مصطفیٰ ایکیول
22 فروری 2014
میں ملیشیا کے اس خوبصورت جزیرے پر ہوں جو سیاحوں کا مرکز توجہ ہے، جہاں ترقی پسند خیالات و نظریات کے حامل ایک تھنک ٹینک پینانگ انسٹی ٹیوٹ نے ایک مکالمہ کی میزبانی کی ہے جس کا عنوان یہ تھا کہ کیا لبرٹی (آزادی) اسلامی اقدار میں سے ہے، جہاں مجھے ملیشیائی مسلمانوں، چینی، ہندوؤں اور عیسائیوں سمیت تمام رنگ و نسل کے لوگوں سے روبرو ہونے کا موقع ملا۔
مقامی سیاست دان کا افتتاحی خطبہ سن کر اچھا لگا اس لیے کہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انفرادی آزادی اسلامی اقدار میں سے ایک ہے جسے مسلمانوں کو برقرار رکھنا چاہئے۔ یہ مندرجہ ذیل اس اہم قرآنی آیت کے ترجمہ کو متضمن ہے:
"مذہب (قبول کرنے) میں کوئی جبر نہیں ہو گا۔" (2:256)
تاہم، میں نے جس لمحہ قرآنی آیت کا یہ خاص ترجمہ سنا جو کہ ملیشیا میں اور ملیشیا سے باہر بھی عام ہے تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ اس لیے کہ اس آیت میں صاف طور پر صرف یہ اعلان ہے کہ "دین میں کوئی جبر نہیں ہے" جبکہ قوسین میں جو بات کہی گئی ہے وہ واضح طور پر اس قرآنی آیت کے معنیٰ میں ایک اضافہ ہے۔
لیکن کیوں؟ اور "دین میں کوئی جبر نہیں ہے" اور "دین قبول کرنے میں کوئی جبر نہیں ہے" کے درمیان کیا فرق ہے؟
جی ہاں ایک بہت بڑا فرق ہے اصل آیت کا مطلب ہے کہ اسلام کے اندر کوئی جبر نہیں ہے جبکہ قوسین کے ذریعے ترمیم شدہ ترجمہ نے اس آیت کے معنیٰ و مفہوم کو صرف اسلام کی قبولیت تک ہی محدود کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ اگر آپ مسلمان ہو گئے تو آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف مجبور کیا جا سکتا ہے۔
یہ "ترمیم" ما بعد قرانی فقہ یعنی شریعت کے آمرانہ احکامات کے مطابق آزادی کے قرآنی احکامات کو محدود کرنے کے لیے بظاہر ضروری تھی۔ مؤخر الذکر کی اہم مثالیں اسلام سے مرتد کو پھانسی اور مسلمانوں پر مذہبی کنٹرول ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنی کتاب "Islam without Extremes: A Muslim Case for Liberty" میں وضاحت کی ہے کہ ان احکام میں سے کسی کی بھی قرآن میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ تاہم، یہ امر بعض مسلمانوں کو ان آمرانہ احکام کے بارے میں سوال کرنے سے روکتا ہے اور باقاعدہ قوسین کا استعمال کر کے اپنے مفاد کے مطابق قرآن کے معنی کو "ترمیم کرنے" پر امادہ کرتا ہے۔
ما بعد قرآن کے نظریات کے مطابق اسلامی صحیفو کے ترجمہ کی اس طرح " ترمیم" کے بہت سارے دوسرے واقعات ہیں۔ مثال کے طور پر (www.noblequran.com پر آن لائن دستیاب ) سورہ فاتحہ کی آخری آیات کا یہ ترجمہ دیکھیں:
" ہم کو سیدہے رستے پر چلا، ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا (جیسا کہ یہودی)اور نہ گمراہوں کے(جیسا کہ عیسائی) ۔ "
یہ خدا سے ایک مسلمان کی دعا ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے نہ بنے : " جن پر اللہ کا غضب ہے اور نہ ہی ان لوگوں میں سے بنے جو گمراہ ہیں۔" اس میں یہودی یا عیسائی کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ لیکن مترجمین بظاہر اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ مسلمان ان توحید پرستوں کو ناپسند کرتے ہیں اور اس وجہ سے انہوں نے قوسین کے ذریعے ترمیم کے ہنر کا استعمال کیا۔
ان مثالوں کو پیش کر کے میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ قرآن کی تشریح، حاشیہ نگاری یا اس میں جملہ معترضہ کا بھی اضافہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک مبتدی کو یقینا کلام الہی کے سیاق و سباق کو سمجھنے کے لئے اس طرح کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، قرآنی آیات میں غیر ضروری معانی کا اضافہ نا قابل برداشت ہے۔ اور یہ اس وقت اور بھی زیادہ ناقابل برداشت ہے جب اس کا استعمال آزادی اور تکثیریت پسندی پر ضرب لگانے کے لیے کیا جائے جسے قرآن برقرار رکھتا ہے اور آمریت پسندی اور تعصب کی خاطر کیا جائے کہ بعض مسلمان جس کے حامل ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://www.hurriyetdailynews.com/beware-of-the-qurans- parantheses.aspx?pageID=449&nID=62781&NewsCatID=411
URL for English article:
https://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/beware-qur’an’s-parentheses;-putting-extra/d/35874
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/putting-extra-meanings-verses-tolerable/d/87145