نعیم صدیقی
آخری حصہ
11 فروری 2022
قرآن کے پیغامات کو سمجھنا
ہر شخص کے لئے ضروری ہے
---------
(9)پیچھے
سے جو کڑیاں ملتی چلی آرہی ہیں وہ ایک سلیم الطبع شخص کو ازخود اس نتیجہ تک پہنچاتی ہیں کہ مسلک ِ عبادت ِ رب یا دینِ
اسلام پر چلنے والا تقویٰ کیش آدمی بدی کی طاقتوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔
اس کا اعتقاد اور اس کی دعوت اور اس کا
مشن فطری طور پر مخالف چیزوں سے تصادم کا باعث بنتا ہے۔ جو شخص حق کو لے کے چلے اسے باطل سے رشتہ
توڑنا ہوگا۔ جو نیکی کو اختیار کرے اس کا بدی سے بگاڑ ضرور پیدا ہوگا۔ جو رب کو
معبود بنائے اس کی بات پھر طاغوت سے نہ بن سکے گی ۔ اس لئے قرآن اُن لوگوں کو اپنے
گرد جمع کرتا ہے جو ربّ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ طاغوت سے کنارہ کش ہوجائیں:
’’اور بیشک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو) تم اللہ کی عبادت کرو اور
طاغوت (یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش) سے اجتناب کرو۔‘‘ (النحل:۳۶) طاغوت ہر وہ چیز ہے جو
اللہ کی عبادت سے ہٹا کر اللہ کی نافرمانی کرنے پر مائل یا مجبور کرے یا اس کا سبب
بنے۔ طاغوت اشخاص و افراد بھی ہوسکتے ہیں ، طاغوت فلسفہ و نظریات بھی ہوسکتے ہیں
اور طاغوت سیاسی اور اقتصادی نظام بھی ہوسکتا ہے ۔ جس شکل میں بھی طاغوت کا وجود
پایا جائے اس سے انکار اور اس کی تردید کرنا اس شخص کے لئے لازم ہوجاتا ہے جو
قرآن کا شاگرد بن کر ایمان باللہ اور عباد ِ رب کی راہ اختیار کرے۔اپنی اس بنیادی
تعلیم اور تلقین میں قرآن مجید کوئی ابہام نہیں چھوڑتا ۔ ملاحظہ ہو: ’’اور حد سے
تجاوز کرنے والوں کا کہنا نہ مانو۔‘‘ (الشعراء:۱۵۱) ’’اور ان لوگوں میں سے
نافرمانوں اور ناشکروں کی اطاعت نہ کرو۔‘‘ (الدہر:۲۴) اس سے بھی آگے قرآن
مجید نے بدی کی طاقتوں سے تعاون کو ممنوع ٹھہرادیا: ’’اور گناہ اور نافرمانی کے
کاموں میں (کسی سے) تعاون نہ کرو۔‘‘
(المائدہ:۲)
(10)یہ
بات جب واضح ہوگئی کہ عبادت ِ رب کے ساتھ اطاعت ِ طاغوت چلنے کی چیز نہیں اور امر
بالمعروف کا کام کرنے والے اثم و عدوان سے تعاون نہیں کرتے تو پھر یہ حقیقت قرآن
کے طالب علم پر ازخود کھل جاتی ہے کہ اسلام کسی مخالف ِ اسلام طاقت کے غلبے میں
اپنے پورے تقاضوں کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ پس ضروری ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن
المنکر کا مشن خود غالب طاقت بن جائے۔ اسی اصول پر قرآن اپنے مخاطب کو یہ تلقین
کرتا ہے کہ عبادت ِ رب کے نظام اور مسلک اسلام کو غالب کرو: ’’وہی ہے جس نے اپنے
رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب
ادیان پر غالب و سربلند کردے ۔‘‘ (الصف:۹) ’’اور اللہ کا فرمان تو (ہمیشہ) بلند و بالا
ہی ہے۔‘‘ (التوبہ:۴۰) دوسری
جگہ ہے:’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ یقیناً میں اور میرے رسول ضرور غالب ہو کر رہیں
گے۔‘‘ (المجادلہ:۲۱) مختصر
یہ کہ قرآن اپنے پیغام کو معاشرے میں کامیاب اور عملاً جاری و ساری دیکھنے کا
تقاضا کرتا ہے۔
(11) مخالف
نظاموں
ان کار و اجتناب اور عدم تعاون سے بات آگے بڑھ کر یہاں
آپہنچی کہ جو اربابِ تدبر و تفکر اپنے رب کے سامنے سرتسلیم خم کردیں، زندگی اس کی
عبادت کے لئے وقف کردیں اور اس کے مقررکردہ مشن امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے
لئے اٹھ کھڑے ہو، ان کے لئے لازم ہے کہ وہ قرآن کے نظام کو عملاً غلبہ دلانے کی جدوجہد کریں۔ قرآن کی رو سے بھی
، اور اللہ تعالیٰ کے قانونِ مشیت کے تحت بھی حق و باطل کا تصادم ناگزیر ہے۔ اس
کشمکش کی کٹھالی کے پیش نظر قرآن اپنے شاگرد کو بتاتا ہے کہ جنت کی منزلِ کامرانی
کو جانے والا راستہ بڑا مردافگن ہے: ’’کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم (یونہی بلا
آزمائش) جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تم پر تو ابھی ان لوگوں جیسی حالت (ہی)
نہیں بیتی جو تم سے پہلے گزر چکے، انہیں توطرح طرح کی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں
اور انہیں (اس طرح) ہلا ڈالا گیا کہ (خود) پیغمبر اور ان کے ایمان والے ساتھی
(بھی) پکار اٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی؟ آگاہ ہو جاؤ کہ بیشک اﷲ کی مدد قریب
ہے۔‘‘ (البقرہ:۲۱۴) اس
کشمکش کے لئے قرآن اپنی تحریک (امربالمعروف و نہی عن المنکر) کے آدمی سے یہ بات
پہلے ہی قدم پر طے کرلیتا ہے کہ وہ اس راہ پر آئے تو اللہ سے اپنے جان و مال کا
سودا کرکے آئے۔
(12)قرآن
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جس تحریک کو چلا کر دنیا میں امن و سلامتی کا
دور پیدا کرنا چاہتا ہے اس کی کامیابی کی صورت میں وہ مطالبہ کرتا ہے کہ دین کا
پورا نظام اور قرآن کا سارا قانون جاری کیا جائے۔ اس سے حیواۃ طیبہ اور حیات
صالحہ اور حیات مطمئنہ پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کا مرکزی پیغام بس ایک ہی ہے: اعبدو
ربکم ۔ باقی ساری چیزیں اسی کے تقاضے ہیں۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism