گئی اور ان کی روایت کی گئی۔ یہ پورا مجموعہ ناقابل اعتماد ہے اسی لیے اسے مسترد کر دیا جانا چاہیے۔
احادیث کا نقصان کثیر جہتی ہے۔ چونکہ احادیث تضادات سے بھرے اور کبھی کبھی بالکل بکواس پر مشتمل ہیں ، اسی لیے ایک مسلمان کو سب سے پہلے یہ سکھا یا جاتا ہے کہ انہیں اپنے دین سے اس کے منطقی ہونے یا اس کے کسی معنویت کے حامل ہونے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ ماحول شیخ الحدیث نے غلبہ قائم رکھنے کے لئے پیدا کیا ہے! علم و حکمت پر مبنی مذہب نامعقول خرافات کا ایک گروہ بن کر رہ گیا ہے۔ احادیث کا استعمال فرقان یا قرآن کی آیات کو منسوخ کرنے کے لئے ایک معیار کے طور پر کیا جاتا ہے، جو کہ اسلام کی سب سے بڑی توہین ہے!
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/are-ahadith-more-than-just/d/104946
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/are-ahadith-more-than-just/d/105004