اصغر علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
حال ہی میں سعودی عرب میں
ٹی وی چینل پر مشاعرہ کے ایک پروگرام میں شاعرہ ہساس حلال نے اپنے ملک میں خواتین کے
تئیں سخت پابندیوں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا۔ یہ احتجاج کی آواز تھی اور بہت
ہی جرّات مندانہ احتجاج تھا اور شاید سعوی عرب کے جیسے معاشرے میں کوئی سوچ بھی نہیں
سکتا ہے۔یہ احتجاج ان کی شاعری میں تھا۔ نقاب میں چھپے اپنے چہرے کے ساتھ انہوں نےاسلامی مبلغین کے بارے
میں کہا ‘اقتدار میں کون بیٹھتا ہے’، لیکن لوگوں کو اپنے فتویٰ سے خوفزدہ کر رہے ہیں۔
اور جو امن چاہتے ہیں ان کا لومڑی کی طرح شکار کر رہے ہیں۔
اور اہم بات یہ ہے کہ انہیں
سامعین کی زبردست داد وتحسین ملی اور وہ مقابلے
کے فائنل میں جگہ بنا سکیں۔اس کے سبب انہیں موت کی دھمکی بھی ملی جو متعدد عسکریت
پسند ویب سائٹس پر پوسٹ کی گئی تھی۔ مذہبی معاملوں میں سلفی علماء کی ماننے والی سعودی
حکومت اسلامی روایت کے نام پر خواتین پرسخت
پابندیاں برقرار رکھنے پر بضد ہے۔عورتوں کو
ان کے حقوق اور ضمیر کی آواز کے مطابق آزادانہ انتخاب دینے سے منع کرتی ہے
۔
ایسے حالات تمام مسلم ملکوں
میں نہیں ہو سکتے ہیں لیکن روایتی مسلم معاشرہ
کئی پابندیاں عائد کرتا ہے اور اور اب بھی
ان میں کسی طرح کی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جس طرح کا حجاب کئی خواتین پہنتی
ہیں جس میں وہ اپنے چہرے کو ڈنکتی ہیں اورصرف
آنکھوں کے لئے بنے دوسراخوں سے ہی دنیا کو دیکھتی ہیں، یہ مسلم علماء، فقہہ اور جدید
دانشواران کے درمیان متنازعہ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ، کیا کیا جانا چاہیے؟
کوئی بھی گلوبلائزڈ دنیا میں تیز
رفتار تبدیلیوں سے انکار نہیں کر سکتا ہے اور یہ روایتی سماجوں میں موجودہ پابندیوں کو برقرار رکھنا دشوار گزار ہو
رہا ہے۔ یہ تنازعہ تبھی سے جاری ہے جب 19ویں
صدی میں جدیدیت کا دعوی کیا گیا۔ مسلم ملکوں میں کئی اصلاحات ہوئے اور خواتین کچھ حد تک آزادی حاصل کر سکیں ہیں۔
تاہم، 20 ویں صدی کے آخری
حصے اور 21ویں صدی کے ابتدائی دور میں روایتی اسلام ، خاص طور سے سلفی اسلام کو دوبارا ابھرتے ہوئے دیکھا گیا۔کوئی
بھی معاشرہ صرف ترقی ہی نہیں کرتا ہے بلکہ ترقی کے لئے کئے گئے اقدامات ن کےنتیجے میں
کئی دشواریوں کو بھی لاتا ہے۔ اس کی سماجی اور تہذیبی وجوہات کے علاوہ اقتصادی اور سیاسی دونوں وجوہات
ہیں جن پر یہاں ذکر نہیں کیا جا رہا ہے۔ روایتی اور جدیدیت کے درمیان یہ پیچیدہ نو عیت کی کشیدگی ایک چیلنج اور موقع دونوں
ہے۔
اس بحث میں جو سب سے اہم ہے
اور جسے اکثر نظر انداز بھی کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ ہم اسلام کے نام پر جس پر عمل کرتے ہیں وہ مذہب یا کتاب مقدس کے مطابق کم اور تہذیب کے
نام پر زیادہ کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ عورتوں
پر عائد پابندی کی مخالفت یا دفاع کرتے وقت بھی
بہت زیادہ روایتوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کا ایک بہترین نمونہ پاکستان سے حال ہی میں شائع ہوئی پروفیسر خورشید عالم کی کتاب ‘چہرے کا پردہ واجب ہے یا غیر واجب’ ہے۔یہ دو اہل
علموں کے درمیان عالمانہ بحث ہے جس میں ایک
عالم چہرے کے پردے کا دفاع کر رہے ہیں اور دوسرے عالم اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
تاہم کتاب پوری طرح قرون وسطیٰ
کے متعدد علماء کے ذریعہ پیغمبر محمد ﷺ اور ان کے صحابہ کی متضاد روایتوں کے حوالے
پر منحصر ہے۔آپ کو دونوں طرح کی کئی احادیث ملیں گی جو چہرے کے پردے پر زور دیتی یا اسے غیر
ضروری مانتی ہیں اور دونوں علماء اپنی بات کو
ثابت کرنے کے لئے ان احادیث کو پیش
کرتے ہیں۔یہ نقطہ نظرصرف روایتی تہذیب والے
اسلام کو تقویت پہنچاتا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز
نہیں کرنا چاہیے کہ زیادہ تر احادیث ( سوائے
کردا ،اخلاق اور عبادت سے متعلق) ایک طرف عرب تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں اور دوسری جانب
قرون وسطیٰ کے دور کے مغربی ایشیائی یا مرکزی ایشیائی تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں۔ ماہرین
قانون کا ماننا ہے کہ عرب کی عادات شرعی قانون کا حصہ بن سکتی ہیں اور کئی شرعی قانون
میں عرب کی عادات شامل ہیں۔
جس کتاب کا میں حوالہ دے رہا
ہوں اس میں قرآن کا بہت کم راست نقطہ نظر
ہے یا متعلقہ قرآنی آیات پر نئی تشریح نہیں ہے۔ مسلمان فقہہ اور علماء کو یہ سمجھنا
ہوگا کہ عرب عادات خداداد نہیں ہیں اور اس لئے شرعی قانون کے لئے ضروری طور پر بنیادی
ڈھانچہ نہیں بن سکتی ہیں۔عورتوں سے متعلق قرآن کی آیتوں پر راست طور پر غور کر اور نئی تفہیم کے ذریعہ اس
تہذیبی بنیاد کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ کوشش انفرادی وقار اور خواتین کے انتخاب کی آزادی کو قائم کرے گا۔ ضمیر کی آزادی
قرآن کا ایک اہم اصول ہے اور اسی طرح انفرادی آزادی بھی ہے۔قرون وسطیٰ کی روایتی
تہذیبی رسومات کے مقابلے قرآن انسانی وقار
اور آزادی سے کہیں زیادہ ہم آہنگی رکھتا
ہے۔
اس نقطہ نظر سے شرعی قانون
کی الٰہی فطرت کو کوئی ضرب نہیں پہنچے گا اور
یہ قرآن کی روح کے مقابلے عرب تہذیب کی پدرانہ
اقدار کو شامل کرنے والی روایتی تہذیب کی بنیاد سے آزاد بھی کرے گی۔یہ خواتین کو بھی
پابندیوں سے آزاد کرے گی اور انہیں وقار اور
آزادی کا احساس دے کر روایت اور جدیدیت کے
درمیان کشیدگی کو بھی کم کرے گا۔اس موقع کو نہیں کھونا چاہیے ورنہ یہ خواتین میں ذہنی کرب کا باعث بنے گا اور جو ان کے لئے انتخاب کی کشمکش
کو پیدا کرے گا۔زیادہ تر مسلم خواتین اپنے مذہب پر عمل کرنا چاہتی ہیں اور ساتھ ہی
جدیدیت کے کچھ فوائد سے لطف اندوز بھی ہونا
چاہتی ہیں۔ مسلمان فقہہ اور علماء کو اس کرب
کوختم کرنا چاہیے۔
سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی
اینڈ سیکو لرزم، ممبئی
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/muslim-women-between-tradition-and-modernity-/d/3213
URL: