New Age Islam
Thu Mar 30 2023, 11:39 PM

Urdu Section ( 10 Nov 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Maulana Abul Kalam Azad, National Education and Urdu مولانا ابوالکلام آزاد قومی تعلیم اور اردو

 

مظفر حسین سید

11 نومبر، 2014

ہمارے وطن ہندوستان ، جنت نشان کی عموماً او رہماری محبوب زبان اردو کی عین خوش بختی  ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کے اولین وزیر تعلیم مقرر ہوئے ۔  انہوں نے قومی تعلیم اور اس کی بقاء کےلئے بڑی خاموشی اور حسن تدبرّ کے ساتھ ایسے دور رس اور دیر پا اقدامات کئے جن کے ثمرات آج بھی جاری و ساری ہیں ۔

قومی تعلیم کے میدان میں مولانا اوّل اوّل ایک منضبط تعلیمی منصوبہ تیار کیا ، جس کی بنیاد پر آزاد ہندوستان کی قومی تعلیم کی عمارت تعمیر ہوئی  ۔ انہوں نے تعلیم کے تمام شعبہ جات کے لئے منفرد و ممتاز منصوبہ وضع کئے، نئے اصول و ضوابط تشکیل کئے اور انہیں نافذ  بھی کیا، مولانا  نے اپنے تعلیمی  تصورات کے مطابق جو دراصل انتہائی ابتدائی ، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے علاحدہ علاحدہ منصوبے تشکیل  دیئے ۔ جن کی اساس پر آج ہماری قومی تعلیم کا محل ایستادہ ہے، یہی  نہیں انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے بعد تحقیق ، نیز ما بعد تحقیق و جستجو ئے علم و دانش کے لئے بھی نئی جہتیں تلاش کیں ، اس ذیل میں انہوں نے جدید علوم یعنی سائنس کی ترویج پر خصوصی توجہ مرکوز فرمائی۔ علاوہ ازیں ایک بنیادی حقیقت کے اعتراف کے طور پر مولانا کا تمام تر اصرار ابتدائی سطح کی تعلیم پر تھا، کیونکہ انہیں یقین کامل  تھا کہ اگر ابتدائی تعلیم مستحکم بنیادوں پر استوار ہوگی تو آئندہ کے تعلیمی مراحل بھی کامیابی سے طے ہونگے ۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ابتدائی تعلیم لازماً بچے کی مادری زبان میں ہونی چاہئے ۔ اس لئے  کہ دنیاوی  امور کی فہم صرف مادری زبان میں بہتر طور پر ممکن ہے۔ اس کے ہمرشتہ انہوں نے انگریزی  کی تعلیم پر نہ صرف زور دیا بلکہ اسےنافذ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، دراصل وہ انگریزی زبان کی بین الاقوامیت ، نیز  اس کے دامن میں سمائے ہوئے علوم کی آفاقی  حیثیت و اہمیت کے کما حقہ  واقف تھے، انہیں بخوبی  اندازہ تھا کہ آئندہ عشروں میں ، نیز اگلی صدی میں انگریزی سے واقفیت  ایک بنیادی ضرورت کے طور پر سامنے آئے گی۔ حالات شاہد ہیں کہ بعینہ وہی ہوا، جس کا تصور مولانا نے کیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ آج جدید ہندوستان کے تقریباً تمام موقر تعلیمی ستون مولانا آزاد کے ہی کے تشکیل کردہ یا تعمیر کردہ ہیں،  یا پھر  ان کی بتدریج ترقی ان کی کاوشوں اور سر پرستی کی رہین منت ہے خواہ وہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ( یو جی سی) ہو یادیگر ثقافتی ، تمدنی ، ادبی و سائنسی  ادارے، یہ تمام تر مولانا کےذہن رسا کی پیدوار ہیں، اور آج ان کی بیش قیمت وراثت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ( دراصل ، بطور وزیر تعلیم ، مولانا آزاد کی خدمات ایک علاحدہ ، مستقل  مضمون کی متقاضی ہیں، لہٰذا سردست محض اجمالی تذکرہ)

انجمن ترقی اردو ( ہند) سے مولانا آزاد کی وابستگی  ، ذاتی  اور جذباتی نوعیت کی تھی ۔ 1903 میں انجمن کے قیام کے دن سے اپنے وقت آخر تک وہ اس تنظیم سےمستقلاً وابستہ رہے۔ انہوں نے اپنےاخبار ’ لسان الصدق’ کو عملاًٰ انجمن کا ترجمان بنا دیا تھا ، اس کے بعد بھی وہ مسلسل اس ادارے کی سرپرستی کرتے رہے۔ آزادی کے بعد جب انجمن کسمپرسی وغیر یقینی حالات کاشکار ہوئی تو مولانا نے نہ صرف وزارتِ تعلیم سے اس کی عمارت کے لیے ایک خطیر رقم منظور فرمائی بلکہ اس کی مستقل سالانہ امداد کا اہتمام بھی کردیا۔انہوں نے ذاتی دلچسپی لے کر اور کڑی نگرانی کرا کے بابائے اردو مولوی عبدالحق  کو انجمن کی جملہ املاک ، نیز کتابوں کا ذخیرہ پاکستان منتقل  کرنے سے باز رکھا اور اس کا صدر دفتر دہلی سے علی گڑھ منتقل کرادیا، پھر انجمن کے پرچم تلے کل ہند اردو کانفرنس منعقد کرائی ۔

مولانا آزاد نےاردو کےمقدمے کوبڑےہی  پرُزور ، موثر اور مدلّل طریقے سے 15 فروری 1958 کو انجمن ترقی اردو( ہند) کے ذریعے انعقاد پذیر کل ہند اردو کانفرنس میں پیش کیا تھا ۔ اپنی وفات سے محض ایک ہفتہ قبل مولانا نے اُس اجلاس میں بڑی وقیع و بسیط تقریر ارشاد فرمائی تھی  ، جو اس امر کی متقاضی ہے کہ اس کامکمل متن شامل عبارت کیا جائے ، تاہم بہ لحاظ  اختصار اس کی صرف چند سطریں  حاضر ہیں۔

‘‘ تیس چالیس سال پہلے زبان کے بارے میں یہ جھگڑا تھا کہ ملک کی زبان کیا ہو۔ اور جو ہندی کے حامی تھے ، وہ چاہتے تھے  کہ اردو ملک کی زبان ہو۔ اور جو ہندی کے حامی تھے ، اُن کی خواہش تھی کہ ہندی  ہو۔ اور یہ معاملہ اس وقت گہرا ئی تک پہنچ گیاتھا، کیونکہ  دونوں زبانیں ایک دوسرے کی رقیب بن کر کھڑی ہوگئی تھیں۔ ملک آزاد ہوا ، دستور بنا، اسمبلی میں بحث ہوئی اور اکثریت کے ساتھ ہندی کو ملک کی زبان تسلیم کرلیا گیا، جس کے نیتجے میں اردو کی حیثیت میں ایک بنیادی انقلاب آگیا ۔ لیکن اردو کی جگہ ہے اُسے ملنی چاہئے’’۔ ( بحوالہ آزاد کی تقریر یں، مرتّبہ عارف انور،1961)

اس کانفرنس میں مولانا آزاد نے اردو کا پرُ جوش و پرُ زور دفاع کیا، اس کی مد لّل وکالت کی ، اور اسی  اجلاس میں پنڈت نہرو سے اردو کی حمایت کا واضح اقرار و اعلان بھی کرا دیا۔ پنڈت نہرو نے اس کانفرنس کا افتتاح کیاتھا ۔ شومی قسمت کہ اردو کی یہ کانفرنس مولانا کی حیات کا آخری اجتماعی ثابت ہوئی، جس میں انہوں نے اردو کا مقدمہ پیش کیا تھا ۔

دراصل آزادی کےبعد مولانا آزاد نے اردو کے حق کی جنگ از سرِ نو شروع کی تھی ۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا تھاکہ ہندی کے منصب و مرتبے  پر حرف نہ لاتے ہوئے اردو کے جائز  حق کامطالبہ کیا جائے اور اس کو اس کاوہ مقام دلایا جائے جس کی وہ سزا وار ہے،روایتی طور پر بھی اور قانوناً بھی ۔

بحیثیت ایک عملی، معاشرتی و استعمالی زبان کے ، اردو کی بقا اور اس کے فروغ کے لیے مولانا آزاد کی خدمات  بنیادی  نوعیت  کی ہیں اور تاریخی اہمیت  کی حامل ۔ دراصل وہ اس راز سے واقف تھے کہ اگر آزاد ہندوستان میں روزگار کے ساتھ اردو کا دیرینہ بر قرار نہ رہا تو اس کی بقا وزیست  کی ضمانت نہ دی جاسکے گی ۔ اس لئے  انہوں نے ایسے عملی اقدام کیے کہ اردو کی تدریس رائج الوقت نظام تعلیم کا جزوِ لازم بن جائے۔

اوّلین  وزیر تعلیم  کی حیثیت  سے جب انہوں نے ایک جدید نظام تعلیم کا خاکہ مرتّب کیا تو اردو کا التزام رکھا ۔ انہوں نے سرکاری تعلیمی  اداروں میں اردو تعلیم کی گنجائش نکالنے کے لیے سہ لسانی فارمولے کی تجویز پیش کی اور ہندی انگریزی  کےساتھ تیسری  زبان کے طور پر اردو کو اس کا حصہ بنایا۔ ان کا مطمح نظریہ تھا کہ کم از کم شمالی ہند، جہاں ہندی کے علاوہ کوئی علاقائی زبان نہ تھی،  اور بالخصوص اتر پردیش اور بہار میں جو کبھی اردو کے قلعے تھے ، وہاں اردو کی تعلیم  صرف مسلمانوں  کے لیے ہی نہیں بلکہ  سب کے لئے لازم و ملزوم بن جائے۔ دراصل یہ ایک طویل مدتی منصوبہ تھا او رمولانا کی فراست  و معاملہ فہمی کا ایک اعلا و ارفع نمونہ، جس کے عملی و افادی تنائج چند برسوں بعد سامنے آتے اور وقت کے ساتھ مستقل ہوجاتے، مگر افسوس کہ اُن کی عمر نے وفانہ کی، اور ان کے جانشینوں نےاس طرف چنداں توجہ نہ کی ۔ سہ لسانی فارمولہ آج بھی موجود ہےمگر اس کے توسط سے اردو کو برائے نام ہی فیض حاصل ہورہا ہے، کیونکہ تیسری زبان کے نام پر سنسکرت کومسلط  کردیاگیا ہے۔ اس طرح مولانا کی منصوبہ بندی و دور بینی کا بنیادی مقصد ہی فوت ہوگیا،اور ان کا خواب نامکمل رہ گیا۔ بقول  امر شکست  وفتح تو نصیبوں  سے ہوتی ہے مگر جہد مسلسل اور اخلاص نیت شرط ہے، اور مولانا سے اس باب میں کبھی  کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔ اردو کے تئیں مولانا آزاد کی خدماتِ عالیہ  سے انکار کفر ہے۔ اردو کے تعلق سے مولانا کی عطا اور ان کی عظمت کو سلام۔

اردو کے تحفظ و ترقی کے لیے مولانا آزاد  کی مساعی جلیلہ بڑی حد تک ملّی اداروں کی بقا  کی ضمانت ، اُن کی حیاتِ دوام اور ان کےتحفظ  کے مستقل اہتمام سےعبارت تھیں ۔ ملک کے طول  و عرض میں قائم دینی مدارس  بشمول دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلما، دارالمصنّفین اعظم گڑھ ، دائرۃ المعارف عثمانیہ ، حیدر آباد، رضا لائبریری رام پور، خدا بخش لائبریری پٹنہ، کتب خانہ ٹونک اور انجمن ترقی اردو( ہند) کے علاوہ انہوں نے مسلم یونیورسٹی  علی گڑھ اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ ، دہلی کی بقا ، نشو ونما ، فروغ اور پائیدار تحفظ کے لیےبڑے منصوبہ بند، دانش ورانہ اور دور رس نتائج کے حامل اقدام کیے، جن کی تفصیل قدرے اختصار کے ساتھ یہاں پیش ہے۔

علی گڑھ او رمولاناآزاد کارشتہ عجیب و غریب نوعیت کارہا۔ اپنی ذہنی نشو و نما کے ارتقائی دور میں آزاد، سرسیّد کی فکر اور ان کی تحریروں سے از حد متاثر تھے ۔ لیکن  بعد میں انہیں سرسیّد سے اختلاف ہوگیا اور وہ سرسیّد کے سیاسی موقف  کے ناقد ہوگئے ۔ لیکن یہ سرسیّد کی رحلت کے بعد کی بات ہے، اس کے بعد جب بیسویں صدی کے اوائل میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی مہم شروع ہوئی تو مولانا آزاد اگر چہ اس کے قیام کے حامی تھے، انہوں نے اس کی جد وجہد میں عملی حصہ بھی لیا، لیکن جس شکل میں یونیورسٹی قائم ہورہی تھی، وہ انہیں قبول نہ تھی ۔ پھر حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ وہ علی گڑھ سے دور ہوتے گئے۔ یہ تمام امور تفصیلی گفتگو کے متقاضی ہیں لیکن فی الوقت یہ ہمارا موضوع نہیں ۔ تاہم بالا ختصار یہ کہنا لازم ہے کہ جب تقسیم وطن اور حصولِ آزادی  کے بعد دیگر تمام مسلم اداروں کی طرح مسلم یونیورسٹی کی بقا اور اس کےوجود کو بھی شدید خطرات لاحق ہوئے ، تب مولانا آزاد نے اپنے تمام تر نظریاتی  و فکری اختلاف او رماضی کی بد مزگیوں کے باوجود اس دانش گاہ کی سر پرستی فرمائی ۔

ڈاکٹر ذاکر حسین بھی مسلم یونیورسٹی کے حامیوں میں  نہ تھے، لیکن مولاناآزاد نے انہیں بہ اصرار بلکہ ذاتی دباؤ کے تحت علی گڑھ بھیجا  تاکہ وہ اس دانش گاہ علمی  کو حیاتِ تازہ بخش کر سرسیّد کی وراثت کو باقی رکھیں ، اس کی حفاظت کریں اور اس ملّی  درس گاہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں،  اور بعینہ یہی ہوا بھی ۔ اس طرح دراصل مولانا نے مسلم یونیورسٹی کی بقائے دوام کااہتمام ، بڑی  دانش مندی اور کمالِ تدبرّ کے ساتھ کیا تھا، جب 1949 میں مولانا آزاد اس دانش گاہ کے جلسہ تقسیم اسناد کی صدارت کے لیے علی گڑھ  تشریف لائے تو تمام کلفتوں اور شکایتوں کو فراموش کر کے طلبہ کے سر پر اپنادستِ شفقت رکھا ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا :

‘‘ سرسیّد نے علی گڑھ میں ایک کالج ہی قائم نہیں کیابلکہ وقت کے جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر اسے دانشوری اور ثقافت کامرکز بنایا۔ انیسویں صدی میں ہندوستان کی نشاۃِ ثانیہ کا دور تھا، او رعلی گڑھ اس کا سب سے بڑا مرکز ۔۔۔۔ مستقبل کےمورخ علی گڑھ میں جدید ہندوستان کی تعمیر کے ماخذ تلاش کریں گے ۔۔۔۔ جو دروازے مقفل تھے اب کھل گئے ہیں’’۔ ( بحوالہ مجلہ علوم اسلامیہ علی گڑھ ، جلد16 ، شمارہ 21)

راقم الحروف کو یہ کہنے کی اجازت  دیجئے کہ اگر 1947 کے پرُ آشوب دور میں  مولانا آزاد جیسا ذی فہم اور با اثر قائد حکومت وقت کا با اختیار رکن رکین نہ ہوتا  تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وجود یا تو خدانخواستہ باقی نہ ہوتا، یا اس شکل و صورت میں نہ ہوتا ، جس میں آج ہے۔ وقت کے ساتھ نہ صرف اس کی نشو و نما ہوئی ہے بلکہ  اس کے حسن و جمال میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ ان اذکار کے ثبوت کی ضرورت یوں نہیں  کہ اس دانش گاہ کی گزشتہ 68برس کی تاریخ  ان تمام واقعات کی شاہد اور حقائق کی مؤ یّد ہے۔ راقم کی ان معروضات کی توثیق رشید احمد صدیقی  کی اس سطور سے بھی ہوتی ہے:

‘‘ بیسویں صدی کے عشرہ اوّل میں مسلمانوں کی سیاسی اور قومی زندگی نے جو رنگ اور رخ اختیار کیا،اس کی قیادت اتنی حرکی ، محکم او رہمہ جہتی نہ تھی کہ جتنا وقت کا تقاضہ ۔ اس وقت ایک نئے سرسیّد کی ضرورت تھی ۔ میرے نزدیک یہ رول مولانا ابوالکلام آزاد نےادا کیا’’۔(بحوالہ ‘ مولاناابوالکلام آزاد مرحوم’ علی گڑھ میگزین 1959ء)

جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی بھی مولانا آزاد کی رہین ِ احسان ہے، وہ یکے از بانیانِ جامعہ تھے ، روزِ اوّل سے انہوں نے اس ادارے کی رہبری و سر پرستی کی ۔ تقسیم ہند کے وقت جامعہ قرول باغ ، دہلی میں تھی، وہاں اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو مولانا کی سرپرستی او رڈاکٹر ذاکر حسین کی قیادت میں جامعہ اوکھلا  کی بستی میں منتقل  کئی گئی ، جہاں آج وہ ایک ذی شان دانشگاہ کی شکل میں قائم اور روبہ عروج ہے۔ مولانا کے ہی ایما پر جامعہ کا ذریعہ تعلیم اردو کو قرار دیا گیا ۔ یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا نام بھی  مولانا ہی کے ذہن کی اختراع ہے۔انہوں نے جامعہ کے بنیادی  نام  ’ نیشنل مسلم یونیورسٹی’ کا عربی ترجمہ  جامعہ ملّیہ اسلامیہ کردیا اور پھر یہی  نام رائج ہوگیا ۔ اس کا حوالہ سیّد سلیمان ندوی نے اپنی تصنیف  ‘‘ حیات شبلی’’ میں دیا ہے۔

آزادی کے بعد دارالمصنّفین اعظم گڑھ پر پیمبر ی وقت پڑا تو اس کا قائم رہنا ہی دشوار نظر آنے لگا۔ اس وقت مولاناآزاد مسیحا بن کر سامنے  آئے، انہوں نے سرکاری سطح پر ایک خطیر رقم اس ادارے کے لیے منظور فرمائی، ان کے اس فیصلے کو پنڈت نہرو کی مکمل حمایت  حاصل تھی، اس کے باوجود انہیں اس سلسلے  میں قومی پارلیمان میں جواب دہی  کا سامنا کرنا پڑا۔ مجلہ ‘ معارف’ کی ایک تحریر ا سکی شاہد ہے:

‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد نے فی الحال ایک سال کے لیے 60 ہزار کی گراں قدر رقم بطور امداد منظور فرمائی ہے اور پنڈت جواہر لال نہرو نے اس کی پوری تائید کی ہے’’۔ ( بحوالہ ‘ معارف ’ ماہ اگست 1953)

اسی طرح جب مسلم دشمن اور اردو مخالف عناصر کی ریشہ دوانیوں  کے سبب دائرۃ المعارف عثمانیہ، حیدر آباد کا وجود ہی ناپید ہونے والا تھا تو مولانا نے بر وقت ا س کی داد رسی کی۔ اس کی شہادت مولانا عبدالماجد دریابادی نے فراہم کی، ان کے الفاظ میں :

‘‘ یاروں نے کیا کوئی کسر ادارے کے بند کرا دینے کی اٹھانہ رکھی تھی ، ادارہ مسلمانوں کا مخصوص کام کررہا ہے ،فرقہ وارانہ ہے، سیکولر حکومت میں اس کا کیا کام ۔ اسے فوراً  القط  ہونا چاہئے ۔ قریب تھا کہ فرمان قضا  اس مضمون کا شائع ہوجائے  لیکن خدا غریق رحمت کرے وزیر تعلیمات ہند مولانا ابوالکلام آزاد کو کہ ان کی مسیحا نفسی نے اس از سر نو زندگی  عطا کی’’۔ ( بحوالہ ‘ اردو کا ادیب اعظم ، سفر دکن ’ قسط چہارم)

درحقیقت مذکورہ بالا تمام ادارے مولانا آزاد کے بروقت و باضابطہ نظم کے طفیل نہ صرف برقرار رہے بلکہ اب بھی قائم  اور فروغ پذیر ہیں۔ مولانا آزاد کے ذریعے مذکورہ بالا اداروں  کی امداد اور سر پرستی کا ذکر ابو سلمان شاہجہاں پوری نے اپنی تصنیف ‘‘ اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ’’ میں تفصیل سے فرمایا ہے، ان کی ایک مختصر اقتباس  پیش ہے:

‘‘ حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کے یہ تمام اقدامات و مساعی  علوم و فنون  سے ان کی دلی وابستگی کے عناوین  اور اردو کی ترقی کے لیے بنیادی سرو سامان  کی حیثیت رکھتے ہیں’’۔ ( اشاعت اوّل ، ناشر، انجمن ترقی اردو ہند ، 1988)

یہ تمام امور مدلل  ، مفصل اور باثبوت گفتگو کے متقاضی  ہیں لیکن اس مضمون کا اختصار راقم کو پابند کرتاہے کہ وہ صرف اشاروں پر اکتفاکرے۔ بہر کیف جامع ثبوت کے طور پر مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی ایک تقریر کا حوالہ دینا لازم ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا :

‘‘ مولانا آزاد نے آزادی کے بعد نہایت نا مساعد حالات میں بھی  بھارت میں مسلمانوں اور اسلام کی خدمت بڑی جرأت ، دلیری ، ہمت او ربہادری  کے ساتھ کی’’۔ ( بحوالہ تقریر مولانا سعید احمد اکبر آبادی ، کراچی، 1987 ، مطبوعہ اخبارات ، کراچی)

مسلمانوں کے جن اداروں کا ذکر بالائی عبارتوں میں کیا گیا، ان کی سر پرستی  و خدمت دراصل اردو کی ہی خدمت تھی کہ انہی اداروں کے دم سے آج اردو زندہ  و تابندہ ہے۔ اگر چہ کئی  خواب ابھی شرمندہ ٔ تعبیر نہیں ہوسکے ہیں، تاہم امکانات کسی نہ کسی  حد تک روشن ضرور ہیں۔

راقم الحروف کی حیرت صرف اس امر پر ہے کہ مولانا جیسے قد آور مفکر ، عالم و عملی سیاست کے شہسوار نے نہ کوئی  ذاتی تعلیمی  نظریہ پیش کیا، جو انہیں ماہر تعلیم  کے منصب پر فائز کرتا ( یہاں مہاتما گاندھی  ، ڈاکٹر ذاکر حسین اور خواجہ غلام السیدین کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں)  اور نہ ہی سر سید، شیخ عبداللہ ( علی گڑھ) ، مولانا محمد علی جوہر اور حکیم عبدالحمید کی طرح کوئی دانشگاہ یا درسگاہ علمی  قائم کی۔ جب کہ یہ ان کے لئے نہ صرف ممکن العمل تھا ، بلکہ سہل الحصول تھا، اگر چہ مسلم یونیورسٹی سمیت متعدد تعلیمی اداروں کے دفاع و تحفظ کے لئے وہ بہ شمشیر و سناں وقلم بہ کف میدان میں آئے او ر کامیابی  کے قلعے سر کئے، نیز وہ جامعہ کی تاسیس میں سر گرم طور پر شریک تھے، تاہم ان کی دراز قدی، نیز ان کا اعلیٰ علمی، معاشرتی و سیاسی مقام اس امر کا متقاضی تھا کہ وہ مسلم یونیورسٹی یا جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسا کوئی عظیم ادارہ قائم کرتے، جو تا قیامت ان کی یاد گارذی شان ثابت ہوتا ۔ غالباً ان کی عملی ( سیاسی) قومی جد و جہد نے انہیں اس کی  مہلت نہیں دی۔ یوں بھی  آزاد ہندوستان کی فضا میں انہیں محض گیارہ برس کا عرصہ خدمت ہی میسر ہوا۔ عمر اور حالات  یاوری کرتے تو شاید ان کا مطلوبہ بالا کارنامہ بھی منصۂ شہود پر نمودار ہوتا ۔ بہر کیف جو کچھ انہوں نے کر دکھایا ، وہ بھی کم نہیں ، بلکہ بہت ہے او ر بہتوں  کے کارناموں پر بھاری،  جو صدیوں میں ہوتا ہے، وہ انہوں نے عشروں میں کر دکھایا تھا ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مجسم ، قائم و دائم ہے او ر رہے گی۔

جہاں میں اہل ایماں

صورت خورشید جیتے ہیں

11 نومبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulana-abul-kalam-azad,-national/d/99952


Loading..

Loading..