New Age Islam
Wed Dec 17 2025, 07:30 AM

Urdu Section ( 18 Aug 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hadi Matar Is the Face of Shia Extremism ہادی ماتر شیعہ انتہا پسندی کا چہرہ ہے

 امریکی عوام ہادی ماتر جیسے نوجوانوں کے عمل کی وجہ سے ہر مسلمان نوجوان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

 اہم نکات:

 1. وہ شیعہ انتہا پسندی سے متاثر تھا

 2. اسے ایران کے سپاه پاسداران انقلاب اسلامی سے ہمدردی تھہ۔

 3. حال ہی میں لبنان کے دورے کے دوران اسے بنیاد پرستی کا زہر پلایا گیا تھا۔

 -----

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 17 اگست 2022

 -----

Hadi Matar, 24, right, leaves an arraignment in the Chautauqua County Courthouse in Mayville, NY. on Saturday. AP

-----

 سلمان رشدی پر حملہ یورپ اور امریکہ میں انتہا پسند قوتوں کے ہاتھوں مسلم نوجوانوں کے اندر پنپتی ہوئی بنیاد پرستی کی ایک اور مثال ہے۔ ہادی متر کا مقصد آج تک معلوم نہیں ہو سکا لیکن اس حملے کی وجہ مسلم نوجوانوں میں پھیلائی گئی نفرتی نظریات ہو سکتے ہیں۔ ہادی ماتر شیعہ انتہا پسندی اور ایران کے سپاه پاسداران انقلاب اسلامی سے ہمدردی رکھتا تھا اور شاید امریکہ کے ہاتھوں قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ایک اور مقصد جس پر شک کی سوئی گھوم رہی ہے وہ سلمان رشدی کا مبینہ طور پر گستاخانہ ناول Satanic Verses ہے جس کے لیے ایرانی سپریم لیڈر نے رشدی کے قتل پر انعام کا اعلان کیا تھا۔ ہادی ماتر ناول کی اشاعت کے دس سال بعد پیدا ہوا تھا اور اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس نے اسے پڑھا بھی نہ ہو یا اس کے مندرجات کے بارے میں کوئی علم بھی نہ ہو۔

 شاید حال ہی میں رشدی کے خلاف شیعہ انتہا پسندوں نے اس کی منفی ذہن سازی کی ہو جسے اس نے امریکی مفادات کی علامت کے طور پر لیا تھا کیونکہ وہ امریکہ کا شہری تھا۔ اسلامی شدت پسندوں کا مقصد امریکی مفادات کو کسی بھی شکل میں یا کہیں بھی نشانہ بنانے سے پورا ہوتا ہے۔ لہٰذا، ہادی ماتر کو یہ یقین دلاتے ہوئے حملہ کرنے پر اکسایا گیا کہ وہ اسلام کی بہت بڑی خدمت کرے گا اور توہین رسالت کے مرتکب رشدی کو قتل کرکے جنت میں جگہ حاصل کرے گا۔ اس طرح کی کارروائیوں سے انتہا پسندوں کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور ان کا انتہا پسندانہ اور تشدد پسندانہ چہرا اجاگر ہوتا ہے۔

اس حملے پر مسلمانوں کا ردعمل بھی اتنا ہی افسوس ناک تھا۔ ہادی کو ایک گستاخ پر حملہ کرنے پر سراہا گیا اور ہیرو بنانا کر پیش کیا گیا۔ اردو اخبارات نے حملے پر مذہبی جوش و خروش سے بھرپور سرخیاں بنائیں حالانکہ اخبار کی سرخیاں غیر جانبدار اور کسی قسم کی جذباتی یا مذہبی رنگت سے خالی ہونی چاہئیں۔

 یہ حملہ ان دہشت گرد تنظیموں کی خصوصیت تھی جو مسلمانوں کو اسلام کے دشمنوں بالخصوص امریکی مفادات پر دن دہاڑے حملے کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔ اس طرح کے مایوس نوجوان اس یقین کے ساتھ احمقانہ تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں کہ اس طرح کے حملے کرکے وہ امریکہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

 لیکن حقیقت میں وہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کو مسلمانوں پر زیادہ پابندیاں لگانے کا بہانا فراہم کرکے اپنی ہی برادری کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کی امیگریشن کا مطالبہ کیا تھا اور فرانس نے ایک مسلمان نوجوان کے ہاتھوں فرانسیسی معلم سیموئل پیٹی کے قتل کے بعد سینکڑوں مساجد پر تالا لگوا دیا تھا۔ ہادی ماتر جیسے نوجوانوں کی حرکتوں کی وجہ سے امریکی عوام ہر مسلمان نوجوان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

 تابش خیر کا یہ زیر نظر مضمون عام مسلمانوں کے رویوں اور مسلم نوجوانوں کی انتہا پسندانہ کارروائیوں پر نام نہاد مسلم دانشوروں کے ردعمل پر کچھ اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ ایک مصنف پر پرتشدد حملے کو معقول قرار دینا مسلمانوں کے ایک طبقے کی بیمار ذہنیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسلم میڈیا بھی ایسی کارروائیوں کو جواز فراہم کرتا ہے اور ایسے انتہا پسندوں کی تعریف کرتا ہے۔ مسلمانوں نے ممتاز قادری کو پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے بعد ایک بزرگ کا درجہ دیا تھا۔

 ----

 Salman Rushdie: Those Hailing the Attack Must Know a Knife Is No Way to Think

سلمان رشدی: حملے کی تعریف کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ چاقو کوئی انداز فکر نہیں ہے

تابش خیر

 16 اگست 2022

 سلمان رشدی پر ہونے والے حملے سے بھی زیادہ افسوسناک – وہ جلد صحت یاب ہو جائیں – یہ حقیقت ہے کہ بہت سے مسلمان اس کا دفاع کر رہے ہیں، یہاں تک کہ اس کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ رشدی نے جو کچھ بھی لکھا ہو یا نہ لکھا ہو اس کا دفاع نہ کیا جائے۔ میں ایسا اس لیے کہتا ہوں کہ جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہ محسوس کرتی ہے کہ ایک چاقو الفاظ اور خیالات کا جواب ہے، تو وہ بحیثیت برادری ناکام ہیں۔

سلمان رشدی

----------

میں سمجھ سکتا ہوں کہ رشدی کی شیطانی آیات سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ناراض ہونے یا قانونی طور پر احتجاج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ بہتر یہ ہوتا کہ وہ اس احتجاج میں سڑکوں پر صرف اونچی آواز میں چیخنے کی بجائے کچھ حد تک فکری کوشش بھی شامل کرتے۔ ناراض مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر ان میں بھی کوئی قابلیت ہے تو وہ اس ناول یا دوسرے ناولوں میں جو غلط باتیں ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کتابیں یا مضامین لکھیں۔ انہیں اپنی کتابیں لکھنی چاہئیں، اور انہیں اچھی طرح سے لکھنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے پڑھیں۔

 'غصے کی نسل'

 انہیں ایسا کرنے سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ اپنے نظریات قائم کریں گے، اپنے امکانات کو تلاش کریں گے، اور اس قسم کی فکری سرگرمی میں مشغول ہوں گے جس کی تعلیم ان کے نبی نے دی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ ایک مسلمان کو علم حاصل کرنے کے لیے اگر چین (دنیا کے سب سے دور کونے) تک جانا پڑے تو جانا چاہیے۔ لیکن چپکے سے 75 سالہ مصنف پر چاقو سے حملہ کرنے سے قوم مسلم کو فسطائی طاقت کے ذائقے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔

 ہمیشہ کی طرح، ان میں سے اکثر مسلمان جو حملہ آور کی تعریف کر رہے ہیں، شیطانی آیات نہیں پڑھی ہیں۔ کیا ناول واقعی گستاخانہ ہے؟ کیا یہ ناول پیغمبر اسلام کے بارے میں ہے؟ یا ناول مکمل طور پر کسی اور چیز کے بارے میں ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو وہ خود سے پوچھنے کو تیار نہیں ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ وہ لوگ ہیں جو لٹریچر کو لٹریچر کے طور پر نہیں پڑھ سکتے۔ وہ دنیا سے اس طرح تعلق رکھتے ہیں جیسے کہ یہ ایک چھری جیسی کوئی ایک جہتی چیز ہے، اور الفاظ یا خیالات کو واقعی سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں، ان کی باریکیوں پر غور کرنے کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ میرے خیال سے مسلمان قرآن کے پہلے حکم پر ہی عمل کرنے ناکام ہیں جس سے ان کی مقدس کتاب شروع ہوتی ہے: ’’پڑھو!‘‘

 دلچسپ بات یہ ہے کہ حملہ آور پر 'دعاؤں' کے ٹویٹ کرنے والے بہت سے لوگ وہ ہیں جنہیں ڈیوڈ دیوداس نے کچھ سال قبل کشمیر پر ایک کتاب میں "غصے کی نسل" کہا تھا۔ اس سے ان کا مطلب یہ بھی تھا کہ کشمیر میں اعلیٰ مراعات یافتہ لوگوں کا ایک پورا طبقہ اس انداز میں بات کرتا ہے جس سے بے روزگاروں اور کم مراعات یافتہ اور تعلیم یافتہ لوگوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ غصہ پھر سڑکوں پر پھیل گیا یا اس نے بنیاد پرست عسکریت پسندوں کو نوجوانوں کو کسی نہ کسی مقصد سے قربانی دینے پر قائل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ بات یہ نہیں کہ احتجاج یا غصے کی کوئی وجہ نہیں تھی، کشمیر میں بھی ایسی وجوہات تھیں، اور دنیا میں ایسی وجوہات ہیں۔

لیکن جو غصہ پیدا ہوا وہ مکمل طور پر ناکام تھا - وہ ایک منفی ردعمل تھا، جسے ان طبقات نے فعال کیا جنہوں نے اپنے کیریئر یا دولت کو خطرے میں نہیں ڈالا، بلکہ اس کے بجائے غریب اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کو خود کو قربان کرنے کے لیے تیار کیا، اکثر ان مقاصد کے لیے جنہیں وہ سمجھتے ہی نہیں۔

 رشدی پر حملے کی حمایت میں بہت سے ٹویٹس ایسے لوگوں کی طرف سے ہی آئے ہیں، اور یہ بھی بحیثیت قوم کے، مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسا کر کے اشرافیہ طبقے نے قوم کے تئیں اپنی ذمہ داری سے دستبرداری ظاہر کر دی ہے۔

 فسطائیت کا اصل مطلب کیا ہے

 سعودی عرب یا ایران جیسی جگہوں پر مسلمانوں کی حیثیت کچھ بھی ہو، جہاں حکومت کے ڈھانچے اگرچہ سیاسی اور مذہبی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن بنیادی طور پر آمرانہ ہیں، جبکہ یہ معاملہ ہندوستان اور مغربی ممالک جیسے خطوں پر کچھ اور ہی معنویت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ آئینی جمہوریتیں ہیں، اور خاص طور پر ہندوستان میں، بہت سے مسلمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوتوا کا عروج – اس کے ہجومی تشدد کے نتیجے میں – ایک فسطائی عنصر پر مشتمل ہے۔ فسطائیت کی بنیادی تعریف سماجی، فکری اور سیاسی مخالفین کے خلاف جسمانی طاقت کا استعمال ہے۔

 یہ براؤن قمیضوں کا جلوس اور نازی جوتے کی آواز ہے۔ یہ یہودیوں اور خانہ بدوشوں کا گلیوں میں نازی ہجوم کے ذریعے شکار کیے جانے کا نام ہے۔ یہ بغل میں خنجر کا نام ہے۔

 ہندوستان میں کوئی بھی مسلمان کسی مصنف پر حملہ کرنے والے اور وہ بھی خنجر سے حملہ کرنے والے شخص کی حمایت کیسے کر سکتا ہے؟ بنیادی طور پر، یہ طاقت کی فسطائی شکل کا نفاذ ہے۔ اگر مذہبی مسلمان یہ نہیں دیکھ سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے معاشروں کو فسطائیت کے حملے کے لیے کھلا چھوڑ رہے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو اپنے خلاف فسطائی طاقت کے استعمال کا جواز فراہم کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔

 کیا یہ دانشورانہ فکر کی موت کا عندیہ ہے؟

 رشدی پر حملے میں بہت کچھ غلط ہے۔ لیکن اس حملے کو معقول قرار دینا سب سے بڑی غلطی ہے - جشن منانے کی بات ہی چھوڑ دیں۔ جب تک مسلمان یہ نہیں دیکھ لیتے، وہ اپنی فکری اور دیگر روایات کو کھوکھلا کرتے رہیں گے۔

 کسی نظریے کے خلاف خنجر استعمال کرنا اپنے دماغ کے خلاف خنجر استعمال کرنا ہے۔ الفاظ کے خلاف خنجر کا استعمال اپنی انگلیاں کاٹنے کے مترادف ہے۔ ایسا کہنے کے لیے رشدی سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مسلمانوں کو صرف اتنا خیال رکھنا ہوگا کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ اگر وہ نظریات پر چھری چلا کر جشن مناتے ہیں تو وہ فکری طور پر اپنی موت کی آخری حد تک پہنچ چکے ہیں۔

 اس سے علماء کی کس قسم کی نسلیں جنم لیں گی؟ ہم کس قسم کے مصنفین تیار کریں گے اور مسلم روایات میں کسے سب سے بہتر بیان کریں گے؟ مسلم قوم – اور ریاستوں اور دنیا – کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کس قسم کے سائنسدان تیار کریں گے؟ ہم کیا طالب علم، کیا استاذ پیدا کریں گے؟ کیا خیال رکھنے والے باپ، کیا جانکار مائیں؟ کیا سوجھ بوجھ رکھنے والے بچے؟

ایک خنجر کوئی طرز فکر نہیں ہے۔

 -----

یہ ایک رائے ہے اور ظاہر کیے گئے افکار و نظریات مصنف کے اپنے ہیں۔

 ماخذ: Salman Rushdie: Those Hailing the Attack Must Know a Knife Is No Way to Think

English Article:  Hadi Matar Is the Face of Shia Extremism

URL: https://newageislam.com/urdu-section/hadi-matar-shia-extremism/d/127741

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..