نجم الدین احمد فاروقی
20جولائی،2020
آج کی مہذب دنیا میں
سیاسی، معاشرتی، ثقافتی نظام کے میزان بدل چکے ہیں۔ عالم انسانی بعد مسیح دو ہزار
سال اور بعثت نبویﷺ سے۱۴۰۰؍
برس آگے بڑھ آئی ہے۔ میں انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کر دوں اب یہاں سے ایک دن
بھی پیچھے جانا ممکن نہیں۔ جہاں تک روز محشر کا سوال ہے تو کم از کم میرے اندر
اتنی بصیرت آفرینی نہیں کہ بتا سکوں ایک ہزار برس ہیں کہ دس ہزار یا در حقیقت
کتنا وقت باقی ہے۔
تاریخی عظمتوں کا ذکر
ہوتا رہا ہے ہوتا رہے گا۔ اسلام کی نشاط ثانیہ اور golden
period پر
بہت کچھ لکھا گیا ہے آگے بھی لکھا جاتا رہے گا۔ لہٰذا یہاں میں تمہید و تفصیل میں
نہ جاکر آج کے پر آشوب دور کے آئینے میں مستقبل کی تصویر جو خاصی دھندلی نظر
آرہی ہے، دھند کو صاف کرنے کی غور و فکر اور طریقے کار تلاش کرنے کی کوشش کر
رہاہوں۔
مسلمانانِ ہند کے معاشرے
کو ہی لے لیں اکثریت میں غور وفکر کا فقدان ہے۔ غورو فکر، دنیا کو دیکھنے اور
سمجھنے کے نظریے کے لحاظ سے ان طبقات کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا
ہے:(۱) علمائے
دین کا وہ طبقہ جو قدیم روایتوں سے ذرہ برابر ہٹنا نہیں چاہتا۔
(۲) وہ
علمائے دین جو وقت کے تقاضوں کے مد نظر اجتہاد کے حق میں ہیں مگر تنازعات سے پرہیز
کرتے ہیں۔
(۳) پڑھا
لکھا مگر جذباتی مسلمان جس کو نہ اسلامی تعلیمات کا پتہ ہے اور نہ اسلامی تاریخ کا
وہ کتاب و سنت کو یا تو انٹرنیٹ کے ذریعے سمجھنا چاہتا یا صرف جذباتی ہوکر۔
(۴) پچھلی
لگ بھگ دو دہائیوں سے نوجوان نسل کے ایک طبقے میں خاص جذبہ پیدا ہو رہا ہے کہ دنیا
چند روزہ ہے اس میں کیا رکھا ہے آخرت کی فکر کیجئے۔ یہ بات اس لئے زیادہ فکر کی
ہے کیوں کہ یہ تربیت نہ انہیں گھر کے ماحول سے مل رہی ہے نہ وہ کسی مدرسے میں
تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ کسی عالم کے رابطے میں ہوتے ہوئے پائے جاتے
ہیں۔ تو جناب بعض لوگ یہ کہہ کر اندیکھی کر دیتے ہیں کہ اللہ جس کو توفیق دیدے اور
یہ اندیکھی سرپرستوں اور والدین سے اکثر اُن کی تنگی وقت کے باعث بھی سرزد ہو جاتی
ہے۔ افسوس کہ وہ اچانک آئی تبدیلی پر توجہ نہیں دیتے حالانکہ یہ تبدیلی کبھی کبھی
انتہائی خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ایسے معاملات میں تحقیق کی جائے تو
یقیناً کوئی نہ کوئی شخص تو سامنے آئے گا جو اس بچے کی ذہن سازی کر رہا ہوگا۔ اس
سے بھی قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عالمی سطح پر کچھ ناکردہ طاقتیں نوجوان
بچوں کی ذہن سازی کر رہی ہیں۔ اللہ مجھے معاف کرے یہ تو ممکن نہیں کہ کائنات کے
ہزاروں برسوں کے قیام کے بعد پچھلے بیس پچیس برسوں میں اچانک اللہ صرف مخصوص
نوجوان لڑکوں و لڑکیوں پر خاص مہربان ہو جائے اورانہیں راتوں رات غیب سے الہامی
علم کی دولت سے مالامال کر دے اور اس حد تک مالا مال کر دے کہ وہ نہ صرف دوسروں پر
کفر کے فتاویٰ صادر کرنا شروع کر دیں بلکہ اپنے والدین کے علم و عمل پر بھی انگلی
اٹھانے لگیں۔ یہاں ایک اور بات بھی غور طلب ہے کہ اللہ کی نظر کرم سن رسیدہ افراد
پر نہیں ہو رہی ہے۔ ان نوجوانوں کا انجام اس مصرعے کا مصداق نہ ہو جائے؛ ’نہ خدا
ہی نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے‘۔ نتیجتاً جن بچوں کا مستقبل روشن ہو
سکتا تھا جو ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتا وہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا
ہے۔
(۵) یہ
طبقہ جاہلوں کا ہے انہیں جدھر موڑ دیں۔
(۶) اس
طبقے میں پڑھے لکھے صاحب ایمان روشن خیال افراد ہیں جو جدید تعلیم اور دنیاوی ترقی
کو ضروری سمجھتے ہیں۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حکمت سے کام لینے کے قائل ہے۔
بیک وقت یہ مسلکی اتحاد، ملی تنظیموں اور علمائے دین کے درمیان پل بنانے کی تگ ودو
میں لگے رہتے ہیں حالانکہ انہیں یہ خطرہ ہر وقت لاحق رہتا ہے کہ کب اپنوں کے ہی
ذریعے ان پر کفر کا فتویٰ عائد کر دیا جائے۔
تیز رفتار بدلتی ہوئی
دنیا کو سبھی اقوام عالم بر وقت قبول کرتی آئی ہیں خواہ اہلِ کتاب ہوں یا دوسری اقوام۔
وقت رہتے کوئی قوم تبدیلی کو تسلیم کرنے اور حالات کی سنجیدگی کو سمجھنے سے اگر
قاصر رہی تو وہ ہے امت مسلمہ اور خصوصاً مسلمانانِ ہند کی اکثریت۔ پچھلی چند
دہائیوں میں دنیا میں ہوئی تیز رفتار اور غیر معمولی ترقی نے خاص کر سائنس و
ٹیکنالوجی کے شعبوں میں، مسلم ممالک کو اس دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ
سچائی دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ مادی ترقی کا پھل تو آپ مزے لے کر
کھائیں لیکن اس پھل کے تیار کرنے میں آپ کا کوئی رول نہ ہو تو ایسی صورت میں مسلم
ممالک کو کیا وہ عزت حاصل ہو سکتی ہے جو ترقی یافتہ ممالک کو ہوگی۔ زوال کا یہ دور
کوئی سو پچاس سالوں پر محیط نہیں بلکہ گولڈن پیریڈ کے بعد سے یہ سلسلہ سیکڑوں
برسوں سے جاری ہے اور ایک تاریخی حقیقت ہے۔
جہاں امریکہ، یورپ کے
بیشتر ممالک، چین، جاپان، شمالی کوریا اور ایشیا کے دیگر ممالک کچھ پچھلی صدی کے
اوائل میں اور کچھ صدی کے اختتام تک نیوکلیئر پاور بن چکے تھے وہیں بیشتر مسلم
ممالک اپنے قدرتی وسائل کی طاقت پرٹکنالوجی خریدتے رہے اور اس کی مدد سے اپنے infra
structure کو
ضرور فروغ دیتے رہے اور بظاھر چہرے کے حسن میں نکھار لے آئے۔ مسلم ممالک کے سیاسی
نظام، حکومتوں کا ڈھانچہ کہیں فوجی حکمرانوں پر منحصر ہے کہیں بادشاہت اور خال خال
کہیں جمہوری نظام بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اکثر نظام بظاہر مضبوط بھی نظر آتے ہیں۔
ممکن ہے کہ یہ ممالک اندرون خانہ جنگی سے مستثنٰی ہوں اور ان کے یہاں مکمل امن و
چین بھی قائم ہو۔ مگر ان سب کے باوجود نیوکلیائی طاقت نہ ہونے کے باعث بین
الاقوامی سطح پر انتہائی کمزور ہی ثابت ہوتے ہیں، اقوام متحدہ میں ان کی آواز
سننے والا کوئی نہیں۔
اس وقت انسانی دنیا،
دنیائے اسلام اور مسلمان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہی ہے۔ اگر ہم اس کڑوی حقیقت
سے نا آشنا نہ ہوں۔ حالات کا سنجیدگی اور گہرائی سے مطالعہ کریں تو غالباً، ترکی
کی متنازع ’’آیا صوفیا‘‘ پر ہوئے فیصلے پر صحیح رائے قائم کر سکیں گے۔ اس وقت
دنیا کے اہم ممالک میں اکثر بر سرِ اقتدار سیاسی جماعتیں وہ ہیں جنہیں rightist کہا جاتا ہے ترکی
بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ یہ بتلانے کی ضرورت نہیں کہ اکثریت کے حق میں کئے گئے
فیصلوں پر تاریخ ہمیشہ سے، بر سر اقتدار جماعت اور عدلیہ پر الزام عائد کرتی ہے،
ورنہ کم از کم سوال تو کھڑے کرتی رہی ہے
اور کرتی رہے گی۔ جس کا خمیازہ کسی نہ کسی کو بھگتنا پڑتا ہے اور پڑتا رہے گا۔ یہاں
یہ’کسی نہ کسی‘ کون ہوگا، اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ کیا یہ وقت مسلم
اُمہ، قائدین، مسلم ممالک کے حکمرانوں کو جشن منانے اور دنیا کے سامنے اپنی طاقت
جتانے کا ہے یا انتہائی صبر و استقامت کے ساتھ طاقت بڑھانے کا۔ کیوں کہ آنکھ میں
آنکھ ڈال کر بات جب ہی کی جا سکتی ہے جب طاقت مد مقابل کے برابر کی ہو۔
20جولائی،2020، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-sofia-permanent-solution-/d/122422
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism