New Age Islam
Sat Jan 25 2025, 02:14 AM

Urdu Section ( 22 May 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Pathans and Kashmiris: Lost Tribes of Bani Israel? پٹھان اور کشمیری بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل؟

نجیم شاہ

16مئی 2012

زمانہ قدیم میں ہجرت او رنقل مکانی کرنے والی مختلف اقوام پر تحقیق کرنے والے ماہرین افغانستان او رپاکستان میں بسنے والے بہت سے قبائل کارشتہ زمانہ قبل از مسیح میں فلسطین سے نقل مکانی کرنے والے یہودی قبائل سے جوڑنے میں مصروف ہیں۔ ان قبائل میں سب سے نمایاں پشتون یا پٹھان ہیں جب کہ بعض مؤرخین کشمیریوں کو بھی بنی اسرائیل کی گمشدہ نسل میں شمار کرتے ہیں ۔ اسرائیل کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق پشتون یا پٹھان یہودی النسل ہیں اور ان کا تعلق بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل سے ہے۔ ان قبائل کو اسرائیل کی تباہی کے بعد فاتحین نے جلا وطن  کردیا تھا جس کے بعد رفتہ رفتہ یہ لوگ پہلے ایران پھر افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے جب کہ جیوش اٹلس میں صوبہ سندھ کی قدیم بندر گاہ دیبل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ بندرگاہ یہودی تاجروں کی بہت بڑی مرکز تھی۔ بنی اسرائیل کے تاجر زمانہ قدیم میں بذریعہ بحری جہاز سندھ اور بلوچستان کی بندر گاہوں پر آتے رہے  اس لیے ان دونوں صوبوں کے بیشتر شہر وں اور بندر گاہوں میں یہودیوں کے تجارتی مراکز اور عبادت گاہیں قائم ہوگئی تھیں جس کی وجہ سے زمانہ قدیم میں پاکستان کے بعض علاقوں میں یہودیت کے ماننے والے بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔اسی طرح ماضی قریب میں جلا ل آباد کے قریب سے لے کر چترال تک پھیلے کافرستان میں ملتے جلتے مذاہب کے پیروکار وں کی تہذیب وتمدن اور رسوم ورواج پر بھی بہت سے محققین نے کام کیا ہے لیکن چند ایک کے سوا جنہوں نے کسی حد تک اسرائیلی عنصر کا وجود ان لوگوں میں تسلیم کیا ہے کسی نے اس نظریئے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور بعض واضح اسرائیلی اثرات کو قریب کی اسلامی تہذیب کا مرہون منت قرار دیا ہے۔

اسرائیل میں بارہ قبائل آباد تھے جنہیں بنی اسرائیل کے اجتماعی نام سے پکارا جاتا  تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ صرف دوقبائل (آج کے یہودی) توریت پر عمل کرتے تھے جب کہ باقی دس قبائل توریت کو تسلیم نہیں کرتے تھے لیکن بنی اسرائیل کا حصہ تھے ۔ آج کا شمالی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً آٹھ سو سال پہلے نینو ا کی اشو ریہ قوم نے فتح کرلیا تھا جب کہ جوڈا کے نام سے موسوم جنوبی علاقہ پر صدیوں بعد بابل سے آنے والے حملہ آوروں نے قبضہ کیا۔ جب بابل کے فرماں روابخت نصر نے یروشلم (موجودہ فلسطین )پر قبضہ کر کے اسرائیلی بادشاہت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو بنی اسرائیل کے بہت سے قبیلے بھاگ کر ایران (فارس) کے قریب غور کے پہاڑ وں میں جا بسے اور پھر یہاں سے دیگر خطوں تک پھیل گئے۔  ہزاروں سال سے دنیا میں زمانہ قدیم کے گمشدہ یہودی قبائل کے بارے میں گردش کرنے والی داستانوں کے مطابق ایتھو پیا میں آباد فلا شا یہودیوں اورافغانستان ، مشرقی ایران او رپاکستان کے پشتوں قبائل کو ان یہودیوں کی نسل سمجھا جاتا ہے ۔   پشتون افغانستان میں سب سے بڑا نسلی گروپ اور پاکستان میں دوسرا بڑا نسلی گروہ ہے۔  خود بعض افغانوں کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق قدیم زمانہ کے یہودیوں سے تھا جب کہ افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ  مرحوم برملا یہ اقرار کرتے رہے کہ ان کا تعلق بنی اسرائیل کے بن یامین قبیلے سے ہے۔  اس طرح پاکستان اور افغانستان کی نصف آبادی یہودی قبیلے کے بچھڑے بہن بھائیوں پر مشتمل ہے۔

عرب مسلمان حضرت اسماعیل علیہ السلام او ریہودی حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں جب کہ دونوں کے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک ہی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آبائی وطن عراق تھا جہاں سے وہ ہجرت کر کے فلسطین میں آباد ہوگئے۔ سفر ہجرت کے دوران آپ علیہ السلام  نے حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ سے شادیاں کیں۔ حضرت ہاجرہ سے آپ کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا جنم ہوا جو نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جدا مجد بھی ہیں جب کہ دوسری بیوی حضرت سارہ کے بطن سے چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے بڑے بیٹے اسماعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو مکہ میں لاکر آباد کردیا جبکہ خود حضرت سارہ اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق کے ساتھ فلسطین میں ہی مقیم رہے۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے کا نام حضرت یعقوب علیہ السلام تھا۔ اپنے دادا اور چچا کی طرح بھی اللہ کے برگزیرہ نبی ہوئے۔   حضرت یعقوب کا عبرانی لقب اسرائیل تھا لہٰذا ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی ۔ آپ علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے اس لیے ابتدا سے ہی بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ بنی اسرائیل کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ او رعلم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل رہا۔  اُسے محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی فضیلت بھی بنی اسرائیل کو ہی حاصل رہی جو انہوں نے معصیت الہٰی کا ارتکاب کر کے گنوالی تھی۔  بنی اسرائیل میں بکثرت انبیا ورسل آئے لیکن اس قوم نے سینکڑوں انبیا کا نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کی نافرمانی میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی یہاں تک کہ بعض  کو قتل بھی کیا گیا ۔  یہ قوم ایک طویل مدت کی آسائش اور حکمرانی کے بعد قطبیوں کی غلامی میں جکڑی گئی تو ان کی رہنمائی اور آزادی کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے ۔حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو قطبیوں کی غلامی سے آزاد کراکر بحر احمر کے پاس واپس فلسطین میں لے آئے۔  یہاں آپ کے بعد آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام پیغمبر اور بادشاہ ہوئے۔  اس کے بعد ایک طویل مدت تک بنی اسرائیل نے فلسطین پر حکومت کی۔  اس دوران ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سی  نعمتیں نازل ہوئیں جیسے من وسلویٰ وغیرہ تاہم اس قوم نے ان نعمتوں کی قدر نہ کی ۔بعد میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دو باپ بیٹوں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے عزت بخشی ۔  حضرت سلیمان نویں صدی ق م میں فلسطین کے مشہور فرماں رواں اور پیغمبر تھے جنہوں نے یروشلم میں ایک وسیع وعریض عبادت گاہ تعمیر کی جو ہیگل سلیمانی کہلائی۔  بعد ازاں بنی اسرائیل راہ حق سے ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اُن کے جانشیں کی بھی مخالفت کی اور اسرائیل کے نام سے شمالی فلسطین میں اپنی بادشاہت قائم کرلی۔  جب بنی اسرائیل دینی ، اخلاقی او رمعاشرتی بگاڑ میں حد سے بڑھ گئے تو حضرت ارمیا علیہ السلام کو وحی الہٰی کے ذریعہ حکم ہوا کہ اپنی قوم کو بتا دیجئے اللہ تعالیٰ نے اب تک تمہارے بزرگوں کی نیکی کی وجہ سے تمہیں مہلت دی ہے لیکن تم نے میری احکامات فراموش کردیئے۔  اب میں تم پر ایسا حکمران مسلط کرونگا جو تم پربالکل رحم نہیں کرے گا بلکہ تمہیں تباہ کر کے رکھ دے گا۔  جب ارمیا علیہ السلام نے اللہ کا پیغام پہنچا یا تو بنی اسرائیل نے اسے جھوٹ سمجھا اور آپ علیہ السلام کو پکڑ کر قید کرلیا۔  یہی وہ وقت تھا جب بابل کے فرماں روابخت نصر نے یروشلم پر حملہ کر کے بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام شروع کردیا اور ایک بڑی تعداد کو غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گیا۔

اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل دنیا بھر میں تتر بتر ہوگئے جب کہ یہود کی تاریخ میں بنی اسرائیل کی دوسری جلا وطنی اُس وقت ہوئی جب رومی بادشاہ ٹائٹس نے یروشلم پرحملہ کر کے اُن کے کشتے کے پشتے لگادیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا۔  یہاں تک کہ بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو تاراج کر کے بنی اسرائیل کو ہمیشہ کیلئے جلاوطن کردیا۔  دوسری بار بنی اسرائیل کی جلاوطنی کی وجوہات یہ بیان کی جاتی ہیں کہ اس قوم نے حضرت زکر یا علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی قتل کرنے کے درپے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا کر بچا لیا۔  اس فساد کے نیتجے میں پھر رومی بادشاہ ٹائٹس کو ان پر مسلط کردیا گیا۔  موجودہ فلسطین اور اسرائیل سے زمانہ قدیم میں فرار ہونے والوں میں وہ دس قبائل بھی شامل ہیں جن کی تلاش میں آج بھی یہود ی سرگرداں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبائل فارس (ایران ) کے قریب غور میں آن بسے اور پھر آباد ی میں اضافے کے باعث اُن علاقوں تک بھی پھیل گئے جو اس وقت افغانستان ،پاکستان او رہندوستان کہلاتے ہیں۔تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک قریش سردار خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں کے پاس رسالت کی خبر لے کر آئے اور اس خبر کی تحقیق کے لئے قیس نامی شخص کی قیادت میں چند سردار وں کا وفد اُن کے ساتھ مکہ روانہ ہوگیا۔  یہ قبائلی سردار بحیثیت مہمان جب مکہ پہنچے تو وہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد اسلام قبول کرلیا جب کہ فتح مکہ کی مہم جوئی میں بھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے۔  ان سرداروں کو واپسی پرحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے تحفے تحائف بھی دیئے اور اس وفد کے امیر قیس کا اسلامی نام عبدالرشید رکھ دیا جب کہ اُسے پہطان یا بطان کا لقب بھی عطا کیا اور پھر یہی لفظ بگڑ کر پٹھان بن گیا۔افغانوں کی روایات کے مطابق بھی امیر قیس کا نام عبدالرشید خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا اور فرمایا  کہ ان کی نسل اسلام پر ا س قدر مضبوطی سے کار بند ہوگئی کہ جس طرح کشتی کا بطان ہوتا ہے اور پھر یہی لقب بعد میں لسانی تغیرات کے باعث پٹھان بن گیا جب کہ لفظ پختون کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بخت نصر کے ظلم سے بھاگ کر فارس (ایران) میں پناہ لینے والے قبائل میں سے ایک قبیلے کا نام بنی پخت تھا جس سے تعلق رکھنے والوں کو رفتہ رفتہ پختوں کہا جانے لگا ۔ اہل ایران انہیں افغان کہتے ہیں جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب بخت نصر نے ان لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو یہ لوگ اس ظلم کے خلاف آہ فغاں کرتے رہے۔

ہندوستان والے انہیں پٹھان کہتے ہیں، پاکستانی پٹھان اور پشتون ،ایرانی افغان مگر یہ خود کو پختون کہتے ہیں ۔ یہ لوگ اس وقت متعدد قبائل کا مجموعہ بن چکے ہیں جب کہ ان قبائل کی ہزار ہا شاخو ں کی متعدد ذیلی شاخیں بھی ہیں جو اشخاص یا علاقے سے منسوب کی گئی ہیں۔بعض مؤرخین کے مطابق پٹھان آریائی یا یونانی نسل سے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ قیس عبدالرشید کی اولاد ہیں جبکہ تیسرے نظریئے کے مطابق ان کا تعلق بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل سے ہے۔  خود کو قیس عبدالرشید کی اولاد سمجھنے والوں کا نظریہ ہے کہ مکہ میں قیام کے دوران حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی اُن کے مورثِ اعلیٰ کے نکاح میں دے دی تھی جنہیں وہ ہمراہ لے کر اپنے وطن واپس آیا اور پھر انہوں نے یہاں اپنی بقیہ زندگی اسلام کی ترویج و اشاعت میں صرف کردی۔ اس طرح قیس عبدالرشید کی اولاد پٹھان کہلاتی ہے جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود قیس عبدالرشید کا تعلق بھی بنی اسرائیل کے بادشاہ ساؤل (حضرت طالوت) کی سینتیسویں پشت سے تھا۔ اس طرح آخر ی دونوں نظریات کی روشنی میں ان کا تعلق بنی اسرائیل سے ہی بنتا ہے اور یہ بڑی عجوبہ خیز بات ہے کہ ان میں یوسف زئی (یوسف کےبیٹے) ، داؤد خیل ( داؤد کے بیٹے) ،موسیٰ خیل (موسیٰ کے بیٹے) اور سلیمان خیل ( سلیمان کے بیٹے) سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ تحقیق قریں قیاس ہے اور ابھی تک کوئی بھی یہ تحقیق مکمل نہ  کرسکا کہ موسیٰ خیل، داؤد خیل ، یوسف زئی  ، سلیمان خیل وغیرہ کا قدیم پس منظر کیا ہے۔  پٹھانوں کے بارے میں انگریز وں نے درجنوں تحقیقاتی اور تاریخی کتب تحریر کیں لیکن وہ ابھی تک بنیادی حقائق کو کھنگا ل نہ سکے۔

آج ایک بار پھر ماہرین پشتونوں کے یہودی النسل ہونے کےنظریہ پر تحقیق کررہے ہیں۔ وہ یہ بھی خیال ظاہر کررہے ہیں کہ پٹھانوں او ریہودیوں کا رشتہ ثابت ہونے سے دونوں کے درمیان دوستانہ روابط کو فروغ مل سکتا ہے ۔ بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کے موضوع پر ڈبل ڈاکٹریٹ کرنے والے ہندوستانی شہر ملیح آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان محقق ڈاکٹر نوارس آفریدی کی  تحقیق بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان او رہندوستان  میں بسنے والے پشتون دراصل وہی گمشدہ قبائل ہیں جب کہ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستانی خاتون سائنس داں شہناز علی اسرائیل کے شہر حیفہ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں پشتونوں کے یہودی النسل ہونے کے نظریہ پر باقاعدہ تحقیق بھی کرتی رہیں  جس کے دوران شمالی ہندوستان میں آباد آفریدی قبیلہ کے ڈی این اے نمونوں خصوصاً کرو موسوم کا تجزیہ کیا گیا۔ اس بھارتی سائنسداں کے مطابق آفریدی قبائل خود یہ مانتے ہیں کہ ان کے قبیلے کا نام دراصل اسرائیلی قبیلہ افرائیم سے اخذ کیا گیا ہے جب کہ بھارت میں آباد بنائی مناشے یہودی قدیم قبیلہ بنا سے کو اپنا جدا مجد مانتے ہیں۔  اسی طرح مرزا قادیانی کی کتاب ‘‘مسیح ہندوستان میں ’’ کے اندر  بھی کشمیر اور افغانستان میں بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل کا ذکر موجود ہے جب کہ اسی کتاب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقبرہ کشمیر میں ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔  ان کا ماننا ہے کہ چونکہ بنی اسرائیل بخت النصر کے حادثہ میں متفرق ہوکر بلا دِ ہند، کشمیر ،تبت اور چین کی طرف چلے آئے تھے اس لیے عیسیٰ مسیح نے ان علاقوں کی طرف ہجرت کرنا ضروری سمجھا۔ پٹھانوں کی طرح کشمیر یوں کی اصلیت بارے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں ۔  کئی مؤرخین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کشمیری دراصل بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں اور بخت نصر کے حملے میں جب یہ لوگ منتشر ہوکر گھومتے پھرتے کشمیر پہنچے تو اس خطے کو اپنے رہنے کے لئے سود مند پایا جبکہ مؤرخین کا غالب نظریہ یہ ہے کہ کشمیری دراصل یہودیوں اور آریاؤں کی مخلوط نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔  افغانوں یا پٹھانوں کے کئی اوصاف عربوں سے ملتے جلتے ہیں ۔   عرب قوم مہمان نواز، بہادر اور اہل قلم ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری قوموں سے اتنی جلد مرعوب نہیں ہوتی تھی۔  ان چند اوصاف کے علاوہ کوئی اور اوصاف عربوں کے اندر زمانہ جاہلیت میں نظر نہیں آتے۔  حیرت کی بات ہے کہ یہی چند اوصاف افغان یا پٹھان قوم میں بھی اسی شدت کے ساتھ پائے جاتے ہیں جب کہ ان کے بیشتر چیزیں یہودیوں سے بھی ملتی جلتی ہیں۔  نسلی طور پر دونوں اپنے آپ کو دنیا کی بہترین قوم تصور کرتے ہیں، مذہبی طور پر سخت ہیں اور سر پر ٹوپی رکھنے کا رجحان بھی عام ہے جب کہ اس کےعلاوہ بھی کئی رسم ورواج مشترک ہیں۔

انہی قیاسیات کی بنیاد پر کچھ لوگ ہندوؤں او ریہودیوں کو بھی ملاتے ہیں کہ ایک گائے جب کہ دوسرے بچھڑے  کو مقدس سمجھتے ہیں ۔ پشتونوں کا یہودی نسل سے ہونا قبابل فخر بات ہے نہ کے موجب توہین کیونکہ یہودی النسل ہونا تو شاید تب اس قوم کے لیے توہین کا مؤجب ہوتا  جب وہ سیدالا بنیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لاتے ۔  یہ تو اُن کی غیرت کی بلندی اور ایمان کی عظمت کا نشان ہے کہ یہودی النسل ہوتے ہوئے بھی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئے ۔ یہ وہی آخری نبی ہیں جن کے اوصاف تو رات و انجیل میں مذکور ہیں اور جن کی وجہ سے ہی اہل کتاب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ‘‘نجات دہندہ’’ کے طور پر منتظر بھی تھے لیکن بعد میں انہوں نے محض اس جلن اور حسد کی وجہ سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا کہ اُن کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا۔ بنی اسرائیل کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا یہ انکار دلائل پر نہیں بلکہ نسلی منافرت اور حسد وعناد پرمبنی تھا۔

نوٹ: مضمون نگار پاکستان کے مشہور کالم نویس ہیں

16مئی 2012    بشکریہ:   روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی 

URL: https://newageislam.com/urdu-section/pathans-kashmiris-lost-tribes-bani/d/7393

Loading..

Loading..