نصیر احمد، نیو ایج اسلام
3 ستمبر2012
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
توہین کے لئے کوئی عربی میں کوئی لفظ نہیں ہے۔ کیا یہ بات دلچسپ نہیں ہے؟ انگریزی مترجمین نے اپنےتشریحی ترجمہ میں ،مختلف آیات میں عربی لفظ کفر کا ترجمہ توہین رسالت کیا ہے۔ قرآن مجید میں تئیس ایسی آیات ہیں جو لفظ توہین پر مشتمل ہیں ، یا یوسف علی کے قرآن کے ترجمہ میں اس کی کچھ نحوی اور صرفی تغیر کے ساتھ۔ 2:88، 102، 3:55، 4:155، 5:17، 64، 68، 72، 73، 103، 6:19، 8:35، 9:74، 10:70، 11:9 ہیں، 14:28، 21:36، 21:112، 39:8، 39:32، 40:42، 43:15، 33۔ ان میں سے کسی بھی آیت میں ، توہین کرنے والے کو ، حکمران کی طرف سے ، یا عام انسان کی طرف سے سزا دینے کی بات نہیں کہی گئی ہے ۔ آیت 9:74 ایک 'مسلم' توہین کرنے والے کے بارے میں ہے جس کا ترجمہ یوسف علی نے کیا ہے ، جسے ذیل میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالی ان کو ان کی زندگی میں اور آخرت میں دردناک سزا دے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ، آیت میں انسانوں کے ذریعہ سزا دینے کو مسترد کیا گیاہے۔ ایسا کوئی قانون جس میں کسی توہین کرنے والے کو سزا دینے کی کوشش کی جائے ، وہ قرآن کے مطابق نہیں ہے اور قرآن کی روح اور عبارت کے خلاف ہے۔
9: 74۔ یہ خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے (تو کچھ) نہیں کہا حالانکہ انہوں نے کفر کا کلمہ کہا ہے اور یہ اسلام لانے کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور ایسی بات کا قصد کرچکے ہیں جس پر قدرت نہیں پاسکے۔ اور انہوں نے (مسلمانوں میں) عیب ہی کون سا دیکھا ہے سوا اس کے کہ خدا نے اپنے فضل سے اور اس کے پیغمبر نے (اپنی مہربانی سے) ان کو دولت مند کر دیا ہے۔ تو اگر یہ لوگ توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا۔ اور اگر منہ پھیر لیں تو ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب دے گا اور زمین میں ان کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہوگا ۔
آیت 43:33 (جس کا یوسف علی کے ذریعہ کیا گیا ترجمہ ذیل میں پیش ہے)، جس میں توہین کرنے والوں کے بارے میں بیان ہے ، اور یہ کہنا ہے کہ یہ توہین کو بہت پر کشش بنانے کے لئے اور شاید ایمان کو اس کے مقابلے میں انتہائی بے کشش بنانے کے لئے نہیں تھا ، خدا ہر توہین کرنے والے کو بہت زیادہ مال و دولت عطا کرتا ۔
43: 33۔ اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی جماعت ہوجائیں گے تو جو لوگ خدا سے انکار کرتے ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور سیڑھیاں (بھی) جن پر وہ چڑھتے ہیں۔
آیت 9:74 میں خدا کے ذریعہ ، اس شخص کے لئے جو ایمان لانے کے بعد گستاخی کرے ، دردناک سزا اس لئے ہے کہ ، اگر وہ سزا سے فائدہ اٹھائے ، تو وہ مومن کو ان کے مذہب اور نیکی کے راستے سے بہکانے میں مدد گار ہو گا ۔ وہ لوگ جو غلط کرتے ہیں اور سزا سے فائدہ حاصل کرنے کا امکان ہے، خدا انہیں ان کی زندگی میں سزا دیتا ہے ۔ وہ جو بہت دور چلے گئے ہیں ،اور سزا سے فائدہ حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے انہیں اس زمیں پر ان کی زندگی میں لمبی مہلت دی جاتی ہے ، اور ان کی زندگی انتہائی پر کشش بنا دی جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ ان کے اچھے اعمال کی بنیاد پر ، آخرت میں ان کے لئے کوئی اجر نہیں ہے ،اور اس میں سے کچھ ایسے ہیں ، جن کے صبر و تحمل اور ایمان کے معیار کا امتحان ،مومنوں کی آزمائش کے لئے ، اضافی مصیبتوں کے ذریعہ لیا جاتا ہے ، اگر ان کی زندگی کا موازنہ غیر مومنوں کی زندگی سے کیا جا ئے ۔
آیات 9:74 اور 43:33 میں انسان کے ذریعہ توہین رسالت کے لئے سزا دئے جا نے کو ، واضح طور پر خارج کیا گیا ہے ۔ اس معاملے میں ، ان لوگوں کے لئے قرآن کا پیغام واضح نہیں ہو سکتا جو صحیح رہنمائی تلاش کرتے ہیں ۔ ہر وہ قانون جس میں سنجیدگی کے ساتھ توہین کرنے والے کو سزا دینے کی کوشش کی جائے ، وہ خدا کی اس منصوبہ بندی میں مداخلت ہو گی جسے آیت 43:33 میں بیان کیا گیا ہے۔ ہر وہ ملک جو خود کو اسلامی کہتا ہے، اور اس نےتوہین رسالت کے قوانین نافذ کر رکھا ہے، اور اس طرح خدا کی منصوبہ بندی میں سنجیدگی کے ساتھ مداخلت کرتے ہیں اور خدا کی مرضی کی خلاف ورضی کر کے خدا کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں ۔ وہ ممالک جو توہین رسالت قوانین کو اقلیتوں کو پریشان کرنے اور نشانہ بنانے کے لئے ، ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، وہ اسلام کو بد ترین صورت میں بد نام کر رہے ہیں ۔ اس طرح کے ممالک پر خدا اور تمام مسلمانوں کی لعنت ہو!
تو، توہین رسالت کے قانون کی بنیاد کیا ہے؟ جب مسلم فوج نے نئے ممالک کو فتح کیا ، تو وہ نئی تہذیبوں کے ساتھ رابطے میں آ گئے ۔ پہلی چند صدیاں عظیم علمی کارناموں کی صدیاں تھیں۔ مسلم فاتحین نے ان مفتوحہ علاقوں کے بہت سی روایتوں کو اپنا لیا اورجذب کر لیا ۔ مسلم فقہاء کو یہودی اور عیسائی قوانین کے مقابلے میں بہت کم ،قرآن مجید میں قانون سازی کے متعلق آیات ملیں۔ اس وجہ سے انہوں نے ،غیر مسلم آبادی کے ساتھ ، وسیع علاقوں کی حکومت کی ضروریات کو پوری کرنے کےلئے ، قياس کے اصول اور قانونی نظیر کا استعمال کرتے ہوئے ، اسلامی قانون کا ایک مفصل ڈھانچہ تیار کیا ۔ ارتداد کا قانون، توہین رسالت کا قانون، زانیوں کے لئے موت تک رجم اور ختنہ کے قانون کا قرآن مجید میں کوئی ذکر نہیں ہے ، لیکن یہودی اور عیسائی صحیفوں میں ان قوانین کا ذکر ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم فقہاء نے ان قوانین کے لئے پرانے اور نئے عہد نامے پر ہی انحصار کیا ہے ، اگرچہ ،اس طرح کے قوانین کے لئے، محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے معمولات اور قرآن کی براہ راست اور کافی حمایت بھی حاصل نہیں ہے ۔
جناب محمد یونس نے ایسے کئی توہین رسالت کے واقعات کا ذکر کیا ہے ، جن کا ذکرقرآن مجید میں توہین کرنے والے کے لئے ایک بھی سزا کے حکم کے بغیر کیا گیا ہے۔ میں نے اسے ذیل میں نقل کیا ہے :
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ، ان کے مکی دشمنوں نے مکار ، اور پاگل آدمی کہا (30:58، 44:14 68:51) اور ایک پاگل شاعر بھی کہا (37:36)۔ انہوں نے قرآنی وحی کا مذاق بنایا (18:56، 26:6، 37:14، 45:9)، جس میں انہوں نے اسے عجیب اور ناقابل اعتماد قرار دیا(38:5، 50:2)، خوابوں کا فساد کہا (5 :21) اور اسے پرانے زمانے کی کہانیا ں بتایا (6:25، 23:83، 25:5، 27:68، 46:17، 68:15، 83:13) انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو گری جھوٹ اور جعل سازی کا الزام لگایا (34:43، 38:4) ، خدا کے خلاف جھوٹ، جعل سازی اور کہانیاں بنانے کا الزام (11:13، 32:3، 38:7 46:8)، جادوگری (21 : 3، 43:30 74:24)، واضح جادو گری جو کہ پریشان کر رہا تھا (10:2، 37:15 46:7)، اور جن کے ذریعہ جادو کیا گیا یا قبضہ کیا گیا (17:47، 23:70، 34 : 8)۔ تعریف کے مطابق، یہ تمام الزامات توہین تھے۔ یہاں اس کے متن میں قرآن کہیں بھی ان لوگوں کے لئے سزا کا حکم نہیں دیتا ہے جنہوں نے ان توہینوں کا ارتکاب کیا ۔ "
وہ مثالیں جن پر اسلامی فقہاء نے انحصار کیا ہے ،ہو سکتا ہے کہ وہ عاصمہ اور ابو افق کا قتل ہو۔ سب سے پہلے، وہ دونوں صرف توہین سے زیادہ بدتر جرائم کے مجرم تھے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف انتہائی سرگرم اور با اثر تشدد بھڑکانے والے تھے ، جنہوں نے اپنے عوام کو مسلمانوں کے قتل پر اکسایا تھا ۔ ان دونوں نےمسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا تھا ، اور ان کے قتل کو اپنے دفاع میں قتل کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی اسامہ بن لادن کے قتل کے بارے میں سوال کرتا ہے اگرچہ، ہو سکتا ہے خود اسامہ بن لادن نے براہ راست کسی کا قتل نہ کیا ہو ؟ جب اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہزاروں کی تعداد میں گستاخ تھے ، جنہیں توہین رسالت کی مختلف سرگر میوں کے لئے کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا یا کوئی سزا نہیں دی گئی ، کس طرح ان مستثنیات کو جو گہری نظر ڈالنے پر مستثنیات بھی نہیں ہیں ، ایک سو سال کے بعد ، کسی اصول یا قانون کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے ؟
تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ،مسلمانوں نے اسلامی تاریخ کے پہلے ایک ہزار سال کے دوران ،اقلیتوں کو ہراساں کرنے کے لئے توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال کیا ہو ۔ یہ قانون ، اسی جرم کے لئے ،یہودی اور عیسائی قانون کے ایک ہم پلہ کے طور پر موجود ہے ، اور یہ قانون اسلام یا اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بدنام کرنے کےلئے ،عوام کی سوچی سمجھی کوششوں کے لئے گیا ہے۔
مسلم حکومت قرطبہ میں ایک عیسائی پادری پرفیکٹس ‘Perfectus’، کا سر 9 ویں صدی کے وسط میں اس لئے قلم کر دیا گیا ، کہ انہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے متعدد توہین آمیز کلمات سے رجوع کرنے سے انکار کر دیا جو انہوں نے کھلے طور پر بار بارادا کئے تھے۔ کئی دوسرے پادریوں، راہبوں، اور دنیا دار لوگوں نے اس کی مثال کی اتباع کی ، اس لئے کہ عیسائیوں کو اس قسم کی "شہادت" کا مزہ چکھنے کی عادت ہو گئی تھی اور ایک حساب کے مطابق، تقریباً اس طرح کے چالیس پختہ اور پر عزم ،توہین کرنے والوں کی گردن اگلے دس سال کی مدت میں ماری گئی جس کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ توہین کے سلسلے کا خاتمہ ہو گیا ۔
اہم نقطہ نوٹ کرنے کے قابل یہ ہے کہ ہر توہین کرنے والے کو رجوع کرنے کا ایک موقع دیا گیا ہے ۔ جس شخص نے توہین کی اور اس سے رجوع کر لیا اسے سزا نہیں دی گئی ۔ اگر رجوع کرنے کی اجازت تھی، تو افواہ یا اشارہ یا متصور توہین رسالت پر مبنی سزا کا کوئی سوال نہیں تھا۔
یہی اصول ارتداد کے لئے بھی قابل تقلید ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ارتداد کے ایسے کئی معاملات ہیں جن میں انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا تھا ۔ جن کچھ کو سزا ملی تھی ،وہ لوگ جنگ کی حالت میں ،مسلمانوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والی بڑی غداری کے مجرم تھے ، یا قتل کے ساتھ ارتداد کے مجرم تھے۔ صرف ارتداد کے لئے کسی کو سزا دینے کی کوئی مثال نہیں ہے۔
پاکستان توہین رسالت کے قانون کے سلسلے میں سب سے زیادہ سنگین مجرم ملک ہے۔ 1986 میں، جو دفعہ 295 C- کو شامل کیا گیا تھا وہ مندرجہ ذیل ہے : "جو کوئی الفاظ کے ذریعہ، تقریری یا تحریری طور پر ، یا آشکارا نمائندگی کے طور پر ، یا کسی بھی الزام کے ذریعہ،کنا یۃً یا اشارۃً بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ، حضور نبی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقدس نام کی توہین کرتا ہے ، تو اسے موت یا زندگی بھر کے لئے قید کی سزا دی جائے گی ، اوروہ جرمانہ کے لئے بھی ذمہ دار ہو گا۔ "
1927 ء کے دوران (جس سال میں انگریزوں نے دفعہ 295 A متعارف کرایا) اور 1986 میں توہین رسالت کے صرف سات کیس درج کئے گئے تھے ۔ تاہم ، 1986 کے بعد ، اس قسم کے 000،4 مقدمات درج کئے گئے ۔ 1988 اور 2005 کے درمیان، پاکستانی حکام نے، توہین رسالت کے قانون کے تحت ، جرائم کے ساتھ 647 افراد پر فرد جرم عائد کیا ہے۔ گستاخی کرنے والوں کو رجوع کرنے کی اجازت دینے کے پہلے کے دستورالعمل اور پاکستان میں نئے شامل کردہ 295 C کے ذیلی دفعہ کے درمیان فرق کو دیکھیں ، جو ‘‘الزام یا اشارہ یاکنایہ ، براہ راست یا بلاواسطہ طور پر" بھی توہین کے لئے درج کیا جا سکتا ہے! یہ انتہائی آزادی کے ساتھ کسی پر بھی توہین رسالت کا مقدمہ درج کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ان دفعات کو صرف پڑھتے ہی ، ہر غیر مومن اسلام اور اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والا ہے ،اور رویے کے اعتبار سے ایسے لوگوں میں ہونے والا ہے ، جو بظاہر ہر ایک غیر مسلم کے ساتھ توہین کرنے والے کی طرح سلوک کرتے ہیں!
توہین رسالت پر پاکستان کے قوانین واضح طور پر غیر منصف اور غیر اسلا می ہیں اور قرآن کی عبارت اور روح کی خلاف ورزی ہیں ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے کسی مثال کے بغیر ہیں ، اس لئے کہ اس قانون پر عمل اسلامی تاریخ کے پہلے 0001 سال سے زیادہ کے کے بعد کیا جا تا تھا ۔ یہ قانون اقلیتوں پر دہشت گردانہ سر گرمیوں کو فروغ دیتا ہے، اور اس قانون پر عمل میں اس شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ان قوانین کا مقصد اقلیتوں کے خلاف دہشت گردانہ سر گر میوں کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کرنا ہے۔ 11 سال کی بد نصیب رمشہ مسیح کے واقعہ نے اس پستی کو نمایا ںکر دیاہے جس میں پاکستانی معاشرہ جا چکا ہے۔ پاکستان گستاخی کے اپنے وحشیانہ قوانین کے ذریعہ ، اور اپنے اس عمل کے ذریعہ جو قصد و ارادہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا ،اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (جنہیں تمام قوموں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا) کو بد نام کرتا ہے ۔ یہ پاکستان کے مسلمان شہریوں پر لازم ہے کہ وہ ان کافروں کے خلاف جہاد چھیڑ دیں جو اقلیتوں پر دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعہ اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اور اس ریاست کے خلاف جو ایسے قوانین نافذ کرتا ہے جن سے اسلام کی توہین ہوتی ہے اور جو اسلام اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بدنامی کا باعث ہوتے ہیں ۔
نصیر احمد نے آئی آئی ٹی کانپور سے گریجویشن کیا ہے ، اور 3 دہائیوں سے زیادہ تک سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں ذمہ دار عہدوں پر خدمات انجام دینے کے بعد ایک آزاد آئی ٹی مشیر ہیں ۔ وہ اکثر NewAgeIslam.com کے لئے لکھتے ہیں۔
URL for English article
https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/pakistan-blasphemes-islam/d/8542
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-blasphemes-islam-/d/10893