نعیم صدیقی
حصہ اول
28 جنوری 2022
قرآن ناآشنا آدمی کا
رویہ زندگی کے شہر میں کچھ اسی طرح کا ہوتا ہے جیسے کوئی نادان دیہاتی کسی بڑے شہر
میں جا پہنچے۔ وہ حیرت زدہ اور مبہوت بھی ہو، سرپھرا اور غلط جسارتوں کا مرتکب
بھی۔ کبھی وہ آوارگی کرتا پھرتا ہے، کبھی من مانے طریقے سے تفریح کرتا ہے یا
لااُبالی پن سے انسانوں اور عمارتوں پر نظر ڈالتا ہے، کبھی دنگے فساد پر اتر آتا
ہے تو کبھی خواتین سے بدتمیزی کرتا ہے،
کبھی اداروں، دفتروں اور عمارتوں میں غلط طور پر جا گھستا ہے ، کبھی ٹریفک کے
قواعد کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ غرض قدم قدم پر اپنے اور دوسروں کے لئے مشکلات پیدا
کرتا ہے۔ بسا اوقات پولیس کے ہتھے چڑھ
جاتا ہے۔ کبھی عدالت میں لے جایا جاتا ہے، کبھی جیل کی ہوا بھی کھاتا ہے اور پھر
کسی ناخوشگوار تجربے کے بعد بے بسی کے عالم میں بیٹھ کر زار زار رونے لگتا ہے، مگر
وہ سمجھ نہیں پاتا کہ یہ سب کچھ کیا ہے اور کیوں ہے۔ فرض کیجئے اسی طرح کے کسی
نادان نووارد کو آپ کسی جگہ پریشان و خستہ حال دیکھتے ہیں یا کسی سڑک پر کسی پارک
میں بے بسی سے روتا پاتے ہیں، آپ اس کے قریب چلے جاتے ہیں، ہمدردی سے اس کے کندھے
پر ہاتھ رکھ کر اس کی د رد بھری کتھا سنتے ہیں، پھر اُسے پیار سے سمجھاتے ہیں کہ
عزیز من! اس شہر کی ایک حکومت ہے، اس کا ایک انتظام ہے، اس شہر میں رہنے اور اس کی
چیزوں سے فائدہ اٹھانے اور اس کے پارکوں ، عمارتوں اور گاڑیوں کو استعمال کرنے کے
کچھ ضابطے ہیں، یہاں کے انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے اور تعلق رکھنے کے کچھ آداب مقرر ہیں، ان کو اگر نہیں جانوگے
اور ان کا اگر لحاظ نہیں رکھوگے تو بار بار اذیت اور نقصان اٹھاؤ گے ۔ ان کو سمجھ
لو اور قبول کرلو تو کوئی پریشانی نہ ہوگی ۔ تو میں تمہیں بتاؤں کہ یہاں حکومت کس
کی ہے ، یہاں کے قوانین اور آداب کیا ہیں اور یہاں کا اخلاقی آئین کیا ہے؟
کچھ ایسا ہی ہمدردانہ اور
خیرخواہانہ معاملہ ہے جو قرآن غم زدہ پریشان حال اور آوارہ خیال انسان سے کرتا
ہے:
(۱)
قرآن کا بنیادی اور ابتدائی پیغام یا سبق اول
انسان کے لئے یہ ہے کہ یہ دنیا جس میں تم اتار دیئے گئے ہو، یہ اندھی نگری نہیں ہے
جس کا نہ کوئی راجہ ہو نہ جس میں کوئی قانون ضابطہ رائج ہو۔ یہاں تم شتر بے مہار بن کر کبھی امن و سکون
نہیں پا سکتے۔ یہاں مادر پدر آزادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ کائنات کسی
کھلنڈرے بچے کا بنایا ہوا گھروندا نہیں ہے۔ بے مقصد بھول بھلیاں بھی نہیں۔ یہ
سلسلۂ حوادث ایک حیرت خانۂ امروز و فردا نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ایک اتفاقی حادثہ کا
نتیجہ نہیں ہے۔ غرض تمہیں یونہی دل لگی کے لئے نیست سے ہست نہیں کردیا گیا ۔
تمہارے وجود اور زندگی دونوں کے لئے بڑی بھاری ذمہ داریاں ہیں:
’’وہ لوگ جو اٹھتے، بیٹھتے
اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و
فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور
بے مقصد نہیں بنایا ہے۔‘‘ (آل عمران: ۱۹۱) ’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا
تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں
ہے؟‘‘ (المومنون:۱۱۵)
(۲)
قرآن سلطنت ِ الٰہی کے اَنجان شہری کو کچھ اور
باتیں بتاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس چمن میں پھول ہی پھول نہیں ، کانٹے بھی ہیں ۔
یہاں نسیم سحری ہی نہیں چلتی، صرصر و سموم
بھی چلتی ہے۔ یہاں نشیمن ہی نہیں، دام اور قفس بھی ہیں۔ یہاں خرمن ہی نہیں ہوتے،
بجلیاں بھی گرتی ہیں ۔ یہاں خیر کے ساتھ ساتھ شر بھی پایا جاتا ہے اور راحتوں کے
ساتھ دکھ بھی ۔ یہاں زندگی اپنے کرشمے دکھاتی ہے اور موت اپنا پارٹ ادا کرتی ہے۔
یہاں انسان اضداد کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ یہاں ہر اقدام لازماً اچھی ہی سمت نہیں ہوتا بلکہ بہت سی جادہ پیمائیاں منزلِ مقصود سے
دور تر بھی لے جاتی ہیں۔ یہاں رہنما اور رہزن ایسے گھلے ملے ہیں کہ آدمی کچھ نہیں سمجھ سکتا کہ کس کا ساتھ
دے ۔ یہاں ہر قدم پر ایک دوراہا سامنے آتا ہے اور آدمی کو فوری فیصلہ کرنا پڑتا
ہے کہ کدھر جائے۔ حق و راستی کی طرف لے جانے والے محرکات ِ خیر بھی ہیں اور
محرکاتِ شر بھی، جن کے اثر سے بے شمار افراد بلندی کی طرف بھی جاتے ہیں اور بے
شمار لوگ پستی کی طرف بھی لڑھکتے ہیں۔ اسی طرح اقوام ترقی بھی کرتی ہیں اور تباہ
بھی ہوتی ہیں۔ دیکھو کتنے عالیشان تمدنوں کے مزار چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں:
’’لوگو، تم سے پہلے کی قوموں کو (جو اپنے اپنے زمانہ میں برسر عروج تھیں) ہم نے
ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کی روش اختیار کی۔‘‘ (یونس:۱۳)
قرآن بتاتا ہے کہ یہ دنیا
کوئی چھوٹ کی دنیا نہیں ہے، یہ لاوارث گھر نہیں ہے، یہاں کوئی خوانِ یغما بچھا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ کسی کی
ملکیت ہے جس کے قوانین گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ جہاں تم نے غلط قدم اٹھایا کوئی نہ
کوئی قانون تمہیں گھیر لے گا۔ ایک نادیدہ
قانونی قوت تمہارا احاطہ کر لے گی اور تم اس کی پکڑ سے باہر نہ جاسکوگے۔
پھر جیسے، آپ اپنے شہر کے
نووارد کو بتاتے ہیں کہ میاں یہاں ذرا چوکنا رہ کے چلو پھرو، یہاں جیب کترے اور
ٹھگ، اٹھائی گیرے بھی ہیں جو بھنگ یا نشہ
آور مٹھائی کھلا کر نوواردوں پر ہاتھ صاف کرجاتے ہیں، اسی طرح قرآن مجید انسان
کو آگاہ کرتا ہے کہ یہاں ابلیس اور اس کا لشکر جن میں شیاطینِ انس بھی شامل ہیں،
پھیلا ہوا ہے جو ہر بدی کو خوشنما اور رنگین و دلفریب بنا کر پیش کرتا ہے اور پھر
چمکار کر، بہلا پھسلا کر تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ قرآن مجید انتباہ کرتا ہے کہ :
’’ شیطان کی پیروی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا
دشمن ہے ۔‘‘ (یٰسین:۶۰) یہ
شیاطین بسا اوقات دوست اور ناصح بن کر آتے ہیں، بڑے خیرخواہانہ مشورے دیتے ہیں،
امیدیں دلاتے ہیں، پُراسرار طریق سے اپنی بات القا کرتے ہیں، بدترین معصیت کو
رومان اور لذت اور تفریح اور رنگینی سے آراستہ کرکے لاتے ہیں، بدترین مفاسد کو
حکمت و فلسفہ کے مرعوب کن پیرایہ میں لپیٹ
کر پیش کرتے ہیں اور پھر جب ان کا شکار تباہی سے دوچار ہوجاتا ہے تو اسے دھتکار کر
کہتے ہیں کہ اب اپنی حماقت کا نتیجہ بھگتو۔ شیاطین کے سربراہ کا یہ چیلنج بھی ملاحظہ ہو کہ :
’’اِن انسانوں کی گھات میں
لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے اِن کو گھیروں گا ۔‘‘
(اعراف:۱۷) قرآن
کے خیرخواہانہ انتباہات سے ایک سلیم الفطرت آدمی یہ حقیقت پالیتا ہے کہ زندگی
گزارنا کوئی کھیل نہیں ہے، یہاں تو ایک
پرخطر جنگل میں سے راستہ نکالنا ہے اور جو مختلف راستے نکلتے ہیں اور ان کی طرف
مختلف بلانے والے بلاتے ہیں، ان میں سے صحیح راستے کی شناخت کرنا ہے جو انسانی
ارتقاء کی آخری منازل تک لے جا سکے۔
(۳)
قرآن کے اس دوسرے سبق کے تقاضے سے تیسرا سبق
ابھرتا ہے اور ایک بیدار دل آدمی کا ذہن خودبخود ادھر منتقل ہوجاتا ہے کہ یہ دنیا
بچ بچا کر چلنے کی جگہ ہے، یہاں پھونک پھونک کے قدم رکھنا چاہئے، یہاں ہر قدم پر
یہ طے کرنا ضروری ہے کہ صحیح کیا ہے؟ اور
غلط کیا ہے ۔ مدعا یہ کہ صحیح زندگی تبھی مل سکتی ہے جب کہ اس کے ساتھ تمیزِ خیر و
شر کی کم از کم سنجیدہ کوشش پائی جائے۔جو زندگی
تمیزِ خیر و شر کی کوشش سے خالی ہو وہ فلاح سے خالی رہے گی اور کبھی اچھے
نتائج تک نہیں پہنچے گی ۔
(۴)
قرآن شہر ِ زندگی کے پریشان خیال نووارد کو یہ
احساس دلاتا ہے کہ دنیا کی گزرگاہ سے گزرنے والے مسافر کے لئے غفلت کے ساتھ اور
عبرت سے بے نیاز ہوکر چلنا درست نہیں ہے بلکہ بیدار عقل، متحرک ذہن، کھلے کانوں
اور دیکھتی آنکھوں کے ساتھ ہی یہ وادی بخیر و خوبی پار کی جاسکتی ہے۔ اس کی نگاہ
میں وہ لوگ فریضۂ زندگی کو ادا کرنے میں بالکل ناکارہ ہیں جو صم بکم عمی (بہرے،
گونگے اور اندھے) کی تعریف میں داخل ہیں ۔ اور سنئے: ’’یقیناً خدا کے نزدیک بدترین
قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘ (انفال:۲۲) دوسری جگہ وہ اس ناکارہ
عنصر کا تذکرہ یوں کرتا ہے: ’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن
کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں،
ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے
سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں
جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔‘‘ (الاعراف:۱۷۹) وہ انسانوں کو تفکر اور
تدبر کا درس دیتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ کائنات اور زندگی کی حقیقتوں کے
متعلق آدمی کے دل میں سوالات پیدا ہوں،
وہ اپنی حقیقت کے جاننے کے درپے ہو،
وہ اپنا صحیح مقام دنیا میں متعین کرے کہ وہ کہاں کھڑا ہے، اس کا مرتبہ کیا
ہے ، اس کا کس سے کیا تعلق ہے اور اُسے یہاں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔(جاری)
28 جنوری 2022، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism