نصیر احمد، نیو ایج اسلام
15 فروری
2021
اگر فطرت میں کوئی ایسی چیز ہے جو آپ کو سمجھ میں نہیں
آتی، تو ممکن ہے کہ زیادہ غور وفکر اور تدبر و نظر کرنے سے
وہ بات سمجھ میں آجائے جو آپ کی سمجھ سے
بالا تر ہے ۔ لہذا قدرتی چیزوں میں ایک
ایسی منطق ہے جو ہماری سمجھ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ جس طرح قانون میں ایک متنازعہ بات موجود ہے کہ ‘‘مجرم اس وقت تک مجرم ہوتا ہے جب تک کہ وہ بے گناہ ثابت نہ ہو جائے ’’ اور اس کے بر عکس
‘آدمی بے گناہ ہوتا ہے اس وقت تک جب تک کہ وہ مجرم ثابت نہ ہو جائے ’۔
مجھے بھی اپنی بات درج ذیل انداز میں کہنے دیں : جو چیز مادر فطرت
کرتی ہے وہ بہت ہی سخت ہوتی ہے جب تک کہ اسے کچھ اور ثابت نہ کر لیا جائے
: انسان اور سائنس جو کچھ کرتے ہیں وہ اس
وقت تک ناقص ہوتے ہیں جب تک کہ وہ دوسری صورت میں ثابت نہ ہوجائے’’۔
نسیم نکولس طالیب
فطرت کےبارے میں
جو کچھ طالیب نے کہا ہے ،اس کا اطلاق
قرآن میں اللہ کے نازل کردہ قوانین حتی کہ پورے قرآن پر یکساں طور پر منطبق ہوتا ہوتا ہے
۔ قرآن مجید کتاب حکیم ہے یا یوں کہہ
لیجیے کہ اللہ کی جانب سے حکمت سے بھری مقدس
کتاب ہے ۔ کتاب اللہ کی ہدایت و حکمت کو سمجھنے کے لئے یہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے
کہ کیا یہ واضح طور پر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ قرآن اینٹی
فریجائل (نازک مخالف) ہے ۔ (فریجائل) نازک تو وہ ہوتا ہے جو جھٹکا لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے جیسے گلاس۔ (ان فریجائل)
غیر نازک وہ ہوتی ہیں جو ٹوٹتی نہیں ہیں جیسے پلاسٹک اور اینٹی فریجائل (نازک مخالف) وہ مضبوط چیز ہوتی ہے جو حالت کی انتہا کا شکار تو ہو جاتی ہے لیکن خود
نہیں ٹوٹتی جیسے اسٹیل ۔ قرآن مجید کے نسخوں میں حکمت اس وقت واضح ہوجاتی ہے جب ان
پر تبادلہ خیال ، تنقید ، تجزیہ ، اور مباحثہ کیا جاتا ہے اور اس طرح ہمارا قرآن
کے کلام الٰہی ہونے کا یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔
آئیے جدید جیل
کے نظام اور قرآنی حدود کے قوانین کا تقابلی جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ دونوں میں سے کون
زیادہ انسانی اور زیادہ موثر ہے۔
کسی شخص کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا فطری طور پر
ناپسندیدہ عمل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس
سے دوسرے کے وقار کی تذلیل ہوتی ہے اور / یا اس کی جمہوریت اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق سے
سمجھوتہ ہوتا ہے۔اس طاقت کا استعمال خواہ اتنا خفیف ہو جتنا کہ کسی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے جاتا ہے ،
بہر حال ناپسندیدہ ہی لگتا ہے ۔ تاہم ،
قوانین اوران کی خلاف ورزی کی سزا اگر نہ ہو تو ، ہمارا معاشرہ لاقانونی ہو جائے گا اور
پھر مسلسل تباہی ، لوٹ مار ، عصمت دری اور قتل و غارت گری
کا بازار گرم رہے گا ، جوکہ سماج اور
تہذیبی اقدار کے لئے مجرمانہ قوانین اور سزاوں
پر مبنی اس نظام انصاف سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوگا ، جو دوسرے لوگوں کی جان ، املاک اور وقار کے خطرات
کو کم کرتا ہے۔ لہذا ہماری تہذیبی اقدار کو برقرار رکھنے کے لئے نظام عدل کے تحت
طاقت کا استعمال ضروری ہے لیکن زیادہ سے زیادہ نتائج برآمد کرنے کے لئے اسے متوازن
ہونا چاہئے۔ ہمیں ایک ایسی آزادی کی ضرورت ہے جو مجرم کو کم سے کم نقصان پہنچانے
اور معاشرے کو سستی قیمت پر چوری ، لوٹ مار ، فراڈ ، عصمت دری اور قتل سے نجات دے
۔
اسلامی نظام سزا کو قوانین حد کہتے ہیں۔ حد کے معنی محدود کے ہوتے ہیں کہ
جس سے اگر تجاوز کیا جائے تو آدمی سزا کا حقدار ہو جاتا ہے ۔یہ
حد سب سے بڑی سزا یا آخری سزا ہے جس سے زیادہ سزا نہیں دی جا سکتی ۔ مثال کے طور
پر چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ، جو سب سے بڑی سزا ہے جس سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں
ہونی ہو سکتی ، جبکہ کم از کم کوئی سزا ہو
سکتی ہے جس میں محض ڈانٹنا یا
تنبیہ کرنا بھی شامل ہے۔ ریاست کے خلاف جنگ
و بغاوت پر ابھارنے والی غداری کی
سزا سولی پر چٹرھایا جانا ، جسم کے اعضا کاٹنا، جلاوطنی یا بعض صورتوں میں معافی
بھی ہو سکتی ہے ۔
زنا کی سزا ایک سوکوڑے متعین ہیں جو کہ لازمی ہے اور اس میں اضافہ یا کمی کی
کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کے ثبوت کے
لیے چار عینی گواہ کا
ہونا لازمی ہے ۔ کوڑے کی سزا میں سب سے
آخری حد سو کوڑے کی سزا ہے جو کہ زنا کے لیے متعین ہے کیونکہ کوئی دوسرا جرم ایسا نہیں جس کی سزا سو
کوڑے سے زائد ہو ۔ لہذا دوسرے تمام جرائم کے لئے سزا ایک سو سے کم کوڑے کی ہونی
چاہئے۔اسے مغربی معاشرہ وحشیانہ سزا تصور کرتا ہے اور اس معاشرے میں رہنے والے
مسلمانوں پر بھی بالکل اسی نظریہ کا اثر ہےکہ وہ اس کی وجہ سے شرمندگی محسوس کرتے ہوئے اسلامی
نظام کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ آئیے ہم اس کا موازنہ امریکہ کے جدید جیل کے نظام
سے کرتے ہیں۔
امریکہ میں قید خانوں یا جیلوں میں ۲.۲ ملین یا آبادی کے .0%۶۶ لوگ مجرم ہیں۔ مزید برآں ، ۲۰۱۳ میں ۴،۷۵۱،۴۰۰ بالغ (۵۱ میں ۱) مقدمہ یا ضمانت
پر تھے۔ مجموعی طور پر ، ۲۰۱۳ میں ۶،۸۹۹،۰۰۰بالغ افراد اصلاحی نگرانی (مقدمہ، ضمانت ، قید
خانوں یا جیل) میں یا تقریبا ۲.۸٪ بالغ (35 میں 1) امریکی رہائشی
آبادی میں تھے۔
ہر سال رہا ہونے والے قیدیوں کی تعداد ۶،۵۰،۰۰۰ ہے۔ امریکہ میں متوقع عمر 78 سال ہے۔ ان کے ابتدائی داخلے کی تاریخ سے لے
کر ان کی ابتدائی رہائی کی تاریخ تک ، سن ۲۰۱۶ میں رہائی پانے والے سرکاری قیدیوں کا متوسط وقت ۲.6 سال تھا۔ وقت کی اوسط مقدار ۱.3 سال تھی۔ رہائی پانے والے نصف
قیدی۳ سال کے اندر اندر جیل میں واپس
آئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ان 4% دوسری آبادی کی ترجمانی کرتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے دوران جیل کی
مدت کا سامنا کیا ہے ، جو فی الحال قید یا اصلاحی نگرانی میں نہیں ہیں۔ اس میں
ان ۲.8٪ کو بھی شامل کریں جو قید ، جیل یا ضمانت میں ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ۶.8٪ آبادی یا تو جیل یا قید خانوں میں وقت گزار رہے ہیں ۔ ہر ۱۵ میں ۱ کا مجرم ہونا انتہائی
حیرت انگیز ہے! یہ بات بہتوں کو چونکا دینے والی لگتی ہے لیکن اس کی وجہ یہ
ہے کہ یہ لوگ زیادہ تر معاشرے کے ایسے طبقے کے ہوتے ہیں جہاں سے قارئین کا تعلق
نہیں ہوتا ہے اور اسی وجہ سے قارئین بہت سارے سابق مجرموں سے ذاتی طور پرواقف نہ
ہو پاتے ہوں ۔ یہ بڑی تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ جیل کا نظام جرم کے خلاف موثر
رکاوٹ نہیں رہا ہے۔ اس لئے سزائے موت کا امریکی جیل سسٹم اپنی آبادی کے انتہائی
تناسب سے قابل سزا جرموں کی سزا سنائے جانے والے جرائم کو کم کرنے میں ناکام رہا
ہے۔
کیا جیل کا نظام قیدیوں کے لئے انسانی ہے؟
جیل کا جدید نظام مندرجہ ذیل خامیوں کا شکار ہے۔
۱۔ امراء قوانین کی خلاف ورزیوں پر جرمانہ ادا کرتے ہیں
اور اپنے سنگین جرائم کے باوجود بھی آزاد ہو جاتے ہیں لیکن غریب جو جرمانے کے
متحمل نہیں ہوتے ہیں انہیں تو ٹریفک کی
خلاف ورزی جیسے معمولی امور پر بھی قید کرلیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ نظام نہ صرف فطری
طور پر غریبوں کے ساتھ ناانصافی ہے ، بلکہ مالداروں کو جرمانے کی ادائیگی کے طور
پر دولت مندوں کی خلاف ورزیوں پر روادار بھی ہے۔
۲۔ جیلیں حد سے زیادہ بھری ہوئی ہیں۔ بھیڑ کا متوسط درجہ ۱۳۹%ہے جو اس جیل کا ۴ گنا یا ۴۰۰٪ تک جاتا ہے۔ یہ امریکہ کی
حالت ہے جو دنیا کا سب سے امیر ملک ہے۔
تنگ جگہ میں زیادہ بھیڑ قیدیوں کے مابین لڑائی جھگڑے اور تشدد کا باعث بنتا
ہے اور موسم گرما میں شدید گرمی پڑتی ہے۔
100 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ درجہ حرارت ان پیچیدہ حالات میں جابرانہ ہے لیکن
وہاں کا درجہ حرارت ۱۳۰ ڈگری فارن ہائیٹ تک جاتا ہے۔
تنگ سیلوں میں گرمی کی تپش نے ٹیکساس اور
امریکہ کی دوسری جگہوں پر بھی کچھ جیلوں میں ہلاکتوں کا باعث بنی ہے ۔
۳۔ جیلوں میں جسمانی اور جنسی بد سلوکی عام ہے۔
امریکی جیلوں میں نوے فیصد قیدی گارڈز یا ساتھی قیدیوں کو نقصان پہنچانے سے زخمی
ہوئے ہیں۔ طبی دیکھ ریکھ سے محرومیت ہوتی
ہے اور جو لوگ طبی امداد طلب کرتے ہیں ان
پر زیادہ تشدد کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
۴۔ گارڈز کے ساتھ ساتھ دوسرے قیدی بھی قیدیوں سے معمول کے مطابق لواطت کرتے ہیں۔ جنسی استحصال
کے پچاس فیصد معاملات گارڈز کے ہوتے ہیں۔
۵۔ جو کھانا بھی انہیں دیا جاتا
ہے وہ ناقص ہے اور زندگی گزارنے کے لئے بمشکل ہی کافی ہے۔ کھانے پر خرچ ہونے
والی رقم کا ایک تہائی حصہ عام صحتمند کھانے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ قصوروار کے
درخواستوں کے ذریعے حل ہونے والے جرائم کے لئے دی جانے والی اوسط سزا ۶.5 سال ہے جبکہ مقدمے کے ذریعے حل
ہونے والے جرائم کی اوسط سزا ۱۳ سال ہے۔
۶۔ امریکی جیلوں میں چونسٹھ فیصد
قیدیوں کو جیلوں کے حالات کی وجہ سے شدید ذہنی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔
۷۔ امریکہ میں قیدیوں میں خودکشی کی شرح عام آبادی
کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ مقدمہ کی سماعت
سے پہلے حراست میں دیگر قیدیوں کی نسبت خودکشی کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ جیل
میں ہونے والی خودکشیوں میں سے ایک تہائی خودکشی پہلے ہی ہفتے کے اندر ہوتی ہے۔
گارڈز اور ساتھی قیدیوں کے ذریعہ بد نظمی (یا محض اس کا خطرہ) کی وجہ سے خوفناک صورتحال ، تشدد ، جنسی
استحصال کا صدمہ اور اہم رشتہ ضائع ہونا ، بہت سے لوگوں کو اپنی جان لینے کے
لئے مجبور کر دیتا ہے ۔تنہائی میں رکھے
جانے والے مجرموں میں بھی خودکشی کے امکان
زیادہ ہوتے ہیں۔
۸۔ امریکی جیلوں میں ، تنہائی کی
قید میں تقریبا ۸۰،۰۰۰ قیدی ہیں۔ امریکن سول لبرٹیز
یونین آف نارتھ کیرولائنا (ACLU) نے
تنہائی کی قید کے مندرجہ ذیل نتائج کی اطلاع دی ہے: "انتہائی حساسیت ، مغالطہ
، اضطراب اور گھبراہٹ میں اضافہ ، تسلسل پر قابو پانے کی کمی ، شدید اور دائمی
افسردگی ، بھوک اور وزن میں کمی ، دل کی دھڑکن ، اپنے آپ سے باتیں کرنا ، سونے میں
دشواری ، پریشان کن فکر ، خود کشی ، نچلی سطح کے دماغی افعال ، اور صرف سات دن
تنہائی میں رہنے کے بعد ای ای جی کی
سرگرمی میں گراوٹ شامل ہے۔ "کیا انسان کو تنہائی میں بند رکھنے کے علاوہ کوئی
اور چیز وحشی ہوسکتی ہے؟ ملاحظہ کریں۔ یہ
ویڈیو جاننے کے لئے کہ یہ کس قدروحشی ہے :
https://topdocumentaryfilms.com/last-days-solitary/
۹۔ قید خانے بھیجے جانے والوں کے اہل خانہ بھی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔
روٹی کمانے والے کو کنبہ سے چھین لیا جاتا
ہے ، عورت سے شوہر ، بچوں سے باپ اور بوڑھے والدین سے بیٹا۔
جیل کے نظام کی ہولناکیاں معاشرے سے پوشیدہ ہیں
کیونکہ یہ اونچی دیواروں اور بند دروازوں کے پیچھے ہوتی ہیں مگر وقتا فوقتا مطالعے
سے ہی معلوم ہو پاتی۔ ہیں ہیں۔ جیل کا نظام بہت زیادہ غیر انسانی اور وحشیانہ ہے
اور وہ اسلامی نظام کے مقابلے میں مجرموں کو زیادہ جسمانی ، نفسیاتی اور ذہنی
نقصان پہنچاتا ہے۔ اسلامی سزا جیلوں اورقید خانوں
کے بغیر کھلے میں دی جاتی ہے اور مجرم کو آزادی یا اس کے اہل خانہ کی
موجودگی سے محروم کئے بغیر دی جاتی ہے۔
جرائم کی روک تھام میں اسلامی نظام بھی بہترین
ثابت ہوا ہے۔
یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ جیل کی دیواروں کے اندر کی
جانے والی ہولناکیاں ناقابل قبول اورغیر قانونی ہیں لہذا اس میں اصلاح ضروری ہے
حتیٰ کہ جیل کا نظام زیادہ انسانی ہو جائے۔ میری نظر میں ، کسی فرد کو تقریبا ۱۳ سال تک اس کی آزادی سے محروم
رکھنا غیر انسانی ہے اور انسان کو جسمانی
اور ذہنی اذیت دینا چند کوڑے مارنے سے
کہیں زیادہ نقصان دہ ہے۔ جیل کی بند دیواریں بدعنوانی ، ظلم ، جنسی بے حرمتی اور بد
سلوکی کے جذبے کے لئے اگرچہ جان بوجھ کر نہیں بنائی گئیں۔ مجرموں کو زیادہ سے
زیادہ نقصان پہنچانے کے علاوہ جیل کے نظام سے
معاشرے کو بہت زیادہ نقصان پہنچا
ہے ، جبکہ اس سے بدعنوانی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ریاست کے ذریعہ چلائے
جانے والا برے نظام سے لوگوں کی برائی کا علاج نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس بات کا ثبوت اس معاشرے میں جرائم کی اعلی شرح ہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/debating-islam/are-hudud-laws-islam-quranic/d/124308
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/are-hudud-laws-islam-quranic/d/124439
New
Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women
in Islam, Islamic Feminism, Arab
Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam Women and Feminism